Home اردو ادب ساقن ساکن

ساقن ساکن

سیماب کمر کے بل فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ گرم خون ٹھنڈے جام میں گھل مل گیا تھا۔ سالم پھٹی پھٹی نظروں سے سیماب کو دیکھتے ہوئے فرش پر بیٹھا اُس نے سیماب کے رخسار کو چھوا۔ ساقن ساکن‘‘ ہو چکی تھی۔…٭…

0
423

ساقن ساکن

شکیل احمد چوہان 

متحدہ عرب امارات نے 2 دسمبر 1971ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ امارات سات ریاستوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔
اس سر زمین پر جو پاکستانی اور ایرانی بلوچ 1971ء سے پہلے مقیم تھے، آزادی کے بعد انھیں اماراتی پاسپورٹ مل گیا۔
اب ان بلوچ خاندانوں کی دوسری اور تیسری نسل بھی جوان ہو چکی ہے۔ یہ عربی اور اُردو بڑی روانی سے بول لیتے ہیں۔ امارات میں کسی عربی یا بلوچی مرد کا چھے سات شادیاں کرنا عام سی بات ہے۔

سالم بن جاسم البلوشی‘‘ کے اندر بھی ساتویں شادی کی آرزو  نے انگڑائی لی۔
سالم کا باپ ایرانی بلوچ تھا، اس لیے مقامی عرب قبائل سے اُسے رشتہ نہیں مل سکتا تھا۔ سالم کی پہلی چھے میں سے چار بیگمات کا تعلق حیدر آباد انڈیا سے تھا۔ اس بار بھی اُس نے حیدر آباد کا ہی انتخاب کیا۔
حیدر آباد جا کے 51 سالہ سالم نے اپنے پیسے کے زور پر 17 سالہ سیماب سے ساتویں شادی رچا لی۔
سیماب کی ماں نے اُسے سالم کے حرم میں بھیجنے سے پہلے امارات کے تین ویزے اور لاکھوں درہم نقد لیے تھے۔
سالم نے سہاگ رات منانے کے لیے حیدر آباد کے ایک شاندار ہوٹل کا انتخاب کیا۔
ہوٹل کا کمرا عود اور گلابوں کی مہک سے معطر تھا۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر شیشے کی ایک بڑی سی میز پر کھانے پینے کی بے شمار اشیاء رکھی گئی تھیں۔

سیماب بیڈ پر سہمی سمٹی سی بیٹھی تھی۔ سالم ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے بیڈ پر بیٹھی ہوئی سیماب پر نظر ڈالی، جو سرخ عروسی لباس میں گھونگھٹ گرائے بیٹھی تھی۔ سالم کو وہ اسٹرابری کی طرح دکھ رہی تھی۔
سالم اس پھل کو جھٹ پٹ چکھنا چاہتا تھا۔ وہ سیماب کے روبرو بیٹھ گیا۔ سیماب گھبرا گئی۔ سالم نے سیماب کا گھونگھٹ اُٹھانے کے بجائے کھینچ کر دور پھینکا۔
سیماب نے ڈر کے مارے اپنی بانہیں اپنے سینے سے لگا لیں۔
بھولی بھالی، چھوئی موئی سی سیماب نے احتجاجی نظروں سے سالم کی طرف دیکھا۔ بھیانک چہرے والا ایک شخص شرابی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ سیماب ٹھٹھک کے رہ گئی۔
ماشاء اللہ سالم نے یہ کہنے کے بعد سیماب کو اپنی بانہوں میں دبوچ لیا۔ بدمست ہاتھی نے اس معصوم کلی کو پوری طرح کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا۔

رات کے پچھلے پہر جب سالم کا نشہ کچھ کم ہوا تو اُس نے رعب دار آواز میں سیماب کو حکم دیا
اُس ٹیبل سے میرے لیے پیگ بنا کر لاؤ۔
’’پیگ … ؟‘‘ سیماب سوالیہ لہجے میں بولی۔
وہ سامنے ٹیبل پر شراب اور سوڈا پڑا ہوا ہے۔ گلاس میں تھوڑا سوڈا ڈالو پھر شراب اور لے آؤ۔‘‘ مسلی ہوئی کلی بیڈ سے اُٹھ کر ڈوپٹا اوڑھنے لگی تو سالم غصے میں بولا
ایسے ہی جاؤ
نکّو جی (نہیں جی) ‘‘ سیماب نے دبی آواز میں التجا کی۔
’’ایسے ہی جاؤ۔‘‘
’’ہم کو شرم آتی ہے جی!‘‘ سیماب نے معصومیت سے بتایا۔
سالم کے چہرے پر مغرور مسکراہٹ بکھر گئی۔ اُس نے نظروں سے سیماب کو ڈوپٹا لینے کی اجازت دے دی۔ سیماب لڑکھڑاتی ہوئی پیگ بنا لائی۔ اُس نے پیگ سالم کو پیش کیا۔ سالم نے پیگ کا ایک گھونٹ لینے کے بعد سیماب کی طرف دیکھتے ہوئے اُسے کہا
’’ساقن … ہمارا ساقن۔‘‘
نکّو جی ! ہمارا نام سیماب ہے‘‘ سیماب نے ہولے سے بتایا۔
آج سے تم ساقن ہو!‘‘ سالم نے فیصلہ سنا دیا ۔

حیدر آباد میں سات دن گُل چھَرے اُڑانے کے بعد آٹھویں روز سالم سیماب کو لے کر امارات چلا گیا۔
امارات پہنچ کر سیماب کی جان تھوڑی سکھی ہوئی۔ اب سالم ہفتے میں صرف ایک بار اُس کی طرف آتا۔ چھے دن تک سیماب گھر کے خادموں کی مالکن ہوتی اور ساتویں دن سالم کی کنیز۔ سالم پہلے سیماب کے ہاتھ سے جام پیتا پھر اُسی کا اِنجر پنجر ہلا کے رکھ دیتا۔
اسی طرح چند مہینے گزر گئے۔ ایک رات سالم شراب کی دو بوتلیں اُٹھا لایا اور بیٹھ کر پینے لگا۔ جب آدھے سے زیادہ بوتل وہ ختم کر چکا تو اُس کا جام چھلکنے لگا۔
سیماب نے اُسے منع بھی کیا مگر وہ نہیں مانا۔ اُس نے بوتل ختم کر کے ہی دم لیا تھا۔ وہ خالی گلاس کو شیشے کی میز پر بھری ہوئی دوسری بوتل کے ساتھ رکھتے ہوئے، اپنی جگہ سے اُٹھا۔ سیماب بھی کھڑی ہو گئی۔
وہ بیڈ روم میں لے جانے کے لیے سیماب کو اپنی بانہوں میں کسنے لگا تو سیماب دھیمے لہجے میں کہنے لگی
’’شیخ آج ہمارا طبیعت خراب ہے، آج چھوڑ دو۔‘‘

جیسے ہی سیماب نے سالم کی بانہوں سے خود کو آزاد کروایا۔ سالم نے ایک زور دار تھپڑ اُسے لگا دیا۔ سیماب کا پاؤں پھسلا اور وہ کمر کے بل شیشے کے میز پر گر گئی۔ میز کا شیشہ کرچی کرچی ہو گیا۔
سالی ساقن مجھے انکار کرے گی۔‘‘ سالم نے سیماب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
سیماب کمر کے بل فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ گرم خون ٹھنڈے جام میں گھل مل گیا تھا۔
سالم پھٹی پھٹی نظروں سے سیماب کو دیکھتے ہوئے فرش پر بیٹھا اُس نے سیماب کے رخسار کو چھوا۔
ساقن ساکن‘‘ ہو چکی تھی۔

…٭…

NO COMMENTS