احساس کے انداز
بےبس، لاچار فاتح
تحریر:۔ جاوید ایاز خان
تاریخ کی اصل خوبی یہ ہے کہ وہ واقعات و حادثات کو محفوظ کر لیتی ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لےکر آج تک تمام واقعات محفوظ رکھنے کی کوشش تاریخ کا حصہ ہے۔
ہمارے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بےشمار تاریخی واقعات بیان فرمائے تاکہ لوگوں کے لیے سامان عبرت و اصلاح ہو سکے۔
تاریخ کے معنی وقت کا تعین ہے۔ اس کے واقعات کا تعلق ماضی سے لیکن مستقبل کے لیے اچھائی اور برائی کا ایک موازنہ اور سبق ہوتا ہے۔
تاریخ ہی مستقبل کے راستے کا تعین کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں اور انبیاء کے ساتھ ساتھ فرعون اور نمرود کے تکبر کو اور ان کا عبرت ناک انجام کو بھی بیان کیا ہے۔
یہ اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں کچھ بھی رب کی مرضی اور منشاء کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
وہ مالک کائنات عروج و زوال کا مالک ہے، جس کو چاہے رہتی دنیا تک عزت سے نوازے یا پھر تاقیامت ذلت و رسوائی کو مقدر بنا دے ۔تاریخ میں تموچین یا چنگیز خان ( ۱۱۵۸ء سے ۱۲۲۷ء ) نے اپنی زندگی کا آغاز منگولیا کے ایک قبائلی سردار کے طور پر کیا۔
پھر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت بنی۔ دشمنوں کے ہاتھوں اپنے باپ کے قتل ہونے کے بعد یہ یتیم(تموچین) اپنی بےپناہ جدوجہد اور صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ایک نہایت کامیاب جنگجو اور جرنیل بن کر اُبھرا۔
اس کی غیر مہذب، انسانیت سے عاری اور ظالم فوج جو گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتی اور گھوڑیوں کا دودھ پیتی تھی، نے ایشیا اور یورپ میں اپنے پنجے گاڑھ دئیے۔
اپنی سفاکیت کی وجہ سے فتوحات کا ایک لامحدود سلسلہ شروع ہوا۔ اس نے مفتوحہ علاقوں قتل و غارت گری، عصمت دری اور تباہی کی وہ داستان رقم کی، جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی۔
کہتے ہیں ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے۔
قدرت کی بے آواز لاٹھی نے اسے نشان عبرت بنا کر اپنی حاکمیت کا یوں اظہار کیا کہ اپنے دور حکومت میں دنیا پر بربادی و جنگ مسلط کرنے والا یہ ظالم اور سفاک بھیڑیا صرف سڑسٹھ سال ہی زندہ رہ سکا۔
دوران شکار گھوڑے سے گر کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا۔
معذور چنگیز خان اپنی تمام تر مال و دولت کے باوجود ٹانگ سے محروم ہو گیا۔
اسی تکلیف کے باعث لقمہ اجل بن گیا۔
وہ ٹانگ کے زخم سے تڑپتا رہا مگر کوئی تریاق نہ مل سکا۔
دراصل قدرت نے اسے اس کی بےبسی اور لاچاری کا احساس دلانااور اس کے تکبر کو چکنا چور کرنا تھا، ورنہ اس وقت بھی بڑے بڑے حکیم اور جراح موجود تھے۔
یوں اس کا سنگلاخ برفانی چٹانوں سے سرسبز چراہگاہوں کا یہ سفر تمام ہوا۔
اس کے تکبر کا بت ٹوٹ چکا تھا جب ہوس اقتدار کی خواہشمند اولاد گدھوں کی طرح اس کی موت کی منتظر تھی۔
اس نے ایک عجیب سی وصیت کی تھی کیونکہ وہ اپنی بے بسی، لاچاری اور شکست تسلیم کر چکا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مرنے کے بعد دنیا میں اس کا کوئی نام ونشان باقی رہے، لہذا اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ مرنے کے بعد اسے کسی گمنام جگہ پر دفنایا جائے۔
وصیت کے مطابق اس کی قوم نے ایسا ہی کیا۔
اس کی لاش کو دفنا کر قبر پر تقریباً ایک ہزار گھوڑوں کو دوڑایا۔ زمین کو اس طرح برابر کر دیا کہ قبر کا کوئی نشان باقی نہ رہا۔
آج اس کی موت کو آٹھ سے زیادہ صدیاں بیت چکیں لیکن اس کی قبر کا سراغ نہ مل سکا۔
منگولیا کے لوگ اس کی قبر کا پتا لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ خوف ہے۔
کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی قبر کو کو کھودا گیا تو دنیا تباہ ہو جائے گی۔ اسی کی بڑی وجہ ان کا وہ پختہ وہم ہے کہ تموچین کی قبر میں تباہی ،ظلم ، بربریت اور قہر کی قوتیں بھی دفن ہیں۔
دراصل یہ انسانی تکبر، بےبسی اور لاچاری کی وہ قبر ہے جو قدرت کی بڑائی اور عظمت بیان کرتی ہے کہ کوئی کتنا بھی طاقتور اور ظالم کیوں نہ ہو، وہ قانوں قدرت کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔
دنیا پر تسلط اور قبضے کی جنگ آج بھی جاری ہے۔ اب تو چاند، مریخ اور خلائی قبضے اور برتری کی بات ہو رہی ہے۔
دنیا کی بڑی طاقتیں اب معاشی ہتھیاروں سے دنیا کے لوگوں کا استحصال کر رہی ہیں۔ آج بھی ظلم ،تکبر،اور بربریت کے سلسلے رُکے نہیں البتہ شکل بدل گئی ہے۔
اقتدار، طاقت، دنیا اور دولت کی ہوس کے لیے ہر دور میں فرعون، نمرود اور چنگیز خان جیسے لوگ اور ملک اپنی حیثیت کے مطابق خدائی کے دعوےدار بنتے چلے آئے ہیں۔
اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ جس کو جہاں جیسا اور جتنا موقع ملا،
اس نے انسانی تکبر کو فروغ دیا۔
یاد رکھیں انسانی تکبر ظلم اور بربریت کی ابتدا مگر دنیا میں ہی اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
اگر چنگیز خان جیسا دنیا کا فاتح اپنے ساتھ کچھ نہ لے جا سکا۔
ساری دولت اور طاقت اس کی ٹانگ کی ایک ہڈی نہ جوڑ سکی۔
صفحہ ہستی سے اس کا نشان تک مٹ گیا۔
آج کے یہ مال و اقتدار کی ہوس کے پجاری کیا کر سکتے ہیں؟ کیا ساتھ لے جا سکتے ہیں؟ ؔ
دنیا میں ان عالمی طاقتوں اور اشرافیہ کے معاشی ظلم و جبر اور طاقت کے ضابطے پہلے چلے،
نہ آئندہ چل پائیں گے، کیونکہ یہ نظام کائنات اللہ کے حکم سے چلتا ہے۔
جس کے نزدیک دنیا اور آخرت کی دائمی بقا صرف عاجزی و انکساری اور بھلائی سے ہی ممکن ہے۔
قوموں اور انسانوں کو اپنے منصب، اثر رسوخ، سرمائے اور قابلیت کو اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھنا چاہیے۔
ان صلاحیتوں کو تباہی کے بجائے فلاح انسانیت کے لیے وقف کرنا چاہیے۔