پاگل خانہ
مقبول جہانگیر
(حصہ اوؔل)
اگرچہ کہنے کو اَبھی دوپہر ہی کا وقت تھا، مگر موسلادھار بارش، کُہر اور دُھند نے مل کر دن کو رَات کی تاریکی میں بدل دیا تھا۔
بارش اِس قدر تیز جیسے آسمان کے سُوتے کھل گئے ہوں۔ ڈاکٹر جان فاسٹر کی چھوٹی سی کار کی ونڈ سکرین پر بارش کے تھپیڑے مسلسل اِس رفتار سے پڑ رہے تھے کہ وائپرز کا ہونا نہ ہونا یکساں تھا۔
ڈاکٹر کو راستہ دیکھنے میں دقت ہو رَہی تھی۔ مجبور ہو کر اُس نے کار کی اگلی بتّیاں روشن کر دیں۔ اُس کے اردگرد بلکہ دور دُور تک کوئی ذی روح نہ تھا۔
جہاں تک نگاہ جاتی، لمبی، تنگ اور ویران سڑک کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا۔ لندن کے نواحی علاقے میں آنے کا اُسے زیادہ موقع نہ ملا تھا اور اِن راستوں سے وہ قطعی واقف نہ تھا۔
جس وقت وہ اَپنی قیام گاہ سے اِدھر آنے کے ارادے سے چلا تھا، اُس وقت آسمان بالکل صاف تھا۔
بادلوں کے اِکّا دُکّا آوارہ ٹکڑے ہواؤں کے سہارے اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ موسم ایک دم یوں پلٹا کھائے گا۔
ڈاکٹر جان فاسٹر جونہی شہر کے ہنگاموں سے نکل کر دیہات کو جانے والی سڑک پر آیا، کُہر اور دُھند نے اُس کا راستہ روکا ۔ اِس سے پہلے کہ وہ وَاپس جانے کا فیصلہ کرے، بارش تیز ہو گئی۔
ڈاکٹر فاسٹر جوان اور مستقل مزاج تھا۔ اُس نے جب محسوس کیا کہ قدرت نے چیلنج دے دیا ہے، تو واپس جانے کا ارادہ بدل دیا۔
اُس نے کار کی رفتار بڑھا دی۔ جوُں جوں وہ آگے بڑھتا گیا، کُہر اور دُھند گہری ہوتی گئی۔ اُسے تعجب ہوا کہ یہ علاقہ اتنا ویران اور سنسان کیوں ہے؟ کیا یہاں کوئی نہیں رہتا؟
جہاں تک وہ دَیکھنے کے قابل تھا، شاہراہ کے دونوں طرف جھاڑ جھنکاڑ کثرت سے اُگا ہوا تھا۔ جھاڑ جھنکاڑ کے ساتھ ساتھ لمبی گھاس اور کہیں کہیں چھوٹے بڑے درخت جن کی ٹہنیاں اور شاخیں پھول پتوں سے بےنیاز تھیں۔
سڑک پر پھسلن ہونے کے باعث اُسے کار پر قابو رکھنے کے لیے خاصی جدوجہد اور اِحتیاط سے کام لینا پڑ رہا تھا۔
چند میل دور جانے کے بعد اُس نے کار کی رفتار ہلکی کر دی۔ جس مقام کی اُسے تلاش تھی، وہ یہیں کہیں ہونا چاہیے تھا۔
دفعتاً آسمان پر بادل گرجا اور بجلی چمکی۔ بجلی کی اِس چمک نے جان فاسٹر کی راہنمائی کی۔
اُسے دور پتلی سی کچی پگڈنڈی نظر آئی جو پختہ سڑک سے کچھ فاصلے پر سانپ کی طرح بَل کھاتی مشرق کی جانب جاتی تھی۔
فاسٹر نے اپنی کار اُس پگڈنڈی پر ڈال دی جہاں چھوٹے بڑے گڑھے کثرت سے تھے۔
پگڈنڈی کے دونوں طرف خاصی گہری ڈھلوان بھی نظر آئی۔ فاسٹر پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کار چلا رہا تھا۔
چکنی مٹی میں پہیّے آپ ہی آپ پھسل کر کسی گڑھے یا کھڈ میں گرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
کار کی روشن بتیاں بھی اُس گہری دھند اور کُہر کا پردہ چاک کر کے اُسے راستہ دکھانے میں ناکام ہو چکی تھیں۔
پریشان اور کسی قدر خوف زدہ ہو کر جان فاسٹر نے کار روک دی اور شیشے سے چہرہ لگا کر باہر کا جائزہ لینے گا۔
بجلی ایک بار پھر چمکی اور اِس مرتبہ جان فاسٹر کو کچھ فاصلے پر ایک عمارت کے آثار دِکھائی دیے۔
اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور آہستہ آہستہ کار چلاتا ہوا، اُس عمارت کے قریب پہنچ گیا۔
یہ پتھر کی بنی ہوئی نہایت قدیم اور پُرشکوہ عمارت پرانے زمانے میں شاید کسی بادشاہ یا امیر کا محل ہو گی۔
اُس نے سوچا۔ آہنی گیٹ کے سامنے اُس نے کار کا اِنجن روک دیا، لیکن بتیاں جلتی رہیں۔
اُن بتیوں کی روشنی میں دیوار پر لگی ہوئی پیتل کی ایک بڑی سی تختی پر جو الفاظ کندہ تھے، وہ اُسے صاف نظر آتے تھے ’’ڈینس مُور بی سٹار، ایم ڈی۔‘‘
آہنی گیٹ کوئی چھے فٹ اونچا ہو گا۔ اُس کے دونوں دروازوں میں موٹی موٹی سلاخیں لگی تھیں۔
جان فاسٹر نے اُن سلاخوں سے پرے دیکھنے کی کوشش کی، مگر موسلادھار بارش اور دُھند کے باعث اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ بہرحال وہ صحیح جگہ آ گیا تھا۔
اُس نے دو تین مرتبہ کار کا ہارن بجایا۔ چند لمحے بعد عمارت کے اندر سے ٹارچ کی متحرک روشنی گیٹ کی طرف آتی نظر آئی۔ پھر ایک شخص عجیب سا لباس پہنے، گیٹ کے نزدیک کھڑا دِکھائی دیا جس کا چہرہ پوری طرح واضح نہ تھا۔
ٹارچ اُس کے ہاتھ میں تھی۔ گیٹ کا تالا کھول کر اُس نے زنجیر ہٹائی اور کچھوے کی طرح رینگتا ہوا فاسٹر کی طرف بڑھا۔ فاسٹر نے سائیڈ کا شیشہ نیچے کیا اور آنے والے کو دیکھا۔
جھرّیاں پڑا ہوا ایک سال خوردہ اَور ڈراؤنا چہرہ اُس کے سامنے تھا۔ پہلی نگاہ میں فاسٹر کو یوں لگا جیسے وہ کسی لاش کو دیکھ رہا ہو۔ ایک چلتی پھرتی انسانی لاش۔
آنے والا اپنی ویران اور بےجان آنکھیں فاسٹر کے چہرے پر جمائے رہا۔ وہ پلک جھپکائے بغیر مسلسل فاسٹر کو دیکھ رہا تھا۔ بارش کا پانی لگاتار اُس کے سر پر پڑ رہا تھا، مگر اُسے اِس کا احساس ہی نہ تھا۔
’’میرا نام جان فاسٹر ہے، یہاں آنے کے لیے مجھے یہی وقت دیا گیا تھا۔‘‘
بوڑھا چہرہ اَب بھی بےحس و حرکت، پلک جھپکائے بغیر فاسٹر کو گھور رَہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہیں اور اگر سُن بھی لیا ہے، تو سمجھ نہیں پایا۔
اُس کا چہرہ کسی قسم کے تاثرات سے بالکل خالی تھا۔ جان فاسٹر کے ذہن میں خوف کی ہلکی سی لہر اٹھی اور معدوم ہو گئی۔ اِس مرتبہ اُس نے ذرا بلند آواز سے اپنا تعارف کرایا:
’’میرا نام ڈاکٹر جان فاسٹر ہے، مَیں لندن سے آ رہا ہوں۔ مجھے یہاں ڈاکٹر اسٹار سے ملنا ہے۔ اُنھوں نے مجھے بلایا تھا۔‘‘
اِن الفاظ کا اثر ہوا۔ بوڑھا فوراً اُلٹے پاؤں لَوٹ گیا۔ اُس نے آہنی گیٹ اچھی طرح کھول دیا۔ پھر جلتی ہوئی ٹارچ سے فاسٹر کو اشارہ کیا کہ اندر آ جائے۔ پھر وہ مڑا اَور جدھر سے آیا تھا، اُدھر چلا گیا۔
فاسٹر دم بخود ہو کے اُسے عمارت میں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے کار کا اِنجن اسٹارٹ کیا اور آہنی گیٹ میں داخل ہو گیا۔ بجلی بار بار چمک کر گرد و پیش کا ماحول واضح کر رہی تھی۔
جان فاسٹر نے دیکھا کہ عمارت کے اردگرد خاصا وسیع و عریض باغ ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کسی زمانے میں یہ باغ ہو گا۔ مگر اب وہاں جھاڑ جھنکاڑ، خود رَو گھاس پھوس اور اُونچے اونچے درختوں کے سوا اَور کوئی شے نہ تھی۔
اُسے تعجب ہوا کہ مکینوں نے یہ جھاڑ جھنکاڑ اور خودرو گھاس پھوس صاف کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کے پاس اِس کام کے لیے فالتو عملہ موجود ہ نہ ہو۔
ضرور یہی بات ہو گی۔ ایک چکردار رَاستہ اِس سنگی عمارت کے پورچ کی طرف جاتا تھا۔
فاسٹر نے کار پورچ کے اندر کھڑی کر دی۔
اب پہلی بار اُس نے دیکھا کہ عمارت دو منزلہ ہے اور دونوں منزلوں کی کھڑکیوں میں آہنی سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ آہنی سلاخیں اُن دماغی مریضوں کو باہر نکلنے سے روکنے کے لیے لگائی گئی تھیں جو اِس پاگل خانے میں نہ جانے کب سے قید و بند کی زندگی گزار رَہے تھے۔
فاسٹر اگرچہ خود بھی ذہنی مریضوں کا ڈاکٹر تھا، لیکن مریضوں کو اُس نے پاگل کبھی نہ سمجھا، نہ وہ اِس کا قائل تھا کہ اُنھیں جانوروں کی طرح لوہے کے دروازوں اور آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کر دیا جائے۔
یہ طریقِ کار تو قدیم عہد میں رائج تھا۔ اُسے افسوس ہونے لگا کہ وہ یہاں کیوں آیا، تاہم اب جبکہ وہ آ ہی چکا تھا، اُس نے ڈاکٹر اسٹار سے ملاقات کیے بغیر واپس جانا مناسب نہ سمجھا۔ خدا جانے یہ ڈاکٹر اسٹار کس قسم کا آدمی ہو گا۔
کار سے اُتر کر فاسٹر نے دروازہ لاک کیا اور اُسے لاک کرنے سے پہلے کار کی اگلی بتیاں بھی گُل کر دیں۔
پورچ میں پتھر کی چوڑی چوڑی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جن پر وہ چڑھ کر برآمدے میں داخل ہو گیا۔
ایک نظر پلٹ کر اُس نے وہ رَاستہ دیکھا جدھر سے آیا تھا۔ بارش ابھی تک جاری تھی اور کُہر میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔
کار سے باہر آنے کے بعد فاسٹر کا جسم بےپناہ سردی سے کانپنے لگا۔ اِس عمارت کا درجۂ حرارت تو پہلے ہی سے خاصا گرا ہوا تھا۔
فاسٹر نے محسوس کیا کہ اگر وہ کچھ دیر اِسی طرح سرد ہوا اَور بارش زدہ ماحول میں کھڑا رَہا، تو یہ سردی اُس کی ہڈیوں میں اُتر جائے گی۔
اُسے اب ڈاکٹر اسٹار اَور اُس کے عملے پر غصّہ آنے گا۔ عجیب بےہودہ لوگ ہیں یہ۔ جب اُنھوں نے اِس وقت آنے کا مطالبہ کیا، تو وہ اِستقبال کا کوئی بندوبست بھی کرتے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے شاید اُنھیں یہ توقع ہی نہ ہو گی کہ مَیں مقررہ وَقت پر پہنچ جاؤں گا۔
فاسٹر نے بِھنّاتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا۔ سامنے ہی ایک اونچا اور بےحد مضبوط لکڑی کا دروازہ نظر آیا جس کا رنگ کبھی سیاہ ہو گا۔ مگر اب اِمتدادِ زمانہ کے باعث بھورا ہو چکا تھا۔
اُس نے تعریفی نظروں سے اُس عظیم الشان دروازے کا جائزہ لیا جس پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے تھے۔ دروازہ یقیناً شاہ بلوط کی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ فاسٹر کو اَگرچہ لکڑی کے کام میں کچھ دخل نہ تھا، تاہم اُس کے اندازے کے مطابق یہ دَروازہ سو سوا سو برس سے کچھ کم پرانا نہ ہو گا۔
قدیم طرز اور رواج کے مطابق اُس میں پیتل کا ایک تھال لٹکا ہوا تھا اور اُس کے ساتھ ہی لکڑی کا ایک ہتھوڑا آہنی زنجیر میں لٹک رہا تھا۔
غصّے میں ہونے کے باوجود فاسٹر نے بڑھ کر لکڑی کا ہتھوڑا سنبھالا اور پیتل کے تھال پر زور سے دے مارا۔
ایک بھیانک آواز ساری عمارت میں گونج اٹھی۔ پیتل کا پتلا تھال ہتھوڑے کی ضرب سے کچھ دیر تھرتھرایا اور پھر ساکن ہو گیا۔
فاسٹر نے کان لگا کر عمارت کے اندرونی حصّوں میں انسانی قدموں کی آہٹ سننے کی کوشش کی، مگر بےسود۔ بارش اور ہوا کی مِلی جُلی سیٹی نما آوازوں کے سوا وَہاں کوئی اور آواز نہ تھی۔
اُسے شبہ ہوا کہ عمارت خالی ہے۔ طیش میں آ کر اُس نے لکڑی کی موگری دوبارہ سنبھالی اور پیتل کے تھال پر زیادہ زوردار ضرب لگانے کا ارادہ کر رہی رہا تھا کہ لکڑی کا یہ عظیم دروازہ کسی معمولی سی آواز کے بغیر آہستہ سے کھل گیا۔
فاسٹر نے دیکھا کہ ادھیڑ عمر کی ایک عورت نرسنگ یونیفارم پہنے دروازے میں ساکت و صامت کھڑی ہے۔ اُس کی آنکھیں بیل کی طرح گول گول اور بڑی بڑی تھیں۔
اُس کے موٹے موٹے ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے تھے اور ہلدی کی طرح زرد چہرہ کسی تاثر کا پتا دینے سے قاصر تھا۔ وہ سوالیہ نشان بنی فاسٹر کی طرف تَک رہی تھی۔
’’میرا نام ڈاکٹر جان فاسٹر ہے اور ڈاکٹر بی اسٹار نے مجھے ملاقات کا وقت دیا تھا۔‘‘
’’جی ہاں!‘‘ عورت نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’ڈاکٹر آپ کے انتظار میں ہیں۔‘‘
نرس کی آواز میں مردانہ پن بےحد نمایاں تھا۔ ایک لحظے کے لیے فاسٹر کو شک گزرا کہ شاید زنانہ نرسنگ یونیفارم میں یہ کوئی مرد ہے۔ فاسٹر نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور دَروازے میں داخل ہو گیا۔
اُس کے اندر جاتے ہی کسی پُراسرار طریق سے لکڑی کا بھاری دروازہ بند ہو گیا۔ اندر کا ماحول خاصا گرم اور آرام دہ تھا۔
فاسٹر نے خود کو ایک تنگ اور طویل راہداری میں کھڑے پایا، جس کے فرش پر دبیز قالین بچھا تھا۔
اِس راہداری کے دونوں جانب مختصر فاصلے سے لکڑی کے دروازے تھے اور ہر دروازے کے باہر لوہے کا بھاری قفل لگا تھا۔
راہداری میں ہلکی طاقت کے برقی قمقمے روشن تھے جنہیں دیکھ کر فاسٹر کی جان میں جان آئی، ورنہ اب تک وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ اِس عمارت میں بجلی نہیں۔
’’آپ میرے ساتھ آئیے۔‘‘ نرس نے مردانہ آواز میں کہا۔
فاسٹر اُس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ راہداری میں مڑتے ہی دائیں ہاتھ ایک پُراسرار اَور صاف ستھرا کمرا نظر آیا۔ کمرے میں آرام دہ فرنیچر رکھا تھا۔
ملاقاتیوں کو یہیں بٹھایا جاتا تھا۔ کمرے سے کچھ فاصلے پر دوسری منزل کو جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ انتظارگاہ کے برابر میں ایک بند دروازہ تھا۔ نرس نے فاسٹر سے کہا:
’’آپ اندر جا سکتے ہیں، ڈاکٹر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اُلٹے قدموں لَوٹ گئی۔
چند ثانیے بعد فاسٹر نے آہستہ سے دروازے کو دَھکا دیا، تو وہ کھل گیا اور فاسٹر اندر دَاخل ہوا۔ پہلی نگاہ ہی میں اُسے معلوم ہو گیا کہ وہ لائبریری نما دفتر میں ہے۔
کمرے میں چاروں طرف لکڑی کی الماریوں اور رَیک میں چھت تک کتابیں ہی کتابیں بھری تھیں۔ کمرے کے وسط میں ایک میز پڑی تھی۔
میز کے قریب فائلیں وغیرہ رَکھنے کے لیے لوہے کی ایک کیبنٹ اور اُس کے اوپر بھی چند کتابیں۔
یہاں دیوار کا تھوڑا سا حصّہ خالی چھوڑا گیا تھا تاکہ وہ بورڈ لگایا جا سکے جس پر ادارے کی روزمرّہ کارروائی کا مختصر سا اندراج کیا جاتا تھا۔
فاسٹر کو اِحساس ہوا کہ کمرے میں کوئی بھی نہیں۔ وہ وَاپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایک شائستہ آواز گونجی:
’’ڈاکٹر فاسٹر!‘‘
یہ آواز باریک اور تیز تھی اور یقیناً میز کے عقب میں سے آئی تھی۔ فاسٹر نے دیکھا ایک پستہ قد شخص کرسی پر بیٹھا مسکرا رَہا ہے۔
اُسے اپنے آپ پر تعجب ہوا کہ وہ پہلے اِس شخص کو کیوں نہ دیکھ سکا۔ اُس کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی اور وُہ نہایت عمدہ تراش کا نفیس سوٹ پہنے ہوئے تھا۔
آنکھوں میں سنہری فریم کا قیمتی اور خوبصورت چشمہ تھا جس نے اُس کی شخصیت کو جاذبِ نظر بنانے میں بڑی مدد کی تھی۔
اُس کے چہرے پر سب سے زیاہ قابلِ ذکر چیز اُس کی ناک تھی۔ لمبی ستواں اور اِختتام پر کسی قدر اُبھری ہوئی۔ اُس کے سامنے ایک فائل کھلی تھی۔
’’جی ہاں، میرا نام ہی فاسٹر ہے۔‘‘
’’معاف فرمائیے، ڈاکٹر فاسٹر! مَیں آپ کے استقبال کے لیے اُٹھ نہیں سکتا۔‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’دراصل گزشتہ روز ایک معمولی سے حادثے میں میری ٹانگ زخمی ہو گئی۔‘‘
اُس نے کرسی پیچھے کھسکا کر اَپنی دائیں ٹانگ فاسٹر کو دِکھائی۔ ٹخنے پر پٹّی بندھی تھی۔ پھر اُس نے کہا ’’بہرحال یہ معمولی سا حادثہ تھا جو میری غفلت سے پیش آیا۔ آپ براہِ کرم تشریف رکھیے۔‘‘
’’مَیں آپ کا شکرگزار ہوں، ڈاکٹر اسٹار ۔‘‘ فاسٹر نے کہنا شروع کیا، لیکن اُس شخص نے نفی میں گردن ہلائی اور فاسٹر کا فقرہ قطع کرتے ہوئے کہا:
’’مَیں ڈاکٹر رُوتھر فورڈ ہوں ۔ میرا پورا نام ہے لائنل رُوتھر فورڈ!‘‘
فاسٹر ایک ثانیے کے لیے پریشان ہو گیا۔ اُس نے ہچکچاتے ہوئے کہا:
’’مگر مجھے تو یہاں ڈاکٹر اسٹار سے ملاقات کے لیے طلب کیا گیا تھا۔‘‘
’’آپ صحیح فرماتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر فورڈ نے کہا۔ ’’ڈاکٹر اسٹار اَور مَیں یہاں ایک ہی منصب اور مساوی عہدہ رَکھتے ہیں، اِس لیے اگر آپ مجھ سے مل لیں، تب بھی کچھ ہرج نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے سامنے رکھی ہوئی فائل اٹھائی اور وَرق الٹتے ہوئے کہا، ’’آپ کی آمد سے پیشتر مَیں آپ ہی کے کاغذات دیکھ رہا تھا۔
بلاشبہ آپ کا کیرئیر اِس شعبے میں قابلِ تعریف رہا ہے اور آپ بعض جدید ترین دماغی امراض کے شفاخانوں میں سینئر ہاؤس مین کی حیثیت سے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے ہیں۔
یہ تمام تعریفی اسناد اَور سرٹیفکیٹ یہی ثابت کرتے ہیں۔ ہمیں یقیناً آپ جیسے آدمی ہی کی ضرورت ہے۔‘‘
’’مَیں پھر شکرگزار ہوں۔‘‘ فاسٹر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’بہتر یہ ہو گا کہ آپ مجھے ڈاکٹر اسٹار سے بات کرنے کا موقع دیں۔ مَیں سمجھتا ہوں وہ اِس ادارے کے سربراہ ہیں۔ اُنھی نے مجھے انٹرویو کے لیے طلب کیا ہے اور اَخلاقی طور پر اُنہی سے گفتگو کا پابند ہوں۔ مجھے حیرت ہے کہ …..‘‘
’’اوہو ۔آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں ڈاکٹر۔‘‘ فورڈ نے بات کاٹ کر کہا۔
’’گھبرائیے نہیں ۔ آپ کی ملاقات ڈاکٹر اسٹار سے بھی ہو جائے گی۔ بےشک آپ اُنھی کی طلب پر یہاں آئے ہیں اور اُصولی طور پر آپ کو اُنھی سے ملاقات کرنی چاہیے تھی، مگر ڈاکٹر اسٹار اِس وقت کسی بھی فرد سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
یہاں مَیں اور ڈاکٹر اسٹار ایک ہی پوزیشن کے مالک ہیں۔ اِس لیے مَیں درخواست کروں گا کہ آپ فی الحال مجھی کو گفتگو کا شرف بخشیں۔‘‘
اور اِس سے پہلے کہ فاسٹر کچھ کہے، ڈاکٹر فورڈ نے کہنا شروع کیا:
’’آپ نے یہاں آتے ہوئے اِس عمارت کی کھڑکیوں پر آہنی سلاخیں لگی دیکھی ہوں گی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے پاس اِس وقت دنیا کے انتہائی خطرناک اور ناقابلِ علاج مریض ہیں۔
قریباً ہر مریض نے قتل کی بھیانک اور لرزہ خیز وارداتیں کی ہیں۔
یہ بدنصیب افراد مختلف پاگل خانوں میں رہنے کے بعد اِدھر بھیجے گئے ہیں اور اُنھی کی دیکھ بھال کے لیے ہمیں آپ جیسے قابل اور تجربےکار نوجوان ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔
علاج کے جس قدر ممکن طریقے رائج ہیں، وہ اُن مریضوں پر اچھی طرح آزما کر دیکھے جا چکے ہیں، مگر ہمیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ سبھی مریض بظاہر اپنے ہوش و حواس میں دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی بات چیت سے آپ قطعاً یہ اندازہ نہیں کر پائیں گے کہ یہ شدید ترین ذہنی مریض ہیں۔
حقیقت مگر یہی ہے کہ اُن کا مرض اپنے عروج تک پہنچ چکا اور ہماری دانست میں یہ لاعلاج ہیں۔ اُنھیں زندگی کے بقیہ دن بہرحال اِنھی آہنی سلاخوں کے پیچھے گزارنے ہوں گے۔‘‘
’’مجھے یہ جان کر افسوس ہوا۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’لیکن سوال یہ ہے کہ آپ لوگ اُن مریضوں کے درمیان زیادہ عرصے تک محفوظ کیسے رہ سکتے ہیں؟
آپ فرماتے ہیں کہ تقریباً ہر مریض نے قتل کی ایک آدھ واردات کی ہے۔ کیا اِس کا خدشہ نہیں کہ کسی بھی لمحے کوئی مریض اِس ادارے کے کسی ڈاکٹر، نرس یا عملے کے فرد پر حملہ کر کے اُسے جان سے مار ڈالے؟
اپنے بچاؤ کا آپ نے کیا انتظام کر رکھا ہے؟‘‘
’’مَیں جانتا تھا کہ آپ یہ سوال ضرور کریں گے۔‘‘ ڈاکٹر فورڈ نے کہا۔ ’’ آپ یہ صندوق دیکھ رہے ہیں جو میری میز کے دائیں کنارے رکھا ہے۔ اِس میں جدید ترین الیکٹرانک کنٹرول سسٹم بند ہے۔
اُوپر کی منزل میں پاگل رہتے ہیں اور ہمارے اور اُن کے درمیان ایک بےحد مضبوط آہنی دروازہ حائل ہے جو اِس الیکٹرانک کنٹرول سسٹم کے ذریعے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔
اِس کے بغیر دنیا کی کوئی طاقت اُسے کھول اور بند نہیں کر سکتی۔ جب تک مَیں ایک خاص بٹن نہیں دباؤں گا، نیچے سے یا اوپر سے کوئی شخص یہ دروازہ نہیں کھول سکتا۔
اِس کے علاوہ ہم نے پاگلوں کو الگ الگ کمروں میں بند کر دیا ہے۔ اُن کمروں کے دروازے اِس الیکٹرانک کنٹرول سسٹم سے ملحق ہیں، تاہم اُس کی نگرانی اوپر ہی رہنے والا ایک شخص کرتا ہے۔
اُس کی اجازت کے بغیر یہ دروازے نہ کھل سکتے ہیں اور نہ کوئی فرد اَندر یا باہر آ جا سکتا ہے۔‘‘
’’بہت خوب ….. اُن مریضوں کے ساتھ شب و روز گزارنا بےحد دلچسپ مشغلہ ہو گا۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’آپ کی طرح کیا ڈاکٹر اسٹار کی بھی اُن کے بارے میں یہی رائے ہے کہ وہ سب کے سب مریض انتہائی خطرناک اور ناقابلِ علاج ہیں؟‘‘
ڈاکٹر فورڈ کے لبوں پر ایک پُراسرار مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُس نے آہستہ سے کہا:
’’ڈاکٹر اسٹار بھی اِس وقت اوپر ہیں۔‘‘
فاسٹر حیرت سے فورڈ کا منہ تکنے لگا۔ اُسے اپنے سوال اور فورڈ کے جواب میں کوئی مطابقت نظر نہ آئی۔
’’آپ کا مطلب ہے ڈاکٹر اسٹار اِس وقت اوپر کی منزل میں کسی مریض کو دیکھ رہے ہیں؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ڈاکٹر اسٹار اِس وقت خود ذہنی مریض ہیں۔‘‘ فورڈ نے اطمینان سے جواب دیا اور مسکرانے لگا۔
دہشت کی نئی لہر ڈاکٹر جان فاسٹر کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ اُس کی تمام جسمانی حسیّات سمٹ کر آنکھوں میں آ چکی تھیں۔
ایک منٹ تک وہ پلک جھپکائے بغیر ڈاکٹر فورڈ کی صورت تکتا رہا۔ اُسے اُن الفاظ پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا جو ابھی ابھی ڈاکٹر فورڈ کی زبان سے ڈاکٹر اسٹار کے بارے میں ادا ہوئے تھے۔
’’غالباً آپ یہ سن کر پریشان ہو گئے ڈاکٹر فاسٹر۔‘‘ فورڈ نے کہا۔
’’یقین کیجیے مَیں سچ کہہ رہا ہوں۔ میری زخمی ٹانگ ڈاکٹر اسٹار ہی کے وحشیانہ حملے کا نتیجہ ہے۔ اُنھوں نے اچانک ایک چھری لے کر مجھ پر حملہ کر دیا تھا اور اَگر نرس ڈاکٹر اسٹار کو پکڑ نہ لیتی، تو خدا جانے کیا ہو جاتا۔ میرا خیال ہے اُن خطرناک پاگلوں کے ساتھ رات دن رہنے اور اُن کی باتیں سننے سے ڈاکٹر اسٹار کا ذہنی توازن خراب ہو گیا ہے۔
کچھ عرصے سے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ڈاکٹر اسٹار میں عجیب سی تبدیلی نمودار ہو رَہی ہے، مگر یہ احساس ہرگز نہ تھا کہ ایک دم یہاں تک نوبت پہنچ جائے گی۔
نرس اور اَردلی نے مِل جُل کر ڈاکٹر اسٹار پر قابو پایا اور اُسے اوپر پہنچا دیا۔ مَیں ابھی تک اُسے دیکھنے کے لیے اُوپر نہیں جا سکا۔ میرا ٹخنہ شدید زخمی ہے اور چلنے پھرنے میں خاصی دقّت ہوتی ہے۔‘‘
’’مَیں یہ واقعہ سن کر حیران ہوں۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’کیا ابھی تک کسی نے ڈاکٹر بی اسٹار کا معائنہ نہیں کیا؟‘‘
’’جی نہیں!‘‘ فورڈ نے جواب میں کہا۔
’’آپ آئے ہیں، تو خود اُن کا معائنہ کیجیے گا۔ ویسے اردلی روزانہ مجھے ڈاکٹر اسٹار کے رویّے کے بارے میں رپورٹیں دیتا ہے۔ یہ اردلی اُوپر ہی رہتا ہے اور مریضوں کی دیکھ بھال کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہا ہے۔
مجھے خود حیرت ہے کہ ابھی تک کسی مریض نے اردلی پر حملہ کیوں نہیں کیا۔
بہرحال اردلی کی رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹر اسٹار کی شخصیت یکسر بدل چکی ہے۔ اب وہ ڈاکٹر بی اسٹار نہیں، ایک نئی شخصیت ہے جس کا فی الحال کوئی نام نہیں رکھا گیا۔‘‘
’’ہو سکتا ہے ڈاکٹر اسٹار پر ہسٹیریا کا حملہ ہوا ہو۔ جدید نفسیات نے ثابت کر دیا ہے کہ اِس مرض کا شکار مرد بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فورڈ بےاختیار ہنس پڑا۔ فاسٹر کی سمجھ میں بالکل نہ آیا کہ اِس نازک موقع پر ہنسی کا کیا موقع تھا۔
’’آپ کا خیال ہے ڈاکٹر اسٹار مرد ہیں؟‘‘ فورڈ نے فاسٹر سے سوال کیا۔ ’’یہ بات آپ کے ذہن میں کیسے آئی؟‘‘
’’خود آپ ہی نے تو کہا تھا کہ …..‘‘ حددرجہ دم بخود اَور مضطرب ہو کر فاسٹر نے کہنا شروع کیا ہی تھا۔
’’جی نہیں۔ اب تک کی گفتگو میں مَیں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ ڈاکٹر اسٹار مرد ہیں یا عورت۔
ڈاکٹر بی اسٹار کے بارے میں آپ ہی نے خود بخود فرض کر لیا کہ وہ کوئی مرد ہے۔
بہرکیف ….. یہاں آپ کی قابلیت اور ذہانت کا تھوڑا سا امتحان بھی ہو جائے گا۔ کیا آپ اُوپر جا کر ڈاکٹر اسٹار کو پہچاننے کی کوشش کریں گے؟
ذرا معلوم کیجیے کہ اُن تمام خطرناک ذہنی مریضوں میں ڈاکٹر اسٹار کون ہے؟ تاہم مَیں یہ واضح کر دوں کہ اگر آپ اِس امتحان میں ناکام بھی ہو گئے، تب بھی آپ کی قابلیت اور صلاحیت پر کوئی حرف نہ آئے گا۔ ہم آپ کو یہاں ملازمت دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔‘‘
چند ثانیے رک کر فورڈ نے پھر کہا ’’غالباً ڈاکٹر اسٹار کو مرد فرض کر لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہو گی کہ آپ کسی پاگل خانے کے سربراہ کو عورت کی صورت میں دیکھنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں۔‘‘
’’بےشک! آپ کا خیال درست ہے۔‘‘ فاسٹر نے اقرار کیا۔ ’’مَیں اب بھی یقین نہیں کر سکتا کہ اِس پاگل خانے کی مہتمم کوئی عورت ہو سکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر فورڈ نے قہقہہ لگایا۔ ’’مگر اب آپ کو یقین کر لینا چاہیے کہ ڈاکٹر اسٹار ایک عورت بھی ہو سکتی ہے۔ کیا آپ اوپر جانے کے لیے تیار ہیں؟‘‘
’’تیار ہوں اور مجھے یقین ہے ڈاکٹر اسٹار کو پہچاننے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہو گی۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
ڈاکٹر فورڈ نے الیکٹرانک بکس لے کر زرد رَنگ کے ایک بٹن پر انگلی رکھی۔ ایک سیکنڈ میں اُس بکس کے برابر رکھے ہوئے چھوٹے سے اسپیکر میں ایک مردانہ کرخت آواز اُبھری۔
’’ڈاکٹر! فرمائیے کیا ارشاد ہے؟‘‘
’’رینالڈس! میری بات غور سے سنو۔‘‘
ڈاکٹر فورڈ نے ایک ننھا سا مائیکروفون اپنے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
’’مَیں ایک نوجوان کو اُوپر بھیج رہا ہوں۔ اِن کا نام ہے ڈاکٹر جان فاسٹر۔ یہ یہاں کام کرنے آئے ہیں۔ اِن کا ایک چھوٹا سا امتحان لیا جا رہا ہے۔ میری ہدایات اِن کے بارے میں یہ ہیں …..۔‘‘
ڈاکٹر فورڈ ہدایات دیتا رہا اور جان فاسٹر اپنی نشست پر بیٹھا پہلو بدلتا رہا۔ اُس کی پیشانی سخت سردی میں بھی عرق آلود ہو رہی تھی۔ دِل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
اُسے شک ہوا کہ اردلی رینالڈس اور ڈاکٹر فورڈ کے مابین جو گفتگو اِس وقت ہو رہی تھی، اُس کی ریہرسل پہلے سے کی جا چکی ہے۔
اِس احساس نے فاسٹر کو اَندرونی طور پر مضطرب کر دیا۔ یہ کوئی گھناؤنی سازش تو نہیں ہو رہی؟ اُسے کسی فریب کا شکار تو نہیں بنایا جا رہا؟
آنِ واحد میں سینکڑوں سوال اُس کے ذہنی افق پر اُبھرے اور معدوم ہو گئے۔ ہو سکتا ہے یہ سب کچھ اُس کا وہم ہو۔ آخر اِن لوگوں کو اُس سے کیا دشمنی ہو گی۔
’’اب آپ اُوپر جا سکتے ہیں۔‘‘ اُس کے کان میں ڈاکٹر فورڈ کی آواز جیسے کوسوں میلوں دور سے آ رہی تھی۔
’’مَیں نے رینالڈس کو آپ کے سامنے ہی سب کچھ سمجھا دیا ہے۔
اُمید ہے وہ اِن ہدایات پر اچھی طرح عمل کرے گا۔ ویسے بھی اُس کی موجودگی میں کوئی خطرہ نہیں۔ مَیں آپ کی کامیابی کا متمنی ہوں۔ خدا کرے آپ اتنے وحشی اور خطرناک مریضوں میں ڈاکٹر اسٹار کو پہچان سکیں؟‘‘
ڈاکٹر روتھر فورڈ کے دفتر کا دروازہ بند کر کے جان فاسٹر چپ چاپ باہر نکل آیا۔ اُس کے سامنے ہی اُوپر کی منزل کو جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ بائیں جانب ایک چھوٹا سا برآمدہ طے کرنے کے بعد وہ آہنی دروازہ تھا جس کا کنٹرول الیکٹرانک بکس میں رکھا گیا تھا۔
ڈاکٹر اسٹار کے بارے میں فورڈ نے جو کچھ کہا تھا، اُس میں مبالغہ بھی ہو سکتا تھا۔ آخر اِس بات کی کیا ضمانت تھی کہ جو کہانی فورڈ نے سنائی، وہ حرف بہ حرف درست ہے؟
فاسٹر نے اوپر جانے سے پہلے اُس نرس سے ملنا مناسب سمجھا جس کی آواز مردانہ تھی اور جس نے بقول فورڈ، اُسے ڈاکٹر فورڈ کے خونی حملے سے بچایا تھا۔
فاسٹر کا ارادہ تھا کہ اُس خاتون سے چند اور باتیں بھی معلوم کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ وہ سیڑھیوں کے ذریعے اُوپر جانے سے پہلے اُس نرس کی تلاش میں واپس اُسی راہداری میں آیا۔
انتظارگاہ میں دیکھا، نرس وہاں نہ تھی۔ پھر وہ اُس طرف گیا جدھر سے آیا تھا، لیکن نرس تو درکنار، وہاں سرے سے کوئی ذی روح تھا ہی نہیں۔
فاسٹر کو تعجب ہوا کہ اتنی بڑی عمارت میں کوئی فرد وَ بشر موجود نہیں۔ اِس تلاش میں ناکام ہو کر وہ سیڑھیوں کی طرف آیا۔
سیڑھیوں کے دائیں جانب دیوار پر خوبصورت فریموں میں چند تصویریں لگی تھیں جن میں مختلف ذہنی مریضوں کی عکاسی کی گئی تھی اور اُن کی مجنونانہ اور وَحشیانہ حرکات ظاہر کی گئی تھیں۔ فاسٹر کی سمجھ میں نہ آیا کہ اِن تصویروں کو یہاں سجانے کا آخر کیا مقصد ہے۔
آخری سیڑھی تک یہ تصویریں چلی گئی تھیں۔ سیڑھیوں کی تعداد تیس کے قریب تھی اور آخری سیڑھی تک پہنچتے پہنچتے فاسٹر کا سانس خاصا پُھول چکا تھا۔
آخری سیڑھی کے ساتھ ہی کوئی بارہ فٹ لمبا ایک برآمدہ تھا اور اُس کے پرلی طرف ایک بڑا آہنی دروازہ صاف نظر آتا تھا۔
دروازے کے دائیں جانب کوئی پانچ فٹ کی اونچائی پر چھے انچ لمبی اور چھ انچ چوڑی ایک کھڑکی تھی، لیکن اُس میں بھی لوہے کی سلاخیں لگائی گئی تھیں۔
فاسٹر نے دروازے کے قریب پہنچ کر اُس کھڑکی میں جھانکا۔ اُسے ایک اسپاٹ دیوار کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیا۔ اِس کے بعد اُس نے غور سے دروازے کا جائزہ لیا۔
اُسے کھولنے کے لیے کوئی ہینڈل وغیرہ نہ تھا۔ اُس نے دروازے کی آہنی سطح پر ہاتھ رکھا اور اُسے دبایا، مگر بےسود۔ یکایک اُس نے محسوس کیا کہ چھوٹی سی کھڑکی کے پرلی طرف ایک چہرہ موجود ہے۔
اُس چہرے پر لگی دو چمکیلی آنکھیں ڈاکٹر فاسٹر کا گہرا جائزہ لے رہی تھیں۔ فاسٹر نے بھی سیدھا کھڑا ہو کر اُسے گھورنا شروع کر دیا۔
یکایک ایک آواز اُس کے کان میں آئی:
’’کیا آپ ہی ڈاکٹر جان فاسٹر ہیں؟‘‘
’’جی ہاں! یہی میرا نام ہے اور مجھے ڈاکٹر روتھر فورڈ نے یہاں آنے کی اجازت دی ہے۔‘‘
’’خوش آمدید۔” یہ کہہ کر وہ چہرہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد پرلی طرف سے چند مدھم انسانی آوازیں سنائی دیں، لیکن فاسٹر سمجھ نہیں پایا کہ یہ آوازیں ایک دوسرے سے کیا کہہ رہی ہیں۔
پھر ایک گونج دار آواز برآمدے میں پھیلنے لگی اور فاسٹر نے دیکھا کہ آہنی دروازہ آہستہ آہستہ کھل رہا ہے۔
سامنے ہی سفید لمبا کوٹ پہنے گٹھے ہوئے بدن کا ایک طویل القامت آدمی کھڑا ہے۔ اُس نے مسکراتے ہوئے مصافحے کے لیے اپنا مضبوط پنجہ پھیلایا۔
’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی ڈاکٹر۔ میرا نام میکس رینالڈس ہے۔‘‘
فاسٹر نے خوش دلی سے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا:
مَیں بھی آپ کو دیکھ کر خوش ہوا۔‘‘
’’آئیے، بےتکلف اندر آ جائیے۔‘‘ رینالڈس نے کہا اور فاسٹر دروازہ پھلانگ کر اُدھر چلا گیا۔
اُس نے دیکھا دروازے کے ساتھ ہی دیوار میں ایک انٹرکام لگا ہے۔
اردلی نے انٹرکام کا ریسیور اُٹھایا اور نچلی منزل میں ڈاکٹر فورڈ کو آگاہ کیا کہ مسٹر جان فاسٹر اوپر آ چکے ہیں۔
انٹرکام دوبارہ دِیوار پر لگانے کے بعد رینالڈس، ڈاکٹر فاسٹر کی طرف مڑتے ہوئے بولا:
’’جناب مَیں ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں۔‘‘
اِس دوران میں پھر وہی گونج دار آواز پیدا ہوئی اور آہنی دروازہ جس طرح کھلا تھا، ویسے ہی آہستہ آہستہ بند ہو گیا۔
’’مسٹر میکس رینالڈس! آپ مجھے ڈاکٹر کے بارے میں کیا کچھ بتا سکتے ہیں؟‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’آپ ڈاکٹر روتھر فورڈ کے بارے میں پوچھتے ہیں، نہایت نفیس آدمی ہیں وہ۔‘‘ رینالڈس نے جواب دیا۔
’’مَیں ڈاکٹر اسٹار کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے اپنا سوال واضح کیا۔
میکس رینالڈس نے فوراً ہی جواب نہ دیا، بلکہ چند ثانیے فاسٹر کی طرف سنجیدگی سے تکتا رہا۔ آخر اُس نے صاف الفاظ میں کسی ابہام کے بغیر کہا:
’’مجھے افسوس ہے! مَیں ڈاکٹر بی اسٹار کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکوں گا۔ مَیں بےحد معذرت خواہ ہوں کہ اِس سوال کا جواب دینا میرے فرائض میں داخل نہیں۔
ڈاکٹر فورڈ ابھی تھوڑی دیر پہلے جو ہدایات دے رہے تھے، اُن کے تحت مَیں مجبور ہوں۔ ویسے ہر طرح میرا تعاون آپ کے لیے حاضر ہے، مگر مَیں کسی قسم کا سراغ فراہم نہیں کروں گا۔‘‘
’’پھر یہ سوال ہے کہ مَیں اپنے کام کا آغاز کہاں سے کروں گا؟‘‘ فاسٹر نے دوبارہ پوچھا۔
’’یہ اتنا مشکل نہیں۔‘‘ رینالڈس مسکرایا۔ ’’اِس شفاخانے کے پہلے مریض سے آپ اپنے کام کا آغاز کر سکتے ہیں۔ میرے ساتھ آئیے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ بائیں طرف چل پڑا۔ اُسے یقین تھا کہ ڈاکٹر اُس کے عقب میں آئے گا۔
وہ دونوں ایک تنگ سی راہداری میں چل رہے تھے جس میں مدھم مدھم روشنی تھی۔
راہداری کے دونوں جانب کمرے تھے اور ہر کمرے کا دروازہ مقفّل۔ فاسٹر نے غور سے اُن بند دروازوں کو دیکھتے ہوئے کہا:
’’کیا اِن سب کمروں میں مریض داخل ہیں؟‘‘
’’جی نہیں! بعض کمرے خالی بھی ہیں۔‘‘ رینالڈس کا جواب تھا۔ ’’تاہم مجھے ہدایت ہے کہ خالی کمرے بھی ہمیشہ مقفّل رکھوں۔
اِس کی وجہ محض حفاظتی اقدامات ہیں۔ فرض کیجیے کوئی مریض اپنے کمرے سے کسی طرح نکلتا ہے، تو اُسے خالی کمرے میں چھپ جانے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
پس لامحالہ اُسے اپنے ہی کمرے میں واپس جانا پڑے گا۔ یوں میرا کام خاصا آسان ہو جاتا ہے۔‘‘
اِس اثنا میں فاسٹر نے ایک کمرے کا دروازہ ذرا سا کھلا دیکھا اور اُس کی نظریں سوالیہ انداز میں رینالڈس کی طرف اُٹھ گئیں۔
’’یہ میرا دَفتر ہے جناب۔‘‘ رینالڈس نے کہا۔ لیکن فاسٹر نے گردن ہلائی جیسے اُس کے جواب سے اطمینان نہیں ہوا۔
’’مگر تمہارے دفتر میں تو کوئی بھی پاگل چھپ سکتا ہے۔‘‘
’’آپ صحیح کہتے ہیں، یہ میری کاہلی کے باعث کھلا رہ گیا تھا۔‘‘
یہ کہہ کر رینالڈس نے اپنے دفتر کا دروازہ بھی مقفّل کر دیا۔
’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ دماغی امراض کے مریض چوبیس گھنٹے اپنے اپنے کمروں میں قید رہتے ہیں۔‘‘
فاسٹر نے کہا ’’اور یہ کوئی اچھی بات نہیں، یہ تو ظلم ہے۔‘‘
’’مَیں اِس امر کا فیصلہ نہیں کر سکتا اور نہ یہ میرے فرائض میں داخل ہے۔‘‘ رینالڈس نے جواب دیا۔
’’تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اِس میں خود پاگلوں کی بہتری ہے۔‘‘
وہ دونوں چلتے چلتے ایک بند دروازے کے قریب رک گئے۔
رینالڈس نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے چھوٹی بڑی چابیوں کا ایک بڑا سا گچھا نکالا اور کنجی چھانٹ کر دروازے میں لگے قفل میں ڈال دی۔ فاسٹر نے کہا:
’’تم پہلے مریض سے میری ملاقات کرا رَہے ہو؟‘‘ رینالڈس تالا کھولتے کھولتے رک گیا، پھر اُس نے اثبات میں گردن ہلائی۔
’’آپ ٹھیک سمجھے، ڈاکٹر اِس مریضہ کا نام بُونی ہے۔‘‘
’’مریضہ؟‘‘ فاسٹر نے جلدی سے کہا۔ ’’اِس پاگل خانے میں کتنی مریضائیں داخل ہیں؟‘‘
اِس سوال پر رینالڈس زیرِلب مسکرایا:
’’افسوس کہ مَیں فی الحال اِس کا جواب نہیں دے سکتا۔ جتنی بھی مریضائیں یہاں موجود ہیں، سب ایک ایک کر کے آپ کے سامنے آ جائیں گی۔
مجھے فی الحال ڈاکٹر فورڈ کے احکام کی تعمیل کرنی ہے اور مَیں آپ کو صرف وہی معلومات دے سکوں گا جس کی مجھے اجازت ہے۔
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں آپ کو کسی قسم کا کوئی سراغ فراہم نہ کروں۔ اِسی طرح مجھے یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ آپ سے ازخود کچھ نہ پوچھوں۔‘‘
تالا کھول کر وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔
فاسٹر نے گھومتی نگاہ سے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک گوشے میں پلنگ پر صاف ستھرا بستر بچھا تھا۔ دوسرے گوشے میں لکڑی کی چھوٹی سی الماری جس میں چار پانچ درازیں تھیں۔
اِس کے علاوہ بیٹھنے کے لیے دو کرسیاں بھی۔ کمرے میں کسی قسم کی کوئی زیبائش آرائش نہ تھی، حتیٰ کہ چہرہ دَیکھنے کے لیے کوئی آئینہ بھی نہ تھا۔
ایک واحد کھڑکی میں لوہے کی موٹی موٹی سلاخیں لگی تھیں اور اُس کے پاس مریضہ خاموش بیٹھی کوئی غیرمرئی چیز دیکھ رہی تھی۔
کمرے میں معمولی روشنی تھی اور یہ روشنی بھی کھڑکی کے راستے آ رہی تھی، ورنہ یہاں کوئی برقی قمقمہ نہ تھا۔
بُونی نے آنے والوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور مسلسل اپنے سامنے ہی دیکھتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُسے کسی کے آنے کی خبر ہی نہیں ہوئی۔
فاسٹر دبے پاؤں چلتا بُونی کے اور قریب گیا اور نزدیک سے اُس کا جائزہ لینے لگا۔
(جاری ہے) پڑھیئے حصہ دوم
https://shanurdu.com/pagal-khana-part-2/