“لوریاں اور موبائل فون”
ہماری ماؤں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ
تحریر۔ جاوید ایاز خان
دنیا اور برصغیر میں ننھے بچوں کو لوریاں سنانے کی روایت بہت پرانی ہے جو بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما اور والدین خصوصاً ماں کی محبت و شفقت کے اظہار کا ذریعہ کہلاتی ہیں۔
ننھے بچوں کے لیے سکون اور اطمینان کا باعث بنتی ہیں ۔
اس لیے “لوری” کو ایک ماں اور اس کی ممتا کا وہ پاک محبت کا نغمہ اور گیت قرار دیا جاتا ہے، جو دنیا میں آنے کے بعد بچے، والدین اور عزیز و اقارب کے درمیان جسمانی اور ذہنی سطح پر پہلا رابطہ (کمیونیکیشن) بھی کہلاتا ہے ۔
لوری دراصل ماں کی طرف سے اپنے بچے کے لیے پہلا سبق ہے جو پیار کے اشارے سے شروع ہو کر لفظوں، سروں اور گیتوں میں ڈھل کر ماں کی ممتا کے جذبات کو اظہار کی طاقت بخشتا ہے۔
اس سے بچے کے سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
ہر زبان میں “لوری” ہماری ثقافت اور روایات کا حصہ بن چکی ہے۔ ماؤں کی “لوری” انسان کے ذہن میں ہمیشہ محفوظ رہتی ہے۔
کہتے ہیں لوریاں بچوں کو نیند کی وادی میں جلد لے جانے کے لیے ہوتی ہیں۔
ان سے والدین کی مامتا اور محبت ٹپکتی ہے۔ بچے کے بارے میں ان کے نیک جذبات، خواہشات اور دُعائیں لوری کا حصہ ہوتی ہے۔
اُردو اور ہماری تمام مقامی زبانوں میں لوری کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ لوری ہمارے ادب اور شاعری کا حصہ بھی ہے ادب میں”لوری” کو “لولی” یا “جھولنا” بھی کہتے ہیں۔
بےشمار لوریاں گیت اور ڈوہروں کی شکل میں آج بھی موجود اور مقبول ہیں ۔
ہماری ماں بچوں کے لیے چارپائی کے ساتھ کپڑے کا جھولا بنا کر لٹکاتی اور اس میں بچے کو لٹا کر جھولا دیتی اور چند منٹ اللہ اللہ یا اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرتی یا پھر
لوری سناتی “حسبی ربی جل اللہ،
مافی قلبی غیر اللہ،
نور محمد صل اللہ، لاالہ الااللہ
“یا پھر” سبحان اللہ سبحان اللہ”
کرتی تو بچہ چند تھپکیوں میں ہی آرام سے سو جاتا ۔
لوری میں لفظوں کے ساتھ ساتھ ماں کی محبت کا اظہار اس کی ادائیگی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
مجھے آج بھی ماں کی بے شمار لوریاں زبانی یاد ہیں۔
محبت کے سروں اور لفظوں میں گندھی یہ لوریاں بے شمار سماجی اثرات رکھتی ہیں۔
دنیا کے کسی خطے، کسی بھی معاشرے میں بچے ماؤں کی گودوں اور پالنوں میں لوریاں سن کر ہی پروان چڑھتے ہیں۔
جہاں لوری بچے کو سکون دیتی، وہیں لوری سنانے سے ماں کے لیے بھی ذہنی آسودگی کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے اکثر مائیں بچوں کو لوری دیتے اور سلاتے سلاتے خود بھی سو جاتی ہیں،
لیکن اب دنیا بدل رہی ہے لوری کی اہمیت بڑی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
لوری کی افادیت سے بے خبر سائنسی ترقی اب بچوں کو ماؤں سے اور ماؤں کو بچوں سے دُور کرتی جا رہی ہے۔
اب روائتی لوریاں اور گیت آہستہ آہستہ ماضی کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں ۔
ابھی چند روز قبل ہمارے ہاں کچھ مہمان آئے۔ ان میں ایک خاتون کے ساتھ ننھا سا بچہ بھی تھا، جو روتا تھا تو ماں اس کو چپ کرانے کے لیے موبائل پکڑا دیتی،
اگر دُودھ پلانا یا خوراک دینی ہوتی تو اس کے سامنے موبائل رکھ دیتی ۔
یہاں تک کہ اسے سلانے کے لیے بھی موبائل چلا کر اس کی آواز سنائی جاتی اور بچہ خود ہی نیند کی وادیوں گم ہو جاتا۔
وہ بچے کو موبائل دے کر لٹا دیتی اور اپنے گھر کے سارے کام دھندے کرتی رہتی۔
مجال ہے کہ بچہ چوں بھی کر لے، وہ آرام سے فون سے لطف اندوز ہوتا رہتا تھا،
جونہی موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹتا، وہ رونے لگتا اور ماں پھر سے اسے پکڑا دیتی تو چپ ہو جاتا تھا۔
یہاں تک کہ اس کے نہلانے اور کپڑے بدلنے کے لیے بھی موبائل کی ضرورت پڑتی ہے۔
مجھے محسوس ہوا کہ شاید ماں کی محبت اب ایک موبائل میں سمٹ چکی ہے ۔
آج بچے کا سب سے بڑا جھولا اور کھلونا موبائل بن چکا ہے۔
کہتے ہیں بچوں کی تربیت دنیا کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، جو بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے
کیونکہ بچے کچی مٹی اور کورے کاغذ کے مانند ہوتے ہیں انھیں جس طرح ڈھال لو یا ان پر جو چاہے لکھ دو، یہ ویسے ہی ہو جاتے ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ تقریبا “ہر گھر میں اس طرح سے چھوٹے بچوں میں موبائل کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔
والدین اس کے نقصانات سے بےخبر اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کو اس دلدل کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ اب تو پیدائش کے وقت بچوں کے کانوں میں اذان بھی موبائل سے دی جاتی ہے۔
اس بڑھتے ہوئے استعمال کا سائنس یا موبائل فون ہی ذمہ دار نہیں بلکہ ہم خود ہیں،
کیونکہ ہم بھی اسی مرض میں گرفتار ہیں۔ بچے تو جو دیکھتے، وہی کرتے ہیں ۔
شاید بچوں کی شرارتوں اور ان کے ستانے سے بچنے کے لیے ماؤں کا گھنٹوں ان کے ہاتھ میں موبائل دینا انھیں اس کا عادی بنا دیتا ہے۔
وہ والدین سے دُور اور موبائل سے نزدیک ہوتے چلے جاتےہیں، جو ان کی اخلاقی نشوونما کے ساتھ جسمانی نشوونما کے لیے بھی مضر ثابت ہو رہا ہے ۔
ہماری ماؤں کو بچے پالنے اور پرورش کرنے کے علاوہ ان کی تربیت بھی کرنا ہو گی۔
اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ تبدیلی پہلے اپنے اندر لائی جائے
کیونکہ بچے وہ نہیں سیکھتے، جو آپ بولتے ہیں، بلکہ وہ سیکھتے ہیں جو والدین اور گھر کے بڑے ان کے سامنے کرتے ہیں۔
لہذا بچوں کو بچپن سے ہی موبائل فون سے دُور رکھیں ۔
ان کے سامنے خود بھی استعمال سے پرہیز کریں۔ انھیں اپنی باتوں، قصوں، نظموں سے سننے اور بولنے کا موقع فراہم کریں۔
انہیں وقت دیں ان کے ساتھ کھیلیں ان کی باتیں سنیں۔ ان کی اچھی باتوں اور عادتوں کی حوصلہ افزائی کریں ۔
یاد رکھیں موبائل فون کی لت سے بچے کی جسمانی ورزش ختم ہو جاتی ہے۔ بچہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر عدم توازن کا شکار ہونے لگتا ہے۔
موبائل کی اسکرین ہماری آنکھوں کے لیے بڑی تباہی ہے۔
اس سے خارج ہونے والی شعاعیں تباہ کن ہوتی ہیں۔ بچے تو پھر بہت نازک ہوتے ہیں۔
ان کی جسمانی نشو ونما ابتدائی مراحل میں ہو تی ہے ۔
میری تمام والدین اور خصوصی ماؤں سے درخواست ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت موبائل سے نہیں، بلکہ پرانی اور روایتی لوریوں اور محبت بھری باتوں سے کریں،
اپنی ثقافت کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع دیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بچوں کی تربیت کے کام کو ہمارے لیے آسان بنائے اور ہماری نئی نسل کو ہدایت کے نور اور روشنی سے سرفراز فرمائے۔ آمین!