خدائی لشکر
ڈاکٹر محمد نوید ازہر
کرونا وائرس ایک انتہائی معمولی بے جان ذرہ ہے، جو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔ یہ اپنے معمولی ہونے کے باوجود اس قدر خطرناک ہے کہ دنیا بھر کی سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔
یہ ایک پروٹین مالیکیول ہے، جسے مارا تو نہیں، البتہ تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے ایک ناگہانی وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے اور آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی، بری طرح اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ بلاشبہ یہ وائرس ان خدائی لشکروں میں سے ہے، جن کے بارے میں
قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے : وَ مَا یَعلَمُ جُنُودَ رَبِّکَ اِلَّا ھُو، وَ مَا ھِیَ اِلَّا ذِکرٰی لِلبَشَر۔ (المدثر۷۱:۳۱) ترجمہ: ’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتااور یہ انسان کی نصیحت کے لیے ہے۔‘‘
یہ وبا عذابِ الٰہی کی ایک صورت ہے، جو انسانوں کے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔ انسان کے لیے، یہ قدرت کا ایک تازیانہ ہے، تاکہ وہ موت سے پہلے ، اس نمونہ عذاب کو دیکھ کر توبہ کر تے ہوے کفر، فسق اور ظلم کی دلدل سے باہر نکل آئے۔
پاکستان میں یورپی ممالک کے برعکس، ابھی تک، اس مہلک وائرس کے متاثرین میں موت کی شرح بہت کم ہے اور مریض صحت یاب بھی ہو رہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کا اندرونی طور پر مضبوط اور مستحکم ہونا ہے۔
مسلمان ہر دکھ، تکلیف میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا سہارا اختیار کرتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کے باوجود اس سہارے سے اس کی بڑی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ یہی امیدیں اسے تقویت عطا کرتی ہیں۔ وہ جب یکسو ہو کر اللہ اور اس کے رسول کو پکارتا ہے، تو اسے لَا تَقنَطُوا مَن رَّحمَۃِ اللہ ( الزمر۳۹: ۵۳) یعنی’’ میری رحمت سے مایوس نہ ہو جانا‘‘ کا جواب ملتا ہے۔
امم سابقہ پر عذابِ الٰہی کی مثالیں قرآنِ حکیم میں جا بجا بیان کی گئی ہیں۔ان مثالوں کا مقصد عبرت آموزی ہے۔ قوم ِلوط کی نافرمانی جب حد سے گذر گئی اور اس نے اپنے نبی لوط ؑ کی تذکیر و تبلیغ کا کوئی اثر قبول نہ کیا، بلکہ طعنہ زنی کرتے ہوے کہنے لگی
:اَخرِجُوھُم مِن قَریَتِکُم اِنَّھُم اُنَاس یَتَطَھَّرُون۔ (الاعراف۷: ۸۲)ترجمہ:
’’ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں( ہمارے کردار پر نکتہ چینی کرتے ہیں)۔‘‘جب اس نے شرافت اور انسانیت کی تمام حدیں عبور کر لیں، تو اس پر عذاب اتر آیا۔ اس کی بستیوں کو آسمان تک اٹھا کر اوندھا کر دیا گیا۔پھر اس پر پتھر برساے گئے۔ پھر آگ جلا کر انھیں قصہ ماضی بنا دیا گیا۔وہ بستیاں چار سَو میٹر تک زمین کے اندر دھنس گئیں اور زمین کا پانی اوپر آ گیا۔
نوح ؑ ساڑھے نوسَو برس تک استقامت کا کوہ ِگراں بنے رہے، لیکن قوم نے ان کی دعوت پر کان نہ دھرے۔ جب تنگ آ کر آپؑ نے قوم کو عذابِ الٰہی کی خبر سنا دی، تو پھر بھی وہ سنجیدہ نہ ہوئی۔ حضرت نوح ؑ کو کشتی بناتے دیکھ کر کہنے لگی: ’’پہلے تم نبی تھے، اب بڑھئی بن گئے ہو۔اس ریت پر اپنی کشتی کیسے چلاو گے۔ کیا بڑھاپے نے تمھاری عقل پر پردہ ڈال دیا ہے؟‘‘
اسی طرح قرآنِ حکیم میں قومِ عاد، قومِ ثمود ،اصحابِ مدیَن اور بنی اسرائیل کے عذاب کا جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اقوام، اپنی ناکردہ کاری کو اپنا کارنامہ گردانتی تھیں۔ ان کے نزدیک اخروی سوچ، کاروبارِ دنیا میں خسارے کا باعث تھی۔وہ آخرت پر، دنیا وی کامیابی کو ترجیح دیتی تھیں۔اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کرتی تھیں۔ان کے نزدیک دولت ہی ترقی کا پیمانہ تھی۔ انھوں نے حصولِ دنیا اور عیش و عشرت کی خاطر انسانی قدروں کو پامال کر دیا تھا۔ان کی دانست میں روٹی، کپڑا اور مکان ہی مقصدِ حیات تھا۔ وہ ایمان، ہدایت اور نجات کو غیر ضروری باتیں تصور کرتی تھیں۔ ان کا نعرہ یہ تھا:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
( بابر، عیش و عشرت میں زندگی گزار، کیوں کہ دنیا میں آنے کا موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔)
وہ اقوام، کم تولتی تھیں۔ سود کھاتی تھیں۔ ملاوٹ کرتی تھیں۔ ذخیرہ اندوزی کرتی تھیں۔رشوت کو اپنا حق سمجھتی تھیں۔حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز تھیں۔ دوسروں کی ٹانگیں کھینچتی تھیں۔غریب کا استحصال کرنے کو بہادری کا نام دیتی تھیں۔ لوٹ، مار، چھین کو اپنا فرضِ منصبی قرار دیتی تھیں۔ عند الطلب، اشیاے ضرورت کو مہنگے داموں بیچتی تھیں۔ ناقص شے کو بڑھیا بتا کر فروخت کرتی تھیں۔پھر کسی نہ کسی روز، عذابِ الٰہی انھیں غافل پا کر پکڑ لیتا تھا۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’ آخرِ کار ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیااور انھیںاس کا خواب و خیال بھی نہ تھا۔اوراگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے، تو ضرورہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔مگر انھوں نے جھٹلایا، تو ہم نے انھیں ان کرتوتوں کے سبب پکڑ لیا، جو وہ کیا کرتے تھے۔ تو کیا بے خوف ہو گئے ہیں ان بستیوں والے، اس سے کہ آ جائے ان پر ہمارا عذاب، راتوں رات، اس حال میں کہ وہ سو رہے ہوں۔ یا کیا بے خوف ہو گئے ہیں ان بستیوں والے اس سے کہ آ جائے ان پر ہمارا عذاب ، چاشت کے وقت، جب کہ وہ کھیل کود میں مصروف ہوں۔ ‘‘ (الاعراف ۷: ۹۵ تا ۹۸)
یہ ان بستیوں کی بات ہے، جن کے مکینوں سے حال احوال پوچھا جاتا تھا، تو وہ ایک آنکھ دبا کر یوں جواب دیتے تھے:
عاقبت کی خبر خدا جانے
اب تو آرام سے گذرتی ہے
ان بستیوں پر جو خدائی لشکر بھیجے گئے، ان کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
’’ اور ہم نے ان پر بھیجے طوفان، اور ٹڈی، اور جوئیں، اور مینڈک، اور خون، یہ (سب) واضح نشانیاں تھیں،پھر بھی وہ تکبرکرتے رہے، اور وہ ( پیشہ ور) مجرم تھے۔‘‘( ایضاً، ۱۳۳)
دیگر امتوں کے بر عکس، امتِ مسلمہ کو ایسے’’ عذابِ استیصال‘‘ سے امان دی گئی ہے، جو ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے کر، بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ گناہوں کی سزا کے معاملے میں امت ِ مرحومہ پر خاص تخفیف کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ اور مسلمانو! تمھیں جو مصیبت پہنچتی ہے ، وہ تمھارے ہاتھوں صادر ہونے والے گناہوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو وہ معاف (بھی) فرما دیتا ہے۔‘‘ ( الشوریٰ۴۲: ۳۰)
امتِ مسلمہ پر نرمی کرنے ،گناہ سرزد ہوتے ہی گرفت نہ کرنے اور ہمہ گیر عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ یوں بیان فرمائی گئی ہے:
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُم وَ اَنتَ فِیھِم، وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُم وَ ھُم یَستَغفِرُون۔( الانفال۸: ۳۳)
ترجمہ:
’’اور (اے محبوبِ مکرم ﷺ!) اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ انھیں عذاب دے ، جب کہ آپ ان کے درمیان ہوں اور اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا، جب کہ وہ مغفرت طلب کر رہے ہوں۔‘‘
حضورِ اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود کی رحمتِ بے پایاں کی برکت سے آپ کی امت( جس میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، کیوں کہ وہ آپؐ کی امتِ دعوت ہیں) پر ہمہ گیر عذاب کا نزول روک دیا گیا ہے۔اکثر مسلمانوں کے استغفار کرتے رہنے سے بھی عذاب ٹلتارہتا ہے۔ البتہ مسلسل ظلم و زیادتی کرتے رہنے پر امت کو جھنجھوڑنے اور راہِ حق کی طرف متوجہ کرنے کے لیے نمونہِ عذاب دکھا دیا جاتا ہے۔اس نمونہ عذاب میں زلزلہ، بے موسم بارش،قدرتی آفات اور وبائی امراض وغیرہ شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کافروں یا فاسقوں پرعذاب کا نزول ہوتا ہے، تو کیا ظالموں کے ساتھ، نیک لوگ بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں؟ قرآنِ حکیم اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دیتا ہے۔ ارشاد ہے:
وَاتَّقُوا فِتنَۃً لَّا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُم خَاصَّۃ، وَاعلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ العِقَاب۔ (الانفال۸:۲۵)
ترجمہ: ’’ اور اس آزمائش سے ڈرتے رہو، جو صرف تمھارے ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گی، اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
جب فتنہ و آزمائش کے ساے گہرے ہو جاتے ہیں، تو اس کا دائرہ صرف ظالموں اور فاسقوں تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ مظلوموں اور نیک لوگوں تک پھیل جاتا ہے۔البتہ دونوں گروہوں کے انجامِ کار میںفرق ہوتا ہے۔کافر، فاسق یا ظالم کے لیے یہ آزمائش عذاب یا سزا ہوتی ہے۔ دنیا میں اسے عذاب میں مبتلا کر کے، آخرت کے عذاب کا نمونہ دکھا دیا جاتا ہے۔یہی آزمائش، جو بیماری کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ، جب بندہِ مومن پر آتی ہے، تو اسے صبر اور شکر کا موقع ملتا ہے۔اس صبر اور شکر پر وہ اجرِ عظیم کا مستحق قرار پاتا ہے۔
یوں اس کی آزمائش، سزا یا عذاب کی بجاے، قربِ الٰہی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔دنیا میں تکلیفیں اور بیماریاں، کافر و مومن دونوں پر آتی ہیں، تاہم دونوں کا انجامِ کار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔
بیماری یا وبا کے ایام میں بندہ مومن کا طرزِ عمل، کفار سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ کافر، ایمان سے محروم ہونے کی بدولت، موت کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔دوسری طرف بندہ مومن توکُّل کا دامن تھام لیتا ہے۔ اعمالِ صالحہ میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ اس کا قیام طویل ہو جاتا ہے، سجدے لمبے ہو جاتے ہیں۔وہ شب بیداری کا اہتمام کرتا ہے۔ دعا کا سہارا لیتا ہے۔ صدقہ و خیرات کرتا ہے۔توبہ و استغفار کرتا ہے۔کسی لمحہ بھی یادِ الٰہی سے غافل نہیں رہتا۔ یہ تمام نیکیاں اس کے گناہوں کا کفارہ اور بلندیِ درجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ چاہیں تو اسے تکلیف سے نکال کر مزید اعمالِ صالحہ کا موقع عطا فرماتے ہیں، یا چاہیں تو اسے اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور اس کی بخشش فرمادیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔
کرونا وائرس یقینی طور پر ایک عذابِ الٰہی ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں ، اس سے بڑا عذاب یہ ہے کہ لوگ مسجدمیں جا کر سجدہ ریز ہونے سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔بیت اللہ شریف اور حرمِ نبوی کے دروازے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ حج کے موقوف ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔بلاشبہ اس کا سب سے بڑا سبب ہماری خود غرضی پر مبنی تبلیغ اور ریاکاری سے لبریز عبادت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سزا کی حقدار بن چکی ہے۔ہمارا ایک عمل بھی، بارگاہِ خداوندی میں قبولیت کے قابل نہیں ہے۔
ایک بڑا طبقہ اس بات کو محسوس کرتے ہوے، مذہب کی آغوش میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔کل تک مذہب کا مذاق اڑانے والے، آج موت کے خوف سے، اذانیں دے رہے ہیں اور قرآن حکیم کی تلاوت سن رہے ہیں۔ کرونا کے متاثرین، سجدے کی حالت میں جا کر اپنے پھیپھڑوں کو سکون بہم پہنچا رہے ہیں۔سینما گھر اور فحاشی کے اڈے بند پڑے ہیں۔ عورتیں تو ایک طرف رہیں، مردوں نے بھی مکمل لباس پہن لیے ہیں اور چہروں پر ماسک چڑھا رکھے ہیں۔
غیر مسلم، خوراک کے حوالے سے، مسلمانوں سے، حلال اور حرام جانوروں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں۔سؤر اور چمگادڑ کھانے والے، اپنی جہالت پر نوحہ کناں ہیں۔ ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ پوری دنیاکے لوگ صفائی کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔بار بار ہاتھ ، منہ دھونے اور نہانے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ الغرض جوں جوں کرونا کی وبا بڑھتی جا رہی ہے، اسلام کی حقانیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں، جو ابھی تک دنیا سے چسپاں رہنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی موت ان سے ابھی بہت دور ہے۔یہ وبا محض ڈرانے دھمکانے کا ایک ذریعہ ہے اور وہ ،کسی سے ڈرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اشیائے ضرورت (چاہے وہ دین ہی کیوں نہ ہو) کو مہنگے داموںفروخت کرنے اور خوب منافع کمانے کا صحیح وقت یہی ہے، کیونکہ اس کے بعد ممکن ہے دنیا معاشی بحران سے دوچا ر ہو جائے۔ ان لوگوں کی سوچ میں چونکہ ہر آدمی کرپشن میں مبتلا ہے، لہٰذا انھیں بھی اس کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر یقین سے محروم ہو چکے ہیں ، اس لیے اپنے حال کو ماضی سے بہتر بنانے کے لیے ذاتی کوشش بروے کار لاتے ہوے ، ہر موقع سے فائدہ اٹھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی نیکیاں مصلحت کی اسیر ہیں اور ان کی عبادات محض رسم بن چکی ہیں۔ تاہم ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ وہ انھیں جنت میں ضرور بھیجے گا۔ اللہ کی رحمت کو جوش میں لانے کے لیے گاہے بہ گاہے زبان سے ’’ یا اللہ تیرا آسرا‘‘ کہہ لینا ہی کافی ہے۔
خواجہ پِندارد کہ دارد حاصلے
حاصلِ خواجہ بجز پِندار نیست
)خواجہ کا خیال ہے کہ اس کے پاس ذخیرہ ہے۔ خواجہ کا ذخیرہ اس کے خیالِ خام کے سوا کچھ بھی نہیں۔)
دین ایک ” فکر” کا نام ہے۔عمل کی حیثیت ثانوی ہے۔ جیسے جیسے ہماری فکربگاڑ کا شکار ہوتی گئی ہے،ویسے ویسے ہمارا عمل ، مشق (ایکسرسایز) بنتا چلا گیاہے۔آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ہمارا نفس، ہمارا دین بن چکا ہے۔ اس فکری انتشار نے ہماری ملی وحدت کو پارہ پارہ کر کے ہمیں فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ گزشتہ امتوں کی طرح فرقہ واریت کا ناسور امتِ مسلمہ کے بدن میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ آج کا مسلمان قرآن کو نظر انداز کر کے جس منزل کی طرف سفر کر رہا ہے، اس کا نام ہلاکت ہے۔ اس منزل کی طرف جانے والے تمام راستے نہایت پرپیچ اور خار دار ہیں۔ ان سے صحیح سلامت بچ نکلنا ناممکن ہے۔ ہدایت اور نجات کا واحد راستہ، قرآن کا راستہ ہے، جس کا اعلان ہے:
اِنَّ ھٰذَاالْقُرْاٰنَ یَھدِی لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ ۔(بنی اسرائیل۱۷: ۹) یعنی ‘‘بے شک یہ قرآن اس راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جو سب سے سیدھی ہے۔’’ اس کی تاثیر آج بھی اہلِ نظر کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ بہ قولِ اقبال:
آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا