صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
صبحِ اعتمادِ نو
03/01/2014
لاہور جو فکری اور سیاسی تحریکوں اور قومی جذبوں کا مرکز رہا ہے ٗ اِس میں گزشتہ ہفتے ایک ایسی تقریب منعقد ہوئی جس سے چمنِ آرزو کِھل اُٹھا اور اپنے وطن کا مستقبل درخشندہ نظر آنے لگا۔
اِس تقریب میں بلوچستان اور پنجاب کے صوبے آپس میں مل رہے تھے اور حقیقتوں کی سنگلاخ چٹانیں کاٹ کر ترقی اور باہمی دوستی کے راستے کشادہ کر دینے کی آرزو سے سرشار تھے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنی ٹیم کے ہمراہ لاہور آئے ٗ تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہبازشریف نے اُنہیں ظہرانے پر مدعو کیا اور ساتھ ہی متعدد سیاست دانوں ٗ صحافیوں ٗ اعلیٰ سرکاری
افسروں اور مختلف شعبۂ ہائے زندگی کے ماہرین کو بھی شرکت کی دعوت دی۔
ایک طویل عرصے بعد ہم نے دونوں صوبوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی قوس وقزح سیاسی اُفق
پر نمودار ہوتی اور اُمیدوں کے رنگ بکھیرتی دیکھی۔
ڈاکٹر عبدالمالک میرے داہنے ہاتھ جبکہ میاں شہبازشریف مدمقابل بیٹھے تھے جنہوں نے اپنی اعلیٰ
کارکردگی سے اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں پنجاب کا خادم ثابت کیا ہے۔
وہ عوامی اہمیت کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے جنّ کی طرح کام کرتے ہیں ٗ بیوروکریسی سے
کام لینے کا ہنر جانتے ہیں اور اُن کا دامن کرپشن کے داغ دھبوں سے بالکل پاک ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے مہمان کو خوش آمدید کہتے اور غیر معمولی اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا
کہ پنجاب میں جو کچھ ہے ٗ وہ بلوچستان کا ہے جو ہمارے وجود کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔
ہر مشکل وقت میں آپ ہمیں اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے اور ترقی اور خوشحالی کے ہر منصوبے میں ہم
آپ کے شریکِ کار ہوں گے۔
اواران میں زلزلہ آیا ٗ تو ہم نے بلوچ بھائیوں کے لیے 73کروڑ سے زائد کا سامان طیاروں اور ٹرکوں کے
ذریعے بھیجا
اور کمر میں ناقابلِ برداشت درد کے باوجود میں خود مصیبت زدہ علاقے میں پہنچا
اور پنجاب کے عوام کی طرف سے یکجہتی کا پیغام دیا۔
ہم نے چند روز پہلے ہزاروں کی تعداد میں لحاف بھیجے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ جو بھی ضرورت محسوس کریں گے حکومت پنجاب اُسے پورا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے گی۔
اُنہوں نے قدرے بلند آواز میں کہا کہ میرا یہ ایمان ہے کہ بلوچستان کی سلامتی اور خوشحالی پر
پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا انحصار ہے
اِس لیے ہمیں اپنے بلوچستانی بھائیوں کی سیاسی ٗ اقتصادی اور معاشرتی حالات کی بہتری میں بھرپور
کردار ادا کرنا چاہیے۔
اُنہوں نے دورانِ گفتگو یہ بھی انکشاف کیا کہ این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب کے حصے میں جو رقم آئی تھی
اُس میں سے پنجاب نے گیارہ ارب پاکستان کے پس ماندہ صوبے بلوچستان کو دیے ہیں۔
پنجاب کے عوام نے یہ ایثار اپنے بلوچستانی بھائیوں کو توانا اور خوشحال دیکھنے کے لیے کیا ہے
اور وہ اُمید رکھتے ہیں کہ یہ وسائل درست طریقے سے استعمال کیے جائیں گے
تاہم وہ افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ ماضی میں اربوں روپے ارکانِ اسمبلی کی جیبوں میں چلے گئے
اور ترقیاتی منصوبے نظر انداز ہوتے رہے۔ اِس کا اندازہ کوئٹے کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے ہوتا ہے
مگر آپ کے اقتدار میں آنے سے قوی اُمید پیدا ہوئی ہے کہ بلوچستان کے عوام امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے اور شورش کم ہوتی جائے گی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے آغاز ہی میں کھلے دل سے یہ حقیقت بیان کی کہ اواران زلزلے کے موقع پر
پنجاب کی طرف سے دی جانے والی امداد انتہائی مشکل وقت میں بہت بڑا سہارا ثابت ہوئی۔
بہت کم وقت میں ہزاروں کی تعداد میں جو خیمے پہنچائے گئے ٗ اُن سے زلزلہ زدگان کے لیے بستیاں قائم ہوئیں
اور ہزاروں خاندان بڑی حد تک محفوظ ہو گئے تھے۔
ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہماری مشکلات کو اپنا کرب محسوس کیا اور غیر معمولی اپنائیت کا احساس دلایا۔ میں آپ سے کچھ اور چیزیں بھی مانگنے آیا ہوں۔
ہم کوئٹے کو لاہور کی طرح خوبصورت بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے ہمیں پنجاب سے ماہرین کی اعانت درکار ہو گی۔ لاہور کے تجربے کی طرح ہم سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کی مہارت کے بھی طلب گار ہیں کہ
ہمارے علاقے بھی صاف ستھرے ہوں اور صحت عامہ کے بہتر انتظامات کیے جا سکیں۔
اُن کا یہ بیان ایک انکشاف کی حیثیت رکھتا تھا کہ
ماضی میں چھ سو اسکول بند ہو گئے تھے جن میں سے نصف دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی جو شورشوں کا مرکز بنی ہوئی تھی
اُس کے نئے وائس چانسلر مقرر کیے گئے ہیں جو حالات میں صحت مند تبدیلی لا رہے ہیں۔
ہمارا پروگرام چھ نئی یونیورسٹیاں قائم کرنے اور مزید ہسپتال کھولنے کا ہے۔ہم اپنا ریونیو ریکارڈ بھی کمپیوٹرائزڈ کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہمیں پنجاب کے تجربات سے استفادہ کرنا ہو گا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ مژدہ سنایا کہ انتخابات کے بعد ایک زبردست سیاسی انقلاب آیا ہے اور
جناب وزیراعظم نے عالی ظرفی اور دوراندیشی پر مبنی اقدامات کیے ہیں۔
وہ اپنی جماعت کی حکومت بلوچستان میں بنا سکتے تھے ٗ مگر اُنہوں نے قوم پرست جماعتوں پر اعتماد کیا
اور داخلی مخالفت کے باوجود مجھے بلوچستان کا وزیراعلیٰ منتخب کیا۔ اِس ایک اقدام سے بلوچستان اور
پنجاب کے مابین پائی جانے والی بے اعتمادی میں بہت کمی واقع ہوئی ہے اور امن و امان کی فضا
تیزی سے بہتر ہو رہی ہے۔
آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ بلدیاتی انتخابات میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا ہے۔
جناب عبدالمالک نے کسی تحفظ کے بغیر کہا کہ بلوچستان میں غیر ملکی طاقتیں ملوث ہیں
مگر اُن کی روک تھام کا جناب وزیر اعظم نے صحیح راستہ اختیار کیا ہے ۔
وہ افغانستان اور بھارت سے قابلِ اعتماد تعلقات قائم کرنے کی پوری تگ و دو کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے اعتراف کیا کہ شروع میں اواران کے زلزلہ زدگان نے پنجاب کی طرف سے آنے والی امداد لینے سے انکار کیا
مگر جب میں خود وہاں گیا اور اُنہیں حالات کی سنگینی کا احساس دلایا ٗ تو وہ خوشی خوشی ضرورت کی چیزیں لینے لگے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ بلوچستان میں تین اضلاع سب سے زیادہ شورش زدہ ہیں اور اُن تینوں اضلاع میں ہماری جماعت کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں۔
اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بہت کم ہو گئے ہیں اور پنجابیوں کی بے دخلی بھی رک گئی ہے۔
ہم نے پانچ مہینوں میں کوئٹے کو ایف سی سے آزاد کرا لیا ہے۔
وہ خوشخبری دے رہے تھے کہ کوئٹے میں علمی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا پروگرام طے پا گیا ہے اورمجھے جناب فیض احمد فیض کی وہ ثقافتی پالیسی مل گئی ہے
جو ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی گئی تھی۔ ہم اُسے نافذکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مجھے بھی شعروادب سے گہرا لگاؤ ہے اور میری خواہش ہے کہ بلوچستان میں مشاعرے اور اُردوزبان پر
کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔
ظہرانے میں شریک معزز افراد نے بہت ساری کارآمد تجاویز دیں۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ
پنجاب میں جو ترقیاتی کام نظر آتے ہیں ٗ اُس کی بڑی وجہ جناب شہبازشریف کی اُن میں ذاتی دلچسپی
اور کڑی نگرانی ہے۔
یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ اُنہوں نے آج سے بیس سال پہلے جو سڑکیں تعمیر کی تھیں
وہ آج بھی صحیح سلامت ہیں۔
اِس ظہرانے سے مجھے جنوری 2013ء یاد آ گیا جب تھنک ٹینک پائنا نے پنجاب یونیورسٹی کے تعاون سے دو روزہ بلوچستان قومی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں وہاں کی پوری سیاسی قیادت نے حصہ لیا تھا
اور اِس میں لاہور کے دانشور اور سیاسی زعماء بھی پیش پیش تھے جنہوں نے اہلِ بلوچستان کا دکھ
اور درد بڑی شدت سے محسوس کرتے ہوئے اُن کے کاز کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد کیا تھا۔
جناب شہبازشریف نے اُس کے مندوبین کو عشائیے پر مدعو کیا اور اُن سے بہت کھل کر باتیں کی تھیں اور
اِس بات پر بطورِ خاص زور دیا تھا کہ بلوچستان کی تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینا اور
قومی دھارے میں آنا ہو گا کہ اِسی طرح ہم پاکستان کو ایک تابناک جمہوری مستقبل کی نوید سنا سکتے ہیں۔
اُس رات اُن کا عزم اور محبت قابلِ دید تھی اور آج کی دوپہر بھی اِسی بے پایاں عزم اور
قابلِ رشک جذبۂ ایثار کا بڑی شیفتگی سے اظہار کر رہے تھے۔
https://shanurdu.com/category/breaking-news/column/altaf-hassan-qureshi/altaf-hasan-