افسانہ
بیٹی کا ہاتھ
(خواب میں گُم)
نیلم احمد بشیر
مرزا حسام الدین صاحب کے گھرانے کے طور طریقوں سے دوست احباب، رشتےدار سبھی مرعوب تھے۔
کیا رکھ رکھاؤ، کیا تہذیب، کیا اصول پرستی تھی اُن کی زندگی میں۔ کیا قاعدہ قرینہ تھا اُن کے رہن سہن میں۔ خوش قسمت آدمی تھے۔ اچھی بیوی، فرمانبردار بچے، مناسب آمدن، خوبصورت مکان ۔
اور کیا چاہیے ہوتا ہے انسان کو ؟
اُنھوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ اچھی اقدار، سوچ سمجھ اور نیک آدرشوں کا درس دیا تھا۔
وہ کہتے ’’سچائی، محنت اور محبت سے زندگی جیو، تو ہر منزل آسان ہو جاتی ہے۔ راستے خود بخود سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں۔مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔ دیانت ہی دھرم، ایمان اور مقصدِ حیات ہوتی ہے۔ سچائی پہ رہو اَور اَللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ یہی حقیقی مذہب ہوتا ہے۔‘‘
اُن کی اولاد نیک تھی۔ باپ کے کہنے کا پاس رکھتی تھی۔ اِسی لیے کافی حد تک صراطِ مستقیم پہ رواں زندگیاں گزار رَہی تھی، مگر پھر نہ جانے کیا ہوا۔ مرزا صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی جوان ہو گئی۔ گلشن نے اُن کی زندگیاں اتھل پتھل کر کے رکھ دیں۔ خوش نما، نرم و نازک، خوش رنگ پھولوں کے گلدستے میں ایک پھول نوکیلے کانچ کا نکل آیا جس کی بناوٹ، رنگ اور وُجود سب سے علیحدہ تھا۔ اُسے انگلی سے چھوؤ، تو چبھتا تھا، بےاحتیاطی سے پکڑو، تو ٹوٹتا تھا۔ یہ کیسی لڑکی پیدا ہو گئی تھی اُن کے خاندان میں؟ سب گھر والے حیرت میں گم تھے، اتنی مختلف، اتنی متضاد طبیعت کہ اُن سے سنبھالے نہیں سنبھالی جا رہی تھی۔
اُس کے بارے میں آسانی سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کیا تھی! شوقین، جرأت مند، شوخ، بےپروا، خودغرض یا کچھ اور۔ اُسے کسی قسم کی کوئی جھجک یا ڈر خوف نہیں تھا۔ جو جی چاہتا کر گزرتی اور اُس پر قطعاً شرمندہ نہ ہوتی۔ اُس کی ایسی عادات کی وجہ سے پیٹھ پیچھے کئی رشتےدار تو اُسے لفنگی تک کہہ دیتے، مگر مرزا صاحب کی شرافت اور خلوصِ قلب کو دیکھ کر اُن کے سامنے خاموش رہتے اور اُن کی بدنصیبی پر کفِ افسوس ملنے لگ جاتے۔
مرزا صاحب اُسے پاس بٹھا کر پیار سے زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے، نصیحتیں کرتے۔ بتاتے کہ تم ایک کنول ہو، کیچڑ سے خود کو بچائے رکھنا تمہارا فرض ہے، مگر وہ سنی اَن سنی کر دیتی کہ زندگی گزارنے کا اُس نے ایک اپنا ہی بلیو پرنٹ تیار کر رکھا تھا جس پر وہ کئی سمجھوتہ نہ کرنا چاہتی تھی۔
کالج پہنچتے پہنچتے وہ خاصی آزاد خیال ہو چکی تھی۔ دوستوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ وَقت گزارنا، باہر کھانے کھانا، گھر والوں کو غُچہ دے کر غائب ہو جانا اُس کے معمولات میں شامل تھا۔ اکثر سہیلیوں کا کہہ کر بوائے فرینڈز کے ساتھ آوارہ گردی کرتی دیکھی جاتی اور پوچھنے پر چھپانے کے بجائے صاف کہہ دیتی کہ ’’ہاں وہ میرے دوست ہیں، مجھے اُن کے ساتھ باہر پھرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
ماں باپ حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگ جاتے۔ امی سیدھی سادی گھریلو عورت تھیں۔ بےبس ہو کر خاموش ہو جاتیں، مگر مرزا صاحب اُسے پھر سمجھانے بیٹھ جاتے۔ کہتے ’’بیٹا! یہ ہماری روایات میں شامل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا کہ لڑکیاں مردوں سے آزادانہ میل جول رکھیں۔‘‘ گلشن بھی اُنھیں پیار سے ہی سمجھا کر کہتی ’’ابو! زمانہ بہت آگے جا رہا ہے۔ اپنی قدامت پسند سوچوں کو کچھ تبدیل کریں۔ مَیں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں۔ میری اپنی سوچ اور اَپنے اصول ہیں۔ مَیں آپ کے گزرے ہوئے کل میں نہیں، اپنے آج میں جینا چاہتی ہوں۔ پلیز سمجھنے کی کوشش کریں۔ مجھے مت روکیں۔‘‘
ایسی باتیں سن کر اُس کے دو بھائی اور شادی شدہ بہن بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ جاتے۔ وہ آرام سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں آ جاتی اور اَپنے شام کے پروگرام بنانے لگ جاتی۔ مرزا صاحب کوئی مار پِیٹ کرنے والے، زبردستی کرنے والے باپ تو نہیں تھے، لہٰذا بھیگی بلی بن کر دبک جاتے اور سوچتے ’’یا اللہ! مَیں نے تو کوئی خاص گناہ بھی نہیں کیے، تو یہ کیسی سزا دے رہا ہے مجھے؟‘‘
ایک بار کسی ہمسائے نے گلشن کے رات کے وقت چپکے سے کھسک جانے پر مرزا صاحب سے شکایت کر دی۔
’’عقل کرو بیٹی! آخر لڑکیوں کی کوئی عزت ہوتی ہے۔‘‘ امی نے رعب جمانے کی کوشش کی۔
’’عزت! ہُوں ….. دراصل ابھی میرے پاس عزت وزت کے لیے وقت نہیں ہے۔ یونیورسٹی آف وِرجینیا میں میرا سمسٹر شروع ہونے والا ہے اور مجھے اُس کے حساب سے ایک ماہ کے اندر اَندر وَہاں پہنچنا ہے۔ بہت کام کرنے ہیں، وہاں پہنچ کر۔ مکان ڈھونڈنا، ملازمت اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ؟‘‘ گلشن بولتی چلی گئی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ منجھلے بھائی سے رہا نہیں گیا۔
’’مَیں نے وہاں داخلہ لے لیا ہے بھائی، ویزا بھی آ گیا ہے۔ بس اب تو روانگی کے انتظامات کرنے ہیں۔‘‘ گلشن نے آرام سے جواب دیا۔ بڑے بھیا خاموش رہے۔ اُنھیں پتہ تھا گلشن کو پڑھائی وڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو ہمیشہ مارجن پہ ہی پاس ہوتی رہی تھی۔ یہ سب ہرنی کے بن میں آزاد پھرنے کے بہانے تھے۔ پرندے کے نئی ہواؤں، نئی فضاؤں میں طاقتِ پرواز آزمانے کے فسانے تھے اور بس۔ کتنی خودسر ہو گئی تھی یہ لڑکی۔ بھیا خوف زدہ ہو گئے۔
’’وہاں جا کرکوئی نیا چاند چڑھائے گی یہ۔‘‘ چھوٹے بھیا بول پڑے حالانکہ وہ اُس کی لغزشوں پر اکثر خاموش رہتے تھے۔ صبر کے گھونٹ پیتے پیتے اُنھیں فشارِ خون (بلڈ پریشر) کی شکایت رہنے لگی تھی۔
’’ہم تمہیں تنہا کیسے امریکا جانے کی اجازت دے سکتے ہیں۔‘‘ ابو اُٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے۔ کھانا میز پر پڑے کا پڑا رَہ گیا۔
’’اجازت دیں، نہ دیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دیکھیں ابو، امی، بھائی، آپی! آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔ مَیں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔ کیا مَیں کچھ زیادہ مانگ رہی ہوں؟ یہ میری زندگی ہے اور اِس پر صرف اور صرف میرا حق ہی ہونا چاہیے۔ مَیں امریکا جا رہی ہوں اور بس۔‘‘ گلشن سب کو ہکا بکا چھوڑ کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور اَپنے کمرے کی طرف چل دی۔
’’افسوس! یہ لڑکی تو ہاتھ سے نکل گئی ہے۔‘‘ امی کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔
’’یہ سب تمہارے ہی لاڈ پیار کا نتیجہ ہے۔‘‘ مرزا صاحب گرجے۔ ’’ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، لڑکی کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔‘‘
’’یہ سب آپ دونوں کی ہی لا پرواہیوں اور چشم پوشیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ شروع سے ہی کھینچ کر رکھتے، تو آج یہ نوبت نہ آتی۔‘‘ منجھلے بھیا غم و غصّے سے پھنکارے۔
’’خوش قسمت ہے امریکا چلی جائے گی۔ اچھا ہے زندگی آزادی اور اَپنی مرضی سے گزارے گی۔‘‘ آپی کے دل میں خواہش اور رَشک کا جواربھاٹا اُٹھا اور اُنھیں شرابور کر کے رہ گیا، مگر آپی خاموش رہی۔ جواربھاٹے کا شور صرف وہی سن سکی تھی۔
’’آپ لوگوں نے اتنے سال مجھے پالا پوسا، برداشت کیا۔ اِس کا بہت بہت شکریہ۔‘‘ گلشن نے ایئرپورٹ پہ اپنے گھر والوں سے الوداعی کلمات کہے اور ہنستے ہنستے جہاز پر سوار ہونے کے لیے چل دی۔ کتنی عجیب تھی یہ لڑکی۔ اُسے کیا کہتے اور کیا کرتے اُس کا۔ وہ اُسے ایک بھرے ہوئے دل کے ساتھ رخصت کر کے گھر آ گئے، مگر ہر بندہ دِل میں کچھ کچھ مطمئن بھی تھا۔اب وہ اُن کے سامنے نہیں تھی، آنکھ سے اوجھل تھی۔ اچھا برا جو بھی کرے گی، کم از کم اُنھیں اُس کا پتہ تو نہیں چل سکے گا۔ امریکا آزاد لوگوں کا آزاد ملک ہے، وہاں کوئی کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا، لہٰذا گلشن جیسی لڑکی کا وہاں رہنا ہی ٹھیک تھا۔ اب اُنھیں کم از کم رشتےداروں، ہمسایوں، دوستوں کے طعنے اور طنزیں تو برداشت نہیں کرنا پڑیں گی۔
’’یا اللہ! اِس لڑکی کو نیک ہدایت دے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘ امی جان مصلے پر جھک کر دعائیں مانگنے لگیں اور مرزا صاحب دوبارہ اَپنے دوست احباب، رشتےداروں کے ساتھ اعتماد سے ملنے ملانے کے خیال سے خوش ہونے لگے۔ یہ وہ اِعتماد تھا جو اُن کی بیٹی کی عادات و مشغولیات کی وجہ سے کچھ عرصے سے کمزور پڑ گیا تھا۔
گلشن ورجینیا ریاست کے ایک باوقار کالج میں داخلہ لے کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی اور ایک مناسب ملازمت سے اپنے اخراجات پورے کرنے لگی، تو اُس کے گھر والے اُس کی طرف سے کچھ بےنیاز سے ہو گئے۔ وہ اُنھیں فون کر کے بتاتی رہتی کہ وہ وَہاں خوش اور سیٹ (set) ہے۔ رہائش کے لیے اُس نے اپنے ساتھ ایک ساتھی رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے اُن دونوں کو کرائے میں سہولت ہو گئی ہے اور تنہائی بھی محسوس نہیں ہوتی۔
دوسرا سال گزرتے ہی جب گلشن نے اُنھیں اپنی گریجویشن پر امریکا آنے کی دعوت دی، تو دونوں ماں باپ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اُن کی سر پھری بیٹی کو آخر ماں باپ کی یاد آ ہی گئی تھی جو وہ اُنھیں بلا رہی تھی۔ ویزا لگتے ہی مرزا صاحب اور اُن کی بیگم نے امریکا کے ٹکٹ کٹائے اور بیٹی سے ملنے اُس کے نئے ملک کو روانہ ہو گئے۔
امریکا پہنچ کر پہلا دن تو تھکاوٹ اترنے میں ہی گزر گیا، مگر ذرا ہوش آئی، تو ابو جان نے مکان اور بیٹی کے طرزِ حیات کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ گھر بہت سلیقے اور قرینے سے رکھا نظر آ رہا تھا۔ گلشن زیادہ خوداعتماد، خوش اور مطمئن لگ رہی تھی، مگر یہ دیکھ کر اُنھیں کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی تھی کہ وہ اِسی کی توقع کر رہے تھے۔
’’اب گریجویشن تو ہو گئی تمہاری، بس ہمارے ساتھ ہی واپس چلو۔‘‘ اماں نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
’’واپس!‘‘ گلشن چونک کر بولی جیسے کسی خواب سے یک دم جاگ گئی ہو۔
’’مَیں وہاں جا کر کیا کروں گی اب؟‘‘ اُس نے معصومیت سے سوال کیا۔
’’کرنا کیا ہے، بس اب تمہاری شادی کرنا ہے اور کیا؟‘‘ ماں مسکرائی۔
’’تمہاری امی نے تو تمہارے لیے ایک دو جگہ رشتے بھی دیکھ رکھے ہیں۔‘‘ ابا جان نے اُسے پیار سے دیکھتے ہوئے راز فاش کیا۔ ’’ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں تمہاری امی۔‘‘
’’میرے رشتے اور آپ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ کمال ہے، یعنی شادی میری اور پسند آپ کی؟ یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ گلشن نے سر کو جھٹک کر ناقابلِ یقین انداز میں جواب دیا۔
’’بیٹا! تم امریکا میں ضرور ہو، مگر مت بھولو کہ تمہارا تعلق اُس تہذیب سے ہے جہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم تمہارے لیے کوئی اچھا فیصلہ ہی کریں گے نا۔‘‘ ابا جان جزبز ہو کر بولے۔
’’مجھے نہیں کرنا شادی وادی۔ بس مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیں آپ۔‘‘
’’اب تو تمہیں گھرداری کا بھی شوق ہو گیا ہے، مَیں نے دیکھ لیا ہے۔‘‘ امی مستقل بیٹی کو گرہستن سمجھنے پہ ڈٹی رہیں۔
’’یہ سب کچھ؟‘‘ گلشن کھلکھلا کر ہنسی۔ یہ تو صرف ایک عدد محنتی، نیک، سگھڑ روم میٹ کی وجہ سے ہے۔ میرا اِس میں کوئی کمال نہیں۔ آپ تو مجھے جانتے ہیں۔ اب مَیں اتنی بھی نہیں بدلی۔‘‘ گلشن ہنستی چلی گئی۔
’’کہاں ہے تمہاری ساتھی؟ نظر نہیں آ رہی۔‘‘ ابا جان نے تجسس سے پوچھا۔
’’اُسے کچھ دنوں کے لیے دوسرے شہر جانا پڑا ہے۔ آ ہی جائے گی۔‘‘ گلشن نے جواب دیا۔ عین کھانے کے وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ گلشن اٹھی، دروازے میں لگے جھروکے (Peephole) میں سے دیکھا اور دَروازہ کھول دیا۔
’’السلام علیکم آنٹی، انکل! کیسے ہیں آپ؟ سفر کیسا گزرا آپ کا؟ بھئی تم ٹھیک سے خاطرداری کر رہی ہو نا؟‘‘ آنے والے نوجوان خوبرو شخص نے مسکرا کر سوالات کرنے شروع کر دیے۔
’’آپ؟‘‘ مرزا صاحب نے سوالیہ نظروں سے بیٹی کی طرف دیکھا۔
’’یعنی تم نے ابھی تک میرا اِن سے ذکر ہی نہیں کیا۔ کمال ہے یار۔‘‘ وہ مصنوعی غصّے سے بولا۔
’’ابھی وقت ہی کہاں ملا ہے مجھے۔ امی، ابو یہ احمر ہیں۔ میرے بہت عزیز دوست جنہوں نے امریکا میں میرے رہنے کے انتظامات کیے، میری راہنمائی کی اور ہر طرح سے میری مدد کی۔‘‘
’’اچھا، اوہ!‘‘ کہہ کر امی اور اَبو خاموش ہو گئے اور کھانا شروع کر دیا۔ احمر بہت دوستانہ مزاج کا خوش طبع شخص تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اُس نے اُنھیں اپنی خوش گپیوں، امریکا کے قصّے کہانیاں سنا سنا کر ہنسانا شروع کر دیا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ وہ اَحمر کی رفاقت سے بہت محظوظ ہو رہے تھے۔
’’اچھا لڑکا ہے احمر۔‘‘ امی نے رات کو سوتے وقت ابا جان سے کہا جس کے جواب میں وہ ایک ہُوں کہہ کر چپ ہو گئے۔
صبح اٹھ کر ابا جان نے سوچا کیوں نہ الماری میں اپنے کچھ کپڑے، چیزیں وغیرہ رَکھ دیں۔ پہلے سے ٹھنسی ہوئی الماری میں ایک طرف پڑے بڑے سے پلاسٹک بیگ کو ہٹاتے ہوئے اُن کی نظر اُس میں احتیاط سے پیک شدہ مردانہ کپڑوں پہ پڑنے سے نہ رہ سکی۔ مرزا صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیگ کو اندر سے ٹٹولنا شروع کر دیا اور چند لمحوں میں ایک فریم شدہ تصویر ڈھونڈ لی جو کپڑوں میں چھپائی گئی تھی۔ احمر اور گلشن کسی خوش جوڑے کی طرح ساتھ ساتھ بیٹھے مسکرا رَہے تھے۔ مرزا صاحب نے آنکھ کے اشارے سے بیوی کو پاس بلایا اور اَپنی نئی دریافت کی طرف توجہ دلائی۔
’’بس بہت ہو گئی۔ اِس لڑکی نے تو حد ہی کر دی ہے یہاں آ کر ….. کتنا صبر آزمائے گی ہمارا؟‘‘ مرزا صاحب نے بیوی کی طرف شکایت بھری نظروں سے دیکھا جس کے جواب میں بیگم نے آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ سے دعا مانگنے کو ہاتھ پھیلا دیے۔
مرزا صاحب سے رہا نہ گیا اور گلشن کو ناشتے کی میز پر ہی کھری کھری سنانا شروع کر دیں۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے اُن کی ڈانٹ سنتی رہی۔ ’’ہمارا معاشرہ اَور ہمارا مذہب اِس طرح کی بےہودہ بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتے کہ لڑکی لڑکا شادی کے بغیر ….. اِس طرح اکٹھے رہیں۔‘‘ وہ گرجے۔
’’لیکن ابو آپ نے ہی تو مجھے ہمیشہ یہ سبق دیا ہے کہ مذہب سچائی اور دَیانت کا دوسرا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ مَیں اور اَحمر اکٹھے رہتے ہیں، لیکن آپ کو گوارا نہیں ہو رہا، کیونکہ آپ ایک منافقت کے مارے ہوئے معاشرے سے آئے ہیں اور سچائی کے بدلے جھوٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔ سوری ابو ….. یہ معاشرہ اِیمان داری کا معاشرہ ہے یہاں کوئی کسی سے جھوٹ نہیں بولتا اور اَپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ پھر بھی مَیں معذرت چاہتی ہوں ….. مَیں نے ہمیشہ آپ کو دکھ پہنچایا ہے۔‘‘
گلشن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، تو ماں باپ کا پھر سے دل پسیج گیا۔ کیا کرتے وہ اَپنی اِس الٹی سوچ کی بیٹی کا …..‘‘
شام کو پھر حسبِ معمول احمر آ گیا اور چہک چہک کر اُن سے باتیں کرنے لگا۔ گلشن نے محسوس کیا کہ اُس کے ماں باپ کا کچھ موڈ خراب ہے۔
’’کیا بات ہے انکل، آنٹی! لگتا ہے ابھی آپ کی سفر کی تھکن نہیں اتری۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ احمر نے بھی اُن کی خاموشی کو محسوس کر لیا تھا۔
’’ہم جانتے ہیں کہ ….. گلشن کا روم میٹ کون ہے؟‘‘ مرزا صاحب نے گلا صاف کر کے اپنی بات کہہ دی۔
’’اوہ، اچھا!‘‘ احمر نے ٹھنڈی سانس بھر کے نگاہیں نیچی کر لیں۔ ’’سوری انکل! مَیں جانتا ہوں کہ آپ کو سچ جان کر تکلیف تو ہوئی ہو گی، مگر ….. دیکھیں انکل ….. ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اور خوش ہیں۔‘‘
’’امریکا میں تو بہت لوگ Living Together کرتے ہیں۔‘‘ گلشن نے بھی منمنا کر زبان کھولی۔ ’’آپ تو جانتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ آپ دونوں بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے۔‘‘ مرزا صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’سچ مانیں انکل ….. آنٹی، مَیں تو کب سے اِس کے پیچھے پڑا ہوں کہ شادی کر لیتے ہیں ….. جب اکٹھے ہی رہنا ہے، تو ….. مگر ….. اِسے سمجھائیں انکل۔‘‘ احمر ملتجیانہ انداز سے بولا۔
’’شادی؟ ہاں یہ تو بہت اچھی بات ہے، بلکہ مناسب ترین بات ہے بیٹا۔‘‘ گلشن کی امی کے مردہ وُجود میں جیسے یک دم جان پڑ گئی۔
’’میرا تو سچ پوچھیں فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، مگر یہ احمر جو ہے نا ….. بڑا رَوایتی آدمی ہے اندر سے۔ لگتا ہے مجھے اِس کی ضد کے آگے ہاں کرنا ہی پڑے گی۔‘‘ گلشن مسکرائی اور چائے کے مگ میں چینی ڈالنے لگی۔
’’مَیں اِسے سمجھاتا ہوں کہ جب ہم لوگ ہر طرح سے ایک دوسرے سے مخلص ہیں، تو پھر اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا مَیں؟‘‘ احمر بولتا چلا گیا۔
’’لیکن شادی ایسے کیسے ہو سکتی ہے؟ نہ تیاری، نہ کپڑے، نہ رشتےدار؟‘‘ امی جان دھیمے لہجے میں بولیں۔
’’اوہ! تمہیں کپڑوں، رشتےداروں کی پڑی ہوئی ہے۔ مَیں کہتا ہوں ایسے کیسے یہ شادی ہو سکتی ہے؟‘‘ مرزا صاحب فرطِ جذبات سے کھڑے ہو گئے۔
’’کیا مطلب، کیا ہوا؟‘‘ احمر حیرانگی سے بولا۔
’’مَیں نے تو سوچا تھا آپ میری شادی کی خبر سے خوش ہوں گے۔ میری فکر سے آزاد ہو کر پُرسکون ہو جائیں گے ….. کیا ہوا اَبا جان؟‘‘ گلشن بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔
’’احمر! تم نے ہم سے ہماری بیٹی کا ہاتھ تو مانگا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، ہم رسم و رواج، رکھ رکھاؤ، روایات والے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں ہر بات اصول اور طریقے سے ہوتی ہے۔‘‘ مرزا صاحب کی آواز غصّے سے کانپنے لگی۔
’’ہاتھ؟‘‘ احمر نے حیرانگی سے یوں اُن کی طرف دیکھا جیسے اُنھوں نے کسی غیر اور نہ سمجھ میں آنے والی زبان میں اِس سے کچھ کہہ دیا ہو۔