افسانہ
ایک تھی ملکہ
نیلم احمد بشیر
ابھی رات کے صرف دس ہی بجے تھے کہ ملکہ کی طبیعت میں بےچینی شروع ہو گئی۔
سنڈریلا کی طرح وہ بھی رات بارہ بجے سے پہلے ہر قیمت پر اپنے گھر پہنچ جانا چاہتی تھی کیونکہ یہی وقت تھا اُس کے دل کی مراد بر آنے کا، اُس کی اور اُس کے محبوب کی ملاقات کا۔
اُس سمے اُس کے دل کے تار خوشی سے جھنجھنا اٹھتے اور وُہ خود کو ہوا میں تیرتا محسوس کرتی تھی۔
بارہ کا گجر بج جانے پر اُن دونوں کے گھر بھاگنے کا منظر بھی ایک سا ہوتا۔
سنڈریلا، پارٹی کے مہمانوں کو حیرت زدہ چھوڑ،
شیشے کی سینڈل پہن، اپنی خوبصورت بگھی میں جلدی جلدی جا سوار ہوتی ۔
تنومند گھوڑوں کی شکل میں تبدیل ہو جانے والے اُس کے دوست مریل چوہے، اُسے گھر پہنچانے کو سرپٹ دوڑنے لگ جاتے۔ اُن دونوں کے گھر پہنچنے کے بعد کے حالات میں تھوڑا بہت فرق البتہ ضرور تھا۔
سنڈریلا کے گھر بہت سے بےمہر رشتےدار اُس کا انتظار کر رہے ہوتے جبکہ ملکہ کے گھر اُس کا محض ایک ہی تعلق دار اُس کا استقبال کرتا ملتا۔
تنہائی کی ماری ملکہ اپنا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارنے کی کوشش کرتی۔ کوئی دعوت، سنگی ساتھیوں کی کوئی بیٹھک، رشتےداروں کی کوئی تقریب، کوئی نہ کوئی جگہ اُسے بہرحال مل جاتی۔
وُہ یوں اپنے گھر میں تن تنہا شامیں گزارنے کے آزار سے بچ جاتی۔ اُس کے سب دوستوں کو پتا تھا کہ وہ رَات بارہ بجے کے بعد رکا نہیں کرتی۔
مگر وہ اِس بات کا برا ماننے کے بجائے ہنس کے نظرانداز کر دیتے تھے کیونکہ وہ اُس کی وجہ سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔
سنڈریلا کی طرح اُس کی بھی مخصوص گجر بج جانے پر جون بدل جایا کرتی تھی۔ سنڈریلا حسین و جمیل، متمول شہزادی سے دوبارہ ایک مفلوک الحال یتیم لڑکی میں تبدیل ہو جاتی ۔
ملکہ ایک خوش باش ہنستی مسکراتی، پُراعتماد، اپنی ذات میں مکمل شخصیت سے ایک کمزور اَور اُداس عورت بن جاتی۔ سنڈریلا آنے والے وقت کی شہزادی تھی۔
اِس ملکہ کا راج پاٹ مدت ہوئی ختم ہو چکا تھا۔ جو اُس کے کچھ لگتے تھے اُنھوں نے بن باس لے لیا تھا اور اَب اُن کے درمیان فاصلوں کا بحرِ ظلمات حائل ہو چکا تھا۔
اُس نے وقت دیکھا۔ ابھی گھر پہنچنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ تقریب جاری تھی مگر اُسے اٹھنا ہی تھا۔ اُس نے جلدی جلدی سب کو اللہ حافظ کہا ، باہر سردی میں ٹھٹھرتی ہوئی اپنی ہزار سی سی پاور کی پرانے ماڈل کی بگھی کو سٹارٹ کرنے کے لیے چابی گھما دی۔
چند لمحوں کی گھوں گھوں کے بعد انجن کو رحم آ گیا اور وُہ تیز ڈرائیو کرتی گھر کو روانہ ہو گئی۔ تیسری منزل پر واقع اپنے گھر کی سیڑھیاں پھلانگتے اُس کا سانس پھول گیا، مگر اُس نے کوئی پروا نہ کی۔
اُن سے ملنے میں اب چند منٹ ہی تو رہ گئے تھے۔
چابی گھما کر دروازے کو زور سے کھولنا ہی چاہتی تھی کہ یک دم اُس کے ہاتھ رک گئے۔
اُس کا خیال آ گیا، جو اندر موجود تھا اور اُس کی تاک میں رہتا تھا۔ اُس کا انتظار کرتا تھا۔
ملکہ کا خونِ جگر پی کر موٹا تازہ، درندہ بن کر پورے گھرے میں دندناتا پھرتا تھا۔
’’ہیلو!‘‘ ملکہ نے دھیمی آواز میں سرگوشی کی اور بھائیں بھائیں کرتے مکان کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری۔
’’آ گئیں سیرسپاٹا کر کے؟‘‘
سناٹا ایک سڑیل خاوند کی طرح چیخنے چہاڑنے، دھاڑنے لگا۔
گھر کی دیواریں یکبارگی زور سے لرزیں اور پھر ساکت ہو گئیں۔
وہ پہلو بچا کر اَپنے کمرے کی طرف لپکی۔ وہ بھی ساتھ ہی اندر گھس آیا اور اُسے کپڑے بدلتے دیکھنے لگا۔
ملکہ نے شو شو کر کے اُسے بھگانے کی بہت کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’مجھ سے بھاگ کر کہاں جاؤ گی؟‘‘
وہ زور زور سے طنزیہ قہقہے لگانے لگا اور اَچانک اپنے نوکیلے پنجے اُس کی روح میں گاڑ دیے۔
’’تم کہیں دفعان نہیں ہو سکتے؟‘‘
ملکہ نے جھلا کر کہا اور ٹی وی آن کر دیا۔ سناٹے کو کاٹنے کے لیے وہ اکثر یہی کیا کرتی تھی، مگر حسبِ معمول ٹی وی بھی اُس کے سامنے گونگا بن کر بیٹھ گیا اور ماحول ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اُس میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔
’’میرے ساتھ ہی گزارہ کرنا سیکھو۔‘‘ درندہ کچھ ڈھیلا پڑتا ہوا غرایا۔
ٹھیک بارہ بجے ملکہ نے اپنا جادو کا ڈبہ آن کیا اور اسٹارٹ کا بٹن دبا دیا۔ ’’Login نام بتائیے۔‘‘ حکم ملا۔
’’گزرا ہوا کل!‘‘ اُس نے جواب دیا۔
موسیقی کی ایک مدھر لے کے ساتھ ہی راج محل کی طرف جانے والی بند رہگزر ایک سمندر میں تبدیل ہو گئی اور لکڑی کا ایک موٹا سا تنا بہتا بہتا اُس کی طرف آ گیا۔
’’داخل ہونے کے لیے اِسمِ اعظم!‘‘ سوال کیا گیا۔
ملکہ نے اپنا خفیہ اسم بتا دیا ’’جنت!‘‘
’’رابطہ کروایا جائے۔‘‘ اذن ملتے ہی برقی تاروں کا جال اِدھر سے اُدھر اچھل اچھل کر چھلانگیں مارنے لگا۔
ملکہ اشتیاق سے جادو کے ڈبےکی سکرین کو تکنے لگی جہاں اُسے کچھ ہی دیر بعد اُن سے ہم کلام ہونا نصیب ہونا تھا۔
راج محل کی سرزمین بھی عجیب تھی۔
نیچے ٹھاٹھیں مارتا سمندر اَور آسمان پر عنکبوت کا تنا ہوا جال۔ ملکہ کو آگے سفر کرنے کے لیے اُسی سمندر پر Surf کرنا تھا۔
وہ Log کو مضبوطی سے تھامے اعتماد سے آگے بڑھنے لگی۔
تارِ عنکبوت کے سفید ریشمی ریشوں پر جھولتی رکاوٹیں پھلانگتی، وہ جلد ہی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔
کتنا پُراسرار تھا یہ راستہ! کتنی پُرپیچ تھی یہ وادی! کتنی دنیائیں تھیں راہ میں آباد اَور کتنا گھنا تھا، نکتوں کے درختوں کا پُراسرار جنگل۔
Yahoo ایک بندر ٹہنیوں پر اِدھر سے اُدھر چھلانگیں مارتا چیخا۔
’’کس سائٹ پر جانا ہے؟‘‘ اگلے دربان نے وضاحت طلب کی۔
’’گرم گرم ….. لیجیے، گرم گرم!‘‘ ایک ڈاکیے نے وصال و فراق کے جذبوں میں سلگتی ڈاک کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے آواز لگائی۔
’’طلسم ہوش رُبا سے دل بہلائیے گا؟‘‘
’’تازہ ترین اخبارات، رسائل؟‘‘
’’اجنبی لوگوں سے دل کی باتیں، گپ شپ؟‘‘
ریڑھیوں پر مختلف قسم کا سامان سجائے، ریڑھی والے اپنی اپنی بولیاں بولتے اُس کی جانب آئے اور پھر غائب ہوتے چلے گئے۔
’’مجھے تو صرف ایم ایس این کے دروازے کا داخلہ چاہیے اور کچھ نہیں۔‘‘
ملکہ نے حسبِ معمول اپنی سادہ سی خواہش کا اظہار کیا۔
MSN کے دونوں بت نمایاں چمک کر اپنی موجودگی کا سنگل دینے لگے۔
وہ جانتی تھی کہ جیسے ہی وہ اِن دونوں بتوں کو ایک میں تبدیل کر دے گی، تمام پتھریلی راہیں ہموار ہو جائیں گی اور وُہ اَپنے تینوں شاہ زادوں سے ہم کلام ہو سکے گی۔
پہلی سعی سے ہی پہلی ونڈو کھل گئی۔ ’’امی! آپ کیسی ہیں؟‘‘
ڈبے کی ساکت سطح پر ایک پُرمسرت چیخ ابھری اور ساری سکرین پر چھا گئی۔
’’جی میری جان!‘‘ ملکہ کی انگلیوں نے جلدی جلدی جواب دیا اور ایک مسکراہٹ اُس کے چہرے پر پھیل گئی۔ وہ جانتی تھی کہ دور دَیس میں اِس وقت دن کے دو بجے ہیں۔
بڑی شہزادی کے دفتر میں یہی بریک ٹائم تھا، لہٰذا وہ اِسی وقت ماں سے بات کیا کرتی تھی۔
ونڈو میں محصور بڑی شہزادی نے کہانیوں کی Rapunzel (ریپنزل) شہزادی کی طرح اپنے لانبے سنہرے بال کھڑکی سے نیچے لٹکا دیے۔
ری پنزل کا محبوب شہزادہ تو اُن بالوں پر جھول کر اوپر آ جایا کرتا تھا، مگر بڑی کی محبوب ماں اُن بالوں کی نرمی کو چھو نہ سکتی تھی۔ بس وہ اُنھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی۔
’’ٹن!‘‘ سے ایک گھنٹی بجی۔ اعلان ہوا وَلی عہد شہزادے آن لائن تشریف لا رہے ہیں۔
’’السلام علیکم امی!‘‘
اُس نے پیار سے اپنے بیٹے کو پچکار کر جواب دیا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ رَات کی ڈیوٹی سے آنے کے بعد اِسی وقت سو کر اُٹھا ہو گا۔
’’امی جی! آج بہت نیند آ رہی تھی، شفٹ کچھ لمبی ہو گئی تھی۔‘‘
’’ہائے صدقے جاؤں کچھ کھایا تو نہیں ہو گا۔‘‘ ماں کے کلیجے میں ٹیس اٹھی۔
’’نہیں ابھی ناشتہ بناؤں گا۔ مَیں نے کہا پہلے آپ سے بات کر لوں، ورنہ آپ پریشان ہوں گی۔‘‘
سات سمندر پار کی ورکنگ کلاس کے ایک نمائندے نے جواب دیا۔ ملکہ کا دل کٹ کے رہ گیا۔
کاش مَیں اُس کے پاس ہوتی۔ اُسے ناشتہ بنا کر دیتی۔ اُس کے گھر کی صفائی کر دیتی۔
’’امی جی! مجھ سے بھی بات کریں نا۔‘‘
تیسری ونڈو میں کھڑی ننھی شہزادی نے ضد کرنا شروع کر دی۔ وہ کب سے اپنی باری کی منتظر تھی۔
’’میری لاڈو رَانی، میری شہزادی! تیرے صدقے جاؤں کیا کر رہی ہے تُو؟‘‘
انگلیوں نے تختۂ حروف پہ بےچینی سے متوالا رقص شروع کیا۔
’’کلاس میں جانے کے لیے تیار ہو رہی ہوں۔ آپ کو تو پتا ہے نا مجھے ہاسٹل کا بیت الخلا شیئر کرنا پڑتا ہے، اِس لیے شاور کا بھی مزا نہیں آتا۔‘‘
منی شہزادی نازوں کی پلی بڑھی تھی، مگر اپنی یونیورسٹی میں اب ایک عام طالبہ جیسی زندگی گزار رَہی تھی۔ ’’اور پھر باتھ روم میں لوٹا بھی تو نہیں ہوتا۔
مَیں نے پھولوں کو پانی دینے والا ایک فوارہ رَکھا ہوا ہے جسے چپکے سے مَیں ساتھ لے جاتی ہوں۔
ایک دن میری کمرے کی ساتھی کہنے لگی ہم نے تو بیت الخلا میں کوئی پودے نہیں دیکھے، تو پھر تم کیوں یہ پانی کی بوتل ساتھ لیے جا رہی ہو؟‘‘
منی شہزادی کا یہ جملہ سنتے ہی دوسری ونڈوز میں موجود اُس کے دونوں بھائی بہن، زور زور سے ہنسنے لگے اور سمائلنگ چہرے بنا بنا کر سکرین پر پھول کِھلانے لگے۔
ملکہ بھی محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ شریر کہیں کے، اُسے تینوں پر یکلخت پیار آ گیا۔ چند لمحوں کے لیے وہ یہ بھول گئی کہ وہ اُس سے اتنی دور تھے۔
اُسے بالکل یوں لگا جیسے وہ آج بھی اُس کے آنگن میں لگے امرود کے پرانے درخت تلے آپس میں کھیل رہے ہوں، لڑ جھگڑ رہے ہوں، دور دَیس کی کسی آدم منڈی میں کھپے ہوئے کمین نہ ہوں۔
’’میری بچی! باہر برف گر رہی ہو گی۔ سنو جوتے اور دَستانے پہنے بغیر باہر نہ نکلنا۔ سردی میں احتیاط کرنا۔‘‘
اُس نے ننھی شہزادی کو تنبیہ کی۔
’’اماں! آپ کے ہاتھ کا پکا ہوا پراٹھا بہت یاد آ رہا ہے۔‘‘ شہزادے نے حسرت بھرا پیغام بھیجا۔
ملکہ کے دل پر کٹار سی لگی، مگر وہ خاموش رہی۔
وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ لٹی ہوئی راجدھانی کی ملکہ کی زندگی کی بساط تو کب کی الٹ چکی تھی۔
اُس کے کوکھ کے جنے اپنا اپنا نصیب کھوجنے سات سمندر پار کوہ کنی میں مصروف تھے۔
وہ پیچھے رہ گئی تھی، مگر پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہونا نہیں چاہتی تھی۔
کبھی کبھی تو احساسِ تنہائی اُسے اِس قدر پریشان کر دیتا کہ اُسے لگتا وہ اَپنے حواس کھو بیٹھے گی۔
اِسی لیے اُس نے اس جادو کے ڈبے کو اپنا رازدان بنا لیا تھا۔
ہر رات اپنے بچوں سے گپ کرتی اور یوں ایک کے بعد ایک دن گزارنے میں کامیاب ہو جاتی۔
کچھ دیر کبوتر اِدھر سے اُدھر پیغام رسانی میں مصروف رہے۔
پھر حسبِ معمول دھیرے دھیرے ونڈوز بند ہونے کا وقت آ گیا۔ شہزادے کو ناشتہ بنانے کے بعد دو دِن کے جمع شدہ برتن دھونا تھے۔ منی کی کلاس شروع ہونے میں چند منٹ رہ گئے تھے ۔
بڑی شہزادی کے دفتر کا بریک ٹائم ختم ہو چکا تھا۔ اگلی شب ملنے کا وعدہ کر کے اُنھوں نے اپنے اپنے کواڑ بند کر لیے اور اَپنی اپنی زندگیوں میں واپس لَوٹ گئے۔
ملکہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔ سکرین جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے زندہ اَور متحرک تھی، ٹھنڈی اور بےجان ہو گئی۔ کہاں گئے وہ؟
ابھی تو یہیں تھے۔ مادر ملکہ نے اپنے بچوں کے گرم لمس کو محسوس کرنے کے لیے سکرین پر ہولے ہولے ہاتھ پھیرا اَور اُس زندگی بخش حرارت کو اَپنے اندر جذب کر لیا۔
تین ستارے کچھ ہی دیر پہلے ایک ویران تاریک آسمان پر چمکے تھے اور اُسے منور کر دیا تھا، مگر اب آسمان اکیلا تھا۔ میل ہا میل تک گہرائیوں سے اونچائیوں تک تنہا اور سنسان۔
جدائیاں اُس کی زندگی میں بار بار آتی رہیں، تاہم وہ اُن سے سمجھوتہ نہ کر سکی تھی۔ راج پاٹ الٹ جانے کے بعد سب سے پہلے بڑا شہزادہ اُس سے علیحدہ ہوا تھا۔
پرواز کی رات وہ ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں چھپ چھپا کر آنسو بہا رہی تھی کہ وہ اُسے تلاش کرتا ہوا اُس تک آ پہنچا اور خاموشی سے اُس کے گرد بازو ڈال دیے۔
وہ تو چلا گیا مگر اُس کی خوشبو ہمیشہ کے لیے اُس سے چپک کر رہ گئی۔
اُس کے جانے کے چند برسوں بعد بڑی شہزادی کو ایک یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔
اُس نے بھی اپنا رختِ سفر باندھ لیا۔ پرواز کی رات وہ ہنس ہنس کر ماں اور چھوٹی سے باتیں کرتی ۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد غسل خانے جا کر قے کرتی رہی۔ پھر ننھی شہزادی اور ملکہ نے کئی سال اکٹھے گزار دِیے۔ دونوں نے سہیلیاں بن کر رہنا شروع کر دیا۔
وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے خوشیوں کے باغ سے پھول چنتیں، تتلیوں سے کھیلتیں، درختوں کے سائے تلے جا لیٹتیں، کھانے کھاتیں، ٹی وی دیکھتیں، موج اڑاتیں۔
زندگی مزے سے گزر رَہی تھی کہ ایک دن چھوٹی کا بھی دور دیس کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ۔
وُہ برف ڈھکے ایک شہر کے سفر کو روانہ ہو گئی۔
مادر ملکہ کی کوکھ سے دردِ زہ کی آخری لہر اٹھی اور اُسے بےبس کر گئی۔
ننھی کے جانے کے بعد اُسے پہلی بار سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہو جانے کا احساس ہوا۔
اب اُس کے پاس اپنی ذات کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
ننھی شہزادی کے کمرے میں جا بجا بکھرے اُس کے بالوں کے کلپ، ربڑ بینڈ، سٹکرز، پوسٹرز، سٹفڈ (Stuffed) کھلونے، اُس کی جدائی سے نڈھال نظر آتے تھے۔
دیواروں سے وہ نغمے چپک کر رہ گئے تھے جو کبھی اُس کے کیسٹ پلیئر سے نکل کر اُسے خوش کرتے تھے۔
اُس کے کمپیوٹر سے آنے والی ٹک ٹک کی مسلسل آواز، ٹیلی فون کے ریسیور سے پھسل کر باہر آنے والے، اُس کی سہیلیوں کے قہقہے سب کہیں روپوش ہو گئے۔
نہ جانے کہاں چلے گئے تھے وہ؟ جب وہ چیزیں وہاں پر نہیں رہتیں، جہاں وہ ہوتی ہیں، تو پھر کہاں چلی جاتی ہیں؟ وہ سوچتی رہتی۔
اب سارا دِن گھر میں خاموشی کی اداس دھند چھائی رہتی جس سے بچنے کے لیے ملکہ دن بھر باہر رہتی۔
در و دِیوار ایک دوسرے سے لپٹے اُس کی آمد کا انتظار کرتے ۔
اُس کا سنگی ساتھی سناٹا سارے گھر پر راج کرتا۔
وقت کافی ہو چکا تھا۔
اُسے آج کی رات کو شٹ ڈاؤن کرنا تھا۔ اِدھر اُدھر نظر گھمائی۔
اُس کا شریکِ حیات اُس کے چاروں طرف چھایا ہوا اُسے چپ چاپ تکتا چلا جا رہا تھا۔
اُس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر غور سے اُس کی طرف دیکھا۔
ویسے اتنا برا بھی نہیں اِس کا وجود۔ ملکہ نے ایک نئی سوچ کو کلک کیا۔
سناٹے کی ایک اپنی اہمیت اور ضرورت تو ہوتی ہے۔
سناٹا نہ ہو، تو ’’بگ بینگ‘‘ کے بعد کائناتیں وجود میں نہ آئیں۔
سلسلہ آگے ہی نہ چلے۔ تخلیق کا کنول جب سکوت کے تالاب میں کِھلتا ہے، تو زیادہ دِلفریب اور خوشبودار ہوتا ہے۔ سنڈریلا گزرے ہوئے کل کی خیالی شہزادی تھی اور ملکہ آج کی حقیقی عورت۔
یک دم ملکہ کی ساری افسردگی ختم (Delete) ہونے لگی۔
اُس نے مکمل سپردگی کے ساتھ اپنا وجود اَپنے شریکِ حیات کے حوالے کر دیا۔ کتنا نرم و ملائم، پیارا اَور ہمدرد تھا وہ۔ اُسے بےاختیار اُس پر پیار آنے لگا۔
اب سناٹا اُسے اپنا دشمن نہیں بلکہ ایسا پُرخلوص دوست محسوس ہو رہا تھا جس کی اپنائیت بھری گود میں تحفظ ہی تحفظ تھا۔
اُسے یقین تھا اُس کا یہ ساتھی اُسے کبھی اکیلا چھوڑ کر نہیں جائے گا۔