افسانہ
پھولوں کا زیور
تحریر۔کنول بہزاد
اس نے جب ہوش سنبھالا تو خود کو خوشبوؤں کے حصار میں پایا۔ گھر کے چھوٹے سے آنگن میں ماں نے گلاب اور موتیے کے ڈھیروں پودے لگا رکھے تھے۔ ماں سارا دن گلدستے ،ہار اور گجر ے بناتی ۔ایسے میں وہ خود بھی ایک مہکتے پھول کی مانند دلکش لگتی۔ اس کا باپ بھی اس کام میں ساتھ دیتا۔
وہ ایک گل فروش تھا مگر بیوپار پر جانے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ سے بنائے گجرے ماں کے ہاتھ میں ضرور پہناتا۔ ایسے میں ماں کا چہرہ اور بھی گلرنگ ہو جاتا۔ وہ اپنی اس جنت شاداں و فرحاں تھا کہ ایک روز قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔
اس کا باپ ایک حادثے میں اچانک ہی چل بسا۔ ان کا ہنستا بستا گلشن وقت کی تندو تیز آندھی نے اجاڑ ڈالا۔ ماں کچھ دن تو سر منہ لپیٹے پڑی رہی ،لوگ پرسہ دینے آتے رہے مگر کب تک۔۔۔ ایک دن وہ اٹھی اور مرجھائے ہوئے پھولوں کو پانی دینے لگی۔
مالک سے بچھڑ جانے پر پھول بھی نوحہ کناں تھے۔ پھر سے توجہ ملی تو ان کی رعنائی لوٹ آئی۔ اب مجبوراً وہ پھول بیچنے جاتا۔ لوگ بچہ سمجھ کر اونے پونے داموں پھول لے لیتے۔ بمشکل دو وقت کی روٹی پوری ہوتی ۔ ماں اب پھول پرونے بیٹھتی تو جیسے اس کا چہرہ اور بھی مرجھا جاتا۔۔۔
کااااش۔۔۔ماں پہلے کی طرح ہنستی مسکراتی تو کتنی اچھی لگتی۔۔۔
وہ ماں کی گمشدہ مسکراہٹ واپس لانے کے لیے کئی کئی جتن کرتا۔۔۔ بے سروپا باتوں پہ خود بھی ہنستا اور ماں کو ہنسانے کی بھی کوشش میں رہتا۔
وہ اب بڑا ہورہاتھا تھا۔۔۔اپنی اور ماں کی محرومی اور دنیا کے ظالمانہ روپے کو سمجھنے لگا تھا۔ ایک شام وہ واپس آیا تو ماں کی ہنسی کی آواز پر چونک گیا۔ گھر میں داخل ہوا تو ماں کے پاس ایک اجنبی مگر مانوس صورت والی موہنی سی لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ ماں کی نظر اس پر پڑی تو فوراً ہی بلائیں لیں۔
آ گیا میرا سوہنا پتر گلفام۔۔۔”پھر ذرا توقف کرکے بولی۔
یہ چنبیلی ہے۔۔۔ سامنے والی خالہ زیتون کی بھتیجی۔ مانسہرہ کے ایک گاؤں سے سے آئی ہے۔۔۔کچھ عرصہ یہاں رہے گی ۔۔۔۔
چنبیلی نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ جھینپ کر کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد باتوں کی آواز آنا بند ہو گئی تو وہ باہر آیا۔
نہ تو کیوں اندر چھپ کے بیٹھ گیا تھا؟ ویسے بڑی اچھی لڑکی ہے چنبیلی۔ اتنے مزے کی باتیں کرتی ہے کہ کیا بتاؤں۔ بےچاری کی ماں نہیں ہے۔ اس لیے باپ نے پھوپھی کے پاس بھیج دیا ہے کچھ دنوں کے لیے۔
وہ ماں کو خوش دیکھ کر شانت ہو گیا۔ لگتا ہے بہت دوستی ہو گئی ہے ۔ چلو میری غیر موجودگی میں وقت اچھا کٹ جایا کرے گا تمہارا۔
پرائی بچی ہے۔ روز میرے ساتھ تھوڑی بیٹھا رہا کرے گی۔ جھلا نہ ہو تو۔ ماں پھر اداس سی ہو گئی۔
ایک رات چھاجوں مینہہ برسا کہ ہر سو جل تھل ہو گیا۔ خنکی کے باعث گلفام کسل مندی سے بستر میں دبکا رہا۔ ماں نے باورچی خانے سے آواز دی تو وہ صحن میں چلا آیا۔ چھوٹے سے باغیچے سے پھول چنتی، وہ چنبیلی ہی تھی۔ ہوا سے اس کے بال بکھر گئے تھے اور چند آوارہ لٹیں اس کے صبیح چہرے کو چھو رہی تھیں۔ آنچل کا پلو پھولوں سے بھر گیا تھا اور وہ مزید توڑے جارہی تھی۔
بس کر دیں ۔۔۔ سارے پھول آپ نے چن لیے تو میرا کیا ہوگا؟ وہ خلاف عادت اچانک بولا تو پھول چنتی چنبیلی چونک کر سیدھی ہوئی اور سارے پھول زمین پر بکھر گئے۔ وہ شرمندہ ہو کر آگے بڑھا اور پھول اٹھانے لگا۔
رہنے دیں مجھے نہیں چاہئیں۔ یہ کہہ کر اس نے دروازے کا رخ کیا اور جھپاک سے باہر نکل گئی۔
ارے چنبیلی کہاں گئی؟ کہہ رہی تھی موسم بڑا اچھا ہے ۔۔۔ مجھے بھی پھول چاہئیں ۔۔۔ پھولوں کا زیور بناؤں گی۔۔۔۔ماں نے حق دق کھڑے گلفام سے پوچھا۔
معلوم نہیں ۔۔۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ پھول چھوڑ کر چلی گئی اچانک۔۔
ا چھا تو ناشتہ کر۔۔۔ میں اسے یہ پھول دے کر آتی ہوں۔ ماں سارے پھول سمیٹ کر باہر نکل گئی۔
کتنے ہی دن گزر گئے نہ چنبیلی خود نظر آئی نہ ہی ماں نے اس کا ذکر کیا۔ جانے کیوں وہ مضطرب سا رہنے لگا۔ ایک بےوجہ اداسی نے دل میں ڈیرے جما لیے۔
ماں دعا کر مجھے کوئی مناسب دکان کرائے پہ مل جائے۔۔۔کچھ جگہوں پہ بڑی مانگ ہے پھولوں کی۔۔۔ کام اچھا چل نکلے گا تو ہمارے دن بھی پھر جائیں گے۔
پر۔۔۔دکانوں کے کرائے تو بڑے زیادہ ہیں۔۔ پیسے کہاں سے آئیں گے؟
میں نے کچھ پیسے جوڑے ہیں ماں۔۔۔ کچھ رفیق نے ادھار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس نے اپنے دوست کا نام لیا۔
اللّٰہ ضرور مدد کرے گا۔۔۔ تیرا کاروبار چل نکلے تو میں تیرے لیے دلہن ڈھونڈوں۔ ماں آنکھوں میں خواب سجا کر بولی تو چنبیلی چھم سے اس کے تصور میں مسکرانے لگی۔
اچھا ماں۔۔۔ میرے لیے ایسی دلہن ڈھونڈنا جسے پھولوں کا زیور بنانا آتا ہو۔۔۔ گلفام شوخی سے بولا تو ماں ہنس کر بولی
چل بے شرم نہ ہو تو۔۔۔
ایک روز وہ گھر سے باہر نکلنے لگا تو سامنے سے چنبیلی آتی دکھائی دی۔۔۔ وہ رک کر انتظار کرنے لگا۔۔ پاس آئی تو وہ ہمت کرکے بولا۔
ناراض ہو کیا۔۔۔؟
نہیں بہت خوش ہوں۔۔۔ مہمانوں کی آؤ بھگت اچھی کرتے ہیں آپ۔۔۔
غلطی ہو گئی ۔۔۔ میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔۔۔ یہ کہہ کر گلفام نے دو گجرے اس کی طرف بڑھائے۔۔۔
کچھ دیر وہ چپکی کھڑی رہی پھر گجرے لے کر فوراً اندر چلی گئی۔
زیتون خالہ رشتے دیکھ رہی ہے آج کل چنبیلی کے لیے۔۔۔ دراصل اس کے باپ نے اسی مقصد کے لیے بھیجا ہے بہن کے پاس۔۔۔۔ایک روز ماں نے اسے بتایا اور پھر پوچھا
تجھے دکان ملی ؟ گم سم بیٹھا گلفام چونک کر بولا،
نہیں تو۔۔۔ ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔ کرائے بہت زیادہ ہیں۔
ایک روز ماں محلے میں گئی ہوئی تھی کہ چنبیلی آ گئی۔ اسے اکیلا پا کر پلٹنے لگی تو گلفام نے بے ساختہ آنچل تھام لیا۔ اس کی کالی بھنورا آنکھوں میں حیرانی سمٹ آئی۔ آہستگی اس نے آنچل کا دامن چھڑایا مگر اپنی جگہ سے ہلی نہیں۔۔۔ جیسے گلفام کی بات سننا چاہتی ہو۔
چنبیلی کیا تم ہمیشہ کے لیے اس گھر میں رہ سکتی ہو؟ میرے اور ماں کے ساتھ۔۔
اس نے پہلے گلفام کو مسکرا کر دیکھا اور پھر ہنس دی۔۔ ماں کو واپس آتے دیکھ کر ایک دم چپ ہو گئی۔
ارے تو کب آئی چنبیلی؟ آ اندر آ ناں۔ ماں نہال ہو کر بولی۔
کتنے ہی دن خاموشی سے گزر گئے۔ ایک دن وہ مضمحل سا گھر واپس آیا تو ماں بھی اداس سی بیٹھی تھی۔ اس کے لیے کھانا لا کر سامنے رکھا۔ وہ بے دلی سے نوالے توڑنے لگا۔
زیتون خالہ نے چنبیلی کا رشتہ حاجی عبدل کریانے والے کے بیٹے سے طے کر دیا ہے۔ اتنی سوہنی کڑی ان کے نصیب میں تھی۔ چنبیلی بھی بڑی خوش ہے۔ یہ سونے کا بڑا سا سیٹ ڈالا ہے انہوں نے بات پکی ہونے پر۔
ماں اپنی رو میں بولے جارہی تھی اور گلفام کے گلے میں نوالہ اور آنسو پھندا سا بن گئے تھے۔
اگلی صبح ماں کو دھاگے میں پھول پروتے دیکھ کر بولا، آج سے گجرے اور ہار نہیں بنانے۔ بس گلدستے ٹھیک ہیں۔ اور خود تیزی سے پھولوں کی پتیاں نوچنے لگا۔
ارے۔۔۔یہ کیا کر رہا ہے۔ جھلا نہ ہو تو۔ تجھے نہیں پتا ماں۔ ان کی بڑی مانگ ہے۔ مجھے ایک بڑی سوسائٹی کے قبرستان کے باہر مناسب داموں میں جگہ مل گئی ہے۔