مشرقی اُفق؎
میر افسر امان
بین القوامی سیرت البنیؐ کانفرنس
حکومت پاکستان کی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی دو روزہ بین الاقوامی سیرت کانفرنس النبیؐ کانفرنس، بعنوان ختم بنوتؐ اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں۔۔تعلیمات بنویؐ کی روشنی میں۔ ۲۰،۲۱ نومبر ۲۰۱۸ء جناح کنونشن سنٹر، اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس پروگرام میں سعودی عرب،عراق، ایران اور دیگر ممالک سے آنے والے مہمانوں کے علاوہ پاکستان علما و مشائخ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وزیر مذہبی امور دونوں دن پرگوام میں شریک رہے۔ پہلے دن کا پروگرام وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نیازی صاحب اور دوسرے دن کاپروگرام صدر پاکستان جنا ب ڈاکٹر عارف۔۔۔ علوی صاحب کی صدارت میں ہوا۔ ہمیں بھی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف سے شرکت کا دعوت نامہ ملاتھا۔ ہم پہلے دن بلڈ پرشیئر ہائی ہونے کی وجہ سے رازی الخدمت ہسپتال گئے ہوئے تھے اس لیے شریک نہیںہو سکے۔ صرف دوسرے دن کے پروگرام میں شریک ہوئے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق پہلے دن کے افتتاحی پروگرام میں پاکستان کے وزیر اعظم صاحب نے حاضرین سے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمانوں کو گستاخی رسولؐ برداشت نہیں۔ اس کو رُوکنے کے لیے اور مذہب کے ہتک کے خلاف بین الاقوامی قرارداد لائیں گے۔ مسلمانوں کوحضورؐ کی زندگی پر لکی گئی کتابیں پڑھنی چاہییں۔ ہمارے سکالر عوام کو بتائیں کہ ہمارے نبیؐ نے سب سے پہلے انسانوں کے کردار بدلنے کی کوشش کی۔آزادی اظہار کی آڑ لے کر دنیا کے سوا ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جا سکتی۔ مغربی ممالک کے لوگوں کو نبیؐ کے بارے میں پتہ ہی نہیں۔ وزیر پاکستان نے فرمایا کہ اللہ نے انسان کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت العالمین کا خطاب دیا ہے۔ مغربی ممالک میں ہر چند سال بعد رسولؐاللہ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس عمل سے روکنے کے لیے انٹرنیشنل کنونشن آن رلیجزکنونشن لے کر آرہے ہیں۔ان کنونشن پر مختلف ممالک سے دستخط کرائیں گے کہ آزادی اظہار کے نام اور اس کی آڑ لے کر سوا ارب مسلمانوں کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ماہر قانون احمربلال صوفی صاحب کو اپنا بین الاقوامی نمائندہ مقرر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مغربی ملکوں کے عوام کو نبیؐ کے بارے میں پتہ ہی نہیں کہ مسلمانوں کو گستاخی رسولؐ کبھی بھی برداشت نہیں۔جب اہل مغرب رسولؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو مسلمانوں کو شدید غصہ آتا ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں ۔ پر امن احتجاج تو ضرور کرنا چاہیے مگر کچھ شرپسند اس احتجاج کی آڑ میں اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ اس عمل سے مغرب کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے کہ اسلام انتشار پھیلاتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے سکالر عوام کو بتائیں کی حضورؐ نے سب سے پہلے انسانوں کے کردار بدلنے کی کوشش کی۔پاکستان عظیم ملک تب بن سکتا جب ہم خود کو تبدیل کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ ہم نے ہالینڈ کے منسٹر سے بات کی اور احتجاج کیا تو پہلی مرتبہ اس مقابلے کا انعقاد منسوخ کیا گیا۔ ہم نے اس معاملے کو آو آئی ای کا اجلاس بلایا اس میں بھی اُٹھایا۔ ہم نے کہا کہ ہم سب مسلمان ملک مغربی ملکوں کو بتائیں کہ نبیؐ ہمارے نذدیک کتنے قابل احترام ہیں۔ ہم نے اقوام متحدہ میں بھی یہ معاملہ اُٹھایا جس کی تائید کی گئی۔ وزیر اعظم نے بتایا کی انڈونیشیا اور ملائیشیا میں کوئی مسلمان فوج حملہ کرنے نہیں گئی تھی۔ بلکہ مسلمان تاجر گئے تھے جن کے کردار دیکھ کے وہاں کے لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ ہندوستان میں بزرگوں نے اسلام پھیلایا۔ آج بل گیٹس اور اسٹیو جابز پر لکھی گئی کتابیں پڑھی جاتی ہیں کہ وہ کیسے کامیاب ہوئے۔ جبکہ مسلمانوں کو حضورؐ کی زندگی پر لکھی گئیں کتابیں پڑھنی چاہییں جنہوں نے پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔
صاحبو! کیا وزیر اعظم عمران خان کی بات بات کو پکڑنے اور اعتراض کرنے والے حضرات کو عمران خان کی اس تقریر پر بھی کچھ تعریفی کلمات نہیں کہنے چاہیے تھے۔ مگر مخالفت برائے مخالفت اور اپنے اپنے ایجنڈوں پر کام کرنے والے سیاسی رہنمائوں اور لفافہ جرنل ازم کو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے پروگرام میں مدد گار ہونے کے بجائے اپنی اپنی کرپشن کو بچانے کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے۔ کیا اس سے قبل پاکستان پر حکومت کرنے والے کسی بھی حکمران نے عمران خان کے ارادے کی طرح، کبھی کسی نے علامہ اقبال ؒ کے خواب ،قائد اعظم ؒکے وژن کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست اسلامی نظام ِ حکومت قائم کرنے کا کبھی کہا تھا۔ پیپلز پارٹی اعلانیہ سیکولر پروگرام پر کام کرتی رہی۔ نواز لیگ نے تو قاعد اعظم ؒ کے دو قومی نظریہ کی اعلانیہ مخالف کی تھی۔ مخالفین کبھی عمران خان کو یو ٹرن عمران کا خطاب دیتے ہیں۔لفافہ میڈیا اور مخالف سیاست دان کبھی عمران خان کے کہے ہوئے الفاظ کو پکڑ لیتے ہیں اور غلط رنگ میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کو اللہ کو جواب نہیں دینا۔ اگر ملک کو دیوالیا کرنے کی بات کریں تو جانے والی حکومت نے ملک کے ہر شہری کو ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کا مقروض بنا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کو پیسا واپس کرنے کے لیے پاکستان کے خزانے میں کچھ نہیں۔ گزشتہ حکومتوں کے قرض کے اس گندھ کو سنبھالنے کی کوشش میں عمران خان کو کبھی بھکاری کہا گیا جیسے عمران خان اپنے لیے قرض مانگنے کے لیے دوست ملکوں کے دورے کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے سربراہ قرض لے کر کرپشن کرتے رہے اور اب عمران خان اس گندھ کو صاف کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اے کاش! سب سیاسی اور دینی پارٹیاں حکومت کے اسلامی نظام حکومت قائم کرنے میں مدد گار بنتی مگر اپوزیشن کو عمران حکومت گرانے کی فکر میں لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام کی خواہش ہے کہ پہلے دو سیاسی حکومتوں کی طرح عمران خان کی حکومت کو بھی پانچ سال پورنے کرنے چاہییں۔ملک میں جمہوریت قائم رہنی چاہیے۔ اس میں ہی سب کا اورپاکستان کا بھلا ہے۔ مخالف چاہیں یا نہ چاہیں عمران خان کی اللہ نے عادت بنائی ہے جو بات کرتا ہے اس پر عمل کرنے کامصمم ارادہ بھی رکھتا ہے۔اللہ کرے عمران خان کے ہاتھوں ہی اس ملک کے ۹۰ فیصد خاموش عوام کی خواہشات اور علامہ اقبالؒ کے خواب، قائد اعظمؒ کے وژن اور برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوںکی تکمیل ہو۔ اس ملک میں مدینے کی فلاحی اسلامی ریاست قائم ہو۔یہی بین القوامی سیرت البنیؐ کانفرنس کا پیغام ہے۔