19 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

 سوچ کی دھارا

احساس کے انداز

 سوچ کی دھارا


(اور حقے کی چلم صراحی میں بدل گئی)

تحریر : جاوید ایاز خان

ہمارے علاقے کی فن کوزہ گری اور مٹی کے برتن بہت مشہور ہیں۔ یہ کوزہ گر، جو کمہار کہلاتے ہیں، اپنی مثال نہیں رکھتے۔
پرانے زمانے میں حقہ کا استعمال بہت زیادہ تھا۔ لوگ مہمان نوازی بھی حقے سے کرتے تھے۔ گھروں میں انفرادی اور چوپالوں، مجالس میں اجتماعی طور پر استعمال ہوتا۔ اس لیے حقے کی چلم کی طلب میں اضافہ ہوا تو کمہاروں نے دوسرے برتن چھوڑ کر چلم بنانے پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی۔
یہ خیال رہے کہ برتن ہاتھ سے نہیں سوچ اور دماغ سے بنتا ہے۔ اگر سوچ میں گھڑا ہے تو گھڑا بنے گا، اگر دماغ میں صراحی ہے تو وہی بنے گی۔ کمہار کے ہاتھ تو دماغ اور سوچ کے تابع ہوتے ہیں۔
اس بارے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک کمہار مٹی سے برتن بنا رہا تھا۔ اس کی بیوی نے پوچھا:
کیا بنا رہے ہو ؟
کمہار بولا:
حقے کی چلم بنا رہا ہوں جو آج کل بہت بک رہی ہے۔ بڑی اچھی کمائی ہو جائے گی ۔بیوی نے جواب دیا:
زندگی کا مقصد صرف پیسہ کمانا تو نہیں۔ کچھ اور بھی ہے۔ میری مانو، آج صراحی (گھڑا) بناؤ۔ آج کل شدید گرمی ہے۔ وہ بھی خوب بکے گی۔
ساتھ ہی لوگوں پیاس بجھانے کے کام آئے گی تو ثواب بھی ہو گا ۔
کمہار  نے کچھ سوچا اور اس کی سوچ کا دھارا بدل گیا۔ اس نے مٹی کو نئے روپ میں ڈھالنا شروع کیا۔ مٹی نے اچانک پوچھا:
یہ کیا کر رہے ہو؟میرا روپ کیوں بدل دیا؟
کمہار نے جواب دیا:
میری سوچ بدل گئی ہے! پہلے تمہارے پیٹ میں آگ بھر رہا تھا۔ اب پانی بھرے گا۔ مخلوق خدا کی پیاس بجھے گی۔ مجھے اور تمہیں نفع بھی ملے گا۔
مٹی بولی:
تمہاری تو صرف سوچ بدلی ہے مگر میری تو زندگی بدل گئی ہے۔ میں تکلیف سے نکل کر آسانی میں آ گئی ہوں۔ پہلے آگ کے انگاروں میں جلتی تھی۔ اب پانی کی ٹھنڈک مل گئی ہے۔ پیاس بجھانے کا ثواب الگ!
اس لیے کہتے ہیں کہ ٓاپ اپنی سوچ بدلیں، آپ کی زندگی خود بخود بدل جائےگی۔اچھی سوچ اچھی زندگی!
مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:
“تمہاری اصل ہستی تو تمہاری سوچ ہے۔ باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہی ہے!”
میرے استاد شاہ محمد کہتے تھے:
“اچھا لکھنے اور بولنے  کے لیے بہترین مطالعہ اور عمدہ لہجہ ضروری ہے، جو صرف اچھی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔ ورنہ بہت سے قابل لوگ بھی نفرت پھیلاتے اور زہر اُگلتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے مطالعے کے ساتھ ساتھ سوچ مثبت اور بڑی رکھو ، کیونکہ چھوٹی سوچ اور پاؤں کی موچ انسان کو  زندگی میں کبھی آگے بڑھنے نہیں دیتی”۔  

سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:
“بتائیں میرا مستقبل کیسا ہو گا؟”
سقراط نے ایک کاغذ منگوایا اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو ۔
اس نے جو جو کچھ سوچا تھا، سب لکھ ڈالا۔
سقراط نے بتا دیا کہ جیسے تمہارے خیالات اور سوچ ہے اس کے مطابق تمہارا مستقبل ایسا ہو گا!
اسی طرح معروف مصنف نپولین ہل کہتا ہے:
“دنیا مین اتنا خزانہ زمین میں سے نہیں نکالا گیا جتنا کہ انسان نے اپنے ذہن، خیالات، تصورات اور سوچ  کے سمندر سے حاصل کیا۔”
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کو سونا بنایا جا سکتا ہے۔
جبکہ منفی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا اگر سونے میں ہاتھ ڈالے تو وہ بھی مٹی بن جاتا ہے ۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک منفی سوچ رکھنے والا ذہن کبھی ایک مثبت زندگی نہیں جینے دیتا۔ منفی سوچ کے ساتھ آپ کوئی مثبت قدم نہیں اُٹھا سکتے، جبکہ دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے مثبت سوچ اور اچھے خیالات کی ضرورت ہے۔
انسانی کمال اور زوال اس کی سوچ اور خیالات سے منسلک ہوتا ہے۔ ہمیشہ مثبت سوچ کمال کی طرف اور منفی سوچ زوال کی طرف لے جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوچ سے رویے جنم لیتے ہیں اور رویوں سے ہمارا معاشرہ ترتیب پاتا ہے ۔
جان میکسویل نے چالیس سال دنیا کے کامیاب لوگوں پر تحقیق کی اور نتیجہ نکلا کہ ان سب میں ایک وصف مشترک تھا اور وہ تھا ان کے سوچنے کا انداز۔
یہ انداز فکر ہی ہے جو کامیاب اور ناکام شخص میں تفریق پیدا کرتا ہے۔
محمد عدنان اکبری کا ایک عمدہ مضمون بدلو، سوچ بدلو، پڑھنے کو ملا۔ انھوں نے لکھا کہ:
جان میکسویل  نے اپنی کتاب “کامیاب لوگ کیسے سوچتے ہیں؟” میں سوچ بہتر کرنے کے چند طریقے بتائے ہیں۔ وہ کہتا ہے
1۔ برتن میں جو ڈالو گے وہی باہر آئے گا۔ اس لیے اچھی کتابیں پڑھنا، بڑے لوگ کی اچھی باتیں سننا اور فطرت کے قریب رہنا سوچ کے بند دروازے کھول دیتا ہے
2۔ جیسی صحبت ویسی سوچ۔ اچھے سوچنے والوں کی صحبت اور دوستی بھی انسان کو اچھی سوچ کا مالک بنا دیتی ہے۔ خاص طور اللہ والوں کی صحبت ہماری اچھی سوچ کو مضبوط کرتی ہے
3۔ اچھے خیالات کا انتخاب کریں۔ کسی دانشور  نے کہا تھا دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جاؤ اور برے خیالات اندر نہ آنے دو۔ تو سوچ میں صرف اچھے خیال ہی رہ جائیں گے
4۔ اپنے اچھے خیالات پر خود بھی عمل کریں۔ یہ نہیں کہ اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت والا معاملہ بن جائے۔
5۔ سوچ کو جذبات سے آزاد رکھیں۔ اپنی سوچ کی ناؤ کو جذبات کی لہروں کے رحم و کرم پر مت چھوڑیں بلکہ محسوسات اور جذبات کو اپنے اچھے خیالات کے تابع کریں ۔ 6۔ اچھے خیالات کا یہ تسلسل جاری رہنا چاہیے۔ روز بروز آپ کی سوچ میں اضافہ آپ کے خیالات کو وسیع  تر کرتا چلا جاتا۔ اس لیے یہ سلسلہ کبھی رُکنا نہیں چاہیے ۔

اسلامی تعلیمات میں بھی ہمیں قدم قدم پر مثبت سوچ کو اپنانے اور منفی سوچ سے پرہیز کی تلقین کی جاتی ہے۔
اس لیے مثبت سوچ اور عبادات اسلام میں ہر وہ شے حرام ہے جو انسان سے مثبت سوچنے کی صلاحیت چھین لے۔
غصہ، نفرت، کینہ، حسد، بغض، عداوت، تعصب وغیرہ سب منفی احساسات ہیں جو اسلام میں قطعی حرام ہیں۔ ان کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ دنیا و آخرت میں تباہی کا باعث بن جاتے، جبکہ ایک دوسرے سے پیار و محبت، صلح صفائی، ایثار و قربانی، دوسروں کی خیر خواہی اور دکھی انسانیت کی خدمت وغیرہ وہ مثبت جذبات ہیں جنہیں اسلام پسند کرتا ہے۔
میرے مطابق کلمہ توحید سے ہی مسلمان کی سوچ کی تبدیلی کا اعلان ہو جاتا ہے۔ دین اسلام دراصل انسانی زندگی میں اللہ کے احکامات مان کر پورا اس میں ڈھل جانےکا نام ہے۔
اسی لیے “امر بالمعروف ونہی عن منکر” ایک فرض اور سوچ کی تبدیلی کا پیغام ہے۔ امربالمعروف اچھے کاموں کا حکم دینے اور نہی المنکر برے کاموں سے روکنے کے معنی میں ہے۔
یہی ایک مسلمان کی سوچ ہے جو اس کے ذاتی رویے بدلتی ہے۔ ہمارے انفرادی اچھے رویے ہی اسلامی معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں۔
دوسری جانب منفی سوچ اور برائی کو روکنے کا حکم ہے تاکہ معاشرے میں بھلائی اور اچھی سوچ پروان چڑھ سکے۔
ایک دانشور کا قول ہے:
“اچھی سوچ اور اچھے دل والے لوگوں کو سکون پانے کےلیے دربدر ٹھوکریں نہیں کھانی پڑتیں، کیونکہ ان کی سوچ اور ان کا دل ہمیشہ نکھری ہوئی صبح کی طرح روشن اور پر سکون ہوتا ہے۔”
اس لیے اچھی سوچ رکھو کیونکہ سوچ سے الفاظ بنتے ہیں، الفاظ سے عمل، عمل سے کردار اور کردار سے آپ کی اور آپ کےمعاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔ اچھے معاشرے ہی ہمیشہ قوموں کی ترقی کا زینہ ہوتے ہیں۔
حضرت علیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
“انسان کو اچھی سوچ پہ وہ انعام ملتا ہے جو اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتا کیونکہ سوچ میں دکھاوا نہیں ہوتا۔”

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles