بھاگ بھری
شہباز اکبر الفت
’’بھاگ بھری ۔۔۔ بھاگ‘‘ اس کے کانوں میں اپنے باپ کی درد میں ڈوبی، سسکی نما چیخ گونجی، اس نے گھبرا کر اپنے باپ کی طرف دیکھا جو گھٹنوں کے بل جھکا، اپنے پیٹ میں کسی بلوائی کی طرف سے گھونپے گئے خنجر کو نکالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
وہ تڑپ کر آگے بڑھی مگر باپ نے ہاتھ کے اشارے سے بھاگ جانے کا اشارہ کرتے ہوئے ایک بار چیخنے کی کوشش کی۔
’’بھا۔۔گ۔‘‘ مگر اس بار آواز اس کے حلق میں ہی دب کر رہ گئی۔ ایک گولی اس کے کندھے کو چیرتے ہوئے گزر گئی تھی۔
تیورا کر گرتے ہوئے اس نے آخری بار بڑی حسرت اور بے بسی کے ساتھ اپنی بیٹی کی طرف دیکھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہو۔
اس نے بولنے کی کوشش کی تو الفاظ حلق میں ہی اٹک کر رہ گئے۔ آسمان کی طرف دیکھنا چاہا تو آنکھوں میں دھند سی اتر آئی۔
ایک آنسو تڑپ کر اس کی آنکھ سے نکلا اور گال پر پھیلتا چلا گیا، قضا کی بانہوں میں سمٹتے ہوئے بھی اس کے منہ سے بمشکل آخری لفظ یہی نکلا
’’ بھا…گ۔‘‘
۞۞۞۞
وہ بھاگتے بھاگتے تھک چکی تھی لیکن رُکنے کا مطلب صرف عزت اور جان سے ہاتھ دھونا ہی تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو بے رحمی سے ذبح ہوتے دیکھا تھا۔
گھر سے نکلتے وقت اس کے باپ نے سب کو اکٹھا کر کے حالات کی سنگینی سے آگاہ بھی کیا تھا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
ان کا قافلہ گاؤں کی حد بھی پار نہیں کر پایا تھا کہ بلوائی کسی بلائے ناگہانی کی طرح ان کے سر پر پہنچ گئے۔
خنجروں، تلواروں، بھالوں، کرپانوں اور بندوقوں سے پوری طرح لیس، جتھے کی قیادت گاؤں کے زمیندار سردار شمشیر سنگھ کا بیٹا دلیر سنگھ کر رہا تھا۔
حملہ آوروں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ انہوں نے آتے ہی قافلے کو گھیرے میں لے لیا اور سروں کی فصل کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کر دیا، کسی بچے، بوڑھے، جوان، عورت کو معافی نہ تھی، اس کے بوڑھے باپ نے ایک پرانی درانتی کے سہارے کچھ دیر ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر کب تک، وہ ہمت نہیں ہارا تھا ، اس نے کئی سورماؤں کو زخمی بھی کر دیا تھا لیکن موت نے جلد ہی اسے اپنی آغوش میں لے کر ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔
۞۞۞۞۞
نام تو اس کا حاکم تھا لیکن نصیب میں شاید نسل در نسل محکومی ہی لکھی ہوئی تھی۔
وہ ایک مزارعے کا بیٹا تھا جبکہ اس کے باپ دادا بھی یہی کام کرتے کرتے مر کھپ گئے تھے۔ وہ زمیندار کے کھیت کو اپنی چوڑی چھاتی اور مضبوط بازؤوں سے ہل چلا کر نرم کرتا۔
بیج بو کر پانی دیتا اور فصل کے لہلہلانے تک اس کی اپنی اولاد کی طرح دیکھ بھال کرتا لیکن بدلے میں اسے اناج کے جو دانے ملتے وہ پیٹ بھرنے کےلئے کافی نہ تھے۔
زمیندار اپنا گھر بھر کر باقی کا سارا اناج شہر کی منڈی میں بھیج دیتا تھا۔
اس کے حصہ میں صرف اتنا آتا کہ دال روٹی چل جاتی۔ سردار شمشیر سنگھ جدی پشتی ریئس تھا۔
مربعوں کا مالک لیکن محنت کا صلہ دینا تو دُور, کبھی خوش ہو کر اس نے تعریف کے دو میٹھے بول بھی نہیں بولے تھے۔
ایسے میں وہ دلبرداشتہ، تھکا ہارا گھر پہنچتا تو ڈیوڑھی میں بیٹھی اپنی وفا شعار، خدمت گزار بیوی حاجرہ کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر سارے غم بھول جاتا تھا۔
حاجرہ اس کے چچا کی بیٹی تھی، جس کا رشتہ دونوں بھائیوں نے بچپن میں ہی حاکم کے ساتھ طے کر دیا تھا۔
گڑیوں، پٹولوں سے کھیلتی حاجرہ چودہ سال کی عمر میں ہی اپنے بابل کے گھر سے وداع ہو کر حاکم کی ویران زندگی میں بہار بن کر چلی آئی تھی۔
۞۞۞
حاکم کی کوئی بہن نہیں تھی۔ اس لئے اس کی خواہش تھی کہ اس کے گھر میں پہلی اولاد بیٹی پیدا ہو اور جب حاجرہ نے ایک گول مٹول سی گڑیا کو جنم دیا تو حاکم خوشی سے نہال ہو گیا۔ وسائل نہ ہونے کے باوجود اس نے بڑی خوشی منائی۔
ساہوکار سے ادھار پکڑا اور شہر سے حلوائی بلوا کر پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی اور تب تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب زندگی میں پہلی بار سردار شمشیر سنگھ بھی نہ صرف اس کے گھر آیا اور بیٹی کی پیدائش پر مبارک باد دی بلکہ پچاس روپے اس کے ہاتھ میں تھمانے کے علاوہ دیسی گھی کا ایک ڈبہ بھی اس کی ڈیوڑھی میں رکھوا دیا
“سردار جی …. اس کیا ضرورت تھی۔” اس نے فرط جذبات سے تقریباً کانپتے ہوئے کہا۔
” اوئے جھلیا, بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ یہ صرف تیری نہیں، پورے گاؤں کی بیٹی ہے۔ پورے گاؤں کی عزت ہے۔”
سردار شمشیر سنگھ نے جاتے جاتے اس کا کندھا تھپتپھا کر کہا تو حاکم کا سینہ فخر سے چوڑا ہو گیا۔ اس نے جھٹ بچی کو پنگھوڑے سے نکال کر دونوں ہاتھوں سے فضا میں بلند کیا۔
بچی کی قلقاری سے صحن میں جلترنگ سا بج اُٹھا۔ حاکم نے اپنی ننھی پری کا ماتھا چوم کر اسے سینے سے لگایا اور حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے پرخیال انداز میں بولا۔
” بھاگ بھری… بھاگ بھری نام نہ رکھ دیں اس کا۔”
حاجرہ نے بھی مسکراتے ہوئے سر جھکا کر اس کے فیصلے کی تائید کر دی تھی۔
۞۞۞۞
بھاگ بھری واقعی بڑے نصیبوں والی تھی۔ اس کی آمد سے حاکم کے گھر میں زندگی کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔ وہ سب کی آنکھوں کا تارہ تھی۔
جو بھی آتا, اس ننھی پری کو پیار کرتے۔ اس کی بلائیں لیتے نہ تھکتا۔ اب حاکم کے حالات بھی کچھ بہتر ہو گئے تھے۔
زمیندار نے خلاف توقع خود ہی اس کے حصہ کو بڑھا دیا تھا۔ بھاگ بھری کا بچپن غربت کے باوجود شہزادیوں کی طرح گزرا۔ حاکم اور حاجرہ نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ کسی چیز کی کمی نہ آنے دی۔
ان کے گاؤں اور آس پاس کے دیہات میں کوئی اسکول نہیں تھا پھر بھی حاکم نے گاؤں کے مولوی صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم دلوائی, سلائی کڑھائی اور ہانڈی روٹی کی تربیت تو حاجرہ نے بچپن میں ہی دینا شروع کر دی تھی۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بھاگ بھری نے خوب رنگ روپ نکالا۔ کئی لڑکے اسے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے لیکن شرم و حیا کی پیکر بھاگ بھری نے کبھی کسی کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھا۔
انہی دنوں حاجرہ کے بھائی عبدالرحمان نے اپنے بیٹے عبدالرشید کے لیے بھاگ بھری کا ہاتھ مانگا تو حاکم نے تھوڑی سوچ بچار کے بعد رشتے کے لئے ہاں کر دی۔
۞۞۞۞
بھاگ بھری کی شادی حاکم کے لئے کسی چیلنج سے کم نہ تھی۔ وہ بیٹی کو بڑی دھوم دھام سے رخصت کرنا چاہتا تھا۔
حاجرہ اور اس نے تھوڑا تھوڑا کر کے جو کچھ پس انداز کر رکھا تھا۔ وہ اسے کم نظر آنے لگا۔
ایسے کڑے وقت میں اسے صرف سردار شمشیر سنگھ سے مدد ملنے کی اُمید تھی۔ جس نے بھاگ بھری کی پیدائش پر اسے گاؤں کی بیٹی اور عزت قرار دیا تھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ سردار شمشیر سنگھ سے بات کرتا۔
آزادی کی خبریں اُڑتے اُڑتے امرتسر کے اس نواحی قصبہ برج کلاں تک بھی پہنچ گئیں۔ پہلے صرف اتنا پتا چلا کہ انگریز اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپس جا رہا ہے، لیکن پھر یہ اطلاع بھی پہنچ گئی کہ قائد اعظمؒ کی قیادت میں مسلم لیگ کی بھرپور جدوجہد کے نتیجہ میں ہندوستان کے بھی دو ٹکڑے ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے نام سے ایک ایسا ملک معرض وجود میں آ رہا ہے۔ جو صرف مسلمانوں کا ملک ہو گا اور جہاں انہیں مذہبی, سیاسی اور سماجی طور پر مکمل آزادی حاصل ہو گی۔
ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ ایک سیدھا سادہ دیہاتی تھا۔
جس کی ساری زندگی اسی گاؤں اور انہی کھیتوں میں ہل چلاتے گزری تھی۔
ان خبروں نے اسے پریشان کر دیا۔ چوپال میں ہونے والی باتوں سے پتا چل رہا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں والی ریاستیں پاکستان کا حصہ ہوں گی ۔
ہندو اکثریت والی ہندوستان کا, پنجاب میں سکھ اور مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے۔
صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے، لیکن اس کے باوجود انگریزی سرکار کا خیال تھا کہ اس کی بھی دو حصوں میں تقسیم بہت ضروری ہے۔ تقسیم کے اسی فارمولے نے یہاں سب کچھ تقسیم کر دیا۔
۞۞۞۞
اوائل اگست میں ہی حاکم کو لوگوں کی نظریں بدلی بدلی سی نظر آنے لگیں۔ رویے اجنبی محسوس ہونے لگے۔ سب کچھ پرایا پرایا سا لگنے لگا۔ دوست احباب, رشتے دار سب یہی کہہ رہے تھے کہ اب مزید یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔
لہذا فوری طور پر انہیں لاہور چلے جانا چاہئے لیکن وہ مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا۔ حتی کہ سردار شمشیر سنگھ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے اور صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔
سکھ لڑکے بہت بھڑکے ہوئے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ جان بچا کر نکل جائے۔ انہی دنوں آس پاس کے علاقوں سے بلوؤں اور گھیراؤ۔
جلاؤ کی خبریں بھی آنے لگیں۔ حاکم کا دل گاؤں چھوڑ کر جانے پر آمادہ نہیں تھا، لیکن ایک دن بھاگ بھری بھاگتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی اور ماں کے گلے لگ کر رونے لگی۔
رات کو دیئے کی ٹمٹماتی لو میں جب حاجرہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے حاکم کو بتایا کہ سردار شمشیر سنگھ کے بیٹے دلیر سنگھ نے بھاگ بھری کے ساتھ بدتمیزی کی ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ اس کے سارے خاندان کو مار کر اسے اپنی بیوی بنالے گا تو حاکم کے دل کو گہری چوٹ لگی۔
اسے پتا تھا کہ دلیر سنگھ ایک عیاش اور بدقماش نوجوان ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل نے اسے خودسر بنا دیا تھا۔
پورے گاؤں میں کسی کی عزت اس کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھی۔ اس نے دل میں اٹھنے والی درد کی شدید لہر کو بمشکل دباتے ہوئے فوری فیصلہ کیا۔
“ہم صبح ہی پاکستان چلے جائیں گے۔”
۞۞۞۞۞
اگلے دن علی الصبح ہی وہ دیگر رشتہ داروں کے ساتھ جنہیں افراتفری میں رات کو اکٹھا کر لیا گیا تھا, قافلے کی صورت میں پاکستان جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے لیکن پاکستان تو دور, انہیں گاؤں کی حدود سے باہر جانا بھی نصیب نہ ہوا
وہ مسلسل بھاگ رہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے اس کے پاؤں لہولہان، کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے۔ لیکن کوئی انجانی سی قوت اسے مسلسل بھاگنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس کی عزت اور جان کے دشمن بھی شکاری کتوں کی طرح اس کا پیچھا کر رہے تھے۔
وہ بھاگتی رہی، بھاگتی رہی، گھوڑوں کی ٹاپوں اور ست سری اکال کے نعروں کے بیچوں بیچ
“پکڑو, پکڑو, جانے نہ پائے” کا شور بھی اس کا پیچھا کرتا رہا۔
پھر وہ ایک درخت سے ٹکرا کر چھوٹی سی کھائی میں جا گری۔ گھوڑوں کی ٹاپیں اور ست سری اکال کے نعرے قریب آتے جا رہے تھے۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے مٹی کا ایک ٹیلہ سا موجود تھا۔ اس نے رینگتے ہوئے ٹیلے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی مگر اتنی دیر میں شکاری سر پر پہنچ گئے۔
’’ وہ رہی۔‘‘ ایک ڈھاٹا بند گھڑسوار نے چیخ کر اس کی طرف اشارہ کیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ ان کے نرغے میں کسی خوفزدہ ہرنی کی طرح کانپ رہی تھی۔
دلیر سنگھ گھوڑے سے کود کر نیچے آیا اور اسے ہوس بھری نظروں سے گھورنے لگا۔
” تمہیں رب کا واسطہ مجھے چھوڑ دو، میرے قریب مت آنا, مجھے جانے دو۔” وہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔
” اب کہاں جاؤ گی بھاگ بھری؟ تمہاری جگہ تو ادھر ہے, میرے دل میں۔”
وہ استہزائیہ انداز میں ہنسنے لگا پھر سرد سے لہجے میں بولا۔
“میں نے کہا تھا نا کہ تمہارے سارے خاندان کو مار کر تمہیں اپنی ووہٹی بنا لوں گا۔ اب تمہیں مسلمانی سے سکھنی ہونا پڑے گا۔”
“مگر میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے دلیر سنگھ؟ میں تو تمہارے گاؤں کی بیٹی, تمہارے گاؤں کی عزت ہوں, تمہارے باپ نے ہی کہا تھا کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔” بھاگ بھری نے دہائی دی مگر دلیر سنگھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔
” اس باپ کو بھی میں اسی تلوار سے مار کر آیا ہوں جو کہتا تھا، ان مسلوں کو جانے دو۔ انہوں نے ہماری بڑی خدمت کی ہے, راستے میں کھڑا ہو گیا تھا۔
میں نے ایک ہی وار میں گردن اڑا دی۔” دلیر سنگھ کا لہجہ مزید سفاک ہو گیا۔”
اب چلتی ہو یا یہیں تمہاری عزت کی دھجیاں اُڑا دوں۔ بڑی آئی گاؤں کی عزت۔”
بھاگ بھری بمشکل کھڑی ہوئی, نم آنکھوں کے ساتھ بے بسی سے ادھر ادھر دیکھا۔ گھڑسوار بلوائی اس کی حالت دیکھ کر قہقہے لگانے لگے۔ اچانک اپنے عقب میں کچھ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔
” تم صرف گاؤں کی معصوم لڑکیوں کے ساتھ کھلواڑ کر سکتے ہو دلیر سنگھ, مجھے چھو بھی نہیں سکتے۔ ”
وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور ایک پرانے کنویں میں کودنے سے پہلے چلا کر بولی۔
” اب میں تیرے گاؤں کی نہیں, پاکستان کی عزت ہوں۔”