سلسلے وار ناول
بلال صاحب
دسویں قسط
فراڈیئے
شکیل احمد چوہان
دونوں بہنیں اپنے کمرے میں ڈبل بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ کمرے میں روشنی قدرے کم تھی۔ ان کے اوپر اسپین کا بنا ہوا پنک کلر کا پھول دار ڈبل پلائی کمبل، ماں کے سینے کی طرح حرارت پہنچا رہا تھا۔
پھر بھی ان دونوں کی آنکھوں میں ضدی بچوں کی طرح نیند کے آثار دُور دُور تک نہیں تھے۔
دونوں بہنوں کی آنکھیں کمرے کی رنگین سیلنگ کو دیکھ رہی تھی۔ نظریں تو سیلنگ پر تھیں لیکن دماغ کے عربی گھوڑے سوچ کی ریتلی زمیں پر صحرا کی ریت اُڑا رہے تھے۔ یہ گھوڑے منزل کی تلاش میں اِدھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے ۔ اچانک… یکایکـــ… یک لخت موبائل چیخ مارتا ہے …ایک اسٹوپڈ بھولا بھٹکا میسج موبائل کی نیند خراب کر دیتا ہے۔ اب یہ گھوڑے عرب کے صحراؤں سے ایک لمحے میں ڈیفنس کے دو کنال کے گھر کے بیڈروم میں واپس۔
’’بلال کس سے محبت کرتا ہے…؟ ‘‘ نوشی نے خود سے بغیر کسی کو دیکھے ہوئے سوال کیا۔
’’مجھ سے تو نہیں کرتا۔‘‘ توشی فی الفور بول اٹھی۔
’’پھر کون ہے …وہ…؟‘‘ نوشی اُسی انداز میں پھر مخاطب ہوئی ۔
’’ڈفر تم ہو…تم ہو…صرف تم ہو۔‘‘ توشی نے حتمی فیصلہ سنایا۔ اب وہ بیڈ پر بیٹھ چکی تھی اور اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ On کر دیا تھا۔
’’میں کیسے ہو سکتی ہوں؟‘‘ نوشی حیرت میں مبتلا تھی۔
’’مگر وہ میرے ٹائپ کا نہیں ہے۔ دو دن اُس سے ہنس کر بات کیا کر لی اس نے سوچا بھی کیسے …میرے بارے میں۔ ‘‘
’’بلال کی سوچ تم سے شروع ہو کر تم پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ نسیم جمال! مت بھولو تم بچپن ہی سے اُس کی منگیتر ہو۔‘‘
توشی نے ترش لہجے میں دوٹوک یاد دہانی کروا دی اپنی بہن کو۔
’’مگر میں اس سے شادی نہیں کر سکتی ایک معمولی اسکول ٹیچر…میری کلاس اور ہے میں کوئی بیوروکریٹ، کوئی بزنس مین دیکھوں گی۔ بلال سے شادی No, never کبھی نہیں …‘‘
’’پاپا نے تمہارا رشتہ طے کیا تھا …اور تم پھوپھو کی پسند ہو …‘‘ توشی نے نہ بھولنے والی بات دوبارہ پہاڑے کی طرح یاد کرا دی۔
’’مگر مجھے ہی کیوں پسند کیا تھا …پھوپھو نے…تمہیں کیوں نہیں؟ ‘‘ نوشی نے غصے سے جواب دیا۔
دونوں بہنوں کی چپقلش شروع ہو چکی تھی۔ توشی طنزیہ لہجے میں پھر بولی:
’’میں بھی یہی کہتی ہوں …پھوپھو نے مجھے کیوں پسند نہیں کیا …تمہیں کیوں؟ کاش … ! پھوپھو مجھے پسند کرتیں …کاش۔‘‘ توشی کے دل کی بات ایک بار پھر ہونٹوں پر آ ہی گئی۔
’’Are you mad?‘‘ نوشی نے شانے اُچکاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے پاگل تم لگ رہی ہو۔ ‘‘ توشی نے افسردگی سے جواب دیا۔
’’کس چیز کا تمہیں غرور ہے میری سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘ توشی دوبارہ بول اٹھی۔
’’کہاں میں اور کہاں وہ، میری اور اس کی کلاس میں بہت فرق ہے۔‘‘ نوشی نے ابرو چڑھا کر جواب دیا۔
’’کس کلاس کی بات کر رہی ہو، سارے ڈیفنس کی لڑکیاں اُس پر مرتی ہیں، میں بھی ان میں شامل ہوں۔
وہ تم سے زیادہ خوبصورت، تم سے زیادہ پڑھا لکھا اور تمہارے لیے حیرت کی بات ہو گی۔ ہم سب سے زیادہ اس کا بینک بیلنس ہے …اگر یقین نہ آئے تو ماما سے پوچھ لینا …کلاس …کلاس کی بات کرتی ہو۔‘‘
نوشی بت بنی توشی کا چہرہ دیکھ رہی تھی جو غصے سے اُٹھ کر باہر ٹیرس پر جا چکی تھی۔
توشی کو باہر سرد ہوائوں کا سامنا تھا۔ نومبر کی سرد رات اپنے جوبن پر تھی۔
توشی کی نگاہیں اپنے ٹیرس سے سفر کرتیں بلال کے کمرے پر مرکوز تھیں …جس کی لائٹ آف تھی اور اس کے دل میں شکوہ تھا۔
’’ اے کاتب تقدیر…! اِسے میرے نصیب میں کیوں نہیں لکھا …؟‘‘
اگلے دن بلال اپنے آفس میں داخل ہوا۔ فوزیہ جیسے اُسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اُس دن سردی بہت زیادہ تھی۔ فوزیہ نے سلام کیا، بلال نے اسے دیکھے بغیر جواب دیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
فوزیہ بلال کے آفس میں کام کرنے والی غریب گھرانے کی لڑکی جس کا باپ اور چچا ایک بم بلاسٹ میں تقریباً 14سال پہلے جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس کا چچا اس کا خالو بھی تھا۔
دونوں بہنیں ایک ساتھ بیاہی تھیں اور ایک ساتھ بیوہ ہوئیں۔ فوزیہ اس وقت کوئی چھے سال کی ہوگی اور لیاقت 7 سال کا ہو گا۔ لیاقت علی اس کا منگیتر جو شارجہ میں کرکٹ سٹیڈیم روڈ پر G&P کے پاس Micro Super Market میں قصائی کا کام کرتا تھا۔
فوزیہ کا دادا جوہر ٹاؤن کے علاقے نواں پنڈ گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اب یہ گاؤں جوہر ٹائون کے H بلاک کے ساتھ واقع ہے۔
ڈیفنس کی طرح جوہر ٹائون بھی مختلف گاؤں کے زرعی رقبوں پر قائم ہوا تھا۔ پھر وہی ستم ظریفی 3200 ایکڑ زرعی رقبہ رہائشی منصوبہ میں تبدیل ہو گیا۔ جوہر ٹاؤن چھوٹے بڑے کئی دیہاتوں کے رقبے پر قائم ہوا۔ جن میں چار بہت اہم ہیں بیٹر، سمسانی، شادی وال اور نواں پنڈ۔ فوزیہ نواں پنڈ کی دوشیزہ تھی۔
ڈیفنس کی طرح جوہر ٹاؤن میں بھی آپ کو ماڈرن زندگی اور دیہاتی زندگی کے رنگ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ شوکت خانم کینسر ہاسپٹل ۔ لاہور کا Expo Center جوہر ٹاؤن میں ہی واقع ہیں۔ جہاں کبھی میٹھے پانی کے کنوئیں ہوتے تھے، اب ان کی جگہ سیوریج کے گٹروں نے لے لی ہے ،کچے راستوں کی جگہ پکی سڑکیں بن گئی ہیں۔
جس جگہ کئی ہیریں اپنے رانجھوں کے لیے سر پر لسی کی چاٹی رکھے ہوئے ہاتھ میں روٹی کی چنگیر پکڑے کچی پکی راہوں، پگ ڈنڈیوں پر ناگن کی طرح بل کھاتی لہراتی ہوئیں اپنے رانجھوں کو شاہ و یلا پہنچاتی تھیں۔
وقت کے خزانوں میں وہ لمحے محفوظ ہیں مگر ہم دیکھ نہیں سکتے، جگہ وہی، مقام وہی مگر لوگ نئے، اب بھی وہی کچھ ہے مگر انداز مختلف، طریقہ الگ، مٹیار کی جگہ اب ماڈل آ گئی ہے۔ کچی پگڈنڈی کی جگہ ریمپ، پہلے مٹیار کی ٹور پر گبھرو مرتے تھے اور اب ماڈل کی کیٹ واک پر جوان جان دیتے ہیں۔
میسی روٹی کی جگہ پیزا نے لے لی ہے۔ لسی کی جگہ سافٹ ڈرنک، دودھ کی جگہ شراب، محبت کی جگہ مطلب۔ سادگی کی جگہ فیشن۔ اسی علاقے میں بلال کا اسکول ہے :
ایکسپو سنٹر کے گیٹ نمبر 2سے نہر کی طرف جائیں تو جوہر ٹائون کے Hبلاک میں بلال کا سکول واقع ہے۔
’’سر ! گرین ٹی منگواؤں آپ کے لیے؟ ‘‘ فوزیہ نے پوچھا۔
’’نہیں …‘‘
’’سر ! چائے یا کافی …‘‘
’’نہیں چاہیے … کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ بلال نے نرم شگفتہ لہجے میں جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف رہا۔ فوزیہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ فوزیہ بلال کے ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
’’سر ! آج سردی بہت ہے قسم سے۔ ‘‘ فوزیہ معصوم بچے کی طرح بولی۔
’’اتنی زیادہ بھی نہیں ‘‘بلال نے نظریں اُٹھا کر فوزیہ کی طرف دیکھا چند لمحوں بعد وہ ہنس دیا۔ فوزیہ Pink کلر کا گرم سوٹ پہنے ہوئے کھڑی تھی۔ بالوں کو بغیر مانگ نکالے پیچھے کلپ لگایا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہلکا سا میک اَپ کیا ہوا تھا۔
جس چیز کا اضافہ تھا، وہ مرجنڈا کلر کی ایک خوبصورت جیکٹ تھی جو اس نے پہن رکھی تھی۔ فوزیہ ایک سادہ لڑکی تھی جسے کپڑے پہننے کا شوق تو تھا مگر ڈریسنگ کی سوجھ بوجھ زیادہ نہیں تھی ۔
جب دو سال پہلے وہ بلال کے آفس میں آئی تو گائے تھی۔ بلال نے اسے بہت کچھ سکھایا۔ اٹھنا، بیٹھنا، بات کرنا، کپڑے پہننے کا ڈھنگ۔ اب فوزیہ دو سال پہلے والی فوزیہ نہیں تھی۔
وہ پُراعتماد، خوش شکل، خوش اَخلاق، باحیا اور ذہین لڑکی تھی مگر اُس کا بچپنا باقی تھا جوکہ بلال کو پسند بھی تھا۔
بلال اکثر اُس کی بے تکی باتیں سنتا رہتا مگر کچھ کہتا نہیں۔ آج بھی بلال اس کے بچپنے کی وجہ سے ہنس دیا دراصل اس نے نئی جیکٹ پہنی تھی اور وہ بلال کو دکھانا چاہتی تھی۔
’’سر ! لیاقت علی نے شارجہ سے بھیجی ہے جس سپر مارکیٹ میں وہ کام کرتا ہے۔ وہاں سے خرید کر۔ ‘‘
’’اچھا …‘‘ بلال نے لمبا سا اچھا کہا۔ فوزیہ کو معلوم تھا بلال جب اس کی ٹانگ کھینچتا ہے تو لمبا سا اچھا کہتا۔
’’سر ! قسم سے یہ لیاقت علی نے بھیجی ہے ‘‘فوزیہ معصومیت سے بولی۔
’’اچھا جی … اچھا جی …نائمن …نائمن۔‘‘ بلال نے مسکرا کر جواب دیا۔
فوزیہ نائمن نائمن سمجھ نہیں پائی اور فٹ سے بول پڑی :
’’سر ! قسم سے …یہ لنڈے سے نہیں خریدی۔ ‘‘ فوزیہ نے فوراً اپنی صفائی دی، قسم سے فوزیہ کا تکیہ کلام تھا۔
’’سر ! کیا لنڈے کے کپڑے پہننا اتنا بڑا گناہ ہے…؟‘‘ فوزیہ زخمی آواز کے ساتھ بولی۔
’’فوزیہ جی…! حلال کی کمائی سے خریدے ہوئے لنڈے کے کپڑے بہتر ہیں۔ حرام کے پیسوں سے خریدے ہوئے لندن کے کپڑوں سے… شارجہ میں جب کوئی بہت خوبصورت لگتا ہے تو اسے نائمن کہتے ہیں۔‘‘
فوزیہ کا چہرہ مکئی کے دانے کی طرح کھل گیا جو ہلکی سی حرارت پر کھل جاتا تھا۔ یہ حرارت تعریف کی تھی جس نے فوزیہ کا چہرہ کھلا دیا تھا۔
’’سر! کیا آپ نے بھی کبھی لنڈے کے کپڑے پہنے ہیں۔ ‘‘
’’جی … فوزیہ جی …!جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو لنڈے سے خریدے ہوئے کوٹ پہنتا تھا۔ ‘‘
بلال نے تفاخر سے جواب دیا۔ فوزیہ نے جاسوسی کے انداز میں پھر سے پوچھا :
’’سر ! یہ والا کوٹ بھی لنڈے کا ہے۔ ‘‘ فوزیہ نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کا (L)بنا کر بلال نے جو کوٹ پہنا تھا اس کی طرف اشارہ کر دیا۔
’’نہیں …نہیں …فوزیہ جی …! یہ تو میں نے مدینہ منورہ سے خریدا تھا، جب میں اور نانو حج پر گئے تھے ۔ ‘‘
جب بلال نے مدینہ منورہ کا نام لیا تو اس کی زبان عقیدت میں ڈوبی ہوئی تھی۔
’’فوزیہ جی …! کچھ کام بھی کرلیں … آپ مجھے 9th,10th کی مڈٹرم رزلٹ شیٹ دیں۔‘‘
’’جی سر ! ابھی لائی …سر پرنٹ نکال دوں …یا فائل دے دوں۔‘‘
’’فائل دو …‘‘
فوزیہ نے فائل بلال کے سامنے رکھتے ہوئے پھر سے لب کشائی کی :
’’سر ! ہفتے والے دن آپ کو رامے اسٹیٹ پر دیکھا تھا ۔ ‘‘
’’ہاں میں رینٹ دینے گیا تھا۔‘‘ بلال فائل دیکھتے ہوئے بولا۔
’’سر ! مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ کی طارق رامے جیسے بندے سے اور اعجاز ٹھیکیدار سے کیسے دوستی ہے …؟‘‘
’’فوزیہ جی…! دوستی تو نہیں ہے، ہاں اچھی ہائے ہیلو ضرور ہے …آپ ایسے کرو آپ بیٹھ جاؤ۔ آج ہم صرف باتیں کریں گے۔ ‘‘ بلال نے بات لگائی۔
’’جی سر … ! ٹھیک ہے۔ ‘‘ فوزیہ خوشی سے بیٹھ گئی ۔ بلال کا طنز اُسے سمجھ نہیں آیا۔
’’سر اعجاز ٹھیکیدار تو کچھ ٹھیک ہے مگر طارق رامے تو ایک نمبر کا فراڈیا ہے۔‘‘
’’فوزیہ جی …!آپ سے کیا فراڈ کیا اُس نے؟ ‘‘
فوزیہ سوچتے ہوئے بولی :
’’کچھ نہیں … سر ! کئی سال پہلے ہمارا کرایہ دار تھا۔ دینہ جہلم کا رہنے والا کرایہ بھی وقت پر دے دیتا تھا۔ سر ! ایک دفعہ امی کی رِکشے سے ٹکر ہو گئی تو امی کو ہسپتال بھی لے کر گیا۔
سر ! ڈاکٹر نے کہا خون چاہیے تو ایک بوتل اپنا خون بھی دیا۔ ‘‘
’’فوزیہ جی …! فراڈیے خون نکالتے ہیں، خون دیتے نہیں…فوزیہ دیکھو، مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا کچھ خامیاں تو سب میں ہوتی ہیں۔ ‘‘
’’سر ! وہ تو میری سہیلی کی بڑی بہن لبنیٰ ہے۔ وہ اسے فراڈیا کہتی ہے، اس لیے میں بھی … کہہ لیتی ہوں۔ ‘‘
’’فوزیہ جی …!جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے ہر سنی سنائی بات پر یقین کر لیں۔ اب ہم کچھ کام کر لیں تو اچھا ہے آپ 9th, 10th کی کلاس انچارج کو بلائیں …‘‘
بلال نے نہایت سنجیدگی سے فوزیہ کو دیکھ کر جواب دیا۔ فوزیہ سمجھ گئی۔ بلال مزید باتیں سننے کے موڈ میں نہیں ہے ۔
(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)
۞۞۞۞