خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
تیرہواں حصہ
مسجد جس میں سکون ہی سکون ہے
طارق محمود مرزا، سڈنی
محمد یاسین دیے گئے وقت کے مطابق گاڑی لے کر ہوٹل پہنچ گئے۔ آج ایسٹر جُمعہ اور عوامی تعطیل تھی۔ اس لیے سڑکیں زیادہ مصروف نہیں تھیں۔
ہم نماز سے کافی پہلے منہاج القرآن انٹرنیشنل اسلامک سینٹر پہنچ گئے۔ محمد یاسین نے بتایا
ادارہ منہاج القرآن یورپ میں منظم اور متحرک ہے۔ یورپ کے بڑے شہروں میں ان کے متعدد مراکز ہیں۔ صرف کوپن ہیگن میں ہی منہاج القرآن کے تین اسلامک سنٹر ہیں
اگر یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو ادارہ منہاج القرآن اور اس کے بانی ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی کامیابیاں ناقابلِ یقین ہیں۔ یورپ میں کسی اور اسلامی تنظیم کے اتنے مراکز نہیں ہیں جتنے منہاج القرآن کے ہیں۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے کاموں کی فہرست دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ ایک شخص چھو ٹے سے شہر سے نکل کر چند عشروں میں اتنے بڑے ادارے کا قیام عمل میں لاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا دائرہ کار پوری دُنیا تک پھیلا دیتا ہے۔ جس کی ہزاروں شاخیں ہیں۔ لاکھوں پرستار ہیں۔
ان کی تصانیف کی تعداد دیکھ کر انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ ایک شخص اتنا تخلیقی و تحقیقی کام کس طرح انجام دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اس بلا کے مقرر ہیں کہ عصرِ حاضر میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
ان کی تصنیفات، تنظیمی صلاحیت اور خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ اگرچہ وہ سیاست میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکے اس کے باوجود پاکستان کی سیاست پر اُن کے گہرے نقوش مرتب ہوئے ہیں۔ ایسی نابغہ ٔروزگار شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
کوپن ہیگن کی اس شاندار مسجد میں نماز جمعہ کے دوران تقریباً سبھی نمازی پاکستان کے قومی لباس یعنی شلوار قمیص میں نظر آئے۔ خطبہ بھی اُردو میں تھا۔ خطیب کے انداز میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جھلک اور مماثلت محسوس ہوئی۔ اس دوران پاکستانی کمیونٹی سے متعلق اعلانات ہو ئے۔
مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے پاکستان میں کسی مسجد میں موجود ہوں۔ یہ سب کچھ مجھے اس لیے الگ محسوس ہو رہا تھا کہ آسٹریلیا میں ایسے مناظر دکھائی نہیں دیتے۔ آ سٹریلیا کی مساجد میں دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا ملا جلا اجتماع ہوتا ہے۔ ان میں عربی نژاد مسلمانوں کی اکثریت ہوتی ہے۔
سڈنی میں دو تین مساجد پاکستانیوں کے زیر انتظام بھی ہیں جہاں اُردو میں خطبہ ہوتا ہے۔ مگر اس کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سُنایا جاتا ہے تاکہ غیر پاکستانیوں کو بھی سمجھ آ سکے۔ زیادہ تر مساجد عربیوں یا ترکوں کے زیر انتظام ہیں۔
مخلوط مسلم کمیونٹی ہونے کی وجہ سے اہم اعلانات انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اکثر مساجد میں عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں خطبہ ہوتا ہے۔ جبکہ ترکی مساجد میں ترکی خطبہ کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔
آ سٹریلیا میں تقریباً چھے لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ یہاں دیوبندی، بریلو ی، اہل حدیث اور دیگر سنی العقیدہ مسلمانوں کی الگ الگ مساجد نہیں ہیں۔ بلکہ ہر مسجد ہر مسلمان کے لیے ہے۔ تاہم کچھ مولانا حضرات فرقہ بندی کا پرچار کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں کسی بڑی مسجد کا امام نہیں بنایا جاتا۔
وہ اپنے فرقہ پسند پرستاروں کا گروہ لے کر الگ تقریبات منعقد کر کے معاشی مفاد حاصل کرتے ہیں۔ شکر الحمدللہ ان کے ماننے والے اتنے نہیں ہیں کہ فرقے کے نام پر الگ مسجد کھڑی کر سکیں۔ تمام بڑے اسلامک سنٹر اس گروہ بندی سے بالاتر ہو کر اُمت مسلمہ کے جملہ طبقہ فکر کو اپنے جلو میں لے کر چلتے ہیں اور فقہی فرق پر اتنا زور نہیں دیا جاتا جو مثبت اور خوش آئند بات ہے۔
میں سڈنی کے جس علاقے میں مقیم ہوں، یہاں آٹھ دس برس قبل ایک عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی۔ اس کا سہرا ایک لبنانی نژاد عالم شیخ عُمر کے سر جاتا ہے۔ جسن نے اپنا گھر فروخت کر کے ساری رقم تعمیرِ مسجد کے لیے وقف کرتے ہو ئے اس کارِخیر کا آغاز کیا۔
شیخ عمر کے جذبے، اُس کی دل پزیر تبلیغ، اس کی قربانی کو مدّنظر رکھ کر علاقے کے مسلمانوں نے فراخدلی سے مسجد کی تعمیر میں حصّہ لیا۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد نمازیوں والے آرام دہ اور پُرسکون ہال اور وسیع پارکنگ کے باوجود انتہائی سادہ ہے۔ اس میں نہ کوئی مینار ہے، نہ محراب، نہ کندہ کاری، نہ ہدایات، نہ آرائش، نہ زیبائش۔
ہال کے اندر داخل ہوں تو سفید دیواروں اور سرخ دبیز قالین کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک گھڑیال، نماز کا برقی نظام الاوقات اور کارنسوں پر رکھے قرآن مجید کے نسخوں کے علاوہ مسجد خالی، سادہ مگر پُروقار، پُرسکون اور روحانی فضا سے معمور لگتی ہے۔
شیخ عُمر اور دیگر آئمہ کا کس فقہی فرقے سے تعلق ہے؟ اس کا علم نہیں، کیونکہ وہ اپنی تقاریر میں اس کا اظہار ہی نہیں کرتے۔ صرف اللہ، اس کے رسول ﷺ، قرآن، حدیث اور اسلام کے بنیادی احکامات اور اس کی روح کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
یہاں کسی نمازی کو کسی بھی وجہ سے نہ روکا جاتا ہے اور نہ ٹوکا جاتا ہے۔ نہ بچوں کے لانے پر پابندی ہے اور نہ کوئی اور قدغن۔ اس لیے ہر مسلمان کو یہ مسجد گھر کی طرح لگتی ہے۔ اس میں اتنا سکون ہے اتنا اطمینان اتنی کشش ہے کہ انسان خود کو نُور کے ہالے میں گھرا محسوس کرتا ہے۔ کم از کم مجھے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ مسجد نہیں آغوشِ مادر ہے جہاں سکون ہی سکون ہے۔ جتنی دیر اس کے اندر رہو، ایک روشنی ایک ٹھنڈک سی دِل و روح میں اُترتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ کشش، یہ رغبت اور یہ سکون اس خانہ خدا کی سادگی، کسی تصنّع کے بغیر اللہ کا خالص ذکر ، فرقہ بندی سے پاک اور ہر ایک کو محبت سے اپنے دامن میں پناہ دینے کی وجہ سے ہے۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ کے بعد اس مسجد میں مجھے سب سے زیادہ رُوحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔
نماز کے بعد نمازی آ پس میں گُھل مل گئے۔ محمد یاسین صاحب کے توسط سے میری بھی کئی پاکستانی شخصیات سے ملاقات ہوئی جو کمیونٹی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہاں سے نکلے تو محمد یاسین ایک قریبی ریستوران میں جا رُکے۔ یہ ریستوران اہلِ تشیع کی مسجد کی عمارت کے اندر واقع تھا۔ یاسین صاحب کا ایک دوست بھی وہاں آ گیا۔
یہ اچھا بڑا ر یستوران تھا مگر اس وقت گاہکوں سے خالی تھا۔ استقبالیہ کاؤنٹر کے پا س تین افراد کھڑے عربی میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر بھی انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا حالانکہ ان میں ریستوران کا مالک بھی شامل تھا۔ ر یستوران میں بے ترتیبی تھی اور صفائی کا فقدان تھا۔
یاسین صاحب نے کاؤنٹر پر جا کر کھا نے کا آرڈر لکھوایا اور پانی لانے کے لیے کہا۔
مینجر بولا، معذرت، ہمارے پاس صرف کولڈ ڈرنک ہیں۔
ناچار ہم نے کوکا کولا کا آرڈر دیا۔ یاسین صاحب کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ پانی خریدنے باہر چلے گئے۔ کافی دیر بعد وہ پانی لے کر آ ئے تو کھانا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ لگتا تھا کہ کہیں دُور سے خرید کر لائے ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلا ریستوران دیکھا تھا جہاں پانی نہیں تھا اور گاہک کھا نے کے دوران خود باہر جا کر پانی خرید کر لایا تھا۔
آج جب کہ کسٹمر سروس دُنیا بھر میں اہم موضو ع بن چکی ہے، وہاں اسی دُنیا میں ایسے ریستوران بھی موجود ہیں۔ وہ بھی یورپ کے اندر، جن کی کسٹمر سروس مثالی ہے۔ ہمارے عربی بھا ئیوں نے یہاں آ کر بھی اپنا وطیرہ نہیں بدلا تھا۔ اُنہوں نے شاید یہ شعر سُن رکھا ہے ۔
؎ ہم نہ بدلیں گے وقت کی رفتار کے ساتھ
ہم جب بھی ملیں گے انداز پُرانا ہو گا
بقیہ اگلی قسط میں
یہ مضمون انگریزی میں پڑھیں
https://shanurdu.com/a-mosque-in-which-there-is-peace/