شہرِ حسرت
نیلم احمد بشیر
میرے لیے وہ بڑے مصروف دن تھے۔ شہر کی اہم سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے ادارے کے ہمراہ جشنِ آزادی کے حوالے سے منعقد کی جانے والی کئی تقریبات کے انعقاد کا انتظام کرنا تھا
شہر کی تزئین و آرائش کرنے والی کمیٹی کی میٹنگز میں شریک ہونا تھا۔
اہلِ وطن کو ٹاک شوز کے ذریعے اُس خاص دن کی اہمیت کے حوالے سے احساس دلانا تھا کہ ہمارا اَپنا وطن ہمارے لیے کتنی خوش نصیبی، راحت اور تسکین کا باعث ہے۔
میرا پیارا شہر دلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا۔ کہیں نہر میں خوبصورت تفریحی کشتیاں اور فلوٹ تیر رہے تھے، تو کہیں سڑکوں پر سبز اور سفید جھنڈیاں اور بینر لہرا رَہے تھے۔
خوشیوں کا گہوارہ میرا شہر عظیم تھا، حسین تھا، میرا آنے والا کل، میرا مستقبل تھا۔
یہ وہ شہرِ بےمثال تھا جہاں لوگوں کی امیدیں، آرزوئیں، کاوشیں اور خواہشیں جنم لے کر تکمیل کی منزلوں تک جاتی تھیں۔
میرا شہر خوابوں سے مہکتا اور زِندگی سے دھڑکتا تھا۔
مَیں بڑی مصروف اور خوش تھی، مگر ایسی مصروفیت میں میری ایک ذاتی نوع کی پریشانی بھی گھلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے دھیان بار بار اُس طرف جا رہا تھا۔
دراصل مَیں اپنی گزربسر کے لیے اپنا ایک چھوٹا سامکان کرائے پر دیا کرتی تھی جس کی آمدن سے کچھ سہولت ہو جاتی تھی۔
اب کی بار تقریباً دو ماہ ہونے کو آئے تھے کہ کرائےدار نہیں مل رہا تھا۔ مَیں دل ہی دل میں یہ دعا کر رہی تھی کہ
یااللہ! کوئی کرائےدار بھیج دے تاکہ کاروبارِ حیات چلتا رہے اور دِقت نہ ہو، مگر نہ جانے کیا بات تھی معاملہ کچھ تعطل کا شکار ہوتا چلا جا رہا تھا۔
روز اپنے پراپرٹی ڈیلر سے فون پر پوچھتی اور پھر امید افزا جواب نہ پا کر خاموش ہو جاتی تھی۔ دن پہ دن گزرتے چلے جا رہے تھے۔
اللہ اللہ کر کے ایک روز پراپرٹی ڈیلر کا فون آ ہی گیا۔
اُس نے بتایا کہ فیصل آباد کے کسی دیہات کے تین لڑکے مکان کرائے پر لینا چاہتے ہیں۔
وہ لاہور کے کسی کالج کے طالبِ علم تھے اور کالج کے قریب یہی مکان اُنھیں مل رہا تھا، اِس لیے وہ مجھ سے مل کر بات کرنا چاہتے تھے۔
کرایہ دار لڑکوں نے مقررہ وَقت پر آ کر کرایہ نامہ وغیرہ طے کیا۔ زرضمانت ادا کیا اور چند ہی دنوں میں سامان لانے کا کہہ کر رخصت ہو گئے۔
دیہاتی سے دِکھنے والے لڑکوں نے فرمائش کی کہ اُن کے آنے سے پہلے مکان کو اَچھی طرح صاف کروا دِیا جائے اور خاص طور پہ کیڑے مار سپرے چھڑکایا جائے
کیونکہ وہ کیڑے مکوڑے، کاکروچ اور چھپکلیوں وغیرہ کو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
مَیں نے دھونی دینے والی (فیومی گیشن) کمپنی کو فون کیا
تین ہزار رُوپے خرچ کر کے اُن سے کیڑے مار سپرے کرنے کو کہہ دیا۔
سوچا چلو صفائی پسند ہیں، تو اچھا ہی ہے۔ کم از کم مکان تو صاف رکھیں گے۔
پورشن دو تین ماہ سے خالی پڑا تھا اور اُسے کبھی کبھار کھولنے اور چیک کرنے کے دوران مَیں نے بھی اِکا دُکا کاکروچ دیکھ کر ناگواری ضرور محسوس کی تھی۔
اب نئے کرائےداروں کی وجہ سے اچھی طرح صاف ہونے جا رہا تھا
یہ سوچ کر مجھے بھی تسلی سی ہو گئی۔
کمپنی والوں نے مکان کے اندر، باہر، گلی کے آغاز سے اختتام تک جتنے بھی گٹر تھے،
اُن میں کیڑے مار اَدویات چھڑک دیں اور مکان کو چوبیس گھنٹے تک بند رکھنے کی ہدایت کر کے چلے گئے۔
سپرے ہوتے ہی بہت بڑی تعداد میں کاکروچ اور دِیگر کیڑے گٹروں سے ابل ابل کر باہر آنے لگے اور سارا مکان اور گلی لال کیڑوں سے بھر گئی۔
کیڑے یوں سرپٹ بھاگ رہے تھے جیسے کسی میراتھن ریس میں شریک ہونے جا رہے ہوں۔
گلی کے بچوں کو دلچسپ شغل ہاتھ آ گیا اور وُہ خود کیڑوں کے پیچھے دوڑ دوڑ کر اُنھیں مزید تیز بھگانے لگے۔
نئے کرائےداروں میں سے ایک لڑکا افضل ہاتھ میں سامان سے بھرا ایک ڈبہ اُٹھائے چلا آ رہا تھا۔
اُس نے جیسے ہی اتنے سارے کاکروچ گلی میں بھاگتے دیکھے، بدحواس ہو گیا اور اُلٹے قدموں واپس بھاگنے لگا۔
اُس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر گلی کے بچے کھی کھی کر کے ہنسنے لگے اور جوتیاں لے کر کاکروچوں کو مزید پیٹنے میں مصروف ہو گئے۔
گلی کی عورتوں نے میری طرف شاکی آنکھوں سے دیکھ کر کہا
سپرے کی بُو ناک میں گھس رہی ہے‘‘ اور دوپٹوں کے پلو چہروں پہ لپیٹ لیے۔
’’آپ کو سپرے نہیں کروانا چاہیے تھا۔ اِس طرح تو کاکروچ ساری گلی میں پھیل گئے ہیں۔‘‘
’’اپنے گھر کے کیڑے اندر ہی رکھیں، یہ تو ہمارے گھروں میں گھستے چلے آ رہے ہیں۔‘‘
عورتوں نے مجھ سے شکوہ کیا، تو مَیں شرمندہ سی ہو گئی۔
واقعی سپرے کروانے سے تو یہ کیڑے گٹروں کی تاریک محفوظ دنیا سے باہر
کی روشن پُرخطر دنیا کی طرف نکل آئے تھے۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔
’’معذرت چاہتی ہوں، نئے کرائےداروں نے ہی مجھے کہا تھا، مجھے کیا علم تھا یہ ہو گا۔
مَیں نے کمزور سی معذرت پیش کی اور دُعا کرنے لگی
یا اللہ! یہ سارے کاکروچ جلد سے جلد واپس اِن گٹروں میں چلے جائیں
تاکہ محلے والوں کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
چند ہی دنوں میں نئے کرائےدار منتقل ہو گئے، تو مَیں نے سُکھ کا سانس لیا۔ اپنی طرف سے تو مَیں نے اُن کے لیے جو وہ چاہتے تھے، کر ہی دیا تھا۔ دس پندرہ دِن گزرے ہوں گے کہ مجھے اُس پراپرٹی ڈیلر کا فون آ گیا جس نے اُن لڑکوں کو کرائےدار رَکھوایا تھا۔
’’ہاں جی، بتائیں کیا بات ہے؟‘‘ مَیں نے سلام دعا کے بعد پوچھا۔
’’وہ جی لڑکے کافی پریشان ہیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیوں، کیا ہوا؟‘‘ مَیں نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’باجی! وہ کہتے ہیں کاکروچ بہت ہیں اور گھر میں سے بُو بھی آتی ہے۔‘‘
’’کاکروچ؟ کاکروچوں کے لیے تو مَیں نے خاص طور پر سپرے کروایا تھا۔ اُنھیں پورا مکان صاف کروا کے دیا تھا۔ اب بُو کیسے آ سکتی ہے؟ آخر وہاں پہلے بھی کرائےدار رَہتے رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلے کرائےدار تو نہیں ہیں۔‘‘ مَیں نے خفگی سے کہا۔
’’بس باجی! وہ گھر چھوڑنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’بھئی آخر معاہدہ ہوا ہے۔ کرایہ نامہ، نوٹس، یہ سب ہوتا ہے۔ ایسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔
کمال ہے۔‘‘ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ یہ کس قسم کے کرائےدار ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟
محلے والوں نے بتایا کہ وہ کرائےدار لڑکے کبھی گھر سے باہر نظر نہیں آتے اور ہر وقت گھر میں ہی گھسے رہتے ہیں۔
دو تین روز بعد مَیں نے اپنی بہن کو ساتھ لیا اور سوچا ذرا کرائےداروں سے مل آؤں۔
پوچھوں تو سہی کہ کیا تکلیف ہو گئی ہے اِنھیں۔
مجھے شہر سے باہر جانا تھا اور اَب پھر سے کرائےداروں کی الجھن پیدا ہونے والی تھی۔
بڑی مصیبت تھی، کئی بار سوچا اِس نری چخ چخ سے تو بہتر ہے مکان کو بیچ ہی دوں،
مگر پھر بوجوہ اِس ارادے کو ملتوی کر دیا۔
کرائےدار لڑکوں نے متواتر کئی بار گھنٹی بجانے، دروازہ کھٹکھٹانے، آوازیں دینے کے بعد کھڑکی پہ لگے شیشے کو تھوڑا سا ہٹایا اور کچھ توقف کے بعد دروازہ کھول دیا۔
اندر گھستے ہی ہمیں بُو کے بھبکے نے پریشان کر دیا اور ہم ناک سکوڑتی اِدھر اُدھر دیکھنے لگیں۔
دیکھیں آنٹی! کتنی بُو ہے یہاں۔
ہم لوگ تو ایئرفریشنر سپرے کر کے تھک گئے ہیں اور کاکروچ بھی ختم نہیں ہوئے۔ رات کو زمین پہ سونا ہوتا ہے، تو بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘
تو بھئی مار دِیا کرو۔‘‘ میری بہن نے ہنس کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
نہیں آنٹی! وہ آسانی سے مرتے ہی کہاں ہیں؟
ہم لوگ ہر وقت اُن پر کیڑے مار سپرے چھڑکتے رہتے ہیں۔ وہ اُلٹے ہو جاتے ہیں، اوندھے پڑے رہتے ہیں، مگر مرتے نہیں۔
اگر اُنھیں ذرا سا پلٹ دیں، تو اُٹھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘ ایک بولا۔
یا اللہ! اتنا تو مَیں نے کاکروچوں کی نقل و حرکت کے بارے میں کبھی نہیں سوچا
مَیں نے ہنس کر بات ٹالنا چاہی۔
’’آنٹی! یہ بڑی مضبوط نسل ہے۔ کہتے ہیں ایٹم بم کو بھی سروائیو کر سکتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے میری معلومات میں مزید اضافہ کیا۔
’’آپ لوگ کوڑا کرکٹ باہر نہیں پھینکتے؟ توبہ کس قدر گند ڈال رکھا ہے۔ کیڑے نہیں آئیں گے، تو اور کیا ہو گا؟‘‘ میری بہن بولی۔
ہم نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اے سی اور ٹی وی غالباً چوبیس گھنٹے چلتے رہتے تھے۔ کھانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے، اخبار، لفافے، خالی بوتلیں، ڈبے الا بلا دیکھ کر حیرت ہونے لگی۔ معمہ سمجھ میں آنے لگا تھا۔ کئی قسم کے سپرے اور کھانوں سے مل کر ایک عجیب و غریب سی سڑانڈ پیدا ہو چکی تھی۔ باورچی خانہ گندے برتنوں سے اٹا پڑا تھا۔ مکان کی ہر کھڑکی اور دَروازہ بند تھا۔
’’یہ آپ لوگوں نے مکان کی کیا حالت بنا رکھی ہے؟ سارے مکان میں ہوا کا کہیں سے بھی گزر نہیں۔ بُو تو ہونی ہی ہے۔ ایسے حالات میں کیڑوں کی تو موج ہو گئی ہو گی۔
آپ نے مکان اتنا بند کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘
ہم نے اُنھیں بہت سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ بضد رہے کہ بُو مکان میں ہے اور وُہ اِس کے ذمےدار نہیں اور مکان چھوڑنا چاہتے ہیں۔
’’ہم جی گاؤں کی کھلی فضا میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں بند کمروں میں گھٹن ہوتی ہے
اور دِل گھبراتا ہے۔
وہ اَپنی صفائیاں پیش کرنے لگے۔ مَیں عجیب مخمصے میں پھنس چکی تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اِن کرائےداروں کا کیا کروں؟
روانگی کے دن قریب آتے جا رہے تھے اور مکان شاید پھر خالی ہونے والا تھا۔ کرائےدار اِتنے نازک طبع تھے، مگر اپنے گھر کی صفائی سے اُنھیں کوئی سروکار نہ تھا۔
اُن کی بوُ کی شکایت اور کاکروچوں کا وہم ایک مسئلہ بنتا جا رہا تھا۔
آئے دن کبھی اُن کا اور کبھی پراپرٹی ڈیلر کا فون آ جاتا کہ جی لڑکے بہت تنگ ہیں۔
وہ آپ کا مکان چھوڑنا چاہتے ہیں۔
مَیں حیران تھی کہ اچھے بھلے مکان میں کیڑے ڈال رہے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی۔
اُن سے پہلے وہاں اچھا خاصا ایک معقول ڈاکٹر چند ماہ گزار کر گیا تھا۔
ایک روز ہمسائیوں کے ہاں سے ایک فون آیا اور مجھے گڑبڑا کر رکھ دیا۔
خاتون نے پریشان آواز میں کہا: ’’آنٹی! جلدی آئیں۔
آپ کے کرائے والے مکان میں پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے۔ پولیس آئی ہوئی ہے۔‘‘
مَیں الٹی سیدھی چپل پاؤں میں ڈال کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ یا اللہ خیر ہو۔ مَیں نے دل ہی دل میں دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ کرائے والا مکان گلی کے آخر میں تھا، مگر وہاں تک پہنچنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ساری گلی میں پولیس ہی پولیس تھی۔ ہر طرف سائرن والی گاڑیاں، اسلحہ بردار پولیس والے اور سفید کپڑوں میں ملبوس لمبے چوڑے آدمی گشت کرتے نظر آ رہے تھے۔ پولیس والوں نے سب ہمسائیوں کو گھروں کے اندر جانے کا اشارہ کر دیا اور خود بندوقیں لے کر مکان کے دروازے توڑنے شروع کر دیے۔
مَیں سکتے کے عالم میں ایک ہمسائے کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھنے لگی۔
چاہتی تھی کہ پولیس والوں سے کچھ کہوں گی، مگر خاموش رہی۔
دیہاتی لڑکوں نے شاید اندر سے کمرے کا دروازہ بند کر لیا تھا
کیونکہ بعد میں وہ ٹوٹا ہوا ملا تھا، مگر پولیس نے اپنا کام کر لیا۔ وہ لڑکوں تک پہنچ چکے تھے۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ مَیں نے کچھ سمجھ میں نہ آنے پر بندوق تانے ایک پولیس اہل کار سے سرگوشی میں پوچھا۔
بی بی! یہ پولیس کا چھاپہ ہے۔ یہ بہت بڑے ڈاکو ہیں اور ہمیں اِن کی ایک عرصے سے تلاش تھی۔ کئی قتل اور اَغوا کیے ہوئے تھے اِنھوں نے۔ شکر کریں آپ کا محلہ بچ گیا۔‘‘
ہائیں؟ ہائے اللہ!‘‘ میرا تو جیسے خون ہی خشک ہو گیا۔
کتنے سیدھے سادے اور بھولے بھالے دکھتے تھے وہ۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔
اِن مجرموں نے میرے ہی مکان میں کرائےدار بننا تھا۔ مجھے قدرت کی اِس ستم ظریفی پر ہنسی آئی اور رَونا بھی۔
پولیس والے چند ہی منٹوں میں اُن کی مشکیں کَس کے اُنھیں باہر لے آئے جہاں ساری گلی کے لوگ اپنی کھڑکیوں سے تماشہ دیکھ رہے تھے۔
عجیب ہیبت سی چھا گئی تھی چاروںطرف۔
لڑکوں کے منہ پر ٹیپ لگا کر اور پھر گھسیٹ کر پولیس کی گاڑی میں پھینکا جا رہا تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس والوں نے مکان میں سے سامان اُٹھا اُٹھا کر باہر گلی میں کھڑی ایک دوسری گاڑی میں لادنا شروع کر دیا۔
مَیں نے اپنی کچھ چیزیں مثلاً چولہا، ایئرکنڈیشنر وغیر جاتے دیکھ کر احتجاج کرنا چاہا، تو پولیس والے نے یہ کہہ کر چپ کروا دِیا کہ
بی بی! یہ وصولی ہوتی ہے، ہمیں اِن کا سامان مال خانے میں جمع کروانا ہے۔‘
سامان میں بہت سے چھینے ہوئے موبائل فون، اسلحہ اور نہ جانے کیا کیا برآمد ہو رہا تھا۔
سارے محلے والے سکتے کے عالم میں خوف زدہ ہو کر اندر دَبک گئے
اور تھوڑی دیر میں پولیس کی گاڑیاں وہاں سے روانہ ہو گئیں۔
جب مَیں نے بعد میں چیک کیا، تو مکان کی حالت دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہا۔
پولیس نے اُن لڑکوں کو گرفتار کرنے کے لیے سارا مکان ہی توڑ پھوڑ دیا تھا
اَب نقصان کا خرچ اور ذمےداری ساری کی ساری مجھ پر آن پڑی تھی۔
اتنے سیدھے، پینڈو اَور اَپنے تئیں صفائی پسند لڑکے اتنی متعفن اور گھناؤنی زندگی گزار رَہے تھے، مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
چند ہفتوں بعد پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ایک فون آیا کہ آپ آئیں اور بطور مالک مکان پیش ہو کر اُن کے بارے میں رپورٹ دیں اور اُنھیں شناخت کریں۔
مَیں تو اب اُن لڑکوں کے کسی معاملے میں آنا نہیں چاہتی تھی، مگر مجھے یقین دلوایا گیا کہ میرا اُن کا آمنا سامنا نہ ہو گا۔
مَیں پردے میں رہوں گی اور وُہ مجھے دیکھ نہ پائیں گے۔
چند مرد رِشتےداروں کے ہمراہ مَیں صبح کے وقت کوٹ لکھپت جیل پہنچی۔ خوبصورت چمکتی دھوپ میں بیڑیاں پہنے قیدی باغبانی میں مصروف نظر آئے، تو بہت عجیب لگا۔
ہری ہری گھاس اور خوبصورت پھولوں کی کیاریوں میں کام کرنے والے کتنی بدصورت، محبوس و مجبور زندگی گزار رَہے تھے۔
اگر اُنھوں نے غلط کام نہ کیے ہوتے، وہ بھی نارمل لوگوں کی طرح کہیں تازہ، خوشنما پھولوں کے گلدستے سونگھتے
کسی اڑتی فاختہ اور کُوکتی کوئل سے آباد باغ میں اپنی کسی ہم نفس کے ساتھ خوشیوں بھرے لمحوں سے جھولیاں بھر رہے ہوتے۔
سب کچھ اچھا اور ٹھیک ہوتا۔
گارڈ نے مجھے ایک کمرے کے باہر پہنچ کر رکنے کا اشارہ کیا اور خود کونے میں لگی ایک جالی دار کھڑکی میں بنے ایک ننھے سے سوراخ پر سے آہنی پلیٹ کو
ذرا سا ہٹا کر مجھے اندر جھانکنے کا اشارہ کیا۔
مَیں نے ڈرتے ڈرتے نگاہ اَندر دوڑائی، تو میرے تن بدن میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی اور جسم کانپنے لگا۔ ننھے سے سوراخ میں سے پہلی چیز جو مجھے محسوس ہوئی
ایک بدبُو کا بھبکا تھا جو اِس حبس اور گرمی کی ماری ہوئی کال کوٹھڑی میں سے باہر آ رہا تھا۔ گندے میلے ننگے فرش پر تینوں لڑکے رسیوں سے بندھے اوندھے پڑے تھے۔
الٹے، بےبس اور اَدھ موئے۔
آپ اِنھیں سیدھا کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘ میرے دل میں ہلکا سا رحم کا جذبہ جاگا، تو مَیں نے گارڈ سے سوال کیا۔
میڈم! اِنھیں سیدھا کر دیا، تو یہ اپنی ٹانگیں چلانے لگیں گے اور پھر سے بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ دو بار پہلے بھی بھاگنے کی کوشش کر چکے ہیں یہ جی ….. سالے کیڑے …..
بڑے خطرناک مجرم ہیں جی یہ ….. کئی وارداتوں میں مطلوب تھے۔‘‘
’’ایک بار پھر سے دیکھ کر تصدیق کر دیں جی ….. یہی تھے جنہوں نے آپ کا مکان کرایہ پر لیا تھا؟
دوسرے گارڈ نے پوچھا اور مَیں نے بادلِ نخواستہ اِک بار پھر اندر جھانکا۔ افضل کے بالکل قریب سے ایک چوہا گزرا اور اُس نے روٹی کا ایک بچا ہوا ٹکڑا اُچک لیا۔
سرسراتے ہوئے، رینگتے ہوئے کئی لال بیگ چھوٹے چھوٹے تاریک سوراخوں میں سے آنے جانے میں مصروف نظر آ رہے تھے۔ تینوں مجرم آنکھیں بند کیے ہولے ہولے سسک رہے تھے۔
دکھ کی ایک ٹیس مجھے اپنے کلیجے میں اٹھتی محسوس ہوئی اور مَیں نے وہاں سے نظریں ہٹا لیں۔ شناخت کی کارروائی پوری ہو چکی تھی
اور مجھ میں اب اور کچھ دیکھنے کی تاب نہ تھی۔
یومِ آزادی کو گزرے کئی ہفتے گزر چکے تھے۔ شہر اپنے معمول پہ آ چکا تھا۔
مَیں ایک اونچے، ٹیلے پہ کھڑی شہر کو دیکھتی تھی۔ ہوا میں تازگی تھی، نہ پاکیزگی
اور نہ خوشبو۔ ایک اداس سے تعفن نے ماحول پہ اپنی کالی چھایا ڈال رکھی تھی۔
سڑکوں پہ، گھروں میں، دفتروِ کھیت کھلیانوں میں استحصال، جرم، جہالت، غربت، کثرتِ آبادی کے لاتعداد کاکروچ مصروفِ عمل تھے۔ وہ شہر کو کھا رہے تھے، نوچ رہے تھے، کرید رہے تھے، کھنگال رہے تھے۔
اندر ہی اندر کھوکھلا اور کمزور بنا رہے تھے۔
میرے سیلن زدہ شہر میں خوف اور بےیقینی کی گھٹن اتنی تھی کہ سانس رکتا تھا۔
قدم قدم پر دھماکوں کے نغمے گونجتے اور خودکشیوں کے کانٹے دار پھول کِھلتے تھے۔
سرخ ہجوم آگے ہی آگے کو رینگ رہا تھا اور منزل کا کوئی پتہ نہ تھا۔
جشنِ آزادی کا ایک بچا کھچا سفید اور سبز پھرہرا اَبھی بھی کسی کھمبے سے چپکا ہوا لہرا رَہا تھا حالانکہ یومِ آزادی کو گزرے ہوئے بہت دن بِیت چکے تھے۔