بابا سماج
ابا جی ۔۔۔۔
یہ زندگی باپ ہی کی وجہ سے تو زندگی ہے !!!
17مارچ
یوم وصال (مجاہد کشمیر لفٹیننٹ (رئیٹائرڈ ) محمد ایاز خان ایم ڈی ۔ٹی کے
انسانیت کی خدمت کرنے والے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتےہیں
تحریر :۔ جاوید ایاز خان بہاولپور
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کے مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
(ایک عاشق رسولﷺ ۔ مجاہد۔ غازی ۔مصنف۔صحافی۔دانشور ۔مقرر۔سماجی قائد۔درویش ۔روحانی پیشوا۔اور ایک شفیق باپ )
زندگی میں کچھ واقعات اور لمحات ایسے ہوتے ہیں جو ہماری زندگی میں ہونا اور آنا لازم ہوتے ہیں اور ہمارے ذہن پر دکھ اور درد کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو تمام زندگی ہماری بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔
دنیا کی گردش دوراں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہے۔
انسان کے خون کا آخری قطرہ، اس کی امیدوں کا واحد محور اور آخری سہارا تک اس کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
جب یہ چوٹ لگتی ہے تو انسان درد سے بلک اٹھتا ہے۔
پھر یہ درد اس وقت تک موجود رہتا ہے، جب تک انسان زندہ رہتا ہے۔
سال میں ایک ایسا لمحہ اور مخصوص موقع ایسا ضرور آتا ہے، جب ہماری زندگی کے زخموں پر پڑی گرد جھڑ جاتی ہے۔
ہمارے ان زخموں کا درد پھر سے تازہ ہو جاتا ہے۔
ذرا سوچیں اگر قدرت نے اس جہان میں صبر اور امید کی نعمت نہ رکھی ہوتی تو دنیا میں جینا کس قدر مشکل اور محال ہو جاتا۔
مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے۔
وہ کہنے لگے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ باپ کے قدموں میں کیا ہوتا ہے؟
تو میں نے کہا تھا کہ باپ کے قدموں میں ایک پھٹا ہوا جوتا ہوتا ہے، جو اپنی اولاد کی خاطر رزق حلال کمانے کے دوران در بدر ہوتے گھس جاتا ہے
اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ چاہے جتنا بھی بوڑھا ہو، گھر کا سب سے مضبوط ستون باپ ہی ہوتا ہے۔ کسی بزرگ نے کہا تھا کہ باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔
بے خبر تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا
دنیا میں چند انسانی رشتے آپ کی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں. ان میں سے سب سے بڑا رشتہ ماں اور باپ کا ہوتا ہے ہمارے یہاں والدہ کا رشتہ عمومی طور پر زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جس کا اظہار بھی دیکھنے کو ملتا ہے
اس کے برعکس ہم والد سے محبت اور اس کی عزت تو بہت کرتے ہیں مگر اس کے اظہار میں کچھ کمی نظر آتی ہے حالانکہ والدین کا سایہ ایک نعمت ہے اور دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے.
جسے کسی صورت ایک دوسرے سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ ماں کے قدموں میں اگر جنت ہے تو باپ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے اور باپ کے سلامت ہونے کا احساس پورے خاندان اور بچوں کے لیے ایک سایہ دار درخت کی مانند ہے ۔
کہتے ہیں جب باپ کا سایہ نہ رہے تو اولاد کا بہترین دوست بھی نہیں رہتا۔ اس ہستی کو کیا نام دیا جا سکتا ہے جو سراپا رحمت و محبت بھی ہے اور ہماری زندگی کی موجودگی کی وجہ بھی۔
باپ بننے سے پہلے صرف اپنے لیے سوچنے والا مرد باپ بنتے ہی اپنی فکر، اپنی چاہت، اپنی خواہش اور اپنی فکر سب بھول کر اولاد کی خوشیوں ان کے سکون اور ان کی زندگی سنوارنے کے لیے اپنی جان لڑا دیتا ہے تاکہ اولاد کو معاشی، اخلاقی اور سماجی طور پر معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنا سکے وہ اپنی اولاد کو اپنے سے بھی بہتر دیکھنا چاہتا ہے، وہ اولاد کی خوشی میں ہنستا اور دکھ میں روتا ہے۔
اسے ایک باپ اور رب کا روپ ہی کہا جا سکتا ہے! باپ کی حیثیت اور موجودگی اولاد کی زندگی میں اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنی جسم میں روح اور سانسوں کی ۔
17 مارچ کا دن میرے لیے اسی طرح کا ایک سیاہ دن تھا، جب مجھ سے اور میرے بہن بھائیوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ متاع گراں واپس لے لی اور والد گرامی کا گھنا سایہ میرے سر سے اُٹھ گیا ۔
17 مارچ 2006 سے 2022/ 01 کو میرے والد گرامی کو ہم سے بچھڑے ہوئے پورے سولہ سال مکمل ہو چکے مگر ان کی جدائی کا درد آج بھی تازہ محسوس ہوتا ہے۔
ان کی زندگی ایک عملی جدوجہد کا نام تھی، جو ان کے آخری سانس تک جاری رہی۔ عبادت الہی بذریعہ خدمت انسانیت پوری زندگی ان کا مشن رہا۔
میرا دل آج بھی ان کی شفقت اور محبت کی کمی پر دل نوحہ کناں رہتا ہے۔ بسا اوقات تو اشک اور آہیں میری تنہائی کے لمحوں میں صبر اور استقامت کا دامن چھوڑ کر بہ نکلتے ہیں۔
ان کے چہرے کا عکس میری نم آنکھوں میں تیرنے لگتا ہے اور ان کی یاد میں آنسو بہ نکلتے ہیں۔
میرے والد صاحب نے ایک نہایت غریب گھرانے میں آنکھ کھولی مگر اپنی طویل جدوجہد کی بدولت زندگی میں وہ مقام حاصل کیا جس کی لوگ تمنا اور خواہش کرتے ہیں .
ان کی شخصیت اور کردار کے احاطے کو ایک مکمل کتاب درکار ہے۔
زندگی کا آغاز مزدوری سے شروع کیا اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور بہادری کی وجہ سے فوج میں کمیشن حاصل کیا وہ ایک بااصول سخت گیر فوجی آفیسر اور نرم دل حساس اور انسانیت کا درد رکھنے والے مسلمان تھے۔
فن تحریر وتقریر کے بے تاج بادشاہ تھے۔
صحافت اور سیاست کی تو نڈر اور بے باک نظر آئے پہلا سرائیکی اخبار نور محمد کھوکھر مرحوم اور رحیم طلب ( موجودہ ڈائریکڑ اطلاعات ڈیرہ غازی خان ) کے ساتھ مل کر شائع کیا ۔
اس سے قبل روزنامہ زمیندار لاہور اور نیر اسلام لاہور سے وابستہ رہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ جن میں سے آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
جب فوج میں کمانڈ کی تو بہترین اور بہادر کمانڈر ثابت ہوئے۔ پاکستان کے خلاف ہر جنگ میں شامل رہے۔ اپنے سینے پر بے تحاشا تمغے سجائے۔
(1968ء میں آزادی کشمیر کے لیے ان کی کمانڈ میں لڑنے والے ساتھی #نائیک سیف علی جنجوعہ کو نشان حیدر ملا اور ان کو تمغہ خدمت اور امتیازی سند عطا ہوئی )
1965ء کی جنگ میں ایک بار پھر بہادری کے اعزازت سے نوازا گیا
۔1981ء میں جیسور مشرقی پاکستان کی جنگ میں بے پناہ داد شجاعت دیتے ہوے شدید زخمی حالت میں دو سال تک بھارت کی جنگی قید میں صبر و استقامت کا پیکر بنے رہے اور تمغہ جنگ سے نوازے گئے۔
پھر بھی انہوں نے اپنی پوری زندگی ایک عام آدمی کی طرح گزاری۔
بظاہر وہ جتنے سادہ اور عام تھے درحقیقت وہ اس سے کہیں زیادہ خاص تھے۔
والد صاحب ریڈیو پاکستان اور بی بی سی کی اردو وانگریزی نشریات بڑے اہتمام سے سنتے تھے۔
مطالعہ کا شوق جنون کی حد تک تھا۔
وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے۔ اپنے نظریات، سوچ اور فکر سے ہٹ کر دوسروں کے نظریات اور فکر کا مطالعہ بھی کرتے اور دوسروں کے فکر اور خیالات کو عزت دیتے۔
اس لیے ان کے حلقہ احباب اور دوستوں میں ہر طرح کے نظریات، سوچ اور فکر کے لوگ تھے۔
ان کے قریبی دوستوں میں حکیم سعید دہلوی، مرحوم سردار عبدالقیوم خان مرحوم،
سردار ابراہیم خان، بریگیڈیر نذیر علی شاہ مرحوم اشفاق احمد خان مرحوم،
سید یاسر حسین جعفری مرحوم،
سردار مہندر سنگھ بیدی، سلیم چشتی مرحوم، جنرل سوار خان مرحوم ،
جنرل اعظم خان مرحوم ، جنرل جے ایچ مارڈن مرحوم اور بےتحاشا دانشور،
صحافی، شاعر، سیاست دان، سماجی لیڈر اور مذہبی علماء شامل تھے۔
جن سے ان کے دیرینہ تعلقات بھی بہت مثالی تھے۔
نواب امیر آف بہاولپور سے دلی عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ اسی لیے بڑے عرصہ تک ان کے سوشل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔
آپ کی بے پناہ کوشش سے یوم صادق 29 مئی کو بہاولپور میں لوکل چھٹی منظور ہوئی اور آپ کی درخواست پر جنرل ضیاالحق نے پاکستان کا پہلا بیت المال بہاولپور میں قائم کیا ۔
وہ مذہبی انتہا، پسندی، عدم رواداری، عدم برداشت اور لعن طعن کے کلچر کے سخت مخالف تھے۔
معاشرے کی تبدیلی اور تشکیل نو، سماجی خدمت، اخلاقی معاملات، فوجی اور عسکری علم، اسلامی فکری تحریکوں، روحانیت، ادب اور صحافت پر ان کی گرفت اور مطالعہ کمال کا تھا ۔دنیا کے کسی بھی موضوع پر بھی اپنی ماہرانہ رائے رکھتے۔
اخبارات و رسائل کے شوقین اور دوستوں، رشتہ داروں اور گھر والوں سے سیاسی، سماجی، مذہبی موضوعات پر گفتگو ان کا خاصا تھی اور کاغذ، قلم، ٹائپ رائٹر ان کا سرمایا تھے۔
گو ان کی وجہ شہرت ان کی فوجی اور دینی خدمات بنی مگر مذہبی سوچ اور فکر رکھتے تھے۔
وہ کہتے تھے، اسلام اور قرآن کو سمجھنے کے لیے تمام مذاہب اور مکتبہ فکر کو پڑھنا ضروری ہے۔
اس لیے انہوں نے تمام مذاہب اور فرقوں کا مطالعہ کیا۔ روحانیت کے بھی ایک عظیم رتبہ پر فائز تھے۔ علم الاعداد اور علم الجعفر کے ماہر تھے۔
اپنے مرشد حضرت خواجہ حسن نظامی سے دلی وابستگی اور محبت رکھتے تھے۔ ان کی زیرنگرانی درگاہ نظام الدین اولیا میں #انٹرنیشنل لائبریری ترتیب دی، جو آج بھی وہاں موجود ہے۔
آپ ایک، سچے عاشق رسول تھے۔ اہل بیت اطہار سے بے پناہ عقیدت اور لگاؤ تھا۔ ان کے اذکار میں درود شریف کو خصوصی اہمیت حاصل تھی.
پاکستان میں محکمہ سوشل ویلفیر کا قیام اور پہلی کل پاکستان سیرت کانفرنس کا انعقاد ان کا بڑا کارنامہ تھا۔ وہ رات کے آخری حصہ میں رو رو کر دعائیں فرماتے تھے۔
جب میں نے ہوش سنبھالا تو ان کو کئی بار راتوں کو اُٹھ کر ذکر و فکر کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں جھکے پایا۔بلامبالغہ وہ کئی کئی رات جاگ کر گزارتے اور ذکر بالجہر کرتے گزارتے تھے۔
میں نے اس وقت کے علاوہ انہیں کھبی بھی روتے نہیں دیکھا۔
اسی لیے شاید حضور ؐ کی خصوصی نگاہ شفقت میں رہے اور اپنی زندگی میں دو مرتبہ خواب میں #زیارت رسولﷺ کی سعادت حاصل کی۔
آج ان کی برسی کے موقع پر میں اپنا درد اور دکھ بانٹنے کے لیے ان کی زندگی کے چیدہ چیدی پہلو وں کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں۔
ان کی ملک قوم اور وطن کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔
وہ فطری طور پر جذبہ جہاد سے سرشار، پا کستان اور اسلام سے بے پناہ محبت کرنے والے تھے۔ عام زندگی میں ملنسار، محبت کرنے والے شفیق باپ اور بہترین دوست تھے۔
تحریک قیام پاکستان کے دوران اپنے پہلے بیوی اور بچوں کی شہادت کا دکھ زندگی بھر ان کے ساتھ رہا۔
وہ ان کی کمی ہر وقت محسوس کرتے تھے۔
اپنی اولاد سے محبت کا ظاہری اظہار شاید اتنا نہ کرتے مگر مجھے آج بھی ان کا وہ کرب یاد ہے جو ہم بہن بھائیوں کی تکلیف دیکھ کر ان کے چہرے پر نمایاں ہو جاتا تھا۔
خاص طور پر جب کوئی بیٹی دکھی ہوتی تو تڑپ اُٹھتے تھے۔ ان کا بیٹا ہونے پر مجھے ہمیشہ فخر رہا ہے کہ وہ اپنے بہت سے دکھوں میں مجھے شریک کر لیتے تھے۔
انہوں نے بڑی محنت، لگن اور مشکل حالات میں ہماری تربیت کی اور کبھی احساس نہ ہونے دیا کہ وہ مشکل میں ہیں۔
کہتے ہیں کہ باپ وہ واحد انسانی رشتہ ہے جو اپنی اولاد کو اپنے سے بڑا دیکھنا چاہتا ہے یہی شاید ان کی بھی ہمارے بارے میں شدید خواہش تھی۔
وہ بطور سماجی کارکن اور خدائی خدمتگار اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور نوجوان طبقے کو اس نیک کام کی طرف راغب کیا.
ان کی رہنمائی و قیادت فرمائی اور ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کے لیے ایوارڈ اور گولڈ میڈل دیے۔
آج بھی ان کے تیارکردہ سوشل ورکر مختلف سماجی تنظیموں میں پاکستان بھر میں ان کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان سوشل ایسوسی ایشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے۔ یہ تنظیم آج بھی فعال ہے۔
زمانہ جوانی میں قیام پاکستان کے لیے طویل جدوجہد محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ اور نوابزادہ لیاقت علی خان شہید سے خصوصی عقیدت اور تعلق تھا۔
آپ بنیادی طور پر فوجی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے زیادہ تر فوج سے منسلک رہے اور مختلف فوجی ادارں میں خدمات انجام دیں مگر میں آج ان فوجی و سماجی و دینی ومذہبی خدمات کا تذکرہ نہیں کروں گا۔
میں ان کے فوجی،۔ روحانی، سماجی، دینی خدمات میں ملنے والے تمغہء جات و ایوارڈوں کی تفصیل بیان کروں گا اور نہ میں ان کی جنگوں میں بہادری کے جوہر اور جنگی قید میں استقامت اور سماجی خدمت میں بے مثال قربانیوں کو دہراوں گا۔
یہ سب بڑے اخبارات، رسائل اور کتب میں بہت چھپ چکا۔
آج ان کے یوم وصال پر میں صرف اپنے والد کے ایک عظیم باپ کے روپ اور کردار کے بارے میں ان کی یادیں دہراوں گا اور اپنے دل کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کروں گا۔
ہم بچوں کےلیے ان کی قربانیوں اور ہمیں رزق حلال کھلانے کے لیے جو پاپڑ انہوں نے زندگی بھر بیلے اس کو خراج تحسین پیش کروں گا ۔
یوں تو ہر باپ اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے اور والدین سے بچوں کی محبت اور الفت بھی کوئی نئی بات نہ ہے ، مگر میں نے اپنے والد صاحب میں جو خصوصیات دیکھیں وہ شاید کم لوگوں کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتاہے۔
وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کے بزرگوں، جوانوں، بچوں سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔
علاقے میں کوئی سماجی، مذہبی تقریب ان کے بغیر ممکن نہ تھی۔ جہاں آپ نے فوجی محاذ پر جہاد کیا اور بہادری کے جوہر دکھائے وہاں دنیاوی معاشرے اور اس کی برائیوں کے خلاف بھی پوری لڑائی لڑی۔
ایک اچھے انسان اور باپ میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟
یہ بڑا طویل موضوع ہے۔ ہاں یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان میں کیا کیا اچھائی ہم نے پائی۔
محاذ جنگ اور جنگی قید کے دوران اذیت اور مشکلات
ان کی جہاد محاذ جنگ اور جنگی قید کے دوران اذیت اور مشکلات تو میں نہ دیکھ سکا مگر میں نے انہیں اس زمانے میں بھی چوبیس چوبیس گھنٹے کا م کرتے دیکھا۔
ہمارے گھر میں بجلی کا پنکھا نہ تھا۔
شدید گرمی میں صرف ایک بنیان اور پاجاما پہن کر پسینے میں نہائے رہتے۔ ان کا ٹائپ رائٹر بند نہ ہوتا تھا۔
وہ روزانہ صبح تہجد سے پہلے اُٹھ جاتے اور ہمیں بھی اُٹھا دیتے۔
نماز کے بعد اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرتے۔ بچوں کو اپنے ساتھ بستر میں بٹھا لیتے اور ورد میں شامل کرتے۔
اپنی سایکل پر باڈی گارڈ کے لنگر سے پکی ہوئیں روٹیاں اُٹھاتے اور شہر بھر کے معذوروں، محتاجوں اور مسکینوں میں ان کے گھر جا جا کر تقسیم کرتے۔
یہ سب کام وہ اپنی ڈیوٹی پر جانے سے پہلے سرانجام دے دیتے۔
ٹی بی کے مریضوں کا علاج اور ان کی بحالی ان کا مشن تھا۔
بیواؤں اور مسکین میں امداد تقسیم کرنا ان کی ڈیوٹی تھی، جو وہ روز انجام دیتے تھے اور ساتھ ساتھ انسداد بےرحمی حیوانات قائم کیا اور اس کی نگرانی خود کرتے تھے۔
ان کی کتاب “نشیب وفراز ” پڑھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ایک مزدور سے چل کر اس بلند مقام تک کا سفر کتنا دشوار اور دلخراش تھا اور رزق حلال کا حصول دنیا میں کتنا مشکل کام ہے۔
بچوں کے لیے حلال رزق کمانا وہ سنت رسولﷺ اور احکام الہی سمجھتے تھے۔ بغیر محنت کمائی کو ناجائز کہتے تھے۔ صحابی رسولﷺ حضرت ابوذر غفاری ؒکی زندگی سے بےحد متاثر تھے۔
زمین، جائیداد، روپیہ پیسہ، سونا اور ہر طرح کی ذخیرہ اندازی حرام
اس لیے دنیا میں زمین، جائیداد، روپیہ پیسہ، سونا اور ہر طرح کی ذخیرہ اندازی حرام سمجھتے تھے۔
روئے زمین پر ان کا کوئی مکان، زمین اور جائیداد نہ تھی۔ کبھی بھی کسی کام کرنے کو اپنے لیے عار نہ جانتے تھے ۔گھر کا گزارہ مشکل سے کر پاتے مگر بچوں کو ذرا محسوس نہ ہونے دیتے۔
انہوں نے جہاں بھی ملازمت یا کام کیا بڑی جرات، عزت اور وقار کے ساتھ کیا۔
جہاں ان کو محسوس ہوا کہ ان کا دل بوجھل ہے یا کوئی سماجی، سیاسی گھٹن یا ان کے اصولوں کے خلاف ہے یا ان کو بوجھ سمجھا جا رہا ہے تو وہ خود ہی کسی چیز کے پروا کئے بغیر اس ملازمت سے علحیدہ ہو جاتے۔
انہیں اپنے خدا پر اس قدر یقین تھا کہ فوراً دوسری جگہ ملازمت مل جاتی ۔
وہ کہا کرتے تھے کہ جو لوگ حالات و واقعات کو بنیاد بنا کر ہمت ہار جاتے ہیں یا اللہ پر ان کا بھروسا کم ہوتا ہے وہ کوئی بڑی جنگ نہیں جیت سکتے۔
انہوں نے بارہا نصحیت کی اور اپنی زندگی کا حوالہ دے کر احساس دلایا کہ
ہمیں ہمت کسی طور نہیں ہارنی چاہیے
بلکہ اپنی زندگی کی جنگ اللہ کے بھروسا پر پوری دیانتداری، دلیری، محنت اور اپنے اصولوں کو بنیاد بنا کر ہی لڑنی چاہیے۔
فتح یا شکست کا انحصار آپ کی جدوجہد نیت اور اللہ کی رضا پر منحصر ہو گا۔
ہم سب بچوں کے لیے وہ ایک جان نثار باپ اور محبت اور شفقت سے بھر پور انسان تھے۔
ہمیشہ غلط کام اور قانون شکنی سے سختی سے منع فرمایا۔
وہ کہتے تھے قانون ہمارے ملک میں صرف غریب کے لیے ہے اور ہم غریب ہیں !
ہماری بقا صرف قانون پر عملداری میں ہے۔ عاجزی، درویشی اور سادگی ان کے مزاج کا اہم حصہ تھی۔
تعصب، نفرت، بغض اور لالچ دور دور تک نہ تھا
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ عادات انسانی زندگی کو مشکل بناتیں اور انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔
بچوں سے بے پناہ پیار کرتے مگر اظہار کا طریقہ بھی پر وقار رکھتے۔
کبھی بچوں پر سختی اور زبردستی نہ کرتے البتہ گفتگو بے تکلفانہ کرتے۔
اپنے بچپن کے قصے سنا تے خاندانی کہانیاں بیان کرتے۔اپنے اور اپنے بزرگوں کے کارنامے اور واقعات سبق آموز طریقہ سے سناتے۔
مجھے یہ دکھ ہمیشہ رہے گا کہ میں
زندگی اور خصوصی ان کے آخری ایام میں ان کی وہ خدمت نہ کر سکا، جس کے وہ حقدار تھے اور ان کے آخری لمحات میں ان کے پاس موجود نہ تھا.
بہر حال ان کی یادیں ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔
ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آج بھی ہم میں موجود ہیں اور ہماری انگلی تھامے کھڑے ہیں۔ اس کے باوجود بسا اوقات ان کی یاد اور بچھڑنے کا احساس ہمیشہ میری آنکھیں نم کر دیتا ہے۔ اس وقت تو ان کی جدائی کا درد اور بڑھ جاتا ہے، جب وہ کبھی خواب میں میری راہنمائی فرماتے ہیں۔
میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کی وجہ سے ہی ہوں ۔میں اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں ان کو یاد کرتا ہوں اور اپنے عظیم والد کو سلام پیش کرتا ہوں !
۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے آمین!
شب سیاہ میں گم ہوگئی ہے راہ ِحیات
قدم سنبھل کے اُٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے