خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
پانچواں حصہ
پُل جس نے دو ملکوں کو ملا رکھا ہے
طارق محمود مرزا، سڈنی
ایئر پورٹ کی عمارت کے بالمقابل کئی منزلہ پارکنگ واقع تھی۔ درمیان سے سڑک گزرتی ہے۔ گاڑی میں سامان رکھ کر ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو ہر جانب نرم دھوپ پھیلی تھی۔ صبح کے اس وقت سڑکیں تقریبا ً خالی تھیں۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ایسٹر ویک اینڈ کی تعطیلات کا آغاز ہو گیا تھا۔
جمعرات سے لے کر پیر تک پانچ روزہ تعطیلات کی وجہ سے لوگ چھٹیاں منانے نکل گئے تھے۔ ان چھٹیوں کی وجہ سے چند دوستوں سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔ ان ملکوں میں اتنی چھٹیاں مل جائیں تو لوگوں کے لیے گھر میں بیٹھا تقریبا ً ناممکن ہوتا ہے۔
وہ کئی ماہ پہلے منصو بہ بندی کر لیتے ہیں کہ اس مر تبہ کہاں چھٹیاں گزارنی ہیں۔ عمو ما ً یہ سفر چھو ٹے شہروں، ساحل سمندر اور پُرفضا مقامات کی جانب ہوتا ہے۔ یوں بڑے شہر چند دن کے لیے خالی خالی سے لگتے ہیں یا پھر ہم جیسے سیاحوں کی وجہ سے آباد رہتے ہیں۔
ائیر پورٹ سے نکل کر ہم شہر کے بجائے اس کی مخالف سمت چل پڑے۔ تھوڑے فاصلے پر سمندر کا شفاف نیلا پانی سورج کی کرنوں میں چمکتا دکھائی دیا۔
قریب پہنچے تو فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ سمندر ہے یا کوئی پرسکون جھیل۔ کیونکہ اس کی سطح اتنی ہموار تھی جیسے یہ جم کر برف بن چکا ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ یہ گہرا سمندر سویڈن اور ڈنمارک کو ملاتا ہے اور یہاں جہاز اور کشتیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ ڈنمارک اور سویڈن کے در میان واقع اس سمندر کو اوریسنڈ کہتے ہیں جو آگے جا کر بحیرہ بالٹک سے جا ملتا ہے۔
ہم ساحلِ سمندر پر واقع ایک وسیع اور دلکش پارک میں کھڑے تھے۔ حسین قدرتی مناظر کے باوجو د اس وقت وہاں سناٹا تھا۔ کار پارک میں صرف دو گاڑیاں کھڑی تھیں۔
ان کے مالکان ساحل سمندر پر کسرت میں مصروف تھے۔ ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر ہم نے سبز و شاداب پارک، شیشے کی طرح شفاف پانی والا سمندر اور اس سمندر پر واقع ایک عجوبہ روزگار پُل دیکھا۔
دراصل یہی پل دکھانے کے لیے رمضان صاحب مجھے یہاں لے کر آئے تھے۔ یہ طویل و عریض پُل ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن اور سویڈن کے شہر مالمو کو ملاتا ہے۔ دو شہروں بلکہ دو ملکوں کو ملانے والا یہ راستہ محض ایک پُل نہیں، بلکہ پُل ، مصنوعی جزیرے اور زیر آب سُرنگ پر مشتمل فنِ تعمیر کا ناقابل یقین شاہکار ہے۔
اسے دیکھ کر انسان ان ذہنوں اور ہاتھوں کو بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے جن کی یہ تخلیق ہے۔ یہ پُل کوپن ہیگن والی سمت سے شروع ہوتا ہے اور آٹھ کلو میٹر تک سمندر کے اُوپر زمینی شاہراہ کی طرح چلتا جاتا ہے۔ اس کے بعد سمندر کے اندر ایک مصنوعی جزیرہ تخلیق کیا گیا اور وہاں سے زیر آب سُرنگ شروع ہو جاتی ہے جو مالمو تک چلی جاتی ہے۔
سمندری راستہ جس میں موٹروے ،ریل اور دیگر ٹریفک چلتی ہے اتنا کشادہ ، اتنا طویل اور اتنا پائیدار ہے کہ اسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ گہرے سمندر میں یہ کیسے بنایا گیا اور اس پر کتنے اخراجات آئے ہوں گے، اس کا تصور محال تھا۔
مجموعی طور پر سولہ کلومیٹر طویل بحری راستہ ہے، جو ڈنمارک اور سویڈن کی مشتر کہ کاوش سے۱۹۹۱ ء میں بننا شروع ہوا اور ۲۰۰۰ء میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔
ساحلِ سمندر پر واقع پارک کے اندر کھڑ ے ہو کر ہم نے پُل، اس پر رواں ٹریفک ، نیلے سمندر اور روشندان کا نظارہ دیکھا۔ قدرت کی صناعی اور انسان کی مساعی کا دلکش امتزاج نظر آیا۔ جو حسین بھی تھا اور ناقابلِ فراموش بھی۔
موسم انتہائی خوش گوار تھا۔ تاہم ڈنمارک کے باسیوں پر ختم ہوتے جاڑے کے اثرات بدستور قائم تھے۔ جبکہ میں آسٹریلیا کا موسم گرما بھگت کر آ رہا تھا۔ لہٰذا میں نے قمیص کے اُوپر کچھ نہیں پہنا تھا ۔جبکہ میرے رفیق، رمضان رفیق نے بھاری جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی۔
دو روز تک یہی کیفیت رہی۔ میں پتلون قمیص میں گھومتا رہا جبکہ میرے اردگرد کے لوگوں نے گرم جیکٹ اور کوٹ پہنے ہو ئے تھے۔
دوسرے دن شام سے مجھے بھی ٹھنڈ محسوس ہو نے لگی۔ لہٰذا تیسرے دن میں بھی دیگر لوگوں کی طرح گرم جیکٹ میں لپٹا ہوا تھا۔
گزرے دنوں کی یادوں کی طرح گزرے موسم بھی کافی دیر تک انسان کے اندر رچے بسے رہتے ہیں۔ حتّی کہ نئے منظر، نئی یادیں اور نئے موسم رفتہ رفتہ ان کی جگہ لے لیتے ہیں اور پُرانی یادیں گزرے موسم کے ملبوسات کی طرح کسی محفوظ جگہ سنبھال کر رکھ دی جاتی ہیں۔
پھر جب بہارِ زیست خزاں میں ڈھلتی ہے تو پُرانی یادیں پُرانے دوست ایسے یاد آتے ہیں جیسے جاڑا آتے ہی پُرانے ملبوسات یاد آتے ہیں۔
؎ یُوں برستی ہیں تصوّر میں پرانی یادیں
جیسے برسات کی رِم جھم میں سماں ہوتا ہے
ہم ساحل سمندر اور اوریسنڈ پُل سے واپس چلے تو یہ منظر میرے دل میں رچ بس گئے۔ جو منظر، جو یادیں مجھے لبھاتی ہیں، وہ تادیر میرے دل و دماغ پر قابض رہتی ہیں۔ آج چار ماہ بعد یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو یہ منظر میرے سامنے ایسے جلوہ افروز ہیں جیسے روزِ اوّل تھے۔
سفرنامہ نگار کو بہرحال یہ فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے کہ جب تک حسین مناظر اور دلچسپ مشاہدات زیرِ تحریر رہتے ہیں اس کے دل و دماغ میں روزِ اوّل کی طرح تروتازہ رہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مناظر کو احاطہ تحریرِ میں لانے کے لیے بار بار ذہن و دل میں تصویر کی طر ح سجانا پڑتا ہے تاکہ اس کی منظر کشی کی جا سکے۔ جب تک سفرنامہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا, یہ عمل بار بار دُہرانا پڑتا ہے۔ حتّی کہ یہ منظر ہمیشہ کے لیے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔ جب چاہا تصویرِ یار کی طر ح سر جُھکا کر انہیں دیکھ لیا۔
ساحلِ سمندر سے ہم سیدھے رمضان رفیق کے ریستوران میں گئے جو گاہکوں کے لیے صرف شام میں کُھلتا ہے۔ رمضان صاحب نے اسے کھولا تو گزشتہ شب کی تقریب سالگرہ کے بچے کھچے لوازمات جیسے کیک، مشروبات اور دیگر اشیا سے بھرا تھا۔ رمضان صاحب نے کہا
بلا تکلف بتائیے۔ کیا کھا ئیں پئیں گے؟
میں نے میزوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ ان میں سے کچھ نہیں۔
رمضان صاحب بولے۔ میں ان کی بات نہیں کر رہا۔ آپ حکم کریں ہر چیز تازہ ملے گی۔
میں نے ایک خالی میز پر بیٹھتے ہو ئے کہا، صرف چائے ، وہ بھی دیسی طریقے سے بنی ہوئی۔ اگر زحمت نہ ہو تو۔
اوہ جی ! اپنا ریسٹورنٹ ہے۔ ہر چیز ممکن ہے ۔پراٹھے اور لسّی بھی تیار ہو سکتی ہے۔
رمضان رفیق نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
بہت شکریہ! مگر اس کی ضرورت نہیں ہے میں جہاز میں ناشتہ کر چکا ہوں۔
رمضان رفیق نے واقعی بہت اچھی چائے بنائی۔ کڑک دیسی چائے سے نیند بھگانے کے بعد ہم کوپن ہیگن کی سیر کے لیے نکل پڑے۔
جا نے سے قبل میں نے اپنے سوٹ کیس سے کتابوں کا کچھ بوجھ ہلکا کر دیا۔
یہ کُتب میں آ سٹریلیا سے ڈنمارک کی تقریب کے لیے لایا تھا، جو آج شام اسی ریستوران میں منعقد ہو رہی تھی۔ سویڈن اور ناروے میں سنگِ میل پبلشرز نے براہ راست کتب ارسال کر دی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد ہم کوپن ہیگن شہر کے مرکز میں واقع ڈنمارک کے قومی اوپیرا ہاؤس کے وسیع کار پارک میں گاڑی پارک کر رہے تھے۔ ایسٹر کی تعطیل کی وجہ سے پارکنگ اور گرد و نواح خالی خالی دکھائی دیتا تھا۔ قدیم عمارات کے شہر کوپن ہیگن میں اوپیرا ہاؤس کی یہ عمارت جدید اور شاندار ہے۔ اس کی تعمیر میں پچاس کروڑ امریکن ڈالر سے زائد خر چ ہوئے۔
اس کے چھے مختلف ہال ہیں، جن میں بیک وقت مختلف شو منعقد ہو سکتے ہیں ۔ اس کے باہر کو نکلے بڑے بڑے چھجے اُسے منفرد بناتے ہیں ۔ اوپیرا ہاؤس سنٹرل کوپن ہیگن کے ہولمن جزیرے میں واقع ہے۔
ڈنمارک کی اس معروفِ زمانہ عمارت سے ملحق سمندری پٹی، اس پٹی کے دوسری جانب شاہی محلّات ، شاہی گرجا گھر اور دیگر تاریخی عمارتیں سر اُٹھا ئے کھڑی ہیں۔
ہم سمندر کنارے کھڑے کبھی کوپن ہیگن کی پیشانی پر فروزاں اس جُھومر کو دیکھتے تھے اور کبھی دوسری جانب آسمان سے باتیں کرتے گرجا گھر اور شاہی محل کی طرف نظر اُٹھ جاتی تھی۔ نیلے پانیوں سے ہمکلام یہ عجوبہ روزگار عمارت نظروں کو جذب کرتی تھی۔ اس کا ڈیزائن منفرد، سجاوٹ بے مثال اور طرز تعمیر انوکھا و یکتا ہے۔
اس کے دلکش نیلے شیشے والے دریچے چاروں اطراف آگے نکلا ہوا وسیع چھجا، رُعب دار بام و در، اُس کی وسعت اور اس کی انفرادیت اسے دُنیا کا جدید، حسین اور گراں ترین اوپیرا ہاؤس ثابت کرتی تھی۔ ڈنمارک کے قومی اوپیرا ہاؤس کی دلکشی اور شاندار بناوٹ نے مجھے بہت متاثر کیا۔
یہ اوپیرا ہاؤس اے پی مولر فاؤنڈیشن نے ۲۰۰۰ء میں حکو متِ ڈنمارک کو تحفے میں دیا تھا۔ اضافی تزئین و آرائش کے بعد ۲۰۰۵ء میں اے پی مولر ، ڈینش وزیراعظم اور ملکہ مارگریٹ دوئم کی موجودگی میں اس کا افتتاح ہوا۔ تب سے یہ شاندار اوپیرا ہاؤس نہ صرف کوپن ہیگن میں فن و ثقافت ،موسیقی اور ڈرامے کا مرکز ہے بلکہ سیاحوں کی توجہ اور دلچسپی کا بھی محور ہے۔
اوسلو اور اسٹاک ہوم کی طرح کوپن ہیگن کے اندر بھی سمندری شاخیں شہر میں پھیلی ہیں۔ شہر ان سمندری شاخوں کے کناروں پر آباد ہے۔
یہ شاخیں نہ صرف اس کے حُسن و جمال میں اضافے کا باعث ہیں بلکہ نقل و حمل کا ذریعہ بھی ہیں۔ شہر کے اندر واقع ہونے کے باوجود یہ سمندر کافی گہرا ہے۔ اس کا ثبوت اوپیرا ہاؤس کے سامنے لنگر انداز بڑے بڑے بحری جہاز ہیں۔
ان دیوہیکل جہازوں کے علاوہ چھوٹی کشتیاں اور برق رفتار موٹر بوٹ بھی شفاف نیلے پانی پر تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جبکہ اس پٹی کے دوسری جانب بھی ایسی رہائشی اور سرکاری عمارتیں نظارۂ خلق ہیں۔
ان میں سب سے قابل ذِکر شاہی محل اور شاہی گرجا گھر ہے جسے بعد میں دیکھنے کا موقع ملا۔ یوُں کوپن ہیگن تاریخی، دلچسپ اور منفرد شہر محسوس ہوا۔ یہ شمالی یورپ کا انتہائی اہم شہر ہے ۔ اس کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے یہ تاریخ کوپن ہیگن میں ہر سو بکھری ہے۔
کوپن ہیگن بلکہ ڈنمارک کے ایک اور دلچسپ مقام کرسٹینیا کی سیر سے قبل آ پ کو ڈنمارک اور اُس کے باسیوں کے بارے میں چند دلچسپ حقائق بتاتا چلوں۔
(باقی اگلی قسط میں)
اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
https://shanurdu.com/the-bridge/