جھولے لال
شکیل احمد چوہان
متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے ایک فجیرہ ھے۔ بہت سارے پاکستانی، انڈین اور بنگالی فجیرہ کے ساحل پر پہنچ کر غیر قانونی طریقے سے امارات میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ھیں۔ امارات حکومت کے قانون نافذ کرنے والے ادارے آئے دن پہاڑوں کے جھرمٹ میں واقع ” مسافی ” نامی شہر سے باہر چیکنگ کرتے ہوئے پائے جاتے۔ یہ 2010 کی بات ھے۔ ایک دن میں فجیرہ سے واپسی پر مسافی کے رستے شارجہ واپس جا رہا تھا۔
آگے چیکنگ کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔
پاکستانی ڈرائیور حضرات نے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی گاڑیوں پر اسٹیکر لگائے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر ’’ حق باہو ‘‘ کملی داتا دی’’ صدقہ پنج تن پاک دا ‘‘ حق چار یار ’’پیرانِ پیر دستگیر‘‘ جھولے لال ’’ میرے آگے جو پک اپ تھی، اس پر ’’جھولے لال‘‘ کا اسٹیکر لگا ہوا تھا۔ مڈل ایسٹ میں اس طرح کے جملوں کو شرکیہ جملے مانا جاتا ہے۔
پک اپ والا چیکنگ والی سائیڈ سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا، اسے دیکھ کر میں بھی اپنی کار سے باہر نکل آیا۔ آتے ہی اس شخص نے ’’جھولے لال‘‘ والا اسٹیکر اتارنا شروع کر دیا۔ میں نے اس سے پوچھا
خیریت تو ہے نا بھائی؟’’ لمحہ بھر کو اس شخص کے ہاتھ تھم گئے اس نے میری طرف دیکھا پھر سندھی لہجے میں گویا ہوا
سائیں وہ’’کملی داتا دی‘‘کو بھی نہیں چھوڑ رہے، بتاو ’’ جھولے لال‘‘ کس باغ کی مولی ہے۔