یوم صادق
محسن پاکستان
نواب سر صادق محمد خان عباسی
امیر آف بہاولپور
یوم وصال ۲۴ مئی ۱۹۶۶
تحریر:جاوید ایاز خان، بہاولپور
اسکول کی اسمبلی میں اعلان ہوا کہ پہلی اور دوسری جماعت کے بچے جو پی ٹی شو میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔
وہ ایک پلاٹ میں جمع ہو جائیں تاکہ ان میں سے ۲۰ بچوں کو اس ٹیم میں شامل کیا جا سکے۔
جس نے یوم صادق کی سالانہ تقریب منعقدہ قلعہ دیراوڑ جا کر ، نواب سر صادق محمد خان عباسی امیر آف بہاولپور کے سامنے، پی ٹی شو میں اسکول کی نمائندگی کرنی اور
سلامی پیش کرنی ہے ۔
میں چند ماہ قبل ہی گورنمنٹ صادق عباس مڈل اسکول میں داخل ہوا تھا۔
یہ سرکاری اسکول ہونے کے باوجود ایک جدید اور اور تمام تر سہولیات سے آرستہ ادارہ تھا۔
جہاں کا ماحوم نہایت علم دوست۔ خوبصورت اور صحت افزا تھا۔
کھیلنے کے لیے خوبصورت گراؤنڈ اور چاروں جانب پھلواری اسکول کی خوبصورتی میں مزید اضافی کرتی تھی۔
بہاولپور کے دیگر اسکولز کی طرح اس کی عمارت پختہ اور بہترین طرز تعمیر کا نمونہ تھی۔
بہاولپور کے تمام اسکولوں کی عمارات آج بھی عباسی طرز تعمیر کے شاہکار نظر آتی ہیں اور دیکھنے سے تعلق رکھتیں ہیں ۔
ہمارا یہ اسکول شاہی محل صادق گڑھ پیلس کے برابر میں آج بھی قائم ہے۔ اس وجہ سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اسے ۱۹۲۲ء میں نواب صاحب نے خود قائم فرمایا۔ نواب صاحب کے قائم شدہ داراطفال( یتیم خانہ ) کے تمام بچے بھی یہیں سے فارغ التحصیل ہیں۔
ان یتیم بچوں کی رہائش اور تعلیم و تربیت نواب صاحب کی جانب سے مفت فراہم کی جاتی تھی۔ اسکول میں پہلا پیریڈ قرآن پاک ناظرہ اور دوسرا جسمانی نشو ونما کے لیے پی ٹی شو اور کھیلوں کا ہوتا تھا۔
قرآن شریف کی تعلیم اقلیتوں کے علاوہ سب مسلمان بچوں کے لیے لازم تھی ۔ ہفتہ میں ایک بار بزم ادب کا پیریڈ ہوتا، جس میں بچے اپنی ادبی صلاحیتوں کا اظہار کرتے تقاریر۔
قومی نغمے اور اشعار پیش کیے جاتے تھے۔
اچھی کارکردگی پر انعامات دیے جاتے۔
شام کو کھیلوں میں حصہ لینے والے شوقین بچوں کو کھیلوں کی تربیت دی جاتی۔
اس کے لیے ایک استاد مامور ہوتا۔
اس زمانے میں اس داراطفال (یتیم خانہ )کے بچے تین تین کی قطاروں میں ایک جیسے یونیفارم (ملیشا کے کپڑے اور سر پر ٹوپی )
میں ملبوس فوجی نظم ونسق کے ساتھ پریڈ کرتے ہوئے سکول آتے اور واپسی بھی اسی طریقہ سے ہوتی ۔
اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے تقریباً ۳۵ فیصد بچے یتیم خانے سے تعلق رکھتے تھے۔ باقی نواب صاحب کے ملازمین اور دیگر لوگوں کے بچے تھے۔
میں آج بھی اسے اپنے لیے ایک بڑا اعزاز سمجھتا ہوں کہ میں نے ان یتیم بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ ان کے ہمراہ تربیت و اصلاح کے بہترین مراحل سے گزرا ۔ جو آج سب ملک کے نامور لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی دنیا مٰیں بھی نام پیدا کیا ۔
ہمارے پہلی جماعت کے انچارج استاد حاجی اللہ بچایا صاحب مرحوم مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔
اس لیے انہوں نے مجھے بھی ان بچوں میں شامل کر دیا، جنہیں پی ٹی ماسٹر گل محمد خان صاحب مرحوم نے اس مقصد کے لیے تیار کرنا اور تربیت دینا تھی۔
اسکول میں بڑی گہماگہمی اور رونق کا سماں تھا۔
نواب صاحب کو ایک نظر دیکھنے کے لیے ہر بچے کی خواہش تھی کہ وہ اس ٹیم میں شامل ہو کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔
بچوں کے انتخاب کے بعد ان کے لیے خوبصورت رنگ برنگی پٹیوں والی وردیاں بنوائیں۔ پیٹی شوز خرید کر دیے گئے۔
میرا بھی اس شو کے لیے انتخاب ہوا تو میں پھولے نہ سماتا تھا
کیونکہ ان بچون میں سب سے چھوٹا میں ہی تھا۔
نواب صاحب کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش تو ریاست کے شخص میں موجود تھی۔ اس لیے انتخاب کے بعد ہمیں بڑے رشک سے دیکھا جا رہا تھا۔
ہیڈ ماسڑ محمد رحیم خان سدوزئی مرحوم خود اس کام کی نگرانی کر رہے تھے۔ کیونکہ یہ ان کے اور اسکول کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی ۔
ریہرسل کے لیے امیر آف بہاولپور کی فوج کے کمانڈنٹ انچیف لفٹیننٹ جنرل جے ایچ مارڈن تشریف لائے اور جب ہم نے فوجی بینڈ کے ساتھ پی ٹی شو پیش کیا۔
بچوں نے ایک دوسرے پر کھڑے ہو کر پہاڑی بنا کر سلامی پیش کی۔ میں کیونکہ سب سے چھوٹا اور ننھا منا تھا۔ میں نے بڑے بچوں کی بنائی۔
پہاڑی کے اوپر چڑھ کر جنرل صاحب مرحوم کو سیلیوٹ اور سلامی کا شعر پڑھا تو جنرل صاحب بہت خوش ہوے ُ اور ہماری تیاری پر اطمینان کا اظہار کیا۔
پروگوام والے دن ہمیں ایک فوجی ٹرک پر قلعہ دیراوڑ روانہ کر دیا گیا۔
زندگی میں پہلی دفعہ چولستان کا صحرا دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا ۔
اس وقت سڑک کا کوئی وجود نہ تھا۔ البتہ ٹیلی فوں کی تار اور کھمبے راہنمائی کرتے تھے ۔
سفر کے دوران ریگستان میں دوڑتے ہرن نظر آئے۔ بہت بھلے لگے چولستان کے ریگستان کی خوبصورتی نے بےحد متاثر کیا۔
قلعہ دیراوڑ پہنچے تو وہان جشن کا سماں تھا۔
نواب صاحب کا فوجی بینڈ اپنی سرخ و سفید اور سبز وردیوں میں موجود تھا۔
نواب صاحب کی آرمی کے چاق و چوبند دستے سلامی کے لیے موجود تھے۔
داور ان کے پیچھے گھڑ سوار دستہ ہاتھوں میں جھنڈے اور چمکتی تلواروں کے ساتھ موجود تھا۔
ہم بچوں نے جلدی جلدی وردیاں پہن لیں اور اپنی مخصوص جگہ پر پہنچ گئے،
پھر وہ لمحہ آیا جب نواب صاحب ہمارے سامنے تھے۔
آپ قلعہ کے مرکزی دروازے سے سرخ ترکی ٹوپی جس پر پیلکن کا مونوگرام لگا تھا۔
سفید شیروانی میں ملبوس تشریف لائے اور قلعہ کے دروازے کے بالکل سامنے سلامی کی اسٹیج پر اپنے شہزادگان اور وزرا کے ہمراہ جلوہ افروز ہوئے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔
سب سے پہلے ان کو ریاستی آرمی اور سوار دستوں نے فو جی بینڈ کی دھنوں پر گارڈ آف آنر پیش کیا اور سلامی دی۔
پھر ہم بچوں کا ۱۵ منٹ کا پی ٹی شو پیش کیا گیا میں کیونکہ بہت چھوٹا تھا۔
اس لیے سب سے آگے آگے تھا۔ بچوں کی اونچی پہاڑی پر چڑھ کر نواب صاحب کو سیلیوٹ اور ایک سلامی کا شعر بڑے زور شور سے پیش کیا۔
لوگ اتنے چھوٹے بچے سے اتنی اچھی کارکردگی اور ادائیگی دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔
اس دوران میں نے اتنے نزدیک سے نواب صاحب کو دیکھا کہ آج تک ان کی شان وشوکت سے بھر پور تصویر ذہن میں ثبت ہے۔
ہماری جانب جس پیار سے انہوں نے دیکھا اور میرے سیلیوٹ کا فوجی انداز میں جواب دیا، وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
ہماری ٹیم کی حوصلہ اٖفزائی کے لیے آپ نے ہاتھ لہرا کر داد دی اور
پوری شان و شوکت کے ساتھ ہمارے یہ عظیم نواب صاحب ” خان سائیں ” زندہ آباد کے نعروں کی گونج میں واپس قلعہ کے اندر تشریف لے گئے۔
ہم سب بچوں کو نواب صاحب کی جانب سے ایک ایک روپیہ انعام دیا گیا۔
جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی اور تمام بچوں کو ٹافیاں مٹھائی اور بسکٹ بانٹے گئے۔
مجھے یہ فخر تمام عمر رہے گا کہ میں نے اس ظیم ہستی کو اتنے قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل کیا۔ سلام و سیلیوٹ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ جس نے اپنا تن من دھن پاکستان پر وار دیا تھا۔
اپنی سلطنت اپنی ریاست اپنا تخت وتاج
اپنی فوج اپنی زرخیز زمین
اپنے خوبصورت اور تاریخی محلات وباغات اور
اپنے تمام ادارے پاکستان کے استحکام اور اسلام کی سر بلندی کے لیے وقف کر دیے تھے۔
یہاں تک کہ اپنے ریاستی بینک دی بینک آف بہاولپور کو بھی نیشنل بینک آف پاکستان میں ضم کر دیا۔
یہ وہ محسن پاکستان تھے، جن کی قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
نواب صاحب کو محسن پاکستان کا خطاب خود قائد اعظمؒ نے دیا اور کہا کہ
قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاول پور تھا ۔
اسلام اور پاکستان کے لیےنواب صاحب کا کردار ناقابل فراموش ر ہےگا۔
اگر ان کی اپنی ریاست اور پاکستان کے لیے خدمات کا جائزہ لیں تو آپ حیران ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ریاستی مسلمانوں اور پاکستان کے لیے اتنے کم وقت میں کس قدر عظیم ،قابل قدر اور بےلوث خدمات انجام دیں ۔
یہی وجہ تھی کہ یہاں کے لوگ نواب صاحب سے والہانہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بےتاب رہتے تھے ۔
یقیناً ایسے عظیم انسان ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
آج بھی ہمارے علاقے کے بڑے بوڑھے اور بزرگ مرد و خواتین ان کا ذکر اور تعریف کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں ۔
ان کی اتنی طویل لازوال قربانیوں اور خدمات کو کسی ایک مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مگر اپنی کم علمی کے باوجود اس عظیم ہستی، کو مختصر الفاظ میں اپنی معلومات اور مطالعہ کی روشنی میں، خراج تحسین پیش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
ان کی تعریف اور شکر گزاری کے لیے جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہو گا۔
سابق ریاست بہاولپور
سابق ریاست بہاولپور برصغیر ہند و پاک کی مسلم ریاستوں میں اپنا ایک الگ اور تابناک ماضی رکھتی تھی۔ جو ڈھائی صدیوں سے مملکت خداداد سلطنت عباسیہ کے نام سے اس خطہ ارض پر قائم رہی۔ خاندان عباسیہ اس پر حکمران رہا۔
حضرت علامہ اقبالؒ جو نواب صاحب کے ذاتی اور قریبی دوست تھے۔
اس ریاست کے کئی قانونی معاملات کی مشاورت کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔
کئی بار ریاست بہاولپور تشریف لا چکے تھے۔ یہاں کی اصلاحات سے واقف تھے۔ آپ نے اس ہی ریاست کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔
زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روایتیں
اےُ یادگار سطوت اسلام زندہ آباد!!
میرے ایک محترم دوست اور اسی سکول سے فارغ التحصیل جناب سعید خاور جو آج کل ایڈیٹر ۹۲ نیوز کراچی ہیں۔ وہ ڈیرہ نواب صاحب جو ریاست کا دارلخلافہ تھا، کو میٹھے لوگوں کی دھرتی کہتے ہیں۔
فرماتے ہیں؛
“سرزمین بہاولپور کے ابتدائی ایام میں جب ریاست بہاولپور قائم تھی، تو یہاں پر دنیا بھر کے نادر، نایاب اور سخن ور لوگوں کو امرائے بہاولپور نے خصوصی طور پر یہاں بلوایا .
پھر اس دھرتی کے بطن سے ایسی قدآور شخصیات نے جنم لیا۔
جنہوں نے دھرتی ماں بہاولپور کا نام پوری دنیا میں روشن کیا؛
” علم دوستی” کی مثال یہ تھی کہ خالق قومی ترانہ جناب ابوالاثر حفیظ جالندھری کے لیے نواب صاحب نے خصوصی وظیفہ مقرر فرمایا ۔
ہمارے علاقے کی ایک اور مشہور صحافی شخصیت بشیر احمد انصاری نے اس مردم خیز دھرتی کے بارے میں یوں اظہار کیا،
“ریاست بہاولپور کی قابل رشک تاریخ ۔
روایات اور علمی وادبی مقام برصغیر کی تاریخ کا قابل رشک باب ہے۔ ریاست بہاولپور کا دور انصاف ،ترقی و خوشحالی اور علم و ادب کے عروج کا مثالی عہد تھا۔ شخصی حکمرانی کے باوجود ہر طبقہ کو بنیادی حقوق حاصل تھے۔
جدید اداروں کے ذریعے ان حقوق کو تحفظ بھی حاصل تھا۔ ریاست کے عوام دوست حکمرانوں کے علاوہ مشاہیر و اکابرین اور اہل علم و دانش اور اہل قلم اس خطہ کے وقار کی علامت ہیں۔
اس علاقے کی یہ سب خصوصیات عوام دوست اور غریب پرور حکمران کی ان اصلاحات کی بدولت تھیں ،
جو انہوں نے اپنے ۳۲ سالہ دور حکومت میں ریاستی عوام کو خوشحال بنانے کے لیے سرانجام دے کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
امیر آف بہاولپور صادق محمد خان خامس عباسی کی ذات ہمہ گیر خوبیوں کا مرقع تھی ۔
آپ رعایا پرور، انصاف پسند، علم دوست اور فیاض حکمران تھے۔
ان کا دل قومی، ملی اور اسلامی جذبے سے سرشار تھا۔ وہ خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔
۱۹۳۵ ء میں کوئٹہ میں جب زلزلہ آیا تو انسانی ہمدردی کا بڑا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلے خود ریلوے اسٹیشن ڈیرہ نواب سے امدادی ٹرین روانہ کی ۔
۱۹۶۰ء گو میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ڈیرہ نواب صاحب میں لوگ بےحد خوشحال تھے۔
تمام سرکاری گھروں میں ریاست کی جانب سے بجلی مفت سپلائی کی جا تی تھی۔
جبکہ دوسرے لوگ صرف چار آنے ماہانہ بل ادا کرتے تھے۔
لوڈ شیڈ نگ کا تصور ہی نہ تھا۔ البتہ پانی سپلائی کی سہولت سب کے لیے مفت تھی۔ تعلیم بلکل مفت تھی بلکہ ذہین اور قابل بچوں کو وظائف دیے جاتے تھے ۔
مجھے میرے والد اسکول جاتے ہوئے ایک پیسہ روز دیتے۔ جس سے میں کئی چیزیں خرید لیتا تھا ۔گرمیوں میں آم کا ایک پورا ٹوکرا چار آنے میں مل جاتا تھا ۔
اشیاء خور و نوش کی قیمتوں پر سخت کنٹرول تھا ۔
ہر گھر کو سال میں دو مرتبہ جراثیم کش سپرے کر کے صحت مند ماحول مہیا کیا جاتا۔
تمام مساجد اور مدرسوں میں ہر رمضان شریف میں مرمت اور سفیدی کرائی جاتی۔
نواب صاحب نے اپنی ریاست کو خالصتاً اسلامی ماحول میں ڈھالنے کی بھر پور کوشش کی تاکہ یہاں کے مسلمانوں کو علمی، مذہبی،
اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے بہتر مواقع میسر آ سکیں۔
یہی نظریہ پاکستان کا ایک جز بھی ہے۔
گویا اس علاقہ کو ریاست مدینہ کی ایک ادنیٰ سی مثال بنانے کی مکمل کوشش کی گئی ۔
یہاں کے اکثر رسم و رواج اسلام اور سرزمین عرب کے عین مطابق تھے۔
یہاں جنازہ ہو، شادی یا کوئی تقریب۔ قرآن کی تلاوت اور نعت خوانی کے بغیر مکمل نہ ہوتی تھی۔
ریاستی آداب اور تہذیب مثالی تھی اور زبان کی مٹھاس دراصل ریاستی زبان کو عام سرائیکی سے منفرد کرتی تھی۔
جس میں شاہی آداب کا خیال رکھا جاتا تھا ۔
قوم کے اخلاق اور کردار کی تعمیر ایک بڑا مشکل کام ہوتا ہے مگر نواب صاحب نے اپنے دور اقدار میں یہ کام کر دکھایا ۔
رشوت، ملاوٹ اور بدیانتی جیسے جرائم کا خاتمہ ریاست کا بڑا کارنامہ تھا۔
بہاولپور برصغیر کی دوسری اور پنجاب کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بہاولپور تھی،
جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق منظور کیا تھا۔
اس کے فرمانروا جناب صادق محمد خان خامس عباسی امیر آف بہاولپور جو ۱۹۰۴ ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۷ ءمیں باقاعدہ تخت نشین ہوئے۔
اپنے لیے نواب صادق محمد خان پنجم کا نام منتخب کیا۔
آپ کی تاج پوشی نور محل بہاولپور میں لارڈ ریڈنگ واسرائے ہند نے ۱۹۲۴ء میں ایک پروقار تقریب میں کی۔
جس میں برصغیر کی تمام بڑی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔ آپ نے بڑی شان و دبدبہ سے ۳۲ سال تک ریاست بہاولپور پر حکومت کی۔
یہ عوام دوست حکومت اپنے اسلامی طرز معاشرت و تمدن ،
اسلامی شریعت کے نفاذ کے لحاظ سے ہندوستان بھر کی تمام ریاستوں میں امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔
اعلی حضرت سر صادق محمد خان خامس عباسی نے اپنے دور حکومت میں اپنی فلاحی اصلاحات کے ذریعہ ریاست کو چار چاند لگا کر ریاست کو جدید ترین اسلامی فلاحی مملکت بنا دیا تھا۔
یہاں اسلامی قوانین نافذ تھے۔
قاضی مقرر تھے ۔
دربار کی سرکاری زبان اُردو تھی لیکن عام لوگ ریاستی زبان بولتے تھے ۔
پردہ کی سخت پابندی تھی۔
آٹھ سال سے زیادہ عمر کی بچی بازار میں نظر نہ آتی۔
۱۹۶۰ ء تک میں نے خود دیکھا کہ کوئی شخص ننگے سر گھر سے باہر نہ آ سکتا تھا۔
ہر شخص ترکی ٹوپی یا پگڑی پہنے نظر آتا۔
رمضان اور محرم کے احترام کے خاص احکامات تھے۔
ان دنوں میں سینما، بازار حسن اور ہوٹل بند ہو جاتے۔ گو ریاست بہاولپور میں سرکاری مذہب اسلام تھا مگر تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی تھی۔
انہیں تمام تر برابری کے حقوق حاصل تھے۔
وہ اپنے تہوار مسلمانوں کے ساتھ مل کر مناتے،
مگر ہندووں اور عیسائیوں کی تبلیغ پر قدغن تھی۔ یہ دنیا کی پہلی ریاست تھی جہاں عدالتی فیصلے کے مطابق مرزائی کافر اور مرتد قرار دیے جا چکے تھے۔
ریاست میں ہر مسجد کو مکتب بنا دیا گیا تھا۔
مؤذنوں اور اماموں کو باقاعدہ تنخواہ ملتی تھی۔
یتیم خانے، دارلاطفال، محتاج گھر، مہمان خانے اور مفت صادق سرائے۔ جہاں معذور افراد رہتے تھے۔
اس کے ۲۲ کمرے تھے۔
ہر کمرے میں تین زیادہ تر نابینا افراد قیام پزیر تھے۔ جن کے قیام و طعام کی ذمہ داری اور دیکھ بھال کے لیے ایک منتظم مقرر تھا۔
اس کے تمام اخراجات ریاست برداشت کرتی تھی۔
نواب صاحب کو حجاز مقدس سے بے پناہ لگاؤ تھا۔
غلاف کعبہ بہاول پور میں تیار ہوتا تھا۔
سعودی عربیہ کی مالی معاونت فرماتے۔ سعودیہ میں حجاج کی سہولت کے لیے سرائے تعمیر کرائے۔
حج پر تشریف لے گئے تو واپسی پر اپنی تمام قیمتی گاڑیاں حرمین شریفین کو تحفہ میں دے دیں۔ مسجد نبویﷺ میں بہت قیمتی فانوس نصب کرایا۔
ڈیرہ نواب صاحب اور بہاولپور میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال،
صادق گڑھ پیلس میں کیمپ،
ڈسپینسری، مرکز زچہ بچہ قائم کئے ۔
ریاست میں مہنگائی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
رعیت خوشحال تھی ۔ راعی رعایا پرور اور شفیق تھا۔
اسلامی خدمات کے ساتھ آپ کی تعلیمی، زرعی، طبی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔
آپ کے پاکستان اور انسانیت پر احسانات کا تذکرہ کیا جائے تو ان کا ایک عظیم کردار سامنے آتا ہے ۔ پاکستان قائم ہوا تو پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی۔
ملازمیں کو تنخواہ دینے کے لیے گورنمنٹ پاکستان کے پاس کچھ نہ تھا۔
پہلی تنخواہ دینے کے لیے اس وقت کی ایک خطیر رقم سات کروڑ روپے نواب صاحب نے قائد اعظمؒ کو پیش کئے۔
اس کے علاوہ ۲۲ ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کے لیے پانچ لاکھ روپے عطیہ کیے۔
یوں اس نوزائیدہ پاکستان کو پہلا آکسیجن ماسک فراہم کیا ۔
قائد اعظمؒ جس سواری پر بیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اُٹھانے گئے، وہ سواری نواب بہاولپور نے دی تھی۔
ان کو رہائش کے لیے اپنے ملیر کے محل الشمس اور القمر دے دیے۔
گورنر ہاؤس سندھ آپ کی عطیہ شدہ زمیں پر تعمیر ہوا ۔
مغل حکمرانوں کی طرح تعمیرات کے شعبہ میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔
آپ نے اپنی ریاست کی تعمیرات میں ترکی طرز تعمیر کو فروغ دیا ۔
ریاست بھر کے ریلوے اسٹیشن گنبد نما بنائے۔
بہاولپور اور گرد و نواح میں تمام محلات، اسکول اور سرکاری دفاتر ترکی طرز تعمیر میں گنبد نما بنوائے۔
یہ آج بھی فن تعمیر کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ انسانیت کے ناتے مہاجرین کو پناہ فراہم کی۔ ان کی آبادکاری کے بہترین انتظامات کیے۔
ایک نئی وزارت بحالی مہاجرین بنائی گئی۔ جس کے ذریعے مہاجرین کو ریاست بہاولپور میں باعزت اور منظم طریقہ سے آباد کیا گیا۔
۱۹۲۸ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کے ان کے مدبرانہ فیصلے نے لاکھوں آبادکاروں کو خوشحال کر دیا ۔دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس،
سیلمانکی،
ہیڈ اسلام اور
ہیڈ پنجند تعمیر کر کے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھا دیا۔
اس کی بدولت نئی منڈیاں ہارون آباد،
حاصل پور،
چشتیاں،
بہاو لنگر،
فورٹ عباس،
یزمان،
لیاقت پور اور صادق آباد قائم ہوئیں۔
کاروباری سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں ۔
انڈسڑی کے فروغ کے لیے عباسیہ ٹیکسٹائل ملز اور سمال انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ان اصلاحات سے ریاستی آمدنی تین گنا بڑھ گئی۔
تعلیمی اور طبی شعبہ کی خدمات دیکھیں تو ۱۹۵۴ء میں علامہ شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک کمیشن بنایا۔
۱۹۵۴ء میں ۴۵۰ ایکڑ پر مشتمل بر صغیر کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول بہاولپور ایچیسن کالج لاہور کی طرز میں قائم کیا ۔
۱۹۲۵ء میں دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری “صادق ریڈنگ لائبریری” کا سنگ بنیاد رکھا۔ جامعہ الزہرہ کی طرز پر جامعہ عباسیہ ،
۱۹۳۱ء میں اس کا ایک ذیلی ادارہ طبیہ کالج قائم کیا جو آج ترقی کر کے اسلامیہ یونیورسٹی بن چکا۔
بہاولپور میں صادق ایجرٹن ڈگری کالج بنایا۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، انجمن حمایت اسلام لاہور اور طبیہ کالج دہلی کو خصوصی گراں قدر مالی مدد فراہم کی ۔
بہاولپور میں کرکٹ کا بہت بڑا اسٹیڈیم ڈرنگ اسٹیڈیم تعمیر کرایا،
جہاں پاکستان میں کرکٹ کا سب سے پہلا انٹرنیشنل میچ ۱۹۵۴ء میں منعقد ہوا۔
۱۹۴۲ء میں پاکستان کا سب سے بڑا چڑیا گھر اپنے عوام کی سیر وتفریح کے لیے بہاولپور میں “شیر باغ “کے نام سے بنوایا۔
۱۹۰۶ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا اور ساتھ ساتھ کنگ ایڈورڈ کالج لاہور کا نصف حصہ نواب صاحب مرحوم نے تعمیر کرایا۔
جسے بہاولپور بلاک کہا جاتا ہے۔
اعلی حضرت صادق محمد خان خامس عباسی کی اسلامی خدمات میں سب سے زیادہ جس خدمت کو اولیت کا مقام حاصل ہے،
وہ ان کا ریاست کو پاکستان میں مدغم کرنا ہے۔
انہوں نے جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کی سر توڑ کوششوں اور پیشکشوں کو ٹھکرا دیا۔
کہا، بھارت میرے گھر کے پیچھے ہے اور پاکستان سامنے۔
اچھا انسان ہمیشہ سامنے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
اس طرح اپنے دوست قائد اعظمؒ کی خواہش کے احترام میں اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کرنے کا اعلان کر کے مسلمانوں کے دل جیت لیے ۔
قائد اعظمؒ سے ان کی بےلوث دوستی کی ابتدا ء ۱۹۲۲ء میں ہوئی، جب وہ جب ایک سرکاری کیس کے سلسلہ میں ان کے وکیل مقرر ہوئے۔
پھر یہ دوستی ایک لازوال محبت میں تبدیل ہو گئی۔
پاکستان سے محبت کا سلسلہ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد جاری رہا۔
یہی وجہ تھی کہ ۲۳ جولائی ۱۹۵۲ ء کو ریاست کی افواج کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔
۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء میں ریاست کا کلی طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا گیا۔
کروڑں روپے سالانہ آمدنی کی ریاست پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ڈویژن بہاولپور بن گئی۔ امیر آف بہاولپور کو چھتیس لاکھ روپے سالانہ جیب خرچ ملنے لگا۔
نیز یہ معاہدہ ہوا کہ ان کی تین پشتیں مزید مراعات شاہی سے مستفید ہوتی رہیں گی۔
۲۴ مئی ۱۹۶۶ء میں اس عظیم انسان،
باعظمت فرمانروا اور ہر دلعزہز حکمران نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
ان کی میت لندن سے آئی تو عجیب دردناک منظر تھا۔ جب ایک شخص نے شدت جذبات میں میت لانے والی ٹرین کے دروازے پر اتنی زور سے سر مارا کہ اس کی پیشانی لہو لہان ہو گئی۔
یہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ فوجی وردی میں ملبوس ایک انگریز تھا۔
جو پچھلے بیس سال سے ریاستی افواج کا کمانڈر انچیف تھا۔
جسے لوگ جنرل جے ایچ مارڈن کے نام سے جانتے تھے ۔
ہر آنکھ اشکبار، ہر دل ملول، ہر چہرہ افسردہ اور ہر روح مضطرب تھی۔
اسٹیشن سے صادق گڑھ پیلس کا تین میل کا راستہ کئی گھنٹوں میں طے ہوا۔
سڑک کے دونوں جانب عوام کا ایک جم غفیر جمع تھا، جو زار زار رو رہاتھا ۔
چونکہ ریاست کے حکمران ہونے کے علاوہ آپ پاکستان آرمی کے اعزازی جنرل بھی تھے۔
اس لیے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔
#قائداعظمؒ کے بعد پاکستان کا یہ تیسرا بڑا جنازہ تھا۔
جس میں تقریبا” ۸ لاکھ افراد شریک تھے۔
نماز جنازہ کے بعد میت کو آرمی کی توپ گاڑی میں پورے فوجی، سرکاری اور شاہی اعزاز کے ساتھ قلعہ دیراوڑ لے جا کر شاہی قبرستان میں تدفین کی گئی۔
پاکستان آرمی کی طرف سے ۲۱ توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔
اس طرح خاندان عباسیہ کی حکمرانی کا دوسرا دور پنے اختتام کو پہنچا۔
میرے والد #لفٹیننٹ ریٹائیرڈ محمد #ایاز خان مرحوم اور ان کے بہت سے ساتھیوں نے صادق دوست اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے #نواب صاحب کے یوم وفات ۲۴ مئی کو “#یوم صادق” منانے کا اہتمام کیا۔
ان کی بے مثال قربانیوں اور جذبہ اسلام و پاکستان کو ہر ممکن اُجاگر کرنے کی کوشش جاری رکھی۔
اس سلسلہ میں قومی سطح پر سرکاری چھٹی کے اعلان کے لیے بہت کوشش کی۔
گو ملکی سطح پر کامیابی نہ ہو سکی مگر ڈویژنل سطح پر بہاولپور میں لوکل چھٹی منظور کرانے میں کامیاب ہوئے۔
آج بھی ۲۴ مئی کو بہاولپور ڈویژن میں لوکل چھٹی ہوتی ہے۔
یوم صادق باقاعدہ منایا جاتا ہے ۔ آج ملک عزیز پاکستان کی تاریخ میں نواب سر صادق محمد خان عباسی کا نام کہیں نظر نہیں آتا ۔
نہ ہی نصاب تعلیم کی کسی کتاب میں آپ کی خدمات اور قربانیوں کا کوئی تذکرہ ہے۔
آنے والی نسلوں کو وطن کے محسنوں کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے آج ضرورت اس بات کی ہے، کہ اس عظیم علم دوست، محسن پاکستان کو
قائد اعظمؒ ،
لیاقت علی اور علامہ اقبالؒ کی طرح
مشاہیر پاکستان میں شامل کیا جائے۔
ان کی خدمات کو ملکی سطح پر اُجاگر کیا جائے۔
نصاب تعلیم میں اس عوام اور پاکستان دوست حکمران کے وطن پر
عظیم احسانات کو شامل کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی پاکستان کے لیے قربانیوں اور جذبہ ایثار سے آگاہ ہو سکیں۔
۲۴ مئی کے دن کو ملک گیر سطح پر یوم صادق منا کر شاندار خراج تحسین پیش کیا جائے۔
تاکہ ان کے کارنامے اور قیام پاکستان میں ان کا کردار اُجاگر ہو سکے ۔
یاد رہے اپنے محسنوں کو بھولنے والی قومیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں ۔
ان کے بے شمار قابل دید تعمیر شدہ محلات اور باغات کھنڈر بن کر اُجڑے دیار کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
یہ حکومت وقت کی توجہ کے منتظر ہیں ۔
ان کی حفاظت اور تعمیر نو کے لیے اگر توجہ دی جائے تو ، یہ قومی اثاثے محفوظ ہو کر پاکستان کی علاقائی سیاحت میں ایک روشن باب کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
۞۞۞۞۞۞