33 C
Lahore
Wednesday, April 24, 2024

Book Store

Best Urdu Afsane|شہرِ حسرت

 

شہرِ حسرت

نیلم احمد بشیر

میرے لیے وہ بڑے مصروف دن تھے۔ شہر کی اہم سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے ادارے کے ہمراہ جشن آزادی کے حوالے سے منعقد کی جانے والی کئی تقریبات کے انعقاد کا انتظام کرنا تھا، شہر کی تزئین و آرائش کرنے والی کمیٹی کی میٹنگز میں شریک ہونا تھا۔ اہل وطن کو ٹاک شوز کے ذریعے اس خاص دن کی اہمیت کے حوالے سے احساس دلانا تھا کہ ہمارا اپنا وطن ہمارے لیے کتنی خوش نصیبی، راحت اور تسکین کا باعث ہے۔
میرا پیار شہر دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا۔ کہیں نہر میں خوبصورت تفریحی کشتیاں اور فلوٹ تیر رہے تھے تو کہیں سڑکوں پر سبز اور سفید جھنڈیاں اور بینر لہرا رہے تھے۔ خوشیوں کا گہوارہ میرا شہر، عظیم تھا، حسین تھا، میرا آنے والا کل میرا مستقبل تھا۔ یہ وہ شہر بے مثال تھا جہاں لوگوں کی امیدیں، آرزوئیں، کاوشیں اور خواہشیں جنم لے کر تکمیل کی منزلوں تک جاتی ہیں۔ میرا شہر خوابوں سے مہکتا اور زندگی سے دھڑکتا تھا۔ میں بڑی مصروف اور خوش تھی مگر ایسی مصروفیت میں میرا ایک ذاتی نوع کی پریشانی بھی گھلی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے دھیان بار بار اس طرف جا رہا تھا۔
دراصل میں اپنی گزر بسر کے لیے اپنا ایک چھوٹا گھر کرایہ پر دیا کرتی ہوں جس کی آمدن سے کچھ سہولت ہو جاتی ہے۔ اب کی بار تقریباً دو ماہ ہونے کو آئے تھے کہ کرایہ دار نہیں مل رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ کوئی کرایہ دار بھیج دے تاکہ کاروبار حیات چلتا رہے اور دقت نہ ہو مگر نہ جانے کیا بات تھی معاملہ کچھ تعطل کا شکار ہوتا چلا جا رہا تھا۔ روز اپنے پراپرٹی ڈیلر سے فون پر پوچھتی اور پھر امید افزا جواب نہ پا کر خاموش ہو جاتی تھی۔ دن پہ دن گزرتے چلے جا رہے تھے۔
خدا خدا کر کے اک روز پراپرٹی ڈیلر کا فون آ ہی گیا۔ اس نے بتایا کہ فیصل آباد کے کسی دیہات کے تین لڑکے گھر کرایہ پر لینا چاہتے ہیں۔ وہ لاہور کے کسی کالج میں طالب علم تھے اور کالج سے قریب یہی گھر انھیں مل رہا تھا اس لیے وہ مجھ سے مل کر بات کرنا چاہتے تھے۔
کرایہ دار لڑکوں نے مقررہ وقت پر آ کر کرایہ نامہ وغیرہ طے کیا۔ سکیورٹی ادا کی اور چند ہی دنوں میں سامان لانے کا کہہ کر رخصت ہو گئے۔ دیہاتی سے دکھنے والے لڑکوں نے فرمائش کی کہ ان کے آنے سے پہلے گھر کو اچھی طرح صاف کروا دیا جائے اور خاص طور پر کیڑے مار سپرے چھڑکا دیا جائے کیونکہ وہ کیڑے مکوڑے، کاکروچ اور چھپکلیوں وغیرہ کو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
میں نے فیومی گیشن کمپنی والوں کو فون کیا اور پندرہ سو روپے خرچ کر کے ان سے کیڑے مار سپرے کرنے کو کہہ دیا۔ سوچا چلو صفائی پسند ہیں تو اچھا ہی ہے کم از کم گھر کو تو صاف رکھیں گے۔
پورشن دو تین ماہ سے خالی پڑا تھا اور اس کو کبھی کبھار کھولنے اور چیک کرنے کے دوران میں نے بھی اکا دکا کاکروچ دیکھ کر ناگواری ضرور محسوس کی تھی۔ اب نئے کرایہ داروں کی وجہ سے اچھی طرح صاف ہونے جا رہا تھا، یہ سوچ کر مجھ بھی تسلی سی ہو گئی۔
کمپنی والوں نے گھر کے اندر باہر گلی کے آغاز سے اختتام تک جتنے بھی گٹ تھے ان میں کیڑے مار ادویات چھڑک دیں اور گھر کو چوبیس گھنٹے تک بند رکھنے کی ہدایت کر کے چلے گئے۔ سپرے ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں کاکروچ اور دیگر کیڑے گٹروں سے ابل ابل کر باہر آنے لگے اور سارا گھر اور گلی لال لال کیڑوں سے بھر گئی۔ کیڑے یوں سرپٹ بھاگ رہے تھے جیسے کسی میراتھن ریس میں شریک ہونے جا رہے ہوں۔ گلی کے بچوں کو دلچسپ شغل ہاتھ آ گیا اور وہ خود کیڑوں کے پیچھے دوڑ دوڑ کر انھیں مزید تیز بھگانے لگے۔
نئے کرایہ داروں میں سے ایک لڑکا افضل ہاتھ میں سامان بھرا ایک کارٹن اٹھائے چلا آ رہا تھا۔ اس نے جیسے ہی اتنے سارے کاکروچ گلی میں بھاگتے دیکھے بدحواس ہو گیا اور الٹے قدموں واپس بھاگنے لگا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر گلی کے بچے کھی کھی کر کے ہنسنے لگے اور جوتیاں لے کاکروچوں کو مزید پیٹنے میں مصروف ہو گئے۔ گلی کی عورتوں نے میری طرف شاکی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔ ’’سپرے کی بوناک میں گھس رہی ہے۔‘‘ دوپٹوں کے پلو چہرے پہ لپیٹ لیے۔
’’آپ کو سپرے نہیں کروانا چاہیے تھا۔ اس طرح تو کاکروچ ساری گلی میں پھیل گئے ہیں۔‘‘
’’اپنے گھر کے کیڑے اندر ہی رکھیں۔ یہ تو ہمارے ہی گھروں میں گھستے چلے آ رہے ہیں۔‘‘
عورتوں نے مجھ سے شکوہ کیا تو میں شرمندہ ہی ہو گئی۔ واقعی سپرے کروانے سے تو یہ کیڑے گڑوں کے تاریک محفوظ دنیا سے باہر کی روشن پر خطر دنیا کی طرف نکل آئے تھے۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔
’’سوری نئے کرایے داروں نے ہی مجھے کہا تھا، مجھے کیا پتا تھا یہ ہو گا۔‘‘
میں نے کمزور سی معذرت پیش کی اور دعا کرنے لگی۔
’’یا اللہ یہ سارے کاکروچ جلد سے جلد واپس ان گٹروں میں چلے جائیں تاکہ محلے والوں کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
چند دنوں میں نئے کرایہ دار شفٹ ہو گئےتو میں نے سکھ کا سانس لیا۔ اپنی طرف سے تو میں نے ان کے لیے جو وہ چاہتے تھے کر ہی دیا تھا۔ دس پندرہ دن گزرے ہوں گے کہ مجھے اس پراپرٹی ڈیلر کا فون آ گیا جس نے ان لڑکوں کو کرایہ دار رکھوایا تھا۔
’’ہاں جی بتائیں کیا بات ہے۔‘‘ میں نے سلام دعا کے بعد پوچھا۔
’’وہ جی لڑکے کافی پریشان ہیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’باجی وہ کہتے ہیں کاکروچ بہت ہیں اور گھر میں سے بو بھی آتی ہے۔‘‘
’’کاکروچ؟ کاکروچوں کے لیے تو میں نے خاص طور پر سپرے کروایا تھا۔ انھیں پورا گھر صاف کروا کے دیا تھا۔ اب بو کیسے آ سکتی ہے؟ آخر وہاں پہلے بھی کرایہ دار رہتے رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلے کرایے دار تو نہیں ہیں، میں نے خفگی سے کہا۔‘‘
’’بس باجی وہ گھر چھوڑنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’بھئی آخر معاہدہ ہوا ہے۔ کرایہ نامہ نوٹس، یہ سب ہوتا ہے ایسے کیسے چھور سکتے ہیں کمال ہے۔‘‘ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ یہ کس قسم کے کرایہ دار ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ محلے والوں نے بتایا کہ وہ کرایہ دار لڑکے کبھی گھر سے باہر نظر نہیں آتے تھے اور ہر وقت گھر میں ہی گھسے رہتے تھے۔
دو تین روز بعد میں نے اپنی بہن کو ساتھ لیا اور سوچا ذرا کرایہ داروں سے مل آؤں، پوچھوں تو سہی کہ کیا تکلیف ہو گئی ہے۔ انھیں! مجھے شہر سے باہر جانا تھا اور اب پھر سے کرایہ داروں کی الجھن پیدا ہونے والی تھی۔ بڑی مصیبت تھی، کئی بار سوچا اس نری چخ چخ سے تو بہتر ہے گھر کو بیچ ہی دوں مگر پھر بوجوہ اس ارادے کو ملتوی کر دیا۔
کرایہ دار لڑکوں نے متواتر کئی بار گھنٹی بجانے دروازہ کھٹکھٹانے، آوازیں دینے کے بعد کھڑکی پہ لگی بلائنڈ کو تھوڑا سا ہٹایا اور کچھ توقف کے بعد دروازہ کھول دیا۔ اندر گھستے ہی ہمیں بو کے بھبکے نے پریشان کر دیا اور ہم ناک سکوڑتی ادھر اُدھر دیکھنے لگیں۔
’’دیکھیں آنٹی کتنی بو ہے یہاں، ہم لوگ تو ایئرفریشنر سپرے کر کر کے تھک گئے ہیں اور کاکروچ بھی ختم نہیں ہوئے۔ رات کو زمین پہ سونا ہوتا ہے تو بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’تو بھئی مار دیا کرو، میری بہن نے ہنس کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ نہیں آنٹی وہ آسانی سے مرتے ہی کہاں ہیں؟ ہم لوگ ہر وقت ان پر کیڑے مار سپرے چھڑکتے رہتے ہیں۔ وہ الٹے ہو جاتے ہیں، اندھے پڑے رہتے ہیں مگر مرتے نہیں اگر ان کو ذرا اپلٹ دیں تو اٹھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘ ایک بولا۔
’’یا اللہ! اتنا تو میں نے کاکروچوں کی نقل و حرکت کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔‘‘
میں نے ہنس کر بات ٹالنا چاہی۔
’’آنٹی یہ بڑی مضبوط نسل ہے۔ کہتے ہیں ایٹم بم کو بھی سروائیو کر سکتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے میری معلومات میں مزید اضافہ کیا۔
’’آپ لوگ کوڑا کرکٹ باہر نہیں پھینکتے؟ تو بہ کس قدر گند ڈال رکھا ہے۔ کیڑے نہیں آئیں گے تو اور کیا ہو گا؟ میری بہن بولی۔
ہم نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اے سی اور ٹی وی غالباً چوبیس گھنٹے چلتے رہتے تھے۔ کھانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے، اخبار، لفافے، خالی بوتلیں، ڈبے الا بلا دیکھ کر حیرت ہونے لگی۔ معمہ سمجھ میں آنے لگا تھا۔ کئی قسم کے سپرے اور کھانوں سے مل کر ایک عجیب و غریب سی سرانڈ پیدا ہو چکی تھی۔ کچن گندے برتنوں سے اٹا پڑا تھا۔ گھر کی کھڑکی اور دروازہ بند تھا۔‘‘
’’یہ آپ نے گھر کی کیا حالت بنا رکھی ہے؟ سارے گھر میں ہوا کا کہیں سے بھی گزر ہیں۔ بوتو ہونا ہی ہے۔ ایسے حالات میں کیڑوں کی تو موج ہو گئی ہو گی۔ آپ نے گھر اتنا بند کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘
ہم نے انھیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بضد رہے کہ بو گھر میں ہے اور وہ اس کے ذمہ دار نہیں اور گھر کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔
’’ہم جی گاؤں کی کھلی فضا میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں بند کمروں میں گھٹن ہوتی ہے اور دل گھبراتا ہے۔‘‘ وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگے۔ عجیب مخمصے میں پھنس چکی تھی میں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کرایہ داروں کا کیا کروں۔ روانگی کے دن قریب آتے جا رہے تھے اور گھر شاید پھر خالی ہونے والا تھا۔ کرایہ دار اتنے نازک طبع تھے مگر اپنے گھر کی صفائی سے انھیں کوئی سر و کار نہ تھا۔ ان کی بُو کی شکایت اور کاکروچوں کا وہم ایک مسئلہ بنتا جا رہا تھا۔ آئے دن کبھی ان کا اور کبھی پراپرٹی ڈیلر کا فون آ جاتا کہ جی لڑکے بہت تنگ ہیں وہ آپ کا گھر چھوڑنا چاہتے ہیں میں حیران تھی کہ اچھے بھلے گھروں میں کیڑے ڈال رہے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی۔ اس سے پہلے وہاں اچھا خاصا ایک معقول ڈاکٹر چند ماہ گزار کر گیا تھا۔
ایک روز ہمسایوں کے ہاں سے ایک فون آیا اور مجھے گڑبڑا کر رکھ دیا۔ خاتون نے نروس آواز میں کہا۔ ’’جلدی آئیں، آپ کے کرایہ والے گھر میں پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔ پولیس آئی ہوئی ہے۔‘‘
میں الٹی سیدھی چپل پاؤں میں ڈال کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ یا اللہ خیر ہو۔ میں نے دل ہی دل میں دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ کرایے والا گھر گلی کے آخر میں تھا مگر وہاں تک پہنچنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ساری گلی میں پولیس تھی۔ ہر طرف سائرن والی گاڑیاں، اسلحہ بردار پولیس والے اور سفید کپڑوں میں ملبوس لمبے چوڑے آدمی گشت کرتے نظر آ رہے تھے۔ پولیس والوں نے سب ہمسایوں کو گھروں کے اندر گھس جانے کا اشارہ کر دیا اور خود بندوقیں لے کر گھر کے دروازے توڑنے شروع کر دیے۔ میں سکتے کے عالم میں ایک ہمسائے کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھنے لگی۔ چاہتی تھی کہ پولیس والوں سے کچھ کہوں گی مگر خاموش رہی۔
دہاتی لڑکوں نے شاید اندر سے بیڈ روم بھی بند کر لیا تھا کیونکہ بعد میں وہ ٹوٹا ہوا ملا تھا مگر پولیس نے اپنا کام کر لیا تھا۔ وہ لڑکوں تک پہنچ چکے تھے۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے کچھ سمجھ میں نہ آنے پر بندوق تانے ایک پولیس اہلکار سے سرگوشی میں پوچھا۔
’’بی بی۔ یہ پولیس ریڈ ہو رہی ہے۔ یہ بہت بڑے ڈاکو تھے اور ہمیں ان کی ایک عرصے سے تلاش تھی۔ کئی قتل اور اغوا کیے ہوئے تھے انھوں نے۔ شکر کریں آپ کا محلّہ بچ گیا۔‘‘
’’ہائیں؟ ہائے اللہ۔‘‘ میرا تو جیسے خون ہی خشک ہو گیا۔ کتنے سیدھے سادھے اور بھولے بھالے دکھتے تھے وہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان مجرموں نے میرے ہی گھر میں کرایہ دار بننا تھا۔ مجھے قدرت کی اس ستم ظریفی پر ہنسی آئی اور رونا بھی۔
پولیس والے چند ہی منٹوں میں ان کی مشکیں کس کے انھیں باہر لے آئے جہاں ساری گلی کے لوگ اپنی کھڑکیوں سے تماشا دیکھ رہے تھے۔ عجیب ہیبت سی چھا گئی تھی چاروں طرف۔ لڑکوں کے منہ پر ٹیپ لگا کر اور پھر گھسیٹ کر پولیس کی گاڑی میں پھینکا جا رہا تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس والوں نے گھر میں سے سامان اٹھا اٹھا کر باہر گلی میں کھڑی ایک دوسری گاڑی میں لادنا شروع کر دیا۔
میں نے اپنی کچھ چیزیں مثلاً چولہا، اے سی وغیرہ جاتے دیکھ کر احتجاج کرنا چاہا تو پولیس والے نے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ ’’بی بی یہ وصولی ہوتی ہے ہمیں ان کا سامان مال خانے میں جمع کروانا ہے۔‘‘ سامان میں بہت سے چھینے ہوئے موبائل فون، اسلحہ اور نہ جانے کیا کیا برآمد ہو رہا تھا۔ سارے محلے والے سکتے کے عالم میں خوفزدہ ہو کر اندر دبک گئے اور تھوڑی دیر میں پولیس کی گاڑیاں وہاں سے روانہ ہو گئیں۔
جب میں نے بعد میں چیک کیا تو گھر کی حالت دیکھ کر سر پیٹ لینے کا جی چاہا۔ پولیس نے ان لڑکوں کو گرفتار کرنے کے لیے سارا گھر ہی توڑ پھوڑ دیا تھا اور اب نقصان کا خرچ اور ذمہ داری ساری کی ساری مجھ پر آن پڑی تھی۔
اتنے سیدھے، پینڈو اور اپنے تئیں صفائی پسند لڑکے اتنی متعفن اور گھناؤنی زندگی گزار رہے تھے، مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
چند ہفتوں بعد پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ایک فون آیا کہ آپ آئیں اور بطور مالک مکان پیش ہو کر ان کے بارے میں رپورٹ دیں اور انھیں شناخت کریں۔ میں تو اب ان لڑکوں کے کسی معاملے میں آنا نہیں چاہتی تھی مگر مجھے یقین دلوایا گیا کہ میرا ان کا آمنا سامنا نہ ہو گا۔ میں پردے میں رہوں گی اور وہ مجھے دیکھ نہ پائیں گے۔ چند مرد رشتہ داروں کے ہمراہ میں صبح کے وقت کوٹ لکھپت جیل پہنچی۔ خوبصورت چمکتی دھوپ میں بیڑیاں پہنے قیدی باغبانی میں مصروف نظر آئے تو بہت عجیب لگا۔ ہری ہری گھاس اور خوبصورت پھولوں کی کیاریوں میں کام کرنے والے کتنی بدصورت، محبوس و مجبور زندگی گزار رہے تھے اگر انھوں نے غلط کام نہ کیے ہوتے وہ بھی نازمل لوگوں کی طرح کہیں تازہ خوشنما پھولوں سے گلدستے سونگھتے، کسی اڑتی فاختہ اور کوکتی کوئل سے آباد باغ میں اپنی کسی ہم نفس کے ساتھ خوشیوں بھرے لمحوں سے جھولیاں بھر رہے ہوتے۔ سب کچھ اچھا اور ٹھیک ہوتا۔
گارڈ نے مجھے ایک کمرے کے باہر پہنچ کر رکنے کا اشارہ کیا اور خود کونے میں لگی ایک جالی دار کھڑکی میں بنے ایک ننھے سے سوراخ پر سے آہنی پلیٹ کو ذرا سا ہٹا کر مجھے اندر جھانکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے نگاہ اندر دوڑائی تو میرے تن بدن میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی اور جسم کانپنے لگا۔ ننھے سے سوراخ میں سے پہلی چیز جو مجھے محسوس ہوئی ایک بدبو کا بھبکا تھا جو اس حبس اور گرمی کی ماری ہوئی کال کوٹھڑی میں سے باہر آ رہا تھا۔ گندے میلے ننگے فرش پر تینوں لڑکے رسیوں سے بندھے اوندھے پڑے تھے۔ الٹے، بے بس اور ادھ موئے۔
’’آپ انھیں سیدھا کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘ میرے دل میں ہلکا سا رحم کا جذبہ جاگا تو میں نے گارڈ سے سوال کیا۔
’’میڈم انھیں سیدھا کر دیا تو یہ اپنی ٹانگیں چلانے لگیں گے اور پھر سے بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ دو بار پہلے بھی بھاگنے کی کوشش کر چکے ہیں یہ جی… سالے کیڑے… بڑے خطرناک مجرم ہیں جی یہ… کئی وارداتوں میں مطلوب تھے۔‘‘
’’ایک بار پھر سے دیکھ کر کنفرم کر دیں جی… یہی تھے نا جنھوں نے آپ کا گھر کرایہ پر لیا تھا؟‘‘ دوسرے گارڈ نے پوچھا اور میں نے بادل نخواستہ ایک بار پھر اندر جھانکا، افضل کے بالکل قریب سے ایک چوہا گزرا اور اس نے روٹی کا ایک بچا ہو اٹکڑا اچک لیا۔ سرسراتے ہوئے رینگتے ہوئے کئی لال بیگ چھوٹے چھوٹے تاریک سوراخوں میں سے آنے جانے میں مصروف نظر آ رہے تھے۔ تینوں مجرم آنکھیں بند کیے ہولے ہولے سسک رہے تھے۔ دکھ کی ایک ٹیس مجھے اپنے کلیجے میں اٹھتی محسوس ہوئی اور میں نے وہاں سے نظریں ہٹا لیں۔ شناخت کی کارروائی پوری ہو چکی تھی اور مجھ میں اب اور کچھ دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ یوم آزادی کو گزرے کئی ہفتے گزر چکے تھے۔ شہر اپنے معمول پر آ چکا تھا۔
میں ایک اونچے، ٹیلے پہ کھڑی شہر کو دیکھتی تھی۔ ہوا میں نہ تازگی تھی نہ پاکیزگی اور نہ خوشبو۔ ایک اداس سے تعفن نے ماحول پہ اپنی کالی چھایا ڈال رکھی تھی۔ سڑکوں پہ، گھروں میں، دفتروں، کھیت کھلیانوں میں استحصال، جرم، جہالت، غربت، کثرت آبادی کے لاتعداد کاکروچ مصروف عمل تھے۔ وہ شہر کو کھا رہے تھے، نوچ رہے تھے، کرید رہے تھے، کھنگال رہے تھے۔ اندر ہی اندر کھوکھلا اور کمزور بنا رہے تھے۔ میرے سیلن زدہ شہر میں خوف اور بے یقینی کی گھٹن اتنی تھی کہ سانس رکتا تھا۔ قدم قدم پر دھماکوں کے نغمے گونجتے اور خودکشیوں کے کانٹے دار پھول کھلتے تھے۔ سرخ ہجوم آگے ہی آگے کو رینگ رہا تھا اور منزل کا کوئی پتا نہ تھا۔ جشن آزادی کا ایک بچا کچا سفید اور سبز پھریرا ابھی بھی کسی کھمبے سے چپکا ہوا لہرا رہا تھا حالانکہ یوم آزادی کو گزرے ہوئے بہت دن بیت چکے تھے۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles