ایک تلخ معاشرتی تصویر
سلیم طالب
تم اور میں کبھی بیوی اور شوہر تھے،
پھر
تم ماں بن گئیں اور میں باپ بن کے رہ گیا
تم نے گھر کا نظام سنبھالا اور میں نے زریعہ معاش کا اور پھر
تم “گھر سنبھالنے والی ماں” بن گئی اور میں کمانے والا باپ بن کر رہ گیا
بچوں کو چوٹ لگی تم نے گلے لگایا
اور میں نے سمجھایا لیکن
تم محبت کرنے والی ماں بن گئیں اور میں صرف باپ ہی رہ گیا۔۔
بچوں نے غلطیاں کیں تم ان کی حمایت کر کے “understanding mom” بن گئیں اور
میں “نہ سمجھنے والا” باپ بن کے رہ گیا
میں “نہ سمجھنے والا” باپ بن کے رہ گیا
“بابا ناراض ہوں گے” یہ کہہ کر تم اپنے بچوں کی”best friend” بن گئیں
اور میں غصہ کرنے والا باپ رہ گیا
تم روزانہ بچوں سے راز و نیاز کرتے ہوئے اپنا مستقبل محفوظ بناتے ہوئے اور میں
فقط گھر کا مستقبل بنانے کے لیے اپنا اج برباد کرتا گیا۔
فقط گھر کا مستقبل بنانے کے لیے اپنا اج برباد کرتا گیا۔
تمہارے آنسوؤں میں ماں کا پیار نظر آنے لگا اور میں بچوں کی آنکھوں میں فقط بے رحم باپ رہ گیا
تم چاند کی چاندنی بنتی چلی گئی اور پتہ نہیں کب میں سورج کی طرح آگ اگلتا باپ بن کر رہ گیا۔۔۔
تم ایک “رحم دل اور شفیق ماں” بنتی گئیں اور میں زندگی کا بوجھ اٹھانے والا صرف ایک باپ بن کر رہ گیا