19 C
Lahore
Friday, December 13, 2024

Book Store

ٹیکنالوجی کے مضر اثرات

بچوں کو ٹیکنالوجی کے
مضر اثرات سے بچائیں
ارم ناز

میں جب بھی اپنی بیٹی کی طرف دیکھتا ہوں تو احساسِ شرمندگی اور تکلیف دوگنا ہو جاتا ہے۔ گو وقت گزر چکا، میری بیٹی اب ٹھیک ہے، لیکن اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس نے جتنی بھی تکلیف برداشت کی، اس سب کا ذمہ دار میں ہوں۔ کاش وقت واپس پلٹ آئے،
لیکن گزرا ہوا وقت کب کسی کے لیے پلٹا ہے۔
یہ چند سال پہلے کی بات ہے جب میری بیٹی لیزا دو سال کی تھی۔ روزانہ کام کرتے ہوئے جب بھی وہ میرے پاس آتی تو مجھے بہت تنگ کرتی تھی۔
کبھی لیپ ٹاپ کو چھیڑتی تو کبھی میرے کندھوں پر جھولتی، ایسے میں کام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔
ایک دن بہت ضروری اسائنمنٹ کی تکمیل کے لیے مجھے دفتر سےصرف ایک دن کا وقت ملا تھا۔ ایسے میں، میں نے لیزا کو اپنے اسمارٹ فون پر نظمیں لگا کر دے دیں۔
وہ دیکھنے لگی اور میں نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنا کام کرنے لگا۔ پھر تو جیسے مجھے لیزا سے جان چھڑانے کا گر ہاتھ آ گیا۔
وہ جب بھی مجھے تنگ کرتی میں موبائل اس کے ہاتھ میں تھماتا اور کام کرنے لگتا۔
اس روٹین کو جب چھے ماہ ہو گئے تو میری بیٹی کی آنکھوں میں تکلیف شروع ہو گئی۔ سوجن اور جلن حد سے بڑھنے پر ڈاکٹر سے رجوع کیا ۔
اس نے ہمیں بتایا کہ بچی کی آنکھوں کی سرجری کرنی پڑے گی ۔ اتنی چھوٹی بچی کی آنکھ میں اس قدر تکلیف کیسے ہو سکتی ہے؟
یہ سوال جب ڈاکٹر سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کی وجہ موبائل فون کا استعمال ہے کیونکہ اتنی چھوٹی بچی کی آنکھوں کے خلیے بہت نازک ہوتے ہیں۔
وہ موبائل کی تیز اور مسلسل روشنی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے بچی آنکھوں کی اس تکلیف میں مبتلا ہوئی۔
میری بچی کی سرجری کی گئی، جن دنوں اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ وہ درد سے چلاتی اور روتی تھی۔
ہم میاں بیوی اس کو بہلانے پھسلانے کا مختلف ساماں کرتے لیکن وہ بہلتی نہیں تھی۔ وہ دور انتہائی دکھ بھرا تھا۔
جب اس کی پٹی کھلی اور وہ دیکھنے کے قابل ہوئی تو ہماری جان میں جان آئی، لیکن ساتھ ہی ڈاکٹر نے یہ مژدہ بھی سنا دیا تھا کہ ساری زندگی اس کو عینک لگانا پڑے گی۔
اب میری بیٹی سات سال کی ہو چکی ہے، یوں تو وہ ٹھیک ہے۔ لیکن عینک اس کے چہرے کا لازمی جزو بن چکی۔
میں جب بھی کسی بچے کو اسمارٹ فون یا ٹیب وغیرہ استعمال کرتے دیکھتا ہوں تو فوراً اس کے والدین کو خود پر بیتے ان کرب بھرے لمحوں کے بارے میں بتاتا ہوں، تاکہ ان کے بچوں کو کسی قسم پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کیونکہ والدین اپنی آسانی کے لیے بچوں کو ایسی چیزیں تو دے دیتے، لیکن ان کے کتنے مضر اثرات ہوتے ان کو بھول جاتے، جبکہ انہیں بھولنا نہیں چاہیے۔
نہیں تو میری طرح شرمندگی اور پچھتاوے آپ کی ذات کا حصہ بن جائیں گے۔
تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے
کہ ان کی اولاد صحت مند و توانا اور قابل ہو، تاکہ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کر کے اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکے۔
اس کے لیے وہ اولاد کی ہر خواہش اور ضرورت کو بلا تامل پورا کرتے ہیں۔
نیز چھوٹی عمر سے ہی  جدید اشیاء اور نت نئی ٹیکنالوجی سے ان کو متعارف کرواتے کہ وہ زمانے کے ہر بدلتے پہلو سے روشناس ہوں
لیکن جہاں سائنس کی ترقی اور ایجادات نے انسان کو زمین سے آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا۔ وہیں اس کا بے جا اور غلط استعمال ننھے اذہان کو متعفن بھی کر رہا ہے۔
بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بڑھتا جاتا ہے،
یوں تو ٹیکنالوجی نے بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت، تفریح، میل جول، دوستی اور زندگی کے ہر پہلو میں اہم کردار ادا کیا ہے
لیکن بچے جو مستقبل کے معمار اور والدین کی اُمیدوں کا سہارا ہیں،
وہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث جسمانی اور ذہنی طور پر متاثر ہو رہے۔
والدین کو چاہیے
کہ اگر وہ اپنے بچوں کو حقیقی معنوں میں ٹیکنالوجی کے مثبت پہلوؤں سے فائدہ اُٹھانا چاہتے تو درج ذیل باتوں پر عمل کریں۔
اسکرین کا وقت مقرر کریں
موبائل فون ، ٹیب اور لیپ ٹاپ سے دلچسپی کے باعث بچے ہر وقت ان چیزوں سے چپکے رہتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی جب بھی ذرا سے فارغ ہوں فوراً موبائل یا ٹیب پر گیم کھیلیں یا ویڈیوز لگالیں،خصوصاً چھٹی والے دن تو سارا دن یہی کام ہوتا ہے۔
اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کا اسکرین دیکھنے کا وقت مقرر کریں چاہے ہو اسکرین موبائل کی ہو، ٹیب ، لیپ ٹاپ یا ٹی وی کی ،
کیونکہ ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون یا ریڈیو انٹینا سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جن سے کینسر، جینیاتی تبدیلی،بصارت،تنائو اور یادداشت کی کمزوری جیسے امراض بچوں اور بڑوں میں یکساں طور پر جنم لے رہے ہیں۔
مزید برآں عالمی ادارہ صحت نے بچوں کے تمام الیکڑونک آلات کو دیکھنے کی حد مقرر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچے دن میں صرف ایک گھنٹہ اسکرین دیکھ سکتے
جبکہ ایک سال سے کم اور دودھ پیتے بچوں کو اسکرین کو دیکھنے کی سختی سے ممانعت ہے،
نیز یہ بھی ہدایت دی کہ والدین اپنا وقت بچانے اور بچوں کا دل بہلانے کے لیے بچوں کو برقی آلات مت فراہم کریں۔
گھر سے باہر کھیل کود
موجودہ دور کے والدین خود اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا ،
اس لیے وہ انہیں اسمارٹ فون اور ٹیب جیسے آلات کھیل کے لیے پکڑا کر خود اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو جاتے ہیں،
جبکہ یہ چیز ان نونہالوں کی صحت کو برباد کر رہی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر گھر سے باہر لے کر جائیں۔
گھر سے باہر کھیلنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، اس کے فوائد سے آگاہ کریں
نیز اسکول میں بھی انہیں کھیلوں میں حصہ لینے پر شاباش دیں،
تبھی وہ صحتمندجسم کے ساتھ صحت مند ذہن کے بھی مالک بنیں گے ۔
پہلے وقتوں میں بچوں کی صحت اس لیے قابل رشک ہوتی تھی کیونکہ وہ جسمانی مشقت والے کھیل بہت زیادہ کھیلتے تھے۔
بچوں کی نیند کا خیال رکھیں
کم عمر بچے کیونکہ پرورش پا رہے ہوتے اس لیے ان کے تمام جسمانی اعضاء ہی افزائش کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
اس لیے بچوں کی بہترین صحت کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ دس گھنٹے ضرور سوئیں ۔
بچوں کے دماغ بہت زیادہ ایکٹو ہوتے ہیں اگر وہ مقرر کردہ اپنی نیند پوری کریں گے تبھی ان کی ذہنی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آئیں گی اور وہ دن بھر کی تھکاوٹ دور کر کے اگلے دن کے لیے پھر سے تازہ دم ہو سکیں گے۔
روزانہ ورزش کریں
والدین کو جس قدر اولاد کے مستقبل کی پروا ہوتی،
اسی قدر ان کی صحت کی بھی ہونی چاہیے۔ہر وقت اسمارٹ فون، ٹیب یا ٹی وی دیکھنے کے سبب نہ صرف بچے موٹاپے کا شکار ہو رہے بلکہ ان کی آنکھیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین روزانہ انہیں ورزش ضرور کروائیں خصوصاً آنکھوں کی، تاکہ آنکھوں کو دبائو اور درد سے نجات ملے۔
والدین اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ بچے توجہ مرتکز کر کے کوئی بھی کام کر رہے ہوں چاہے وہ برقی آلات کا استعمال ہو یا پڑھائی ،
ہر آدھے گھنٹے بعد بیس سیکنڈ کی بریک ضرور لیں ، نیز پلکوں کو چند سیکنڈز جھپکانے کے بعد دوبارہ کام پر توجہ دیں۔اس سے آنکھیں درد کا شکار نہیں ہوں گی۔
مخصوص فاصلہ برقرار رکھیں
بچے جب بھی ٹی وی، اسمارٹ فون، ٹیب یا لیپ ٹاپ دیکھ رہے ہوں،
والدین اس بات کا دھیان ضرور رکھیں کہ برقی آلات ان سے دور مخصوص فاصلے پر ہوں۔
خصوصاً ٹی وی بیس انچ کی دوری پر رکھا ہو ۔ اسی طرح اسمارٹ فون اور ٹیب بھی دور سے دیکھیں اور
اگر آپ کا بچہ ہر چیز بہت نزدیک کر کے دیکھتا تو آنکھوں کے معالج سے رجوع کریں۔
والدین بچوں کے ساتھ میل جول و بات چیت کریں
عموماً والدین کام کی زیادتی یا مصروفیات کے باعث جدید ٹیکنالوجی تو بچوں کو فراہم کر دیتے لیکن خود ان سے دور ہو جاتے، نتیجتاً بچے دن رات انہی آلات کا استعمال کرتے رہتے اگر ان پر نظر نہ رکھی جائے۔
ایسے بچے معاشرتی طور پر بہت زیادہ تنہا ہو جاتے ہیں کیونکہ جب سارا سارا دن انہوں نے اسمارٹ فون یا ٹیب استعمال کرنا اور نہ ہی گھر سے باہر جا کر کھیلنا
اور نہ والدین کے پاس بیٹھنا تو ایسی صورت میں بچے کا سوشلی تنہا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
اس کے لیے والدین کو چاہیے کہ روزانہ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزاریں،
ان سے روزانہ کی مصروفیت کے متعلق پوچھیں کہ سارا دن انہوں نے کیا کھایا، کیا پڑھا اور کیا کھیلا؟
اس سے نہ صرف انہیں بچوں کی پسند و ناپسند کا پتا چلے گا بلکہ بچے کی روٹین کا بھی اندازہ ہو گا کہ کونسی چیز وہ غلط کر رہا ہے، جس کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔
باہمی میل جول سے والدین اور بچوں میں قربت بڑھتی نیز احساسِ تنہائی کا بھی خاتمہ ہوتا ہے ۔
ظاہری جسمانی حالت میں تبدیلی
وہ بچے جو بہت زیادہ وقت کے لیے موبائل فون، ٹیب یا لیپ ٹاپ استعمال کرتے
انہیں کمر، گردن اور پٹھوں کے درد کی شکایت عام ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ لمبے عرصے تک ایک ہی طریقے سے بیٹھے رہیں
تو ان مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس کے لیے ایک تو والدین زیادہ وقت کے لیے اسمارٹ فون یا ٹیب استعمال نہ کرنے دیں
اور اگر ایسا کرنا ضروری ہے
یعنی بچہ کوئی کام کر رہا تو ہر آدھے گھنٹے بعد اسے بریک کرنے کا کہیں
تاکہ آنے والی تکلیف سے جس حد تک ممکن ہو بچا جا سکے۔
بچوں کو جدید اسمارٹ فون اور دیگر گیجٹس کب دیں؟
ماہرین کے مطابق یوں تو بچوں کو جدید گیجٹس فراہم کرنے کی کوئی خاص عمر متعین نہیں
لیکن بچوں اور بڑوں میں بڑھتے ہوئے عوارض کے باعث ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ان کے استعمال کی عمر مقرر کی ہے جس کا درج بالا سطور میں ذکر ہو چکا۔
تاہم ماہرِ نفسیات کے مطابق بچوں کو اسمارٹ فون اور دیگر آلات دیتے وقت کچھ باتوں کا خیال ضرور رکھیں۔
بچہ اسکرین دیکھنے ر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے قوانین کا پابند ہو۔
بچہ بہت زیادہ فون یا میسج کرنے کا عادی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو بعد میں سوشل میڈیا کے استعمال سےیہ شدت مزید بڑھ سکتی ہے۔
اس لیے پہلے ہی بچے کو آگاہی فراہم کر دیں۔
بچہ فضول خرچ یا ضدی تو نہیں کیونکہ نیٹ پر نت نئی چیزوں کی پبلسٹی ہوتی رہتی۔ ایسا نہ ہو بچہ بعد میں ہر روز جدید اور نئی اشیاء کی آرزو کرے۔
بچہ اپنی چیزوں کی حفاظت کر نے کا عادی ہے؟
اگر عادی ہو گا تبھی وہ اپنے موبائل فون یا ٹیب وغیرہ کی حفاظت کر سکے گا۔
بچے تو نہ سمجھ اور معصوم ہوتے ہیں۔
ان کو تو آپ جس چیز کا عادی بنائیں گے، وہ وہی کام کرنے لگ جائیں گے۔ اولاد والدین کا سرمایۂ حیات ہوتی،
اس لیے اپنے آرام اور سکون کے لیے انہیں
ٹیکنالوجی کے حوالے مت کریں، اپنی محبت ،شفقت اور توجہ کو اسمارٹ فون سے مت تبدیل کریں۔
ایسا نہ ہو پھر آپ کو پچھتانا پڑے اور تب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles