خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
دسواں حصہ
ڈنمارک کی پہچان حسین جل پری
طارق محمود مرزا، سڈنی
سہ پہر کی نرم اور روپہلی دُھوپ میں ہم کوپن ہیگن میں سمندر کے کنارے واقع ایک انتہائی خوبصورت پارک میں پہنچے تو ڈنمارک کی سیاحوں میں مقبولیت کا اندازہ ہوا۔ نامی سمندری گھاٹی کے کنارے اس وقت بلاشبہ سینکڑوں سیاح موسم بہار کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اشجار، پھول، پودوں اور سبزے کے قدرتی نظّاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کی سب سے بڑی کشش دی لٹل مرمیڈ نامی خوبصورت دھاتی مجسمّہ ہے جو سمندر کے کنارے ایک چٹان پر اس طرح براجمان ہے جیسے کوئی حسین و جمیل جل پری پانی سے نکل کر دھوپ سینکنے کے لیے یہاں بیٹھی ہو۔ جیسا کہ مرمیڈ کے نا م سے ظاہر ہے، یہ مجسمہ ایک تصوراتی بحری مخلوق کا ہے جس کا بالائی دھڑ عورت کا اور زیریں حصہ سنہری مچھلی پر مشتمل ہے۔
تانبے سے بنا یہ حسین مجسمہ مشہور ڈینش فنکار ایڈورڈ اریکسن نے اس نظریے کے تحت تخلیق کیا ہے کہ ایک مچھلی اگر انسانی شکل میں ڈھل جائے تو کیسی لگے گی۔ یہ نظریہ اُس نے ایک ڈنیش کہانی کار
کی کہانی کے تصوراتی کردار کو پیشِ نظر رکھ کر بنایا ہے۔
ایسی سمندری مخلوق جس کا بالائی دھڑ عورت اور نچلا حصّہ مچھلی کی شکل کا ہوتا ہے۔ متعدد زبانوں کے افسانوی ادب کا کردار ہے۔
تاہم اس تصور کو مجسم کر کے نظارہ خلق بنانے میں ڈینش فنکار سرفہرست رہے۔ ۱۹۱۳ء میں تخلیق پانے والے اس مجسمے کی ابتدائی ماڈل اس دور کی عظیم فنکارہ ایلن پرائسر تھی۔
تاہم اُس نے بے لباس ہو کر ماڈلنگ کرنے سے انکار کر دیا۔ مجسّمہ ساز نے اس کے چہرے کے نیچے اپنی بیوی کو ماڈل بنا کر اس کا برہنہ بدن دھاتی شکل میں ڈھال دیا۔ جبکہ اس مجسمے کا تیسرا حصہ یعنی اس کی دُم سنہری رنگ کی مچھلی کی ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے، نچلے حصّے پر کسی کا دھیان نہیں جاتا تھا۔ لوگوں کی توجہ اوپری حصے کی طرف ہی تھی۔ اب یہ دھاتی مجسمہ کوپن ہیگن کی ویسی پہچان بن گیا ہے جیسی مجسمہ آزادی نیویارک اور ایفل ٹاور پیرس کی ہے۔
یہی بات رمضان رفیق نے کہی تو میں خود کو روک نہ سکا۔
ویسے ایڈورڈ اریکسن نے اپنی ہی بیوی کے برہنہ بدن کو نظارہ خلق بنا کر کچھ زیادہ ہی جرا ٔت کا مظاہرہ نہیں کیا؟
محمد یاسمین نے لُقمہ دیا۔ اس نے بیوی کو گھر کو کھیتی سمجھ کر اس کے جسم کا ماڈل دنیا کو دکھا دیا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں کوئی ایسی جُرات کرتا تو قابل گردن زنی سمجھا جاتا ہے۔ واقعی اس نے بہت بہادری دکھائی ہے۔
میں اور محمد یاسین جسے جُرات اور بہادری قرار دے رہے تھے، دراصل ہمارا مطلب کچھ اور تھا، مگر ہم وہ لفظ زبان پر نہ لائے کہ کہیں میرے ڈینش احباب کو ناگوار نہ گزرے۔ ویسے بھی شرم اور غیرت کا جو معیار اہل مشرق کا ہے، اہل مغرب اس سے مستثنیٰ ہیں۔
دونوں کی اقدار جدا ہیں۔ جو چیز مشرق میں قابل ملامت ہے، وہ مغرب میں قابل ستائش ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں مشرق، مشرق ہے اور مغرب، مغرب۔ دونوں کی اقدار کو ایک پیما نے پر نہیں ناپا جا سکتا۔
پارک میں سمندر کے کنارے پھولوں اور گھاس اور نرم دھوپ میں بیٹھ کر ہم نے کافی وقت گزارا۔ حتیٰ کہ دو بج گئے، جو ہوٹل میں میرے چیک اِن کا وقت تھا۔
میرے میزبان مجھے براہِ راست اس ریستوران میں لے جانا چاہتے تھے جہاں چار بجے میری تقریب پزیرائی تھی۔ جبکہ میں نے ابھی تک وہی لباس زیب تن کر رکھا تھا جو سڈنی سے روانہ ہو تے وقت پہنا تھا۔ دو دن کے مسلسل استعمال سے اس کی حالت خستہ ہو چکی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی تھی اور نیند اور تھکاوٹ کی وجہ سے آنکھیں لال تھیں۔
اس حالت میں تقریب میں جانا مناسب نہیں تھا ۔لہٰذا میں نے ہوٹل جانے پر اصرار کیا۔ ان دوستوں نے مجھے کوپن ہیگن کے سنٹرل اسٹیشن کے قریب واقع گرینڈ ہوٹل کے سا منے اُتار دیا۔
اپنے نام کی مناسبت سے باہر سے یہ ہوٹل شاندار اور بڑا لگا۔ کئی صدیاں پرانی پتھریلی عمارت کا صدر دروازہ، اس کے نقش و نگار، سامنے سجے پھول دار گملے خاصے متاثر کن تھے۔ لابی بھی درمیا نے سائز کی اور خوب سجی سنوری تھی۔
عملہ بھی کافی دوستانہ مزاج کا لگا۔ اصل مسئلہ بذریعہ لفٹ پانچویں منزل میں واقع اپنے کمرے میں پہنچ کر محسوس ہوا۔ کمرا میری توقع سے بہت چھوٹا اور دقیانوسی تھا۔
پتلا سا سنگل بیڈ، ذرا سی میز، تنگ غسل خانہ، شیلف ناپید اور کمرے کا رقبہ کسی کنجوس کے دل کی طرح اتنا تنگ کہ دو قدم اٹھاؤ تو اس کا کنارا آ جاتا تھا۔
تاہم اس میں کیتلی، استری، فریج اور الماری موجود تھی۔ بقول انتظامیہ، یہ ان کے ہوٹل کے آراستہ اور اچھے کمروں میں شامل تھا۔ یہ ان کا خیال تھا جبکہ مجھے اس کے در و دیوار، بڑی سی فرسودہ کھڑکی اور گھٹا گھٹا سا ماحول ازمنہ قدیم کے کسی قلعے کی یاد دلا رہے تھے۔
گرینڈ ہوٹل کے اس کمرے کا جو کرا یہ میں ادا کر رہا تھا۔ اس میں آسٹریلیا کے کسی بھی شہر کے بہت اچھے ہوٹل کا بہترین اور کشادہ کمرا مل سکتا تھا۔ جس میں تمام جدید سہولیات میسر ہوتیں۔ ڈنمارک کے اس بڑے ہوٹل کے کمرے میں جیسے دم گھٹتا محسوس ہوتا تھا ۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی دیوار میں پوشیدہ برقی ہیٹر نے کمرا خوب گرم کر رکھا تھا۔ گھٹن سے گھبرا کر میں نے جہازی سائز کی کھڑکی کا پٹ اٹھایا تو جیسے پوری دیوار سامنے سے ہٹ گئی۔ سرد ہوا کا ریلا در آیا۔ گھبرا کر اور زور لگا کر زمانہِ قدیم کی یادگار یہ کھڑکی بند کی تو گرمی ستا نے لگی۔
میں نے کمرے کی دیوار میں چسپاں ایک ڈبّے میں بند ہیٹر ڈھونڈ نکالا۔ اس کا تھرمواسٹیٹ گھما کر درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کی تو ہیٹر ہی بند ہو گیا جو باوجود ہر سعی کے دوبارہ آن نہ ہو سکا۔
میرے پاس وقت محدود تھا۔ لہٰذا جلدی سے غسل خانے میں گھس گیا۔ غسل خانہ کیا تھا جیسے ڈربے میں بند ہو گیا۔ کمرے اور غسل خانے، دونوں میں روشن دان بھی نہیں تھا۔ ایگزاسٹ فین کے باوجود سانس گھٹتا محسوس ہوا۔ جیسے تیسے شاور لیا اور تیار ہو کر میزبانوں کی کال کا انتظار کرنے لگا۔
(بقیہ اگلی قسط میں پڑھیں)
یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں
https://shanurdu.com/the-identity-of-denmark-is-mermaid/