صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
چراغِ راہ بے منزل نہیں ہے
28/02/2014
ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں آج بھی جس ذوق و شوق اور مہارت سے کرکٹ کھیلتے ہیں ٗ اُسی مہارت اور جذبے سے اُنہوں نے وہ کام چھ ماہ کے اندر کر دکھایا ہے
جو چار حکومتیں تیرہ برسوں میں سرانجام نہ دے پائی تھیں۔ اُن کی تیار کردہ داخلی سلامتی پالیسی کو جنرل پرویز مشرف کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے ایک جامع دستاویز قرار دیا ہے
اور یہی تاثر عزیزم سلیم صافی کا بھی ہے جو صحافتی تجزیہ نگاری میں خاص مقام رکھتے ہیں۔
یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ چودھری صاحب نے کمال درجہ ریاضت اور ذہانت سے افکارِ تازہ کے چراغ روشن کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کو فعال بنانے ٗ ریپڈ فورس قائم کرنے ٗ اُسے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے
اور انٹیلی جنس کا جائنٹ ڈائریکٹوریٹ بنانے اور مذاکرات پر آمادہ طالبان سے بات چیت کرنے
اور ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف طاقت کے استدلال کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
اِس میں نظریاتی پہلوؤں کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور اُن کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سو صفحات کی دستاویز تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں فنانشل پلان بھی دیا گیا ہے جو ساٹھ ستر ارب پر مبنی ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز کے زیرِ اہتمام ’’انسدادِ دہشت گردی کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر سیمینار ہوا
جس میں سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خاں جو سنجیدہ اور حساس مسائل پر اخبارات میں فکر انگیز مضامین لکھتے ہیں
اُنہوں نے قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے دو اہم نکات بیان کیے تھے۔ ایک یہ کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے جبکہ حکومت عوامی نمائندوں کے احساسات کی روشنی میں بڑے غوروفکر سے پالیسی وضع کرتی ہے۔
دوسرا نکتہ جو پہلے سے بھی زیادہ اہم تھا وہ یہ کہ حکومتیں اپنی قومی پالیسی بالعموم صیغۂ راز میں رکھتی ہیں ٗ کیونکہ جنگ کا پہلا اصول رازداری اورسرپرائز ہے۔
دشمن کو اگر حکومت کی حکمتِ عملی اور ایکشن پلان کا پہلے سے علم ہو جائے ٗ تو وہ ریاست کی
گرفت میں آنے سے محفوظ رہے گا اور اپنی خوفناک سرگرمیاں جاری رکھے گا۔
جناب نثار علی خاں نے رازداری کے پہلو کو پوری اہمیت دی ہے اور داخلی سلامتی پالیسی کا پہلا
حصہ خفیہ رکھا ہے جبکہ سٹریٹیجک اور آپریشنل حصے قومی اسمبلی میں زیرِبحث لانے کے لیے پیش کر دیے گئے ہیں
جن میں گزرے ہوئے واقعات کا ذکر زیادہ اور مستقبل کی سمت کا تعین بہت کم کیا گیا ہے۔
حیرت کی بات یہ کہ اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں اور کے پی کے نمائندوں نے شکایت کی ہے کہ
اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا
اور طالبان سے مذاکرات کی تفصیلات بتائے بغیر سرجیکل آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی اِس تجویز میں بڑا وزن تھا کہ اے پی سی کا باقاعدہ اعلان کیے بغیر سیاسی قائدین کو اِن کیمرہ بریفنگ دینے اور حکومتی اقدامات میں ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وزراء نے کابینہ کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا تھا اور
مولانا فضل الرحمن نے مختصر سی پریس کانفرنس میں سرجیکل آپریشن کے خلاف اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ جناب وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی پر اپوزیشن لیڈر کی تجاویز اور جذبے کو سراہتے ہوئے پارلیمانی قائدین کا اجلاس بلانے اور قومی اتفاقِ رائے سے امن کی منزل تک پہنچنے کے لیے
پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔
داخلی سلامتی پالیسی کے جو خدوخال سامنے آئے ہیں ٗ اُن کے مطالعے سے یہ گہرا تاثر ملا ہے کہ زیادہ تر توجہ بھاری بھر کم اداروں کے قیام ٗ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور جسمانی تربیت پر دی گئی ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی کا نیٹ ورک کئی پہلوؤں سے انتہائی پیچیدہ اور بہت پھیلا ہوا ہے
جس کے مقابلے کے لیے جدید خطوط پر تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ایک مربوط اور سریع الحرکت فورس درکار ہے ٗ مگر اِس کے لیے نیکٹا کو فعال کرنے کے جھنجٹ میں پڑے رہنے کے بجائے
موجودہ نظام میں حرارت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سول اور فوجی اداروں میں بہت پوٹینشل ہے
اور اُن میں قدرے بہتری لانے سے فوری مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ سابق ڈائریکٹر
آئی بی جناب مسعود شریف خٹک نے 1995ء میں کراچی کی شدید شورش پر قابو پانے میں
بنیادی کردار ادا کیا تھا ٗ حالانکہ فوجی آپریشن ناکام ہو چکا تھا۔ اُنہوں نے ایک نشست میں انکشاف کیا
کہ آئی بی اور پولیس کے اشتراک اور کڑے انتظامات سے حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے جبکہ
آئی ایس آئی ٗ ایم آئی ٗ رینجرز اور فوج سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی۔ بنیادی اہمیت کی بات یہ ہے
کہ خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کتنی استعداد رکھتے ہیں اور یہ اہم کام سول ادارے بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔
ہم اگر پولیس کو سیاسی اثرات سے پاک صاف رکھ سکیں ٗ فوجی خطوط پر تربیت دیتے رہیں اور کمیونٹی
میں اُس کی جڑیں مضبوط کرنے کا اہتمام کریں ٗ تو شہروں میں ہونے والی دہشت گردی پر آج بھی قابو پایا
جا سکتا ہے۔ 26خفیہ ایجنسیوں کے مابین مؤثر کوآرڈینیشن ایک بہت مشکل مرحلہ ثابت ہو گا اور
نئے نئے مسائل اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اِس لیے موجودہ نظام ہی میں اصلاحات لانے سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے
جا سکتے ہیں۔ آج فوری ضرورت تیر بہدف اقدامات پر عمل درآمد کی ہے ٗ کہیں ایسا نہ ہو کہ
نیا ڈھانچہ کھڑا کرنے میں بڑا وقت لگ جائے اور حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔ فوج اپنی جانوں کی
قربانیاں دے کر پہاڑوں ٗ جنگلوں اور گہری وادیوں میں چند ہفتوں میں امن مخالفوں کو مسخر تو کر سکتی ہے ٗ مگر کلئیر شدہ علاقوں میں نظم و نسق چلانے کے لیے سول اور پولیس انتظامیہ ہی کو اپنی
صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گی اور اِس کا زنگ دور کرنے کی تجاویز اختیار کرنا ہوں گی۔
قومی سلامتی پالیسی جس کا داخلی سلامتی ایک حصہ ہے ٗ اُس کی تشکیل اور اِس پر عمل درآمد
کے لیے اکثر ممالک میں نیشنل سیکورٹی کونسل قائم ہیں
لیکن ہمارے موجودہ حکمران اِس کے نام سے الرجک ہیں اور نئے نئے تجربات کر رہے ہیں۔
مجوزہ داخلی سلامتی پالیسی میں وہ موضوعات شامل نہیں کیے گئے جو ذہنی تنگ نظری ٗ
مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ ایک خاص ذہنیت (mindset)کے اُبھار کا ہے جس کی سماج میں ایک حد تک پذیرائی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔
دیوبندی مکتب فکر نے اسلامی عسکری تعبیر کی نشوونما کی ہے اور دیگر محرکات کے نتیجے
میں طالبان طاقت کے بل بوتے پر شریعت نافذ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اسلامی شعائر کی
بے حرمتی اور نفس کی ہوس ناکیاں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بنی ہوئی ہیں
اور امیر و غریب کے درمیان خوفناک فرق ٗ شدید انتقام کی ایک لہر اُٹھا رہا ہے۔
بدقسمتی سے ریاست کا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سول بیوروکریسی ٗ منتخب ادارے اور زیلی عدالتیں ریاست کے ستون تصور ہوتے ہیں۔
وہ بدعنوانی ٗ نااہلی ٗ اقربا پروری اور نفس پرستی کے ہاتھوں ڈھیر ہوتے جا رہے ہیں اور ہم اپنے سکولوں
اور مدرسوں میں ان پڑھ بچے تیار کر رہے ہیں۔ غربت و افلاس ٗ بے روزگاری ٗ جہالت اور تعصبات کے
اندھیروں میں طالبان کو پناہ لینے اور عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اب وہ کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں
اور دیوبندی فکر کے علماء کو اُن کی راہنمائی اور دست گیری کے لیے آگے آنا چاہیے۔اسلامی تعلیمات
سے رُوگردانی کے باعث ہمارے اندر لسانی ٗ نسلی اور گروہی عصبیتیں جاگ اُٹھی ہیں۔
اِس بنیاد پر داخلی سلامتی
کے لیے ہمیں سب سے پہلے ریاست کی تعمیرِ نو ایک غیر طباقی اور تخلیقی نظامِ تعلیم اور
معاشی اور سماجی انصاف کو فروغ دینا ہو گا۔ ایک خیال اپنے وجود میں سب سے زیادہ طاقت ور ہے
جو گولیوں کی گھن گرج میں بھی زندہ رہتا ہے۔ ایک اعلیٰ فکری اور اخلاقی تصور ہی
اُسے شکست دے سکتا یا اُس میں اصلاح کر سکتا ہے اور ہم اِسی قوت کے ذریعے امن کی منزل تک پہنچ سکیں گے۔