تحریر: ڈاکٹر اختر احمد
پانچ ہزار سال قبل اہرامِ مصر کی پیش گوئیاں
اہرامِ مصر میں ان کی تعمیر سے پہلے لے کر اب تک اور آئندہ ہزاروں سال تک کی پیشین گوئیاں درج ہیں۔ اگر سب کو مرتب کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔
#egypt #horrible #facts ,#forecasts, The #history of Egypt has been long and #wealthy, due to the #flow of the Nile River with its fertile banks and #delta, as well as the #accomplishments of Egypt’s #native #inhabitants and outside #influence.
مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ اہرام میں دنیا کے عالمِ وجود میں آنے سے لے کر اس کے فنا ہونے تک کی تاریخ درج ہے۔ ان سب کا ذکر تو یہاں ممکن نہیں مگر اس صدی میں درست ہو جانے والے واقعات کی پیشین گوئیوں کے ذکر پر اکتفا کیا جا سکتا ہے۔
یہ قابلِ ذکر پیشین گوئیاں درج ذیل ہیں۔
1۔ یورپ اور روس کے درمیان اہم معاہدہ(1909)
2۔ برطانیہ کا جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ(1911)
3۔ صوبہ بالکن کی حیثیت کا تنازعہ پیدا ہونا اور یورپ میں سرد بازاری اور عدم تحفظ کا خدشہ پیدا ہونا(1913)
4۔ برطانیہ کا جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ(1914)
5۔ امریکا کا اتحادیوں کے ساتھ جنگِ عظیم میں کود پڑنے کا اعلان (1917)
6۔ پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ(1918)
7۔ سوویت ری پبلک آف رشیا کا قیام اور اگلے برس مشرقی روس میں انقلاب۔(1918)
یہ چند انتہائی مخصوص واقعات تھے جو ڈیوڈسن نے بیسویں صدی کے متعلق اہرام کی پیشین گوئیوں کو پڑھ کر بتائے تھے۔
چونکہ ڈیوڈسن نے اپنی کتاب سن 1924 میں لکھی تھی اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیوڈسن نے وہی تاریخی واقعات لکھے ،جو اس کے سامنے گزرے لیکن 1924 سے بعد اب تک تقریباً 100 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔
اس دورانیے کے لیے ڈیوڈسن نے جو کچھ لکھا ، وہ محض قیاس آرائی ہے یا تاریخ کو دیکھ کر لکھی گئی کوئی کہانی ہے۔
1924 کے بعد چند واقعات بھی قارئین کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔
عالمی معاشی بحران اور مندے کا دور اور اس سے تمام ممالک کا متاثر ہونا(1929)
( 1933)جرمنی پر ہٹلر کا مکمل تسلط
دوسری جنگِ عظیم کی ابتدا اور انیس سو پینتالیس میں اس کا خاتمہ، ہٹلر کا زوال اور جرمنی کا حصوں میں تقسیم ہونا۔(1939)
ہندوستان کا آزاد ہونا اور خوفناک قتلِ عام کے بعد اس کا دو حصوں میں تقسیم ہو کر دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا قیام(1947)
یہودیوں کے ملک اسرائیل کا عالمِ وجود میں آنا اور یہودیوں کی یہاں از سر نو آبادکاری(1948)
ویتنام پر امریکا کا حملہ کرنا اور اسی سال پاک و ہند جنگ کا ہونا(1965)
پہلی مرتبہ انسان کا چاند پر قدم رکھنا(1969)
پاکستان کے دو ٹکڑے ہو کر بنگلہ دیش نام کے ایک نئے ملک کا معرض وجود میں آنا(1971)
ایران اور عراق کے درمیان جنگ چھڑنا(1980)
اس کے بعد کی پیشین گوئیوں میں 2000 تک کی عالمی پیمانے پر زبردست اتھل پتھل کی پیش گوئیاں بھی تحریر کی گئی ہیں۔ مثلاً
٭ موسموں میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوں گی
٭ قدرتی آفات میں بے پناہ اضافہ ہو گا
٭ قدرتی وسائل اور معدنیات میں اضافہ ہو گا
٭ اسی دوران تیسری عالمی جنگ بھی متوقع ہے۔ جس میں دنیا کے تمام ممالک حصہ لیں گے۔ اس جنگ میں مہلک ترین اسلحہ استعمال کیا جائے گا۔ نتیجے میں دنیا کے بیشتر افراد ہلاک ہو جائیں گے برائے نام ہی لوگ اس کرہ ارض پر رہ جائیں گے۔
ایک نئے عہد نو کا آغاز ہو گا۔
اس عہد نو کی راہنمائی ایک ایسے روحانی شخص کے ذریعے ہو گی جو تمام عمر اس عہد نو کی تعمیر اور ترقی میں سرگرداں رہے گا۔
اہرام میں درج یہ تمام پیش گوئیاں اب تک صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سن 2000 کے عہد نو کی تعمیر کا کس روحانی شخصیت کو شرف حاصل ہوتا ہے۔ کون خوش نصیب لوگ اس شاندار اور خوشگوار دور سے مستفیض ہوں گے۔
اگر اہرام پر کنندہ پیشین گوئیاں پہلے ہی کی طرح درست ثابت ہوئیں تو یقیناً 21ویں صدی میں روحانیت کا سورج طلوع ہو گا۔
آج سے چار سو سال پہلے فرانسیسی مفکر اور نجومی نوسٹر اڈیمس نے آنے والی دنیا کا حال لکھا تھا۔ اس شخص کو خواب نظر آتے تھے۔ جنہیں وہ تحریر کرتا جاتا تھا۔ ان خوابوں یا تحریروں میں حیرت انگیز طور پر آنے والی دنیا کا نقشہ پوشیدہ تھا۔
نوسٹر ایڈیمس نے نپولین کے عروج سے لے کر ہٹلر کے زوال تک کی کہانی بہت واضح طور پر چار سو سال پہلے لکھ دی تھی۔
کینیڈی اور اندرا گاندھی کے قتل کی پیشین گوئیاں بھی اس کی تحریروں میں موجود ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بارے میں اس نے جو تاریخیں چار سو سال پہلے طے کی تھیں، وہ بالکل درست نکلیں۔
جنگ نے وہی رخ اختیار کیا تھا جس کی پیشین گوئی نوسٹر اڈیمس نے کی تھی۔ اب تیسری جنگ عظیم کے بارے میں نوسٹر اڈیمس کی پیشین گوئی درست ہوتی نظر آ رہی ہے۔
نوسٹر اڈیمس کی یہ بھی پیشین گوئی ہے کہ اس تیسری جنگ عظیم میں آخر کار روس اور مسلم طاقتیں متحد ہو کر مغرب کے خلاف لڑیں گی۔ نوسٹر اڈیمس کے مطابق مشرق وسطیٰ میں وقتی امن ہو جائے گا۔
مگر پھر اسرائیل سے یہ جنگ یورپ میں پھیل جائے گی۔ مسلم فوجیں اٹلی اور فرانس پر حملہ کر دیں گی۔ مغرب کے بہت بڑے بحری بیڑے سے جنگ ہو گی اور سمندر لاشوں سے پٹ جائے گا۔
روسی فوجیں مغربی یورپ پر حملہ آور ہوں گی اور جنگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ روسی مسلم اتحاد مغرب کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہو گا۔ ایک نیا لیڈر ابھرے گا۔ وہ ان فوجوں کے اتحاد سے فضاؤں پر چھا جائے گا۔
(یہ معلوماتی مضمون ڈاکٹر اختر احمد کی خوبصورت کتاب غلبہ اسلام سے لیا گیا ہے۔)