احساس کے انداز
آلو کی شاندار فصل
مگر کسان پریشان؟
تحریر ۔ جاوید ایاز خان
زراعت ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے. ایک اندازے کے مطابق قومی آمدنی میں زراعت کا ۲۱ فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔ ملک کے ۴۵ فیصد لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔
ہر حکومت کو اس بات کا احساس ہوتا ہے۔ وہ زرعی شعبے کی ترقی اور خوشحالی کو معاشی منصوبہ بندی کا بنیادی ستون تصور کرتی ہے، کیونکہ زراعت کو قومی معیشت میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
اس لیے اس کے مسائل پر توجہ دینا اہم ہوتا ہے ۔ اکثر فصلوں اور سبزیوں کی پیداوار بہت بڑھی ہے ، مگر مشکل یہ ہے کہ سبزیوں کے جلدی خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے ۔
ہمارے ملک میں انہیں زیادہ دیر محفوظ رکھنے کے خاطر خواہ انتظام نہ ہونے سے ان کے ضائع ہونے اور کسان کو مالی نقصان کا احتمال رہتا ہے ۔
دیگر اہم فصلوں کی طرح آلو ایک اہم غذائی فصل ہے اور دنیا بھر شاید سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سبزی بھی ۔
ہمارے ہاں اس کی سال میں تین فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔ آلو کی فصل دوسری فصلوں کی نسبت زیادہ منافع دینے والی فصل ہے۔ یہ تھوڑے عرصہ میں زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ، لیکن اس کا تعلق فصل پر اخراجات ، فروخت کے وقت اس کی قیمت اور پیدوار میں کمی یا زیادت کے نتیجے پر منحصر ہے ۔
اخراجات میں معیاری بیج ، کھادیں، پانی ،زرعی ادویات اور مزدوری شامل ہوتے ہیں۔ جو فی ایکڑ آمدنی کا تعین کرتے ہیں۔ ملک میں گندم پر دباؤ کم کرنے کے لیے آلو کی پیداوار میں اضافہ ازحد ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ واحد فصل ہے جو پہاڑوں سے لے کر سمندر تک کاشت ہوتی ہے اور اسے کیش کراپ کہا جاتا ہے ۔
اس مرتبہ پاکستان میں آلو کی شاندار فصل نے کسانوں کے ساتھ ساتھ پالیسی سازوں کی نیند حرام کر دی ہے۔ آلو کی فصل تو خدا کے فضل سے بہت شاندار رہی۔ پیداوار جو گزشتہ برس پانچ اعشاریہ چھے ملین ٹن تھی، بڑھ کر آٹھ اعشاریہ پانچ ملین ٹن متوقع ہے۔
حکومت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں یہ سب سے زیادہ پیداوار کا ریکارڈ ہو گا ۔خدا کرے ایسا ہی ہو۔
کسانوں کا خیال ہے کہ اب ایکسپورٹ کے بروقت فیصلے کی ضرورت ہے ۔ ہر سال ملکی ضرورت سے زیادہ آلو کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ آلو کی فصل تیار ہوتے ہی ایکسپورٹرز مارکیٹ میں فعال ہو جاتے ہیں ۔
جس کے لیے حکومت پہلے سے تیاری رکھتی ہے۔ اور بین الاقوامی مارکیٹ کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس وقت منڈیوں میں آلو ۲۳ سے ۲۴ روپے تک فروخت ہو رہا ہے ، جس سے کسان کے خرچے بھی پورے نہیں ہو رہے ۔
کسانوں کا شکوہ ہے کہ انہیں فصل کے مناسب نرخ نہیں مل رہے جو کم از کم ۳۵ روپے کلو تک ہونے چاہیں۔
اگر یہی حال رہا تو وہ کمائے اور کھائے گا کہاں سے ؟
یہ وقت ہے ہمارے پالیسی سازوں کے سوچنے اور بروقت اقدامات کرنے کا، تاکہ کسان کو مناسب نرخ دستیاب ہو سکیں ۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراک کے طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سبزی آلو ہی ہے۔
دنیا کی مارکیٹوں میں ہر وقت اس کی ڈیمانڈ موجود رہتی ہے ۔افغانستان اور ایران میں یہ پہلے سے بڑی مقدار میں ایکسپورٹ ہو رہا ہے ۔
کیونکہ اس مرتبہ ایکسپورٹ کے مقابلہ میں پیداوار بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے نئی مارکیٹ کی تلاش ضروری ہو چکی۔
جہاں کم اخراجات سے یہ آلو ایکسپورٹ کیا جا سکے ۔
یہی آج ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ ایکسپورٹ میں کرونا کی وجہ سے بہت سی پوری دنیا کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
دنیا بھر میں اس وقت کنٹینرز کی دستیابی مشکل ہو چکی۔ اگر ہم ایکسپورٹ آرڈر لینے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ایکسپورٹ کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔
البتہ مارچ میں جب کینو کی ایکسپورٹ کم ہو گی تو کنٹینرز دستیاب ہو سکیں گے ۔
اسی طرح بحری اور زمینی کرایوں میں اضافہ بھی بڑا مسئلہ ہے۔ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال کرائے بھی دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکے ۔
یہ درست ہے کہ ابھی بھی مارکیٹ میں گنجائش موجود ہے۔ چین کی طرح کے کچھ دیگر ممالک بھی ہیں جہاں ہمارا آلو فروخت ہو سکتا ہے،
لیکن اگر ہم صرف چین میں ہی ایکسپورٹ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔
تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد کا دعویٰ ہے کہ ملک آلو کی فصل بمپر ہوئی ہے۔
ان کے مطابق بدقسمتی سے اس وقت کرونا اور مختلف پابندیوں کی وجہ سے ایکسپورٹ میں مسائل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت ایکسپورٹرز کو مدد فراہم کر رہی ہے، انہیں مختلف وسائل مہیا کریں گے۔ جس سے یہ صورتحال بہتر ہو جائے گی ۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ممکنہ طور پر مارچ ، اپریل تک یہ صورتحال بہتر ہو جائے گی اور کسانوں کو بھی فائدہ ہو گا ۔
کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک اس لیے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور ایکسپورٹ بڑھانا، دونوں ہی موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات ہیں۔
ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے دونوں پر بروقت توجہ اور اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔کسان ہمارے ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر کسان خوشحال ہو گا تو پورا ملک خوشحال ہو گا ۔۔اس لیے تمام فصلوں کی پیداوار اور ایکسپورٹ کے لیے خصوصی منصوبہ بندی اور سسٹم بنانے کی ازحد ضرورت ہے۔
جس کی بدولت ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں پہلے سے ہی سودے طے کر نے کی پوزیشن میں آ جائیں۔ عین وقت پر پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
فصلوں کے غیر معمولی اضافہ یا کسی وجہ سے غیر معمولی کمی کسان کی پریشانی کا باعث نہ بنے . ہر فصل بروقت اور مناسب معاوضہ پر فروخت ہو سکے ۔
کاشت کے لیے اس کی ضرویات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے ۔
جس کے لیے مناسب مارکیٹ انٹیلی جنس یعنی مقامی پیداوار کی صحیح صورتحال اور درست اعدادو شمار کی دستیابی بےحد ضروری ہے ۔
وزیر اعظم کا ویژن ہے کہ زرمبادلہ بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ایکسپورٹ بڑھائی جائے اور امپورٹس کو کم سے کم کیا جائے تاکہ ملک کی معیشت مضبوط ہو سکے ۔
ہمارے ملک کی اکثر ایکسپورٹس زرعی مصنوعات سے وابستہ ہیں۔
اس لیے زراعت وہ اہم شعبہ ہے، جس پر توجہ وقت کی سب سے اوۤلین ترجیح ہے ۔
موجودہ حکومت کی کسان دوست پالیسی کی بدولت ملک میں ریکارڈ فصلیں ہوئی ہیں اور کسانوں کو بہت مناسب معاوضہ بھی ملا ہے.
لیکن کرونا کی تباہیوں کی وجہ سے کسان کے زرعی اخراجات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے ۔
موجودہ صورتحال میں کسانوں کو بڑے نقصان سے محفوظ رکھنے لیے حکومت پنجاب اور پاسکو کو میدان میں آنا چاہیے
تاکہ ایکسپورٹ ہونے تک کسانوں کو مناسب معاوضہ مل سکے ۔
جو آئندہ فصلوں کی زیادہ پیداوار کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرے گا
اور ملکی زرعی شعبہ میں انقلاب کی نوید ہو گا ۔
۞۞۞۞۞