ڈارلنگ
شکیل احمد چوہان
’’ڈارلنگ! تم مساج بہت شاندار کرتے ہو …سارے بدن سے تھکاوٹ کھرچ کھرچ کے نکال دیتے ہو ۔‘‘ زویا نے مستی میں ڈوبی ہوئی آواز میں وسیم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ وسیم سانولی رنگت والا، لمبے اور مضبوط قد کاٹھ کا ایک وجیہہ نوجوان، جس کے ہاتھ زویا کے شانوں پر تھے۔ زویا تیکھے نقوش اور چست جسامت والی ایک حسین دوشیزہ۔ وسیم کھڑا تھا جبکہ زویا شاہانہ انداز کے ساتھ لائونج میں دیوان پر آنکھیں بند کیے ہوئے بیٹھی تھی۔ زویا نے بند آنکھیں کھولیں تو اُن میں کاجل کے ساتھ ساتھ ایک نشہ بھی تھا۔ اُس نے وسیم کو ہتھیلی سے پکڑتے ہوئے اپنے رو برو آنے کا اشارہ کیا۔ وسیم اب اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ زویا نے اپنی نشیلی آنکھوں سے وسیم کو اشارے سے اگلا حکم دیا۔ وسیم حکم بجا لاتے ہوئے بڑے مزے سے زویا کے پیروں کا بھی مساج کرنے لگا۔ چند منٹ مساج کا سرور لینے کے بعد، زویا نے انگڑائی لیتے ہوئے بتایا:
’’I am Feeling Better‘‘
’’آپ ہمیشہ یہی کیوں بولتی ہیں۔‘‘ وسیم کے پوچھنے پر زویا بڑے فخر سے مسکرائی پھر جانچتی نظروں سے وسیم کو دیکھ کر کہنے لگی:
’’تم یہ بتائو…؟ میرا مساج محبت میں کرتے ہو …؟ یا ضرورت کے لیے …؟‘‘ وسیم ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا جواب دے۔ زویا نے خود ہی سے اُس کا جواب بھی اخذ کر لیا :
’’ضرورت کے لیے نا…؟ یہ ضرورت بھی بڑی نامراد چیز ہے…چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں۔‘‘ زویا نے وسیم کو آنکھ مارتے ہوئے بیڈ روم کی طرف اشارہ کیا۔ وسیم کا چہرہ کھل اُٹھا۔ زویا نے بڑے رومانوی انداز میں وسیم کو ہتھیلی سے پکڑا اور بیڈ روم میں لے گئی۔ بیڈ کے پاس جاتے ہی زویا نے بڑی پھُرتی سے وسیم کی شرٹ کے بٹن کھولے شرٹ ایک طرف پھینکی اور وسیم کو بیڈ پر پٹخ دیا پھر خود اُس پر جھپٹ پڑی۔ پہلے تو چند منٹ تک زویا، وسیم کے بدن کو دانتوں سے نوچتی رہی پھر اُسے ایک خیال آیا اُس نے جلدی سے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل والی دراز کھولی اُس میں سے ایک گولی نکالی اُسے کھایا اوپر سے پانی پیا اور اپنے جسم کی بھوک مٹانے کے لیے وسیم کے بدن سے رجوع کیا۔
جب جسم اور بدن ٹھنڈے ہونے کے بعد گندے ہوئے تو انہیں دھونے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
’’ڈارلنگ Take a Bath‘‘ زویا نے بیڈ سے اُٹھنے کے بعد وسیم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ وسیم اُس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بڑے سے واش روم میں داخل ہو گیا۔
٭
دُھلے جسموں اور گیلے بالوں کے ساتھ اب وہ دونوں ڈائیننگ ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔زویا نے اپنے گیلے بالوں کو تولیے میں قید کر رکھا تھا ۔وسیم مزے سے بریانی کھا رہا تھا ،جبکہ زویا کی پلیٹ خالی تھی۔
’’فرق بتا سکتے ہو…؟‘‘ زویا کے پوچھنے پر وسیم نے گردن اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا۔ زویا نے اگلی بات پوچھ لی:
’’جسم کی بھوک اور پیٹ کی بھوک میں …؟‘‘
’’بھوک تو بھوک ہوتی ہے ۔‘‘ وسیم مسکراتے ہوئے یہ بول کر پھر سے بریانی کھانے میں مصروف ہوگیا، اِس کے برعکس زویا کے ہونٹوں پر ایک زخمی مسکراہٹ نمودار ہوئی وہ گھائل لہجے میں کہنے لگی:
’’پیٹ خالی ہو تو بھوک مار دیتی ہے …پیٹ بھرا ہو تو یہ کمینی بھوک مرتی ہی نہیں۔‘‘ زویا کی اچانکLED کی طرف نظر پڑی ، بیرونی گیٹ کے اوپر لگے کیمرے نے دکھایا کہ گیٹ کے سامنے ایک گاڑی آکر پارک ہوئی ہے ۔اُس گاڑی میں سے جھومتے ہوئے درمیانی جسامت اور گلابی رنگت والا ایک تیز ترار شخص نمودار ہوا۔ اُس شخص نے چابی کی مدد سے گیٹ کا لاک کھولنا چاہا مگر اُسے کامیابی نہیں ملی ،لمحہ بھر سوچنے کے بعد اُس نے ڈور بیل بجادی۔
’’یہ کمینہ آج کیسے آگیا۔ ‘‘زویا نے بوکھلاہٹ میں کہا۔
’’کون…؟‘‘ وسیم کو تشویش ہوئی۔
’’دلنواز میرا ہسبینڈ۔‘‘
’’ہسبینڈ…؟‘‘ کھانے کا نوالہ وسیم کی حلق میں ہی اٹک گیا۔
’’میرا بندہ۔‘‘ زویا نے چڑتے ہوئے بتایا۔ وسیم گھبرا گیا۔
’’ڈرو مت …پچھلا دروازہ جہاں سے تم آتے جاتے ہو …اُدھر سے ہی نکل جائو۔‘‘وسیم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی زویا بول اُٹھی :
’’حساب اگلی بار…‘‘ڈور بیل پھر سے بجنے لگی۔ زویا کھانے والے برتن کچن میں رکھنے کے بعد ہی بیرونی گیٹ کھولنے گئی، جیسے ہی اُس نے گیٹ کھولا:
’’میری ڈارلنگ کہاں مر گئی تھی؟‘‘ دلنواز نے ہلکے نشے کا سرور لیتے ہوئے پوچھا۔
’’شاور لے رہی تھی۔ ‘‘ زویا نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے بتایا اور ساتھ ہی اندر کی طرف چل پڑی۔ دلنواز نے گیٹ کو بند کرنے کے بعد سوال کیا:
’’آج اندر سے کنڈی کیوں لگائی تھی…؟ ‘‘
’’بتایا نا شاور لے رہی تھی!‘‘
’’اِس وقت…؟‘‘
’’تمھاری ہی ڈالی ہوئی عادت ہے ۔‘‘ زویا لائونج میں داخل ہو چکی تھی۔ دلنواز نے لائونج کا دروازہ بندکیا ، وہ للچائی ہوئی نظروں سے زویا کی طرف آیا۔ زویا کی زلفوں کو اُس نے تولیے سے رہائی بخشی پھر اپنی بانہوں کا ہارزویا کے گلے میں ڈال کر کہنے لگا:
’’اور کس کس چیز میں Followکرتی ہو مجھے…؟‘‘ دلنواز نے جانچتی نظریں زویا کے چہرے پر جما رکھی تھیں۔ وہ زویا کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا، لمحہ بھر کے لیے تو زویا گھبرا گئی، جیسے اُس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
’’Tell me۔‘‘ دلنواز نے اپنے ہاتھ سے زویا کے گالوں کو بے دردی سے دباتے ہوئے کرخت لہجے میں پوچھا۔ زویا نے بھی بے رخی سے دلنواز کے ہاتھ کو جھٹکا اور صوفے پر اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنے سر کو دبوچ کر بیٹھ گئی۔ جیسے چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے ،اسی طرح زویا نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا ،وہ نہیں چاہتی تھی کہ دلنواز اُس کے چہرے سے کچھ بھی پڑھ سکے۔
’’اب بھی پہلی رات ہی کی طرح پھڑ پھڑاتی ہو۔‘‘ دلنواز نے کسی فاتح کی طرح کہا اور اپنے کالے کوٹ کی جیب سے سگارکا باکس نکال کر ایک سگھار سلگایا، پھر لمبا سا کش لیا اور منہ اوپر کرکے بڑے انداز سے دھوئیں کے غبارے اپنی حلق سے فضا کے حوالے کرنے لگا۔ سگارکے دو تین کش لگانے کے بعد دلنواز اُسی دیوان پر کسی راجے کی طرح براجمان ہو گیا۔
…٭…
’’لمبیاں جدائی دیاں راتاں …راتاں…عشق دیا ں نے کیا باتاں ۔‘ ‘وہ شدید دھند میں فٹ پاتھ پر گاتا ہوا جا رہا تھا۔ اُس کے برابر میں کالے شیشوں والی ایک گاڑی آکر رُکی۔ گاڑی کا شیشہ نیچے اُترا۔
’’مالش کر لیتے ہو…؟‘‘
’’جی ، جی‘‘ لڑکے نے اپنا بوتلوں کا سٹینڈ دکھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر بیٹھو گاڑی میں۔‘‘ لڑکی نے حکمیہ لہجے میں کہا۔ مالش والا لڑکا سوچ میں پڑ گیا، اُس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا:
’’جانا کہاں ہے…؟‘‘
’واہگہ کے رستے انڈیا…‘‘ لڑکی یہ بتاتے ہوئے ہلکا سا مسکرائی، مالش والا سمجھ گیا کہ لڑکی مذاق کر رہی ہے۔ اِس سے پہلے کہ وہ کچھ اور پوچھتا لڑکی نے خود ہی تفصیل بتانا شروع کر دی :
’’میرے ابّا جی کو فالج ہوا ہے، اُن کی مالش کرنی ہے۔ اِدھر ڈیفنس میں ہی میرا بنگلہ ہے۔‘‘ لڑکا فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ گاڑی میں بیٹھے یا نہیں، لڑکی نے اُس کی کیفیت کو بھانپ لیا ،اُس نے ہزار کا نوٹ اپنے پرس سے نکال کر لڑکے کے سامنے کیا لڑکا اب بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا تھا۔
’’تمہاری مرضی مساج کرنے والوں کی کمی تھوڑی ہے یہاں۔‘‘ لڑکی نے ہزار کے نوٹ والا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ لڑکا جلدی سے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگا۔
’’تمھاری ڈرائیور نہیں ہوں میں ۔‘‘ لڑکی نے لڑکے کو ڈانٹ پلا دی۔
’’آگے بیٹھو۔‘‘ لڑکا آگے بیٹھ گیا۔ گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھانے کے بعد لڑکی نے لڑکے کو نظر بھر کے دیکھا پھر سوال کیا:
’’کیا نام ہے تمھارا …؟‘‘
’’واسو !جی…‘‘
’’سیدھا نام بتائو…؟‘‘ لڑکی نے دعوت سے بھری آنکھیں لڑکے کے چہرے پر جماتے ہوئے بڑے رومانوی انداز میں پوچھا۔
’’وسیم! جی…‘‘
٭
وسیم ماتھے پر شکنیں سجائے فٹ پاتھ پر چلتا ہوا اُس رات کو یاد کر رہا تھا، جب زویا سے اُس کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ’’زویا شادی شدہ ہے۔‘‘ وسیم کے منہ سے حیرانی میں نکلا ۔ وہ یہ جان کر شدید تذبذب کا شکار تھا۔
وسیم کے انگ انگ سے دلنواز کے لیے حسد کے الائو بھڑک اُٹھے تھے، اُسی الائو کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وسیم نے اپنے بائیں بازو کو زور سے جھٹکا دیا، اُس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا خالی ہاتھ پا کر وہ گھبرا گیا ،لمحہ بھر سوچنے کے بعد وہ رمتے جوگی کی طرح دیوانہ وار زویا کے بنگلے کی طرف دوڑ پڑا ۔ بنگلے کے باہر پہنچ کر وہ اُسی پچھلے دروازے سے بغیر سوچے سمجھے بنگلے کے اندر چلا گیا۔
لائونج اور بیڈ روم کی لان کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں کھُلی ہوئی تھیں۔ لان میں اندھیرا تھا۔ وسیم جلدی سے بیڈ روم کی کھڑکی کی طرف لپکا بیڈ روم خالی تھا۔ دلنواز کی آواز پر وسیم چونک کر لائونج کی طرف گیا۔ اُس نے اندر دیکھا دلنواز کی ٹانگوں کے درمیان دیوان کے نیچے، وسیم کی مالش والی بوتلوں کا اسٹینڈ پڑا ہوا تھا۔ دلنواز اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے ایش ٹرے میں سگار مسلنے کے بعد بولا:
’’اچھا لگا یہ جان کر کہ تم مجھےFollowکرتی ہو۔‘‘ دلنواز زویا کے سامنے آچکا تھا۔ زویا نے گردن اُٹھا کر اُسے دیکھا ، پھر زویا کھڑے ہوتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہنے لگی :
’’میں دعا کرتی ہوں کوئی بھی لڑکی مجھے Followنہ کرے… دلنواز میں تمھارے کہنے پر گھر سے بھاگی تھی۔ کورٹ میں،Marriage Certificateکی جگہ میں نے اپنے Death Warrantپر سائن کیے ہیں۔ تمھارا جب دل کرتا ہے …تم گدھ کی طرح مجھے نوچنے چلے آتے ہو۔ ‘‘ زویا کی بات پر دلنواز ہنسنے لگا پھر ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا:
’’Come on Darling…تم Wifeہو میری!‘‘ دلنواز کے منہ سے اپنا مقام جاننے کے بعد زویا نے تیز دھاری نظروں سے دلنواز کو دیکھا پھر تیکھے لہجے میں بولی:
’’اپنی دوسری بیویوں کو بھی غیر مردوں کے ساتھ رات گزارنے پر مجبور کرتے ہو کیا؟‘‘زویا کے منہ سے ابھی یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ دلنواز کا ہاتھ اُس کے گال پر پڑ گیا۔ وسیم کو دلنواز پر بڑا غصہ آیا، اُس نے اپنے غصے کو قابو کرنے کے لیے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو مضبوطی سے بند کر لیا۔
’’اپنی اوقات مت بھولا کرو…کہاں ڈونگیاں قصبہ اور کہاں ڈیفنس لاہور…نالی کی اینٹ کو چوبارے میں لگایا ہے میں نے…بیوی بنایا ہے تمھیں…!‘‘ دلنواز نے اپنا احسان زور دے کر بیان کر دیا۔ زویا کی آنکھیں آنسوئوں سے چمکنے لگی وہ لمبی سانس بھرنے کے بعد بولی :
’’تیسری بیوی ہوں میں تمھاری! جسے تم نے دنیا سے چھپا کر یہاں قید کر رکھا ہے۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم پہلے سے شادی شدہ ہو تو میںFacebookکے ذریعے کبھی بھی تمھارے جال میں نہ پھنستی۔‘‘
’’پھنستی…؟ عورت کو اُس کی مرضی کے بغیر بھلا کوئی پھنسا سکتا ہے؟ تمھیں ہی امیر بننے کا شوق تھا، تم نے کسی امیر بندے سے ہی شادی کرنی تھی اسی لیے تو تم نے اپنے اُس غریب مولوی منگیتر کو چھوڑ دیا۔ مولوی یاد تو آتا ہوگا…؟‘‘ دلنواز نے ترش انداز میں آنکھ کے اشارے سے پوچھا۔ زویا نے کھا جانے والی نظروں سے دلنواز کو دیکھا پر بولی کچھ نہیں۔ دلنواز کو زویا کے غصے سے مسرت مل رہی تھی، اُس نے غصے میں جلتی زویا پر طنز کا مزید تیل چھڑکا :
’’اُس کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟‘‘
’’وہ حلوے والا نہیں بندوق والا مولوی ہے…افغانستان میں ٹریننگ کر رکھی ہے اُس نے … اگر اُسے پتہ چلا تو وہ ہم دونوں کو مار ڈالے گا۔ ‘‘ زویا کے چلانے کے باوجود دلنواز شانت ہی رہا، اُس کے ہونٹوں پر ایک مغرور مسکراہٹ نمودار ہوئی وہ اپنا کوٹ اتارتے ہوئے کہنے لگا:
’’ہم جدی پشتی سیاست دان ہیں اور وہ ایک غریب مولوی…خیر میرا تو وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا…‘‘دلنواز نے کوٹ کے نیچے اور شرٹ کے اوپر سے Armed Vest کھولتے ہوئے اُس میں سے جدید Mauserنکالا، دلنواز کے ہاتھ میں Mauserدیکھ کر وسیم کے طوطے اُڑ گئے اُس نے کانپتے ہوئے اپنے منہ میں دھیرے سے کہا:
’’پستول…!‘‘ وہ دبے پائوں وہاں سے کھسکنے لگا۔
’’اگر اِس نے میرا اسٹینڈ دیکھ لیا تو یہ مجھ تک پہنچ جائے گا…پھر میری خیر نہیں۔‘‘ وسیم کو خیال گزرا وہ اُدھر ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے اسٹینڈ کے بغیر واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا، وہ دوبارہ کھڑکی کے ساتھ چمٹ گیا۔ وسیم کیا دیکھتا ہے کہ اُسی دیوان پر اب دلنواز شاہانہ انداز میں زویا ہی کی طرح لیٹا ہوا ہے اور زویا اُس کا مساج کر رہی ہے۔
’’ڈارلنگ تمھارے جیسا مساج تو تھائی لینڈ والے بھی نہیں کر سکتے…سارے بدن سے تھکاوٹ کھرچ کھرچ کے نکال دیتی ہو…I am Feeling Better۔‘‘
دلنواز کے منہ سے زویا والے الفاظ سننے کے بعد وسیم کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ وسیم بغیر آنکھ جپکے دلنواز کو زویا کے روپ میں اور زویا کو اپنے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ دلنواز نے زویا کو ہتھیلی سے پکڑتے ہوئے اپنے پیروں کا مساج کرنے کا اشارہ کیا، زویا چپ چاپ ایسا کرنے لگی۔ چند منٹ اسی طرح سے گزر گئے۔ اُس کے بعد دلنواز نے آنکھیں کھولی اُس نے زویا کو آنکھ کے اشارے سے کہا :
’’چلو بیڈ روم میں۔‘‘ جیسے ہی وہ دونوں بیڈ روم میں گئے ، وسیم دبے پائوں لائونج میں داخل ہوا اور دیوان کے نیچے سے اپنا بوتلوں والا اسٹینڈ اٹھا لیا۔ وہ بغیر آہٹ کیے لان سے پچھلے دروازے کی طرف جا رہا تھا کہ بیڈ روم کی لائٹ بند ہوگئی اُسے تجسس ہوا کہ بیڈ روم میں کیا ہو رہا ہے وہ ایک بار پھر کھڑکی کے ساتھ کان لگا کے کھڑا ہوگیا۔
ـ’’دلنواز لائٹ جلادو۔‘‘ کرب میں ڈوبی ہوئی زویا کی آواز اُسے سنائی دی۔
’’تم تو ہمیشہ اندھیرا کرواتی ہو…‘‘ دلنواز نے لائٹ ONکرتے ہوئے کہا۔ لائٹ ONہونے کے بعد جب وسیم نے اندر دیکھا تو بیڈ پر برہنہ پڑی ہوئی زویا کو دلنواز بھیڑیئے کی طرح کاٹ رہا تھا۔ جب زویا کے نرم و ناز ک بدن پر دلنواز اپنی مردانگی کی مہریں نسب کر چکا تو اُس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے گولیوں کا پتا نکالا اُس میں سے ایک گولی کھائی اور پھر سے زویا پر ٹوٹ پڑا۔ وسیم کچھ دیر تو واسنا کاننگا ناچ دیکھتا رہا پھر اُسے شرم آنے لگی۔ وہ بوجھل قدموں سے پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ تقریباً آدھ گھنٹے بعد وہ اُس مقام پر کھڑا تھا، جہاں سے زویا پہلی بار اُسے اپنے ساتھ لے کر گئی تھی۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے وہ اُسی جگہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔وسیم کافی دیر وہیں بیٹھا رہا ،پھر سرد آہ بھرتے ہوئے اُٹھا۔ اُس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا: ’’ڈارلنگ ‘‘
Apki tehreer bohat ummda aur qalam grip bhe zaberdast g awesome ❤️🌹