عالمی شہرت یافتہ رگبی کھلاڑی
سونی بل ولیم کا قبولِ اسلام
نیوزی لینڈ میں اسلام کا بول بالا
عافیہ مقبول جہانگیر
رگبی کا ورلڈ کپ فائنل نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان زور و شور سے گراؤنڈ میں جاری تھا۔ میڈیا کے نمائندے اپنے کیمرے سنبھالے چاروں طرف سے کھلاڑیوں کے عمدہ کھیل کی عکس بندی کر رہے تھے۔
کھلاڑی پُرجوش تھے اور ہر گول کے ساتھ تماشائیوں کی سیٹیاں انھیں مزید جوشیلا بنا رہی تھیں۔ شوقین تماشائیوں نے اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کے بینر اٹھا رکھے تھے۔
گولڈ میڈل تحفے میں دے دیا
یہ اسی سنسنی خیز میچ کا تذکرہ ہے جس میں نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا کو شکست دے کر ورلڈ کپ اپنے نام کیا تھا۔ ’’آل بلیک‘‘ کی ٹیم میدان میں اپنی جیت کی خوشی منا رہی تھی۔
اچانک ایک بچہ تمام حفاظتی رکاوٹیں دیوانہ وار پھلانگ کر کھیل کے میدان میں داخل ہوا اور اپنے ہیرو سونی بل کا نام پکارتے ہوئے بھاگ کر اس سے لپٹ گیا۔
محافظوں نے اسے ہٹانے کی کوشش کی تو سونی بل ولیم نے انھیں منع کرتے ہوئے بچے کو ساتھ لپٹا لیا۔ یہ خوبصورت منظر نہ صرف وہاں موجود تماشائیوں نے دیکھا بلکہ لاکھوں سیکڑوں ناظرین بھی اپنی ٹی وی اسکرین پر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔
پرستاروں خصوصاً بچوں سے محبت کا انداز
وہ بچہ کسی صورت سونی سے الگ ہونے پر تیار نہ تھا۔ سونی نے اس سے پوچھا کہ اس کے ساتھ اور کون کون ہے؟ بچے نے ایک طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس کے ماں باپ بھی وہاں تماشائیوں میں موجود ہیں۔
اسٹیڈیم میں حاضرین خوشی اور حیرت کے ملے جُلے جذبات سے چِلا رہے تھے۔ انھیں شدید حیرت تھی کہ کھلاڑی نے نہ صرف بچے کو گراؤنڈ میں آنےکی اجازت دی بلکہ اسے پیار کرتے ہوئے اب اس کے گھر والوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ایسی انکساری کا مظاہرہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
صحافیوں کی دوڑ لگ گئی
صحافی اپنے کیمرے لیے ساتھ بھاگ رہے تھے تا کہ یہ منظر پوری طرح ریکارڈ ہو جائے۔
سونی کیمروں کی چکا چوند میں بچے کے ساتھ اس طرف بڑھے جہاں بچے کے والدین نے چمکتے چہروں کے ساتھ سونی سے ہاتھ ملائے اور تصاویر اُتروائیں۔
اگلے ہی لمحے دنیا نے دیکھا کہ سونی نے اپنے گلے میں پہنا ہوا گولڈ میڈل اس بچے کو پہناتے ہوئے کہا:
’’یہ اس بچے کے پاس زیادہ اچھا لگے گا۔‘‘
٭٭٭
صحافی جوق در جوق تقریباً ہر روز ہی سونی کے گھر ان کا انٹرویو لینے کی غرض سے پہنچ جاتے تھے۔
انٹرویو کی خوبصورت شام
وہ بھی ایک ایسی ہی شام تھی جب ایک صحافی انٹرویو کی غرض سے ان کے گھر پہنچا۔ سونی نے اسے عزت و تکریم کے ساتھ مہمانوں کے کمرے میں بٹھایا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ بس وہ کچھ ہی دیر میں فارغ ہو جائیں گے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
یہ کہہ کر سونی نے کمرے کے ایک کونے میں دیوار کی طرف رخ کیا اور اپنے بھائی اور کزن کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کرنے لگے۔ صحافی نے گھر کی دیواروں پر نظر دوڑائی۔ جہاں کسی قسم کی کوئی تصویر موجود تھی نہ ہی شیلڈز اور میڈلوں کی نمائش کا کوئی سامان تھا۔
گھر بالکل سادہ اور صاف ستھرا آرام دہ تھا۔ سونی بل ولیم کی زندگی میں سادگی و عاجزی جیسا یہ عظیم تغیر قبولِ اسلام کے بعد آیا اور جس نے سونی کی زندگی کے زاویے اور معنی بدل کر رکھ دیے۔
سونی بل ولیم کے حالاتِ زندگی
۳؍اگست ۱۹۸۵ کو نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ میں ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے والے سونی بل ولیم اپنے والدین کے دوسرے بیٹے تھے۔
پُرسکون خاندان
ان سے بڑا ایک بھائی اور دو چھوٹی جڑواں بہنیں ہیں۔ اپنے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے سونی ولیم ہمیشہ بتاتے ہیں کہ زندگی کی مشکلات اور جدو جہد سے نبرد آزما ہوتے ہوئے رگبی کی دنیا میں قدم رکھنے کی وجہ ان کی ماں ہے جس کے لیے وہ گھر لینا چاہتے تھے۔
ابتدائی تعلیم
ماؤنٹ البرٹ گرائمر اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والا سونی اپنے اسکول میں سب سے دبلا پتلا، چھوٹا اور شرمیلا تھا۔ یہ چھوٹا سا لڑکا مگر حیران کن حد تک کھیل میں ہائی جمپ لگانے اور پھرتی سے بھاگنے میں عجیب مہارت رکھتا تھا۔
بارہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے سونی نے کھیلوں سے منہ موڑ لیا تھا۔ اسے کھیلوں میں کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوتی تھی۔ حالانکہ سونی کے والد رگبی کے بہترین کھلاڑی تھے۔
سونی ولیم کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ماں ہی ہے جس نے انھیں رگبی کی دنیا میں متعارف کروایا اور انھیں دوبارہ کھیلوں کی دنیا میں قدم رکھنا پڑا۔
رگبی بُل ڈاگ ٹیم کے کم عمر کھلاڑی
آک لینڈ کی بُل ڈاگ اسکاؤٹ ٹیم میں حصہ لینے والے سونی بل ولیم ٹیم کے سب سے کم عمر اور جونئیر کھلاڑی تھے۔ ۲۰۰۲ء میں جب سونی کو بُل ڈاگ میں آسٹریلیا سڈنی میں کھیلنے کی پیشکش ہوئی توہ محض سولہ برس کے تھے۔ سونی نے یہ پیشکش قبول کر لی۔
سخت پروفیشنل ٹریننگ کے دوران سونی نے ایک مزدور کی طرح انتھک محنت اور پریکٹس کی اور یوں جلد ہی سونی کی قسمت کا ستارہ بلند ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد فتوحات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
باکسر محمد علی سے متاثر
سونی بل ولیم نیوزی لینڈ کے رگبی یونین، رگبی لیگ فٹ بالر اور ہیوی ویٹ باکسر کے طور پر اُبھر کر دنیا کے سامنے آئے۔ ان کے کریڈٹ پر نیوزی لینڈ نے بے شمار تمغے، میڈل اور ٹرافیاں ۲۰۱۰ء سے اب تک اپنے نام کی ہیں۔
باکسنگ میں سونی عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد علی سے متاثر ہیں اور محمد علی کو سونی کے گاڈ فادر کی حیثیت حاصل ہے۔ سونی نیوزی لینڈ کے سابقہ ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئین بھی رہ چکے۔
غلط فیصلوں کے نتائج
ہر کامیاب انسان کی زندگی میں کچھ ایسے نشیب و فراز اس کے ماضی کا حصہ رہے ہوتے ہیں جنہیں وہ عمر بھر نہیں بھول پاتا۔ کچھ ایسا ہی سونی کے ساتھ بھی ہو چکا تھا۔
عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی انھیں کچھ ایسے بُرے تجرباتِ زندگی سے واسطہ پڑا جنہوں نے سونی کو بہت دلبرداشتہ کیا اور وہ بالکل ٹوٹ گئے۔
ہوا کچھ یوں کہ ابتدائی سالوں میں اُن کے منیجر نے سونی کو سرمایہ کاری کا مشورہ دیا اور سونی پیسا کمانے اور جلد از جلد بڑا آدمی بننے کی دھن میں شارٹ کٹ کا سہارا لیتے ہوئے اپنی رقم کا بھاری حصہ ایک ایسی سرمایہ کاری میں لگا بیٹھے جس نے انھیں تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ تقریباً ۰۰۰،۴۰۰ ملین نیوزی پونڈ کے مقروض ہو گئے۔
جب زندگی مشکلات میں گھر گئی
وہ وقت سونی پر بہت کڑا ثابت ہوا اور وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہنے لگے۔ لوگ ان سے گریز کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ سونی کا حلقہ احباب محدود ہوتا چلا گیا۔
دور سے خوش و خرم، امیر، خوابوں کے جیسی مثالی زندگی گزارتا دکھائی دینے والا سونی، کئی محاذوں پر لڑ رہا تھا، جس کے بارے میں دنیا نہیں جانتی تھی۔ انھوں نے ڈرگز اور دیگر نشہ آور اشیاء کا کثرت سے استعمال شروع کر دیا جس سے دماغ سکون میں آ جائے مگر بے سکونی بڑھتی گئی۔ کوئی بھی شے کارگر نہ تھی۔
سونی کو سکون کی تلاش تھی۔ کامیابی، شہرت، عزت ہوتے ہوئے بھی جیسے کہیں کوئی کمی سی تھی۔ وہ کمی کیا تھی…؟ اس کا احساس سونی کو تب ہوا جب انھوں نے اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔
وہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہونا شروع ہو گئے۔
دینِ اسلام کی طرف رحجان
سونی کو لگا کہ یہی وہ مذہب ہے جو ان کی زندگی کو مکمل کر سکتا ہے۔ سونی کی تمام بے چینی اور بے سکونی آرام و راحت میں تبدیل ہونے لگی۔
اسلام کو اچھی طرح سمجھنے اور جاننے کے بعد بالآخر ۲۰۰۹ء میں سونی نے اسلام قبول کر لیا۔
ان کے پرستاروں اور دنیائے کھیل میں ایک ہلچل پیدا ہو گئی۔ سب کو لگنے لگا تھا کہ مسلمان ہونے کے بعد شاید سونی کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلیاں آ جائیں کہ وہ کھیلنا ہی چھوڑ دیں۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔
تبدیلیاں تو آئیں لیکن صرف سونی کی اپنی ذات میں۔
سونی کی زندگی پرسکون ہوئی تو ان کے کھیل میں بھی نکھار آنے لگا اور وہ ناکامیوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کھیل کے آسمان میں ناقابلِ شکست کھلاڑی بن کر چمکنے لگے۔
سونی کو ان کے پرستار رگبی کی دنیا کا
وحشی جانور کہتے ہیں۔ انھیں اپنے اس کھلاڑی پر بے انتہا فخر ہے۔
زندگی میں نمایاں مثبت تبدیلیاں
دنیا سونی بل ولیم کی دیوانی ہے اور ان کے قریبی ساتھیوں اور فیملی کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد سونی کی زندگی میں بہت زبردست مثبت تبدیلیاں آئیں۔
انھوں نے حرام کھانوں اور مشروبات کو اپنی زندگی سے نکال باہر پھینکا۔ سونی اپنی قبولِ اسلام سے پیشتر کی زندگی پر بہت شرمندہ نظر آتے ہیں۔
یاد رہے کہ بیس سال کی عمر میں انھیں شراب کے نشے میں گاڑی چلانے پر میڈیا اور اپنی ٹیم کی طرف سے کافی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سونی نشہ آور چیزوں کا بھی استعمال کرتے تھے جن سے وہ ایک کھلاڑی کے طور پر اپنے جسم کو متحرک رکھ سکیں۔
اب سونی کو اپنے ان کاموں پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے حالانکہ وہ سب ان کے اسلام میں داخل ہونے سے پہلے کے واقعات ہیں ۔ سونی ان دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہر انٹرویو میں جذباتی اور آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
سونی کے قریبی ساتھیوں اور خصوصاً ان کے ٹیم ممبران کا کہنا ہے ، اسلام نے ان کی زندگی کو مزید بہتر کیا۔
جہاں تک کھیل کا تعلق ہے تو اس بارے میں ساتھی کھلاڑیوں کے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے۔ سوائے ایک شرط کے، جو سونی میچ یا ٹورنامنٹ کے دوران مینجمنٹ کے سامنے رکھتے ہیں کہ انھیں نماز کے لیے چند منٹ ضرور دیے جائیں اور ان کا کھانا پینا حلال مہیا کیا جائے۔
سونی کا کہنا ہے کہ ہر بار کھیل کے میدان میں جیتنے کے بعد انھیں یوں لگتا ہے جیسے کوئی ہستی مسلسل ان کے ساتھ ہے۔ جیتنے کے بعد میدان میں سجدہ کرنا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا سونی کی عادت بن چکا۔ ان کے پرستار ان کی اس ادا پر بھی جان چھڑکتے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے شہری اور اسلامی کتب
سونی کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے پرستاروں کی بڑی تعداد نے اسلام سے متعلق کتب خرید کر پڑھنا شروع کر دیں۔ نیوزی لینڈ کا ہر دوسرا شہری گویا اسلام کے متعلق جاننا چاہتا تھا۔
پرستاروں کو یہ تجسّس تھا کہ آخر اسلام میں ایسا کیا ہے جس نے ان کے ہیرو کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ ہو سکتا ہے آنے والے چند برس میں ہم کئی ایک کو مشرف بہ اسلام ہوتا دیکھیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ جو غیر مسلم ،اسلام سے متاثر ہو کر، خود اسلام کی گہرائی اور اس کی سچائی کو سمجھ اور سیکھ کر اسلام کا انتخاب کرتے ہیں، وہ ہم پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ اسلام کو جانتے، مانتے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وجہ یہ کہ چونکہ یہ ان کا اپنا انتخاب ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اپنی زندگی میں اسلام کو پڑھنے، سمجھنے کے بعد اسے قبول کرتا ہے تو وہ ایک عام مسلمان سے زیادہ دین کے قریب ہوتا ہے۔
فلاحی کام اور یونیسف میں شمولیت
پیدائشی مسلمان گھرانے میں جنم لینا اللہ کی نعمت ہے اور کسی غیر مسلم کا اسلام سے متاثر ہو کر اسے قبول کرنا اللہ کی رحمت کے مترادف ہے۔
سونی نے جب اسلام کو سمجھا،جانا اور مانا اس کے بعد انھیں یہ تعلیمات ملیں کہ مسلمان کس طرح اپنے دوسرے مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کرتا ہے۔
سونی نے سیکھا کہ صرف مسلمان ہو جانا ہی کافی نہیں، انھیں اپنے دین کی تعلیمات پر بھی پورا عمل کرنا ہو گا۔ لہٰذا انھوں نے یونیسف میں شمولیت اختیار کی اور اسی کے تحت انھوں نے بےشمار رفیوجی کیمپوں کا دورہ کیا۔ وہاں موجود بے بس و بے سہارا مسلمان پناہ گزین خصوصاً بچوں سے مل کر ان کی مشکل زندگیوں کو قریب سے دیکھا اور ان کی مالی امداد کا کار خیر بھی شروع کیا۔
اس سلسلے میں سونی اب تک لبنان، شام سمیت کئی رفیوجی کیمپوں کا دورہ کر چکے۔
سونی کا کہنا ہے کہ ان بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی مدد کرنا زندگی کا سب سے پُر سکون کام ہے۔
سونی نے ان کیمپوں کے دورے کے دوران بارہا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان معصوم بچوں کو زندگی کی مشکلات سے لڑتے دیکھنا دل زخمی کر دینے والی حقیقت ہے۔
وہ کہتے ہیں ’’نیوزی لینڈ جیسے ملک میں رہتے ہوئے، ان بچوں کی مشکلات کا اندازہ کرنا اگرچہ بہت مشکل ہے مگر بحیثیت مسلمان میرا دل دکھتا ہے اور میں اداس ہو جاتا ہوں۔‘‘
سونی کا عمرہ تنقید کے نشانے پر
اپنی زندگی کو مزید اسلام کے اصولوں پر چلانے اور اسے صحیح راستہ پر گامزن رکھنے کے لیے سونی نے جنوری ۲۰۱۸ میں عمرہ ادا کرنے کا سوچا اور مکہ پہنچ گئے۔
وہاں جا کر ان کا جوش و جذبہ قابلِ دید تھا۔ خانہ کعبہ کے سامنے اور مسجد نبویؐ کے احاطہ میں اپنی تصاویر بناتے ہوئے سونی نے انھیں ٹوئٹر پر شئیر کیا اور لکھا:
’’ میں بہت خوش ہوں۔ یہ میری زندگی کے سب سے خوبصورت اور مکمل لمحات ہیں۔ اسلام نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔ میری خواہش ہے کہ جلد ہی میرے گھر والے بھی میرے ساتھ یہاں موجود ہوں۔‘‘
کچھ لوگوں نے ان کے احرام باندھے لباس کے ساتھ نمایاں ہوتے ٹیٹو پر سخت تنقید کرتے ہوئے جوابی کمنٹس دیے اور لکھا ،” تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ ایک مسلمان کے لیے ٹیٹو بنوانا حرام ہے اور تم کیسے ان کے ساتھ عمرہ کر سکتے ہو، یہ غلط ہے، گناہ ہے وغیرہ۔ ایسے کمنٹس اور رد عمل نے سونی کو بہت رنجیدہ کر دیا۔
انھوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کمزور لہجے میں لکھا:
’’کاش یہ میرے جسم پر نہ ہوتے اور کاش میں ان کو کسی طرح مٹا سکتا۔‘‘ انھوں نے ایک انٹرویو میں بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
’’میں بھول چکا ہوں کہ میرے جسم پر کوئی ٹیٹو بھی ہے۔ مجھے یہ اب نظر ہی نہیں آتے اور ان کا ہونا نہ ہونا میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘
جب مفتی مینک نے سونی کا دفاع کیا
ایسی صورتحال میں زمبابوے کے مفتی مینک جو زمبابوے کے اسلامی اسکالر کونسل اور فتویٰ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں، نے یو ٹیوب پر اپنی ایک ویڈیو کے ذریعے ایسے کمنٹس کی مذمت کرتے ہوئے لکھنے والوں کو ان کے غلط ہونے کا احساس دلایا اور کہا کہ یہ ٹیٹو سونی کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے کے ہیں۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے کیے گئے گناہوں کا اطلاق مسلمان ہونے کے بعد نہیں ہوتا اور تنقید کرنے والے مسلمان یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ جب کوئی غیر مسلم کلمہ گو ہو جائے تو اس کے پچھلے گناہ مٹ جاتے ہیں اور وہ ایک نوزائیدہ معصوم بچے کی طرح اپنی نئی زندگی کی شروعات کرتا ہے۔
یہ ٹیٹو اب مٹائے نہیں جا سکتے لہٰذا ان سے سونی کے جذبات، عمرہ اور عبادات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مفتی مینک کے اس پیغام نے دلوں پر اثر کیا اور سونی کا کھویا ہوا اعتماد پھر سے بحال ہو گیا۔
دوبارہ عمرے کی خواہش
اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ اگست ۲۰۱۸ء میں سونی ایک بار پھر عمرہ کرنے گئے اور حج سے ایک دن پہلے ۲۰؍ اگست کو اپنی تصاویر ٹوئٹر پر دکھاتے اور عید کی مبارکباد دیتے سونی بہت پرجوش اور خوش نظر آئے۔
احرام باندھے سعودی عرب کے شیخوں اور کچھ نامور ہستیوں کے ساتھ اپنی تصاویر شئیر کرتا مسلمان حمزہ ،رگبی کے میدان میں ’’بِیسٹ‘‘ کے نام سے مشہور کھلاڑی سونی ولیم سے یکسر مختلف اور مطمئن نظر آتا ہے۔
مشہور کمپنیوں کے برانڈ ایمبیسڈر
سونی کو ان کی شہرت اور بے پناہ کامیابیوں کی وجہ سے کئی بین الاقوامی بڑی کمپنیوں نے اپنی مصنوعہ کا برانڈ ایمبیسڈر بھی بنا رکھا ہے۔ جن میں قابلِ ذکر بی ایم ڈبلیو اور اڈیڈاس ہیں۔
تاہم عرصہ دراز تک بی ایم ڈبلیو کے برانڈ ایمبیسڈر رہنے والے سونی کی مفتی مینک کے ساتھ حالیہ تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد تنگ نظر یہودی لابی اور کچھ دوسری مخصوص کمیونٹیوں کے احتجاج کے بعد بی ایم ڈبلیو کمپنی نے معاہدے پر نظر ثانی کرنے ارادہ کیا ہے۔
جہاں تک سونی کی بات ہے انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سونی کہتے ہیں:
’’اسلام کے حصار میں آنے کے بعد مجھے کسی بات سے ڈر ہے نہ فرق پڑتا ہے کہ میرے پاس کیا ہے اور کیا نہیں؟ میرے پاس سب کچھ ہے اور ہو سکتا ہے آنے والے کل میں میرے پاس کچھ بھی نہ رہے۔ یہ سب اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔
میں خوش ہوں اور جب میرے پاس کچھ نہیں ہو گا میں تب بھی خوش رہوں گا کیونکہ میں نے سیکھا ہے کہ یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں اس سے انسان کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔‘‘
سونی بل ولیم کی اپنی ایک چھوٹی سے دنیا ہے جس میں اب وہ بہت خوش ہیں۔ ان کی زندگی اپنی بیٹی ایمان اور بیٹے زید کے ساتھ خوشیوں بھری ہے۔ سونی اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔
سادہ سے گھر میں وہ اپنے والدین، بھائی، بھابھی، بھتیجے بھتیجی، اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہ رہے ہیں۔
ہر ویک اینڈ پر یہ خاندان ایک ساتھ بیٹھتا، کھانا کھاتا اور آپس میں گپ شپ کرتا ہے۔ سونی بہت زیادہ سوشل نہیں۔ انھیں اپنا وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارنا اچھا لگتا ہے۔
نیوزی لینڈ جیسے ملک میں آپ کو ان کا گھر اور طرز رہائش بالکل ایشیائی محسوس ہو گا۔ جہاں گھر کے تمام افراد اپنے بزرگ ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں۔
سونی بل ولیم، آج کے حمزہ
نیوزی لینڈ کے مشہور ترین کھلاڑی سونی بل ولیم جو اب حمزہ ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ اللہ کا دین غالب آنے لگا ہے اور اسلام کی عظمت رفتہ نے اب ، مسلمان ممالک سے باہر نکل کر اب غیر مسلم ممالک کے لوگوں کے دلوں کو بھی اپنی روشنی سے منور کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔