گود میں بھوت
(اظہر حسین)
کیا آپ کو بھوتوں پر یقین ہے؟
رضوان صاحب، آپ فوراً آ جائیں۔ فون کے دوسری طرف سے آواز آئی۔
رضوان بولے، ارے بھئی میں آفس میں ہوں تو فوراً کیسے آ سکتا ہوں۔
آواز آئی، ایسی ڈیل آئی ہوئی ہے کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔
رضوان صاحب نے کہا، اچھا بھائی میں ایک گھنٹہ کی چھٹی لے کر آتا ہوں۔
مالک مکان کے بیٹے کو اچانک واپس آنا پڑ گیا جس کی وجہ سے مالک مکان نے اپنے کرایہ دار رضوان صاحب کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دے دیا۔ وہ خود بھی آیا تھا اور بہت معذرت کی کہ اچانک مکان خالی کروا رہا ہے لیکن اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں۔
مسئلہ یہ تھا کہ اتنے پیسوں میں کرایہ کا مکان ملنا مشکل تھا اور تنخواہ اس سے زیادہ پیسوں کی اجازت نہیں دیتی۔ تقریباً دس اسٹیٹ ایجنسیوں کے پاس رجسٹریشن کروانے کے باوجود آٹھ دن گزر چکے تھے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
ہر شام آفس سے باہر آتے ہی رضوان صاحب اسٹیٹ ایجنسیوں کے چکر لگاتے ہوئے گھر پہنچتے اور دونوں میاں بیوی پریشانی کی حالت میں بیٹھ جاتے۔
ان کا بیٹا معصومیت سے پوچھتا تو دونوں کہتے, کچھ نہیں بس اب نیا گھر ڈھونڈنا ہے۔
وہ ان سے کہتا ، ڈھونڈ کیوں رہے ہیں جو نیا بنا ہو وہاں چلیں اور دونوں ہنس پڑتے۔
آج رضوان صاحب کو ایک اسٹیٹ ایجنٹ نے فون کر کے خوشخبری سنائی کہ ایک گھر خالی ہے۔ انہوں نے بیگم کو تیار رہنے کا کہہ کر باس سے بات کی اور فوراً گاڑی لے کر گھرکی طرف چل دیئے۔
کچھ دیر بعد وہ تینوں اسٹیٹ ایجنٹ کے پاس موجود تھے جو مکان کی تعریفوں کے قلابے ملانے میں مشغول تھا۔ رضوان صاحب نے کہا ، آپ کو بلانے کی تو کافی جلدی تھی تو وہ فوراً اٹھا اور وہ لوگ چل دیئے۔
ایک خوبصورت علاقہ میں بہت اچھے رنگوں والا گھر ان کے سامنے تھا لیکن پتہ نہیں کیوں ان لوگوں کو کچھ عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی۔
بیگم کی طرف دیکھا تو وہ بھی خاموش نگاہوں سے کچھ کہہ رہی تھیں جو وہ سمجھ نہیں پائے۔ ان کے بیٹے نے شروع میں تو گھر کے اندر جانے سے ہی انکار کردیا تھا۔ بڑی مشکل سے اسے بہلا پھسلا کر اندر لایا گیا۔ اتنے کم کرایہ پر ایسا گھر کسی نعمت سے کم نہیں ، یہ سوچ کر رضوان صاحب نے اپنے دل کی سنی ان سنی کر کے معاہدہ قبول کیا اور اگلے ہی دن سامان کی شفٹنگ شروع کر دی۔
شفٹنگ میں سارا دن گزر گیا جس کی وجہ سے رضوان صاحب نے پہلے بیٹے کے کمرے میں اس کا بستر سیٹ کیا پھر اپنے کمرے میں زمین پر گدے بچھا کر سو گئے۔
کوئی آواز، کوئی کیفیت ، کوئی فکر بار بار ذہن کی سطح سے ٹکرا رہی تھی۔۔ تھکن کی وجہ سے گہری نیند میں بھی ذہن کسی خیال کو رَد کررہا تھا مگر خیال ذہن کی سطح سے فکر بن کر ٹکرا رہا تھا۔ خیال کی تکرار نے فکر کو اتنا بڑھا دیا کہ گہری نیند کا آرام ثانوی حیثیت اختیار کر گیا اور رضوان صاحب کی آنکھ کھل گئی۔
شعوری حواس چند لمحے بے خیالی کی کیفیت میں رہے پھر آہستہ آہستہ ان کاذہن یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اتنی گہری نیند سے وہ کیوں بیدار ہوئے۔ مزید چندلمحے گزرے تو بیٹے کا خیال آیاجو دوسرے کمرے میں سو رہا تھا۔
ابھی کچھ گھنٹے پہلے کی بات ہے۔ سونے سے پہلے رضوان صاحب بیٹے کے کمرے میں گئے ، اسے گہری نیندمیں دیکھ کر سکون سے واپس آئے ،ایک کتاب کے چند صفحات پڑھنے کے بعد نیند کے پرسکون عالم میں مصروف ہو گئے تھے۔ لیکن کسی خیال نے ان کو واپس شعوری حواس میں دھکیل دیا۔ ان کا ذہن اس خیال کا احساس کرنے سے ہنوز قاصر تھاکہ بیٹے کے بارے میں جوخیال دوبارہ آیا وہ کیا تھا جس میں موجود فکرمندی نے شعور کو نیند سے جگا دیا۔ بیٹے کے لئے اس قسم کے خیالات کی وجہ سے رضوان صاحب کو لیٹے رہنا مشکل ہو گیا ۔
ان کی بیٹے سے محبت کاہلی پر جیت گئی ۔ اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ بستر کے نیچے کی طرف دیکھا، چپل ان کے پاؤں کے قریب رکھی تھی، اسے پہنا اور بیٹے کے کمرے میں جانے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ ان کے دل و دماغ میں کچھ عجیب سی ہلچل ہو رہی تھی، پریشانی، حیرانی، بے کلی، ان ساری کیفیات نے مل جل کر رضوان صاحب کو کافی پریشان کر دیا تھا۔
اسی عالم میں کمرے کے دروازے کی طرف بڑھے اور چٹخنی کھول کر باہر آئے۔ بیٹے کے کمرے کی طرف دیکھا تو اندھیرا تھا، جسے دیکھ کریک گونہ تسلی کی ایک کیفیت پیدا ہوئی لیکن اندر سے اٹھنے والی فکر نے اس تسلی کو فوراً سے پیشتر ختم کر دیا۔ اسی تردد کے عالم میں بیٹے کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔
کمرے کے اندر خوف، وہشت اور جانے کون کون سی کیفیات نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کسی کیفیت کے بارے میں سوچتے بیٹے کے رونے کی آواز نے ان کو دہلا دیا۔ بجلی کی تیزی سے ان کے ہاتھ نے بٹن کو دبایا، لائٹ جلی تو دیکھا بیٹا بستر پر بیٹھا تھا، چہرہ پر آنسو سیلاب کی تیزی سے بہہ رہے تھے اور ہچکیوں سے پورا جسم پر کپکپی طاری تھی ۔
وہ بھاگ کر بیٹے کے پاس آئے اور اسے گلے لگا لیا۔ کچھ دیر رونے دیا پھر پوچھا، بیٹاکیا ہوا۔
بیٹے نے بولنے کی کوشش کی مگر ہچکیوں کی وجہ سے بولا نہیں جا رہا تھا۔
رضوان صاحب پانی لانے کے لئے اٹھنے لگے تو بیٹے نے فوراً ہاتھ پکڑ لیا۔ رضوان صاحب بولے پانی لاتا ہوں۔ وہ روتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگا اور بڑی مشکل سے بولا، پلیز مجھے نہ چھوڑیں۔
یہ سن کر رضوان صاحب کو احساس ہوا کہ اس نے کوئی ڈراونا خواب دیکھا ہے جس کی وجہ سے دہشت زدہ ہے۔ انہوں نے بیٹے کو گلے لگا لیا اور پیٹھ سہلانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد اس کی ہچکیاں کچھ کم ہوئیں تو رضوان صاحب نے بڑے پیار سے پوچھا
بیٹے کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟ وہ اور زور سے لپٹ گیا ، اس کا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے بولا ابو بستر کے نیچے بھوت ہے۔
بھوت کے بارے میں سن کر رضوان صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ انہوں نے دھیرے سے بیٹے کو الگ کیا اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اوپر کی اور بہت پیار سے بولے
میرے بہادر اور پیارے بیٹے تم کسی سے نہیں ڈرتے ہو۔ تم تو میرے سپرمین ہو۔ بھوت کیا بہت سارے بھوت بھی آ جائیں تو تم کبھی نہیں ڈرو گے۔
اس نے دوبارہ لپٹ کر کہا بستر کے نیچے تو دیکھیں۔
بیٹے کو گود میں اٹھا کر نیچے بیٹھے ، لٹکتی ہوئی چادر کو اوپر اٹھایا اور بستر کے نیچے جھانکا تو ان کا بیٹا لیٹا ہوا نظر آیا، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ، ہچکیوں سے روتے ہوئے بولا
ابو آپ کی گود میں بھوت ہے
(اظہر حسین)