13 C
Lahore
Thursday, December 19, 2024

Book Store

عجیب نمونہ(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

سترہویں قسط
(17)

عجیب نمونہ

مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر وہ دونوں کھانا کھانے میں مصروف تھے. روزہ انہوں نے پھل اور کھجوروں سے کھولا تھا۔ اب وہ دونوں خمیری افغانی روٹی کے ساتھ پیاز گوشت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
یہ چھوٹی سرخ اینٹوں کا دو منزلہ گھر تھا۔ پیچھے دو کمرے، برآمدے کے بغل میں رسوئی۔ اس سے آگے بیٹھک جس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا تھا ،ایک گھر کے آنگن میں۔
گھر میں داخل ہوں تو بڑا لکڑی کا دروازہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ صحیح کہتے ہیں کہ گھر کا دروازہ ماتھے کا جھومر ہوتا ہے۔  اندر داخل ہوں تو سیڑھیوں کے نیچے طہارت خانہ جس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔
سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو گھر کا چوبارہ نظر آئے گا۔ چوبارہ گلی کی طرف بنا ہوا تھا۔ یہ خوبصورت مکان کسی سکھ سردار نے غدر سے پہلے بڑے شوق سے بنوایا تھا۔ اب یہ بابا جمعہ کی ملکیت تھی۔
مکین کون ہوا ہے؟اور مکان کس کا تھا؟ گھر کے آنگن میں بہت سارے پھولوں کے پودے گملوں میں سجے ہوئے تھے۔ گھر میں ہمیشہ بھینی بھینی خوشبو آتی رہتی۔ کچھ تو پھولوں کی تھی اور کچھ ایمان کی خوشبو۔
بابا جمعہ کہتے ، سب سے اچھی خوشبو ایمان کی ہوتی ہے۔
’’آپ کو لگتا ہے،مزہ نہیں آیا۔‘‘ بلال نے مٹی کی پلیٹ میں پیاز گوشت ڈالتے ہوئے بابا جمعہ سے کہا جو اپنی مٹی کی پلیٹ صاف کر چکے تھے۔
’’بلال تم بناؤ پیاز گوشت اور مزہ نہ آئے،یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ بابا جمعہ مسکراتے ہوئے بولے :
’’مگر بات یہ ہے بھوک مرنے نہ دو۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ بلال نے تجسس سے پوچھا۔
’’مزہ بھوک کو زندہ رکھنے میں ہے۔ بھوک کو ختم کرنے میں نہیں۔ بھوک زندہ رکھو اور لالچ کو ختم کر دو۔‘‘
بلال اپنا کھانا ختم کرچکا تھا۔ اس نے برتن اٹھائے دسترخوان سمیٹا ، چٹائی کو لپیٹ کر رکھ دیا اور ہاتھ دھو کر آ گیا۔
بابا جمعہ اپنے پلنگ پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اوپر انہوں نے ایک گرم لوئی لی ہوئی تھی۔ بلال ان کے سامنے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’بلال صاحب، کمزور انسان بھوک سے مر جاتا ہے۔ راہب اور جوگی بھوک مار دیتا ہے۔ مومن کی بھوک ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ بھوک نیکی کرنے کی، اچھائی، صدقہ ، خیرات، بھلائی کرنے کی۔ اگر پیٹ کی بھوک کی بات ہو تو اسے بھی زندہ رکھو۔ ختم نہ کرو ۔صحت مند رہو گے۔‘‘

۞۞۞۞۞

وہ دونوں سرونٹ کواٹر میں ایسے کھانا کھا رہے تھے جیسے باراتی کھاتے ہیں۔ حق سے، رُعب سے منہ کھول کر دھڑلے سے اسی وقت باجی غفوراں اندر داخل ہوئی۔
’’وے رج کے کمینیو…خصما نوں خانے…اِدھر غرق ہوئے نے …میں نے سارا گھر چھان مارا۔‘‘ باجی غفوراں بول رہی تھی ۔
’’باجی آ جا…بڑا مزیدار سالن ہے۔‘‘ SMS نے دعوت دی۔
’’تم دونوں سے کچھ بچے گا، تو کھالوں گی۔ ‘‘باجی غفوراں نے جواب دیا۔
’’بلال صاحب نے تو عیاشی کروا دی آج۔” DJ نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے بولا۔
’’بلال نے پکایا ہے؟‘‘ باجی غفوراں نے محبت سے پوچھا۔
دونوں نے اثبات میں گردن ہلائی۔
’’ بلال نے پکایا ہے تو آدھی روٹی کا سالن چھوڑ دینا۔‘‘
مگر ان دونوں نے پلیٹ صاف کر دی۔ باجی غفوراں نے دیکھ کر کہا :
’’شودے نا ہون تے (بھوکے کہیں کے)‘‘
’’یار …DJ…مزہ آ گیا۔‘‘ SMS نے منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’واقعی مزہ آ گیا۔‘‘ DJ ڈکار لیتے ہوئے بولا۔
’’بلال صاحب کے ہاتھ چومنے کو دل کرتا ہے۔‘‘
’’وڈے ہیجلے بلال کے ۔اک جاسوس اور دوسرا چمچہ۔‘‘باجی غفوراں نے وہاں سے جاتے ہوئے ترش لہجے میں کہا۔
جب باجی غفوراں پورچ کے پاس سے گزر رہی تھی تو بلال گاڑی سے اتر رہا تھا۔
’’ آپ میرے کمرے میں آئیں۔ ‘‘بلال اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بولا ۔ باجی غفوراں بلال کے پیچھے اس کے کمرے میں پہنچ گئی۔
’’باجی ! فریج میں آپ کے لیے پیاز گوشت رکھا ہے۔وہاں سے لے لیں۔‘‘ بلال وارڈ روب سے کپڑے نکال کر واش روم جاتے ہوئے بولا۔
غفوراں چند منٹ اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں بلال کھڑا تھا جیسے کچھ سوچ رہی ہوں۔
اتنے میں بلال کپڑے چینج کر کے آ چکا تھا۔ باجی غفوراں بلال کی موجودگی سے بے نیاز اسی جگہ کو دیکھ رہی تھی۔
’’باجی! کہاں کھو گئیںآپ؟ خیریت تو ہے؟‘‘ بلال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بیٹا۔ سوچ رہی تھی ، آج باجی جمیلہ زندہ ہوتیں تو تمہیں دیکھ کر بڑا مان کرتیں۔‘‘ حسرت بھری آواز سے باجی غفوراں نے کہا۔
’’باجی اس کی نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے،مان نہیں۔‘‘
’’بیٹا! تُو بھی بڑا اور تیری باتیں بھی۔ ہمارے گاؤں میں بڑے میاں جی ہوتے تھے ۔
بڑے سیانے، بڑے نیک۔ جس کو پھونک مار دیتے وہ ٹھیک ہو جاتا ۔
پر تُو، تو بغیر پھونک کے ہیبندے کو ٹھیک کر دیتا ہے۔ ‘‘
’’پھر بلال نے فوزیہ سے کہا… وہ فرض تو معاف کردیتا ہے …مگر قرض نہیں …‘‘توشی سارے دن کا احوال دادی کو سنارہی تھی۔
’’نوشی کہاں ہے …؟‘‘دادی نے پوچھا۔
’’وہ ماما کے ساتھ کسی پارٹی میں گئی ہے …‘‘توشی نے بتایا۔ ساتھ ہی کہنے لگی : ’’دادو ! کل ہم بھی تیل مہندی پر جوہر ٹائون جارہے ہیں ‘‘
’’جوہر ٹائون کون ہے …؟ جس کی تیل مہندی پر جارہے ہو؟‘‘دادی نے پوچھا۔
’’دادو وہ ہماری کلاس فیلو ہے…اس کی شادی ہورہی ہے ‘‘
’’اور کون…کون جارہا ہے ‘‘دادی نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’میں اور نوشی…DJبھی ساتھ ہوگا۔ ‘‘
’’بیٹا کوئی سیانا ساتھ ہونا چاہیے… ‘‘
’’DJساتھ ہے نا …دادو…‘‘
’’جھلی نہ ہوئے تے…بھلا DJکب سے سیانا ہوگیا…سیانا بیٹا جیسے گل شیر خان جیسے بلال…‘‘
’’دادو اور پاپا…‘‘توشی نے پوچھا۔
’’بیٹا تو وہ میرا ہے …مگر سیانا نہیں…لائی لگ ہے…اور لائی لگ اپنی عقل کم استعمال کرتے ہیں اور دوسرے کی بات زیادہ مانتے ہیں…وہ تو اللہ کا کرم ہو گیا…گل شیر خان جیسا ایماندار بندہ مل گیاتیرے باپ کو… ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا… فون آیا تھا…دو تین دن میں آ جائے گا …تیرا باپ …‘‘اتنے میں بلال کمرے میں داخل ہوا۔
’’دادو میرا موبائل روم میں پڑا ہے…میں لے کر آتی ہوں…‘‘توشی جاتے ہوئے بولی۔
’’کس سے ملا کر لائے ہو …اسے…جب سے آئی ہے …آنٹی عذرا ایسی ہیں انہوں نے یہ کہا …ڈاکٹر محسن ایسا ہے…بڑے اچھے ہیں وہ لوگ ‘‘نانی نے بلال سے پوچھا۔
’’نانو…وہ میرا کلاس فیلو تھا کالج میں پھر وہ چائنہ پڑھنے کے لیے چلا گیا آج اچانک ملاقات ہو گئی‘‘
’’حیرت ہے …تمہارا بھی کوئی دوست ہے ‘‘
’’نہیں وہ…دوست تو …ہاں دوست ہے ‘‘بلال سوچ کر بولا۔
’’کیسا ہے…گھر بار…دیکھنے میں…خاندان…لوگ کیسے ہیں ‘‘نانی نے سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔
’’ڈاکٹر ہے …دیکھنے میں خوبصورت ہے …شریف لوگ ہیں…اور خاندانی بھی۔ ‘‘ بلال نے ساری تفصیل بتائی۔
’’باپ کیا کرتا ہے…کتنے بہن بھائی ہیں…رہتے کہاں ہیں…‘‘نانی نے پھر سے تفصیل پوچھی۔
’’باپ تو فوت ہوچکا ہے…لوہے کا کاروبار کرتا تھا ۔
دو بڑے بھائی ہیں شادی شدہ…اور شادباغ کے رہنے والے ہیں ‘‘
شادباغ کا نام سن کر نانی اور بلال نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر فوراً نظریں چرا لیں۔
ایک دوسرے سے جیسے دونوں کے زخم ہرے ہوگئے ہوں۔ اتنے میں توشی کمرے میں واپس آ گئی۔ خاموشی دیکھ کر بول پڑی:
’’یہ لو۔ خیریت تو ہے  ۔ آپ دونوں اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ دادو میرا ڈریس۔ عذرا آنٹی نے دیا ہے۔‘‘
’’سوٹ تو بڑا خوبصورت ہے  اور مہنگا بھی لگتا ہے۔‘‘ دادی نے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہاں مجھے یاد آیا ۔ وہ ایک کام تھا تم سے ۔‘‘ توشی بولی عجلت میں۔
’’جی…حکم…فرمائیے۔‘‘ بلال دھیمے لہجے میں بولا۔
’’میری ایک دوست ہے ۔ اسے نوکری چاہیے۔ ٹیچر ہے۔ بی ایڈ کیا ہوا ہے۔ ‘‘
’’کیا شادی شدہ ہے ؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں…‘‘توشی نے گردن ہلا کر جواب دیا۔
’’اور وہ تمہاری دوست ہے ۔ تمہیں پتہ ہی نہیں اس کے متعلق۔ ‘‘ بلال نے حیرت سے کہا۔
’’مسٹر بلال تمہاری سائیکی تم ہی جانو۔
کل میں اسے تمہارے آفس بھیج رہی ہوں۔ میں وعدہ کرچکی ہوں۔ یاد رکھنا۔ دادو اسے سمجھا دیں۔ورنہ میں۔‘‘ توشی بلال کو انگلی دکھا کر مصنوعی غصے سے چلی گئی۔
’’رکھ لینا بیٹا ۔ کیا فر ق پڑتا۔ وعدہ کر بیٹھی ہے۔ ‘‘ نانی نے بھی سفارش کر دی۔
’’نانو وہ تو ٹھیک ہے ۔فرق مجھے تو کوئی نہیں پڑتا۔
مگر اسکول کا معاملہ ہے۔
جوان بچیاں پڑھتی ہیں۔ لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ بھروسا کرتے ہیں ۔ ایک گندی مچھلی۔ خیر صبح دیکھتے ہیں۔ ‘‘ بلال ایک زیرک انسان کی طرح بول رہا تھا۔
ہفتے کا دن ، نومبر کی تیس تاریخ۔ آج سورج چھٹی پر تھا۔
آسمان پر بادلوں کا راج تھا، کالے سیاہ بادل سورج کو تیور دکھا رہے تھے۔
اسکول میں چھٹی کردی گئی تھی مقرر وقت سے آدھ گھنٹے پہلے ہی بچے جاچکے تھے ۔
سٹاف کے لوگ کچھ جاچکے تھے اور کچھ بارش سے پہلے پہلے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
بلال آفس میں موجود تھا اور فوزیہ کا کام بھی وہی دیکھ رہا تھا۔
فوزیہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر گھر آچکی تھی۔
اتنے میں آفس بوائے نے آکر بتایا :
’’سر…! کوئی لڑکی آئی ہے…کہتی ہے توشی میڈم نے بھیجا ہے‘‘
’’اس وقت…خیر بھیج دو…‘‘بلال نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
وہ آفس میں آچکی تھی، بلال اپنی آفس چیئر پر بیٹھا ہوا تھا، وہ اجازت لے کر بلال کے سامنے آفس ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھ گئی۔
اس لڑکی نے کالی چادر سے نقاب کیا ہوا تھا، صرف اُس کی کالی سیاہ موٹی موٹی آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔
’’سر…!میں…نوکری کے سلسلے میں حاضر ہوئی تھی…مجھے توشی میڈم نے… بھیجا ہے‘‘اس لڑکی نے رک رُک کر کہا۔
’’آپ کے پاس CV ہے…؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’سر…وہ…تو میں لے کر نہیں آئی۔‘‘ اس لڑکی نے پھر سے رک رک کر جواب دیا۔
’’اس سے پہلے آپ نے کہاں جاب کی؟ ‘‘بلال نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا۔
’’وہ ماڈل ٹاؤن میں ایک بوتیک تھی … وہاں پر…‘‘ وہ لڑکی کچھ بہتر انداز میں بولی۔
’’وہاں سے کیوں چھوڑا آپ نے…؟‘‘بلال نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
’’سر…آپی نے بوتیک بیچ دی…اور خود باہر چلی گئیں۔‘‘لڑکی نے بتایا۔
’’آپ کی تعلیم کتنی ہے…؟‘‘
’’سر BA کیا ہے‘‘لڑکی نے سوچ کر جواب دیا۔
’’مگر توشی بتا رہی تھی…کہ آپ نے بی ایڈ کیا ہے۔‘‘ بلال نے تشویش کے انداز میں پوچھا۔
’’سر میں بہت مجبور ہوں۔ میری ماں بھی بیمار ہے اور والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔
دو بڑی بہنیں ہیں۔ وہ گجرات میں رہتی ہیں۔ ان کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں ہیں۔
بھائی میرا کوئی نہیں۔ آپ خدا کے لیے مجھے نوکری دے دیں۔‘‘
لڑکی نے اپنی دکھ بھری داستان سنا دی۔
’’آپ یہ رکھ لو …‘‘بلال نے کچھ دیر سوچ کر اچھی خاصی رقم اس کی طرف ٹیبل پر رکھ دی :
’’سر…مجھے نوکری چاہیے…خیرات نہیں۔‘‘ لڑکی نے تیکھا سا جواب دیا۔
’’یہ خیرات نہیں ہے…قرض ہے … جب ہوں تو لوٹا دیجیے گا…
میں واپسی کا تقاضہ نہیں کروں گا…‘‘ بلال نے شائستگی سے جواب دیا۔
اس لڑکی نے آنکھ بھر کر بلال کو دیکھا اور نظروں کے تیر چلائے۔
بلال نے حیا کی زرّہ سے ان تیروں کا جواب مسکرا کر دیا۔۔
اس کے بعد اس نے ٹیبل پر پڑے روپے اٹھا لیے اور باہر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد بلال آفس سے نکلا تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔
سارا سٹاف جاچکا تھا سوائے آفس بوائے اور سکیورٹی گارڈ کے۔
بلال کی گاڑی سے تھوڑی دور وہ کھڑی تھی۔
بارش میں ایک چھوٹے درخت کے نیچے بلال نے اسے دیکھا تو گارڈ سے کہا کہ اسے بھیجو میرے پاس۔
بلال گاڑی میں بیٹھ چکا تھا وہ لڑکی پاس آئی۔
’’آپ بارش میں کیوں کھڑی ہیں؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’میرے پاس گاڑی نہیں ہے…‘‘اور رکشہ ابھی ملا نہیں…‘‘
اس نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔
’’آپ بیٹھو میں چھوڑ دیتا ہوں‘‘بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
’’حیرت ہے…نوکری آپ نے دی نہیں اور لفٹ دے رہے ہیں۔ ‘‘
وہ گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولی۔
’’نوکری میں میرٹ پر دیتا ہوں …اور مدد …‘‘
بلال مدد کے بعد بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خاموش رہا۔
’’میرا نام نوین حیات ہے۔ میرے ابا فوج میں صوبیدار تھے۔
ان کے انتقال کے بعد ہماری یہ حالت ہوئی۔ شکر ہے گھر اپنا ہے اور ان کی پینشن سے گزارہ ہوتا ہے مگر امی کی بیماری کی وجہ سے میں مقروض ہوگئی ہوں، امی مجھے پیار سے نیناں کہتی ہیں‘‘
’’آپ کا گھر کہاں ہے؟‘‘ بلال نے نیناں کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
نیناں نے بلال کی طرف غور سے دیکھا اور اپنے گھر کا ایڈریس بتایا۔
تھوڑی دیر بعد ٹائون شپ کے ایک خستہ حال سنگل سٹوری گھر کے سامنے گاڑی کھڑی تھی۔
سارے سفر کے دوران بلال نے اسے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
سارا سفر ونڈ اسکرین سے باہر نظریں جمائے گزار دیا۔
بلال کو اس کی باتوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
’’آپ کا گھر آگیا…‘‘بلال نے اسے بغیر دیکھے بے تاثر لہجے میں کہا۔
نیناں نے اسے اپنی موٹی موٹی کالی سیاہ آنکھوں سے دیکھا۔ جیسے بلال کا جائزہ لے رہی ہو۔ ’’شکریہ‘‘یہ بول کر نیناں گاڑی سے اتر گئی۔
ہلکی ہلکی بارش اب بھی جاری تھی۔ بلال کی گاڑی جاچکی تھی اور وہ بارش میں کھڑی جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھ رہی تھی۔
’’عجیب نمونہ ہے ‘‘

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles