Home اردو ادب andhair|afsana|shanurdu|اندھیر

andhair|afsana|shanurdu|اندھیر

زلیخاں بنتِ محمد بوٹا کمی، نئی اور چھوٹی ملکانی بن کر حویلی میں دلہن بن کر داخل ہو گئی۔ گاؤں والوں کے دل پلاؤ، زردے اور قورمے کی لذتوں کی خوشیوں سے ناچ اٹھے۔

0
483
اندھیر
اندھیر andheir www.shanurdu.com

افسانہ

اندھیر
نیلم احمد بشیر

ملک صاحب کی اکڑی ہوئی کلف لگی سفید پگ کھل کر نیچے زمین پر آ گری تھی۔
آنسوؤں سے تر بہ تر کرتا بھیگ کر سینے سے چپک رہا تھا۔ آس پاس کھڑے لوگ افسردگی کے عالم میں سوچ رہے تھے۔
بےچارے ملک صاحب ملکانی زبیدہ کے بعد کیسے جئیں گے؟ کیا کریں گے؟
اب اُن کی زندگی کے باقی ماندہ دِن کیسے پورے ہوں گے؟
ملک صاحب اور ملکانی کی محبت مثالی تھی۔
سارے گاؤں اور رِشتے داروں کو پتا تھا کہ میاں بیوی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔
ملک صاحب ملکانی زبیدہ کے بغیر روٹی کھاتے اور نہ بستر میں جاتے تھے۔
ملکانی بھی ہر بات میں اُن کی رائے پوچھتیں اور ہر طرح سے اُن کا خیال رکھتی تھیں۔
کبھی کبھار اُن کے بچے جس میں بیٹے، بہوئیں، ایک بیٹی، داماد۔ کئی نواسے، نواسیاں، پوتے، پوتیاں تھیں، اُنھیں لیلیٰ مجنوں کی جوڑی کہہ کر چھیڑتے۔
دونوں شرما جاتے اور میٹھی میٹھی نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرانے لگتے تھے۔
ملکانی کو سرطان جیسی موذی بیماری ایسی چمٹی کہ اُس نے جان لے کر ہی اُنھیں چھوڑا۔
اب ملک صاحب ڈانواں ڈول پھرتے اور ٹھنڈی آہیں بھرتے کہ اُن کا کسی بات میں جی نہیں لگتا تھا۔ بچے چند ہی ہفتوں بعد اپنے اپنے کام دھندوں اور بکھیڑوں میں جت گئے۔
ملک صاحب ایک خاموش بت بنے دیواروں کو گھورتے رہ گئے۔ بچے باپ کی یہ حالت دیکھ کر کڑھتے اور اُنھیں تسلیاں دیتے، مگر سب بےسود تھا۔
چند مہینے گزر جانے کے بعد ایک روز دونوں بیٹوں نے اُنھیں پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ابا جی! اب آپ دوبارہ نارمل ہونے کی کوشش کریں۔ اپنے پوتوں، نواسوں میں دل لگائیں۔
زمینوں کے کام میں دلچسپی لیں۔ امی جی کی وفات اللہ کی رضا سے ہوئی۔ ہم اُس کی مرضی کے آگے آخر کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹا! کہتے تو تم ٹھیک ہو، مگر اکیلا رہنا میرے لیے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ کیا کروں مَیں؟ میری تنہائی کا تو بس ایک ہی علاج ہے۔‘‘ ابا جی نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’ابا جی! آپ حج پہ ہو آئیں۔‘‘ چھوٹے بیٹے نے تجویز پیش کی۔
’’دل خوش نہ ہو، تو عبادت میں کہاں دل لگتا ہے۔‘‘ ابا جی نے مشورہ مسترد کر دیا۔
’’میرا خیال ہے مجھے شادی کر لینی چاہیے۔‘‘ ابا جی نے بم پھاڑ دیا۔
’’ہیں؟‘‘ ایک پل تو دونوں بیٹوں کو لگا کہ اُن کے کانوں نے شاید کچھ غلط سنا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟
’’شادی ابا جی! آپ اور اِس عمر میں؟‘‘ بڑا تقریباً چیخا۔
’’او جھلیا! اِس عمر میں تو ساتھ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ابا جی بولے۔
’’مگر شادی ،کس سے؟ آپ کی عمر کی کوئی عورت ۔کافی ڈھونڈنا پڑے گا۔‘‘ چھوٹے نے تشویش بھری آواز میں کہا۔
’’عمر شمر کیا ہوتی ہے۔ عورت تو بس عورت ہوتی ہے۔ ساتھی، غم گسار، شریکِ حیات، جیسے تمہاری ماں تھی۔‘‘ ابا جی بولتے چلے گئے۔
’’اچھا، دیکھنا پڑے گا ۔‘‘ بڑا بیٹا بولا۔
’’تم لوگوں کو ڈھونڈنے کا کوئی تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ بھئی لڑکی گھر میں ہے۔‘‘ ابا جی نے انکشاف کیا۔
’’لڑکی گھر میں! کون ابا جی؟‘‘ چھوٹے نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔
’’بھئی، اپنی زلیخاں۔ تمہاری ماں کی خدمت گار، اُس کی عاشق، دیوانی۔ مَیں نے بڑا سوچا اور مَیں اِس نتیجے پہ پہنچا کہ کوئی ایسی ہونی چاہیے جس کا اور میرا دُکھ سانجھا ہو۔ جتنا
تمہاری ماں کو وہ چاہتی تھی، اتنا تو کوئی سگی بیٹی بھی نہیں چاہ سکتی۔‘‘
’’زلیخاں!‘‘ دونوں بھائی زیرِ لب بڑبڑائے اور ایک دُوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
اِس میں کوئی شک نہیں تھا کہ زلیخاں نے اُن کی ماں کو پوری طرح سنبھالا اور ہر طریقے سے اُن کا خیال رکھا تھا۔ اُنھیں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دی تھی، مگر تھی تو وہ کمیوں کی اولاد۔
آخر کو ایک ملازمہ ہی تو تھی اور پھر جوان جہان اور اِس کا یہ قصور تو کسی طور بھی قابلِ معافی سمجھا نہ جا سکتا تھا۔
اُنھیں یاد آنے لگا، امی جی کی وفات والے دن زلیخاں نے کیسے کیسے بین ڈالے تھے۔ سر میں راکھ ڈال کر کیسے کیسے سینہ کُوٹا تھا۔ ہر دیکھنے والے کی آنکھ اشک بار اَور دِل غم سے لبریز ہو گیا تھا۔
’’کیا تم لوگ اِس لیے چپ ہو کہ وہ کمی کمین، غریب ہے؟ اوئے پترو! ہمارے مذہب میں تو انسانوں سے مساوات کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔
مَیں تو ایک غریب لڑکی سے شادی کر کے ایک نیکی کمانا چاہتا ہوں۔‘‘ ابا جی سمجھانے کے انداز میں بولے۔
’’بات غریبی کی نہیں ابا جی! کل کلاں کو اُس کے ہاں اولاد بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بات تو ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری اور ہمارے بال بچوں کی جائیداد اَور زمینوں میں سے ہم کسی کمی کمین کی اولاد کو بھی حصّہ دیتے پھریں۔‘‘
بڑے نے صاف صاف لفظوں میں دل میں چھپا خوف ظاہر کر دیا۔
ملک صاحب پل بھر کے لیے خاموش ہو گئے۔ جوان بیٹے نے کافی وزنی دلیل پیش کی تھی۔
اِس وقت اُن کے بچے اُن کے بڑے بن کر اُنھیں چھوٹوں جیسا محسوس کروا رَہے تھے۔
ماحول یک دم منجمد سا ہو گیا۔ ملک صاحب خاموشی سے اُٹھ کر باہر چلے گئے اور مسئلہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔
ملک صاحب مزید اُداس اور کھوئے کھوئے نظر آنے لگے، تو ایک روز سب بچوں نے اُن سے فیصلہ کن میٹنگ کرنے کی ٹھانی۔
آخر وہ خالی خولی عام سے بوڑھے باپ نہیں تھے۔ کئی مربعے زرعی زمینوں، باغات اور گاؤں میں بکھری ہوئی جائیدادوں کے مالک ایک ملک تھے۔
اُن کی خواہش اور خوشی کو مکمل طور پہ اور اِتنی آسانی سے رد بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
’’ابا جی! ہم آپ سے سنجیدگی سے ایک بات کرنے آئے ہیں۔‘‘ بڑے بیٹے نے پیار سے باپ کا شانہ تھپتھپایا۔
’’ابا جی! ہم آپ کے بچے ہیں۔ آپ کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی اداسی پہ دل جلتا ہے ہمارا۔‘‘
بڑی بہو نے آنکھوں سے جھوٹ موٹ کے آنسو پونچھنے کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
’’ہم آپ کی شادی زلیخاں سے کرنے کو تیار ہیں، مگر اِس کے لیے آپ کو ہماری ایک چھوٹی سی خواہش کا احترام کرنا ہو گا۔‘‘ چھوٹا بیٹا بھی بول پڑا۔
’’وہ کیا؟‘‘ ابا جی کو کچھ سمجھ نہ آئی۔
’’شادی سے پہلے آپ کو اپنا آپریشن کروانا ہو گا ابا جی۔‘‘ بڑے نے نظریں جھکا کر دھیمے، مگر مضبوط لہجے میں حکم سنا دیا۔
ابا جی خاموش ہو گئے اور دِل میں سوچا۔ ویسے اِس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ مَیں نے اب کون سی اولادیں پیدا کرنی ہیں۔ ایک ساتھ ہی تو چاہیے زلیخاں کا ۔
بس کافی ہے میرے لیے۔ بچوں کے جذبات کا بھی تو آخر خیال رکھنا پڑے گا، کہیں اِن کی حق تلفی ہی نہ ہو جائے۔
’’مجھے منظور ہے۔‘‘ ابا جی نے سر جھکا کر کہا۔
زلیخاں کے گھر جب نائن ملک صاحب کا رشتہ لے کر گئی، تو پہلے پہل زلیخاں کے ماں باپ کو یقین ہی نہ آیا۔ وہ سمجھے ملک صاحب زلیخاں کو اپنی خدمت گاری کے لیے حویلی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اُنھیں کوئی خاص اعتراض نہیں ہونا تھا، مگر یہاں تو بات ہی کچھ اور تھی۔
ملکانی زبیدہ کی زندگی میں بھی زلیخاں ہی ملک صاحب کے کپڑے لتے، کھانے پینے کا خیال رکھتی تھی۔ اب اگر وہ اُسے بلوا لیتے، تو اِس میں ایسی کون سی عجیب بات ہو جاتی،
مگر یہ نئی بات سن کر تو حیرت اور خوشی سے اُن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور منہ سے چند لحظوں کے لیے کوئی بات ہی نہ نکل سکی۔
نائن نے اُن کی پریشانی بھانپ لی۔ ’’ملک صاحب نے کہا ہے کوئی زور زبردستی نہیں ۔ آپ کی بیٹی ہے، بلکہ کہا ہے اُس سے بھی پوچھ لیں۔‘‘
شگن کے پانچ کلو بوندی کے خستہ، مزےدار، خوشبو دار لڈو چھوڑ کر نائن تو چلی گئی، مگر زلیخاں کے ماں باپ، بہن بھائی شش و پنج میں پڑ گئے۔ بڑی الجھن میں ڈال دیا تھا ملک صاحب نے اُنھیں۔
’’مگر اماں مَیں نے تو اُنھیں ہمیشہ باپو کی طرح سمجھا تھا۔‘‘ زلیخاں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’ارے بیٹا! وہ کوئی تیرا سگا باپ تھوڑا ہی تھا۔ نامحرم تھا اور اَب تیرا محرم ہونا چاہتا ہے۔‘‘ باپو نے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ویسے زلیخاں! ملک صاحب اتنے بڈھے لگتے بھی نہیں۔ابھی تک کاٹھی مضبوط ہے اور سیدھا تک چلتے ہیں۔‘‘
چھوٹی بہن نے اُس کا حوصلہ بڑھایا اور شرارت سے آنکھیں مٹکانے لگی۔
’’تیرے ابے سے تو چھوٹے ہی ہوں گے۔دو چار سال۔ تو یہ دیکھ لے دھیے کہ تُو ملکہ رانی بن جائے گی۔ حویلی کی مالکن ہو گی۔
راج کرے گی راج۔ تیرے سارے ٹبّر کا مستقبل سنور جائے گا، ہمارے تو سمجھ بھاگ ہی کھل جائیں گے۔‘‘ اماں نے سمجھایا، تو زلیخاں سوچ میں پڑ گئی۔
ملک صاحب ویسے اتنے برے تو نہیں تھے۔ ملکانی کی زندگی میں بھی اُس سے بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ شکل صورت بھی اچھی تھی۔حویلی کتنی اچھی جگہ تھی رہنے کے لیے۔
کہاں یہ چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان اور کہاں وہ بڑے بڑے دالان، برآمدے اور رَاہ داریاں۔ اُونچی چھتوں والے کمرے جہاں ایئرکنڈیشنر لگاؤ، تو کپکپی چھوٹ جاتی۔
کئی بار تو ملکانی جی اُس سے کمبل منگوا کر اَپنے اُوپر ڈلوایا کرتی تھیں۔
زلیخاں کے گھر والوں کے پاس ہاں نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ تو تھی نہیں، اِس لیے اُنھوں نے ایک دو دِن میں ہی نیوتا بھجوا دِیا کہ ملک صاحب کی خوشی ہی میں اُن کی خوشی ہے۔
نکاح ملک صاحب نے اپنی حویلی میں کروانا مناسب سمجھا۔ آخر کو تو اب زلیخاں کا نیا گھر وہی تھا۔
اُس غریبی کی یادگار جھونپڑی میں جانے کی کیا ضرورت تھی جہاں گدڑی میں چھپا ایک انمول لعل کسی قدرشناس جوہری کے انتظار میں پڑا شاید ٹھیکری بن کر ضائع ہو جاتا، مگر ایسا ہوا نہیں۔ ملک صاحب اُس کی قدر جان گئے تھے اور اب اُسے اپنی زندگی کی زینت بنانا چاہتے تھے۔
پروگرام یہ بنا کہ ملک صاحب اسپتال سے فارغ ہونے کے دو ہفتے بعد آنے والے مبارک جمعے کو اَپنے بیٹوں اور چند معززینِ گاؤں کی موجودگی میں یہ نیک کام سرانجام دیں گے۔ پھر گاؤں والوں کی دعوت کی سعادت حاصل کریں گے۔
زلیخاں بنتِ محمد بوٹا کمی، نئی اور چھوٹی ملکانی بن کر حویلی میں دلہن بن کر داخل ہو گئی۔ گاؤں والوں کے دل پلاؤ، زردے اور قورمے کی لذتوں کی خوشیوں سے ناچ اٹھے۔
زلیخاں کے آنے سے گھر میں تو رونق ہو ہی گئی تھی۔ ملک صاحب کی زندگی میں بھی بہار آ گئی۔ وہ جب اُنھیں محبت سے کھلاتی، پلاتی ، وُہ اُس سے عشق معشوقیاں کرتے، تو اُن کے پرانے ٹھنڈے خون میں جوشیلے ابال سے آنے لگ جاتے۔ وُہ خود کو پچیس تیس سال کا، اپنی بیوی کا ہم عمر نوجوان سمجھنے لگ جاتے۔
’’مگر یہ تو بتائیں ملک صاحب! آپ کے دل میں میرے لیے، میرا مطلب ہے آخر آپ کو میرا خیال کیسے آ گیا؟
مَیں تو ملکانی صاحب کی نوکر تھی۔ اُن کی جوتیوں کی خاک۔ کہاں آپ کہاں مَیں؟‘‘ ایک دن ملک صاحب کو گود میں لٹا کر انگور کھلاتے ہوئے زلیخاں نے مدھ بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’دیکھ زلیخاں! مَیں نے تجھے کتنی بار کہا ہے، مجھے ملک صاحب نہیں بلکہ ریاض کہہ کر بلایا کر ۔
اب نہ کہا، تو مَیں ناراض ہو جاؤں گا۔‘‘ ریاض نے لاڈ سے منہ پھلا کر کروٹ لے کر ناراض ہونے کی اداکاری کی۔
’’اچھا میرے سوہنے، میرے ریاض۔ کوشش کروں گی۔ دراصل بچپن سے عادت پڑی ہوئی ہے نا آپ کو ملک صاحب کہنے کی، تو بس جھجک جاتی ہوں۔
آہستہ آہستہ عادت چھوٹ جائے گی جی۔‘‘ زلیخاں کھلکھلا کر ہنس دی۔ ’
’ہاں تو میری بات کا جواب تو دیں نا ۔‘‘ زلیخاں نے ایک نیا انگور کا دانہ اُن کے منہ میں ڈالنے کے لیے اُن کے منہ کے پاس گچھا لہرایا۔
’’سچی بتاؤں زلیخاں ۔میرا اَیسا کوئی خیال نہیں تھا۔ تجھے تو پتاہے، زبیدہ اَور میرا کتنا پیار تھا آپس میں۔ مگر جب تجھے زبیدہ کے جنازے پر دیکھا نا ,تو بس۔
کیسے بار بار میت پہ گر رہی تھی تُو ۔ تجھے تو ہوش نہیں تھا، مگر تیرا دوپٹا بار بار سینے سے ڈھلک جاتا تھا۔ سیاہ بال کھل کر تیرا چہرہ چھپا لیتے۔
گیلی آنکھوں میں اُداسی کی پرچھائیاں لہراتی نظر آ رہی تھیں۔تجھے تو کچھ ہوش نہیں تھا، مگر مَیں نے اُسی لمحے تجھے دیکھ کر دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ تجھے اپنا لوں گا۔ تیرے زخمی دل پہ پھاہا رکھوں گا۔‘‘
’’وہ کیوں جی؟‘‘ زلیخاں اِٹھلاتے ہوئے بولی۔
’’اِس لیے کہ تُو اور مَیں، ہمارا دونوں کا دُکھ سانجھا تھا۔ ہم دونوں ہی تیری ملکانی سے اتنا پیار کرتے تھے۔
مَیں نے سوچا کیوں نہ ہم دونوں ایک ہو جائیں ہمیشہ کے لیے۔
جب تُو بلک بلک کر رو رَہی تھی، تو اتنی پیاری لگ رہی تھی، اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ بس ۔یوں جیسے کئی کُونج ڈار سے بچھڑ گئی ہو اَور اَپنوں کی یاد نے اُسے بےحال کر دیا ہو۔‘‘
’’سچ ملک ۔ میرا مطلب ہے ریاض جی ؟‘‘ زلیخاں اقرارِ محبت سن کر خوشی سے گلابی ہو گئی اور سو سو بل کھانے لگی۔
’’سچ کہتا ہوں میری جندڑی۔ تیری ملکانی کی قسم اگر جھوٹ بولوں۔‘‘ ملک صاحب نے اُسے اپنے سینے سے لگا کر زور سے بھینچا اور طمانیت سے لمبے لمبے سانس لینے لگے۔
ملک صاحب کے بیٹوں، بہوؤں، بیٹی اور دَاماد کا خیال تھا، جوان بیوی ملک صاحب سے کہاں سنبھالی جائے گی۔
سال چھے ماہ میں ہی ابا جی کا شوق پورا ہو جائے گا۔ کوئی اِٹ کھڑکا ہو گا اور ملک صاحب اُسے چلتا کر دیں گے، مگر یہاں تو زلیخاں کے قدم مضبوط سے مضبوط تر ہوتے نظر آ رہے تھے۔
وہ خوش مزاج تھی۔ ہر ایک کا خیال رکھتی۔ ملک صاحب کی جی جان سے خدمت کرتی۔ کسی کو اُس سے کیا شکایت ہو سکتی تھی؟
بچوں کو زلیخاں تو نہیں، مگر اُس کی جوانی بہت کھٹکتی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جوان جہان، خوبصورت سوتیلی ماں پہ نظر رکھنا اُن کی مجبوری بن چکا تھا۔
ملک صاحب بھی اُسے کبھی تنہا نہ چھوڑتے۔ اِردگرد یوں منڈلاتے رہتے جیسے شمع کے گرد پروانا ہو۔
کام کے سلسلے میں دوسرے گاؤں جاتے، تو اپنی بیوہ بہن سرداراں کو حویلی چھوڑ جاتے۔
نوکروں، خادماؤں کو بھی ہدایت کر جاتے کہ چھوٹی ملکانی کا ہر طرح سے خیال رکھیں اور اُسے کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں۔
زلیخاں ملک صاحب کے ساتھ بہت خوش تھی۔ ہر طرح کا سُکھ آرام اُسے حاصل تھا، مگر ایک حیرت اور حسرت نے اب اُس کے دل میں پنپنا اور طاقت پکڑنا شروع کر دیا تھا۔
وہ اَب تک ماں کیوں نہیں بنی تھی؟ یہ سوال اُسے اکثر پریشان کرنے لگا تھا۔
شادی کو دوسرا سال ہونے کو آیا تھا۔ زلیخاں کے والدین کو بھی فکر ہونا شروع ہو گئی تھی کہ اُن کی بیٹی کی گود اَبھی تک خالی تھی۔
اُن کا تو خیال تھا کہ ننھا سا ملک یا ملکانی جھٹ سے آ جائے گی۔ اَپنے نانا، نانی کا حویلی میں رتبہ اور عزت بڑھائے گی۔ گاؤں میں لوگ اُنھیں سلام، دعا پیش کریں گے۔
اُن کے حویلی میں جانے کے بہانے اور مواقع میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، مگر یہاں تو ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
ملک صاحب کے نواسے، نواسیاں، پوتے پوتیاں دیکھ کر زلیخاں کے دل میں بھی ماں بن کر کسی پھول کی پرورش کرنے کی خواہش زور پکڑنے لگی تھی۔
ایک دن اُس کی ماں اُسے کسی پیر سے دم کروانے کے لیے لینے آ گئی۔ زلیخاں ہنسی خوشی اُس کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئی۔
ملک صاحب اتفاقاً گاؤں سے باہر گئے ہوئے تھے، مگر زلیخاں نے اُن سے پھر بھی موبائل فون پہ اجازت طلب کر لی۔
اِجازت ملنے پر خود ماں کے ساتھ پیر صاحب کے آستانے کو چل دی۔ پیر صاحب نے غور سے زلیخاں کی بات سنی اور آنکھیں بند کر کے کتنی ہی دیر کچھ بڑبڑاتے رہے۔
’’اِسے بہت زیادہ خواہش ہے بابا۔ بس کچھ کرم کر دیں۔‘‘ ماں نے التجا کی۔
’’ایک بچہ ہو جائے، تو اِس کا گھر مکمل ہو جائے گا پیر صاحب۔‘‘
پیر صاحب نے دم کی ہوئی چینی کے ساتھ ساتھ زلیخاں کو ایک تعویز بھی دیا جو اُسے ہر وقت گلے میں لٹکائے رکھنا تھا۔
زلیخاں کی ماں بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور رُخصت کی اجازت چاہی۔
نذرانے کے ڈبے میں سو رُوپے کا لال نوٹ ڈالتے ہوئے زلیخاں کو لگا جیسے اُس نے گیلی زمین میں کسی خوبصورت پھول کا بیج ڈال دیا ہو۔
اَب وُہ بیج پھوٹ کر اُس کی زندگی مہکانے کو بس آتا ہی ہو گا۔
دو ماہ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ زلیخا کو لگا اللہ نے اُس کی مراد سن لی ہے۔ دعائیں قبول ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
سب سے پہلے اُس نے ماں کو بتایا کہ اُس کے حساب سے کچھ دن اُوپر ہو گئے ہیں۔ ماں نے باپ کو خوش خبری دی اور دونوں مصلے پر گر گئے۔
اللہ اُن کی بیٹی کی قسمت اپنے ہاتھ سے لکھے چلا جا رہا تھا۔ جب ماں نے ہر طرح سے زلیخاں سے باتیں پوچھ کر تسلی کر لی، تو اُس نے زلیخاں سے کہا کہ اب وہ ملک صاحب کو بھی یہ خوش خبری سنا ہی دے۔
جس وقت زلیخاں نے ملک صاحب کو یہ خبر سنائی، وہ ٹی وی سٹیج رقاصاؤں کی اشتہاانگیز رقص سی ڈی دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔
لطف و اِنبساط کے رنگ اُن کے چہرے پر پچکاریاں چھوڑ رہے تھے۔بدن تال کے ساتھ ہولے ہولے تھرک رہا تھا۔
’’کیا، کیا کہہ رہی ہے تُو زلیخاں؟ تُو ہوش میں تو ہے۔‘‘ ملک صاحب چنگھاڑے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
’’ہو کیوں نہیں سکتا جی؟‘‘ زلیخاں نے سہم کر جواب دیا۔
’’میرا مطلب ہے، جن دنوں کا تُو بتا رہی ہے۔اُس حساب سے جو وقت بنتا ہے، تب تو مَیں یہاں تھا ہی نہیں۔
پنڈ دادن خان گیا ہوا تھا مَیں۔‘‘ وہ سٹپٹا کر بولے۔
’’ہائے جی ریاض! آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ توبہ توبہ ۔‘‘ بات کی نزاکت سمجھ کر زلیخاں رونے لگی۔
خلافِ توقع ملک صاحب نے اُسے چپ بھی نہ کروایا بلکہ عجیب عجیب نظروں سے اُس کا سر تا پا جائزہ لے کر پیر پٹختے کمرے سے باہر چلے گئے۔
زلیخاں نے دیوار پہ لگی اپنی اور رِیاض کی فریم شدہ شادی کی تصویر دیکھی، تو اُس کی آنکھیں مزید اُبلنے لگیں۔
اُس کا تو خیال تھا ریاض جی یہ خبر سن کر ناچ اُٹھیں گے۔اُسے گود میں اُٹھا کر آرام سے بستر پہ لٹا کر لاڈ کریں گے۔
ساری حویلی اور گاؤں میں لڈو بٹوائیں گے، مگر ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
نہ جانے کیوں؟ اِس میں ایسی کون سی بری بات تھی۔ اُسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
’’شاید ملک صاحب اپنی عمر کے خیال سے کچھ گھبرا گئے ہوں۔‘‘
زلیخاں کی ماں نے صورتِ حال کے بارے میں سن کر اپنا تبصرہ کیا۔
’’لیکن اتنی عمر بھی ابھی کہاں ہے۔ مرد بھی کبھی بوڑھا ہوا ہے۔‘‘
باپو نے حقے کی نَے منہ میں ڈال زور زور سے پھونکیں مارنا شرع کر دیں۔ یہ ساری بات سن کر وہ بھی کچھ پریشان سا ہو گیا تھا۔
زلیخاں گھر تو لَوٹ آئی، مگر ملک صاحب اُس روز کے بعد گم صم ہو کر رہ گئے۔
عجیب عجیب نظروں سے خلاؤں میں گھورتے رہتے۔ زلیخاں سے بات بھی نہ کرتے۔
ایک روز اُنھوں نے اپنی اولاد کو بھی اپنی پریشانی سے آگاہ کر ہی دیا۔
’’آپ خود سمجھ دار ہیں ابا جی۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ آپ کا تو آپریشن ہو چکا ہے۔‘‘
بڑے نے ٹھنڈے مگر طنزیہ لہجے میں ہمدردی جتائی۔
’’مَیں تو پہلے ہی کہتا تھا۔ ذات کی کمی اور پھر عمر کی چھوٹی۔ اُوپر سے ہنس مکھ، شوخ اور طرار ۔
اُس نے کوئی نہ کوئی چَن تو چڑھانا ہی تھا ابا جی۔‘‘
چھوٹے نے بھی موقع ملتے ہی اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی۔
’’بڑے معصوم ہیں آپ ابا جی! جوان بیوی، بیٹی کی طرح ہوتی ہے۔ اُس پر نظر تو رکھنی چاہیے تھی نا۔‘‘ بڑی بہو بلقیس نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
ابا جی بھیگے بلے بنے، نظریں جھکائے، سب کے کوسنے سنتے رہے۔
گھر کی پنچایت نے جو فیصلہ دیا، وہ زلیخاں، اُس کے ماں باپ، بہن بھائی کے لیے کسی زلزلے سے کم نہ تھا۔
ملک صاحب نے کھڑے کھڑے اُسے طلاق دے دی۔ وہ یہی کہتے رہے کہ وہ اُن دنوں گاؤں سے باہر تھے، تو یہ کیسے ہو گیا؟
روتی پیٹتی، اپنی وفاؤں کی قسمیں کھاتی، اُن کی محبت میں تڑپتی زلیخاں کو دیکھ کر کئی بار اُن کا دل پسیجا اور قدم ڈگمگائے، مگر اپنی اولاد کی وجہ سے وہ ثابت قدم رہے ۔
زلیخاں واپس ماں باپ کے گھر روانہ کر دی گئی۔
اُس کی تو دنیا ہی اُجڑ گئی تھی۔ کہاں وہ دِن کہ وہ حویلی کی چھوٹی ملکانی بنی، اتراتی پھرتی تھی۔
اب یہ شب و روز جب اُسے سب گاؤں والے بدکردار، چھوڑی ہوئی، ملعون عورت سمجھ کر رُسوا کرتے رہتے تھے۔
اُسے رہ رَہ کر ریاض یاد آتے۔ وہ وَاقعی محبت کرنے والے اچھے شوہر ثابت ہوئے تھے۔
وہ اِتنے فیاض، غریب پرور اَور دَریا دل تھے ۔وہ سوچتی، مگر اُنھوں نے اُسے بارآور ہوتے ہی قبول کیوں نہیں کیا؟
کیا وہ وَاقعی اُس پہ اعتماد نہیں کرتے تھے۔ یہ سوچ کر اُس کا کلیجہ کٹنے لگتا۔
ایک روز زلیخاں کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی۔ اُس کی ماں اُسے لے کر مقامی ہیلتھ سنٹر جا پہنچی۔
’’اری رو رَو کر ہلکان کیوں ہو رہی ہے۔ بچے کو بھی نقصان پہنچنے کا ڈر ہے ۔ایسے نہ کر دھیے۔‘‘ ماں نے درد سے تڑپتی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’بچہ! کون سا بچہ؟‘‘ ڈاکٹرنی نے اُسے اچھی طرح آلات سے چیک کر کے کہا۔
’’اِس کے پیٹ میں تو کوئی بچہ نہیں ہے۔‘‘
’’ہیں! کیا کہہ رہی ہیں آپ ڈاکٹرنی جی؟‘‘ زلیخاں چیخی۔
’’مَیں ٹھیک کہہ رہی ہوں چھوٹی ملکانی جی ۔میرا مطلب ہے زلیخاں بی بی۔ آپ کے اندر کوئی خرابی ہے جس وجہ سے دِنوں کا حساب گڑبڑ ہے یا پھر آپ کو جھوٹ موٹ کا حمل ہو گیا ہے۔
جن عورتوں کو بچے کی بہت زیادہ چاہ ہوتی ہے، اُن کے جسم میں ایسی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جن سے لگتا ہے کہ وہ پیٹ سے ہیں، مگر ایسا ہوتا نہیں۔‘‘
زلیخاں اور اُس کی ماں ہکا بکا ہو کر ڈاکٹرنی کی بات سنتی گئیں، مگر اُن کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔
’’آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی۔ بس مَیں یہ دوائیاں لکھ دیتی ہوں۔
اِس سے آپ اِن شاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ دِن بھی ٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے۔ فکر والی کوئی بات نہیں۔‘‘
زلیخاں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ خوشی کا مقام تھا یا رنج کا؟
’’بچہ نہ ہونے کا اُسے دکھ تو ہو رہا تھا، مگر اپنی پاک بازی ثابت ہو جانے کی خوشی اُس سے کہیں زیادہ تھی۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟
ملک صاحب تو اُسے تین بار طلاق دے چکے تھے۔ اَب وہ ملکانی سے واپس زلیخاں بن کر اپنے ماں باپ کے ہاں رہنے پہ مجبور تھی۔ حالات بڑے عجیب ہو گئے تھے۔
ماں نے اپنی دکھوں کی ماری بیٹی کو دیکھا، تو اُس کا دل بھر آیا۔
کتنی پیاری تھی وہ۔ ہاتھوں میں سونے کا چوڑا، قیمتی کپڑے، موبائل فون، ملک صاحب نے اُس سے کچھ بھی تو واپس نہیں لیا تھا، سوائے اپنے آپ کے۔
وہ اب بھی اُسے ماہانہ خرچ دیتے تھے۔ ملکانی بننے کے بعد سے وہ اَب اِن سب گھر والوں سے کتنی مختلف اور برتر لگنے لگی تھی۔ یوں جیسے اِن میں سے ہو ہی نہ بلکہ کسی اُونچے خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔
’’بھلیے لوکے ،اب جو ہونا تھا ہو گیا ۔ پر یہ ہوا بڑا ظلم ہے۔ ہماری کاکی کے ساتھ۔‘‘ باپو کی آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں۔
’’ریاض جی نے مجھے خواہ مخواہ ہی طلاق دے دی۔ بچہ نہ دیا، تو اللہ جی میرے سر پر سائیں تو رہنے دیتا۔
اُس نے تو مجھ سے میری دنیا ہی چھین لی جبکہ میرا قصور بھی کوئی نہ تھا۔‘‘
زلیخاں اپنے آپ سے بڑبڑانے لگی۔ غم و غصّے سے اُس کا کلیجہ پھٹا چلا جا رہا تھا۔
’’ٹھنڈے ہو کر ہمیں سوچنا ہے کہ اب زلیخاں کی زندگی کا کیا ہو گا؟‘‘ دونوں ماں باپ سر جوڑ کر آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے۔
اگلی صبح ملک صاحب اپنی بیٹھک میں زلیخاں کے ماں باپ کو بیٹھے، اپنا انتظار کرتے دیکھ کر کچھ حیران، خفا اور خفیف سے نظر آئے۔
اُن کے بڑے بیٹے شفیع نے جو اُسی دن گندم کی کٹائی سے فارغ ہو کر خوش خوش بینک جانے والا تھا، سرسری طور پر پوچھا:
’’کیسے آئے ہو تم لوگ؟ کوئی پیسے ویسے چاہئیں بیٹی کے لیے؟ ویسے اب تم لوگوں کو یہاں آنا تو نہیں چاہیے تھا۔‘‘
’’ملک صاحب جی! ہم آپ کی جوتیوں کی خاک۔ آپ کے کمی کمین، آپ کے در پہ نہ آئیں تو کہاں جائیں گے جی؟‘‘ زلیخاں کے باپو نے سر جھکا کر جواب دیا۔
’’آپ کی زلیخاں آپ کے لیے بہت روتی ہے جی۔ میری معصوم دھی بڑی دکھی ہے۔‘‘
زلیخاں کی ماں نے بھس میں چنگاری پھینکی۔ زلیخاں کی خوبصورت یاد کا تیر ہوا میں لہراتا ہوا آیا ۔
ملک صاحب کے کلیجے میں پیوست ہو گیا۔
’’دکھی ہے وہ شیطاننی؟ کتنا اچھی طرح رکھا تھا اباجی نے اُسے۔ ہم سب بھی کتنا پیار اَور عزت دیتے تھے اُسے۔
سچی بات ہے نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا۔ اُس نے اپنی اصلیت دکھا ہی دی آخر۔‘‘
بیٹا بڑھ چڑھ کر بولنے لگا۔ اُس کی بیوی بھی پاس آ کے کھڑی ہو گئی اور سارا معاملہ سمجھ گئی۔
’’ایسا نہ کہیں چھوٹے ملک جی۔ وہ پاک صاف ہے جی۔ ملک صاحب آپ خود ڈاکٹرنی سے پوچھ لیں۔ کچھ بھی نہیں تھا اُسے۔ ہم نے پتا کروا لیا ہے جی سارا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ ملک صاحب ایک دم جیسے نیند سے چونکے۔
’’وہ جی ڈاکٹرنی صاحبہ نے اچھی طرح دیکھ کر کہا ہے اُسے جھوٹ موٹ کا حمل ہو گیا تھا۔ بس جی وہی تھا اُسے۔‘‘
’’جھوٹ موٹ؟ یہ نئی ہی بات سنی ہے ہم نے۔‘‘ بہو ملکانی طنزیہ ہنسی ہنسی۔
’’جو بھی ہے، اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔ اب کیا ہو سکتا ہے۔ اُسے کہو اپنی قسمت پہ صبر کرے اور کیا؟‘‘
ملک شفیع نے بات ختم کرنے کے انداز میں اٹھ کر اپنی چیزیں سنبھالنا شروع کر دیں۔
’’بلقیس! ذرا بچوں کو تیار کر دے۔ آج مَیں اُنھیں بھی زمینوں پہ لے جا رہا ہوں۔‘‘ اُس نے بیوی کو مخاطب کر کے کہا۔
’’سو بسم اللہ، مَیں ابھی اُنھیں تیار کر کے بھیجتی ہوں۔ اچھا ہے بچوں کو اَبھی سے پتا اور عادت ہونی چاہیے کہ اپنی جائیدادیں کیا ہوتی ہیں۔
اُنھیں کیسے سنبھالنا ہے اُنھوں نے آگے جا کر۔‘‘ بلقیس نے زلیخاں کے ماں باپ کے جانے کے بعد میاں کے قریب جا کر سرگوشی کی۔
ملک صاحب کی حالت کچھ عجیب سی ہو کے رہ گئی تھی۔ بار بار ہاتھ ملتے کہ اب اُنھیں شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ اُن سے جلدبازی میں ایسی غلطی ہو گئی جس پہ وہ جتنا بھی پچھتاتے کم تھا۔
اُن کی تنہا زندگی کی ڈگمگاتی نیّا کتنے سکون سے کنارے جا لگی تھی، مگر اُنھوں نے رسی کھول کے خود ہی اُسے طوفان کے حوالے کر دیا تھا۔
احساسِ جرم کے زہریلے بچھو اُنھیں ڈنک مارتے، تو وہ رَاتوں کو اُٹھ اٹھ کر اپنا کلیجہ مسلتے اور نصیبوں پہ آنسو بہانے لگتے۔
’’کاش! مَیں نے عقل سے کام لیا ہوتا۔‘‘ وہ سوچتے۔
اُنھوں نے ڈاکٹرنی کے پاس خود جا کر زلیخاں کی بابت اچھی طرح پوچھ گچھ کر لی تھی۔ اِسی لیے اب تو اُن کا جینا محال ہو گیا تھا۔ بےچینی اور بےکلی نے اُنھیں تقریباً بیمار سا بنا دیا۔
اُنھیں زلیخاں سے حقیقی محبت تھی، مگر اِس محبت کو وہ خود کنوئیں میں دھکا دے چکے تھے۔
وہ محبت جو ڈوب کر پاتال میں بیٹھ نہیں رہی تھی، بلکہ کسی اَدھ موئے کملائے ہوئے کنول کی طرح سطح آب پہ تیرتی نظر آتی تھی۔
’’آپ ہی بتائیں مَیں کیا کروں؟ خدارا مجھے اِس تکلیف سے نکلنے کے لیے کوئی تسبیح، کوئی وظیفہ ہی بتائیں۔‘‘
ایک روز بعد از نمازِ عشا وہ مولوی صدیق کے پاس بیٹھے بیٹھے رو پڑے۔ اُس وقت لوگ گھروں کو جا چکے تھے۔مولوی صاحب مسجد کے صحن میں رکھے ٹی وی پہ کسی مذہبی پروگرام کے لگنے کا انتظار کر رہے تھے۔
’’مولوی صاحب! مجھ سے غلطی ہو گئی جی۔ مَیں نے اپنی پاکباز بیوی پہ شک کر کے اپنی زندگی خود برباد کر لی۔ اب مَیں کیا کروں؟‘‘
’’ملک صاحب! اِسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کو ایک مکروہ فعل قرار دِیا ہے۔
مردوں کو سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ یہ زندگی کے معاملے ہوتے ہیں، کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں۔‘‘
’’مولوی صاحب! مَیں اُس سے دوبارہ ؟‘‘ ملک صاحب دل کی بات زبان پہ لے آئے۔
’’دوبارہ ؟ ہوں۔‘‘ مولوی صاحب کچھ دیر خاموش رہے۔ ’’دوبارہ کا پتا ہی ہے ملک صاحب کہ آپ کو اُن کا حلالہ کروانا ہو گا۔‘‘
’’حلالہ!‘‘ ملک صاحب کا منہ لٹک گیا۔ آنکھوں میں بھرے آنسو باہر چھلک آئے۔
’’چلیں سوچتے ہیں، کوئی راستہ نکالتے ہیں۔‘‘ مولوی صاحب نے ہنکارا بھرا۔
’’اچھا؟‘‘ ملک صاحب کی آنکھوں میں اُمید کی کرن چمکی۔
’’کچھ رقم لگے گی، بس یہ سوچ لیں۔‘‘
’’جتنی رقم چاہیں، مَیں لگانے کو تیار ہوں مولوی صاحب۔ بس یہ خیال رہے کہ نکاح ہو گا، مگر رخصتی نہیں ہو گی۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ؟‘‘ ملک صاحب نے بےچینی سے وضاحت کی۔
’’آپ فکر ہی نہ کریں ملک صاحب۔ ہم سمجھ دار ہیں۔بہنوں، بیٹیوں والے ہیں۔ آپ مجھ پر بھروسا رکھیں۔ مَیں اِن شاء اللہ کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لوں گا۔‘‘
ملک صاحب گرمجوشی سے مصافحہ کر کے اُٹھے اور پُراُمید دل کے ساتھ مسجد سے باہر نکل آئے۔ اگلی صبح وہ فوراً زلیخاں کے گھر جا پہنچے۔
’’زلیخاں کہاں ہے؟‘‘ ملک صاحب نے دھیمی آواز میں اِدھر اُدھر دیکھ کر پوچھا۔
’’اَندر!‘‘ زلیخاں کی ماں نے مختصر جواب دیا۔
’’آپ نے ملک صاحب جی میری شریف دھی پہ الزام لگا کر اچھا نہیں کیا جی، بڑے دکھی ہیں ہم سب۔‘‘
’’او چل چپ کر رحمتے! مردوں سے ایسی غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ وہ آئے تو ہیں۔
ہمارے مالک ہیں۔ اب کیا ہم اِنھیں اِن کی غلط فہمی کی سزا ہی دیتے چلے جائیں گے۔‘‘
باپو نے بیوی کی طرف دیکھ کر سمجھانے کے انداز میں کہا۔
’’دراصل مَیں اُس سے پھر شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ملک صاحب نے اپنے آنے کا عندیہ بیان کیا اور لمبی سی سانس لی۔
’’ملک صاحب جس دن سے وہ آپ کی حویلی سے آئی ہے جی، ہر وقت روتی رہتی ہے۔
مجھ سے تو جی دیکھا نہیں جاتا۔ وہ تو جی بس اُچے محلوں کے لیے ہی بنی تھی۔ یہاں بےچاری اب تنگ ہوتی ہے۔‘‘
زلیخاں کے جوان، نکمے، بےکار بھائی نے افسردہ لہجے میں کہا۔
ملک صاحب شرمندگی سے زمین کے اَندر دَھنستے چلے جا رہے تھے۔
یکایک وہ اُٹھے جیسے اُن کے جسم میں کوئی انجانی سی طاقت بھر گئی ہو۔ روبوٹ کی مانند چلتے اندر زلیخاں کے پاس جا پہنچے۔
کچھ کہے سنے بغیر روتی ہوئی زلیخاں کو اَپنے بازوؤں میں بھر لیا۔
’’مجھے معاف کر دے میری جان!‘‘ ملک صاحب خود کو اُس کے بھرے بھرے سینے میں چھپا کر سسکنے لگے۔
’’اب مَیں تجھے کوئی شکایت نہ ہونے دوں گا۔ تجھے رانی بنا کر رکھوں گا۔ بس ایک بار مجھے معاف کر دے۔ ہم پھر ایک ہو جائیں گے دوبارہ۔‘‘
باہر بیٹھے زلیخاں کے ماں باپ اور بھائی بہن کسی موہوم، جھمجھماتی ہوئی اُمید سے اپنے تاریک صحن کو روشن ہوتے دیکھ کر دعائیں مانگ رہے تھے۔
ٹھنڈے سانس لے رہے تھے۔ نمی نمی مسکراہٹ سے اُن کے چہرے جگمگا رہے تھے۔ شکر ہے مولیٰ نے اُن کی پھر سے سن لی تھی۔
خوش تھے کہ ایک بار پھر ایک بڑے آدمی سے رشتےداری ہونے جا رہی تھی، کیونکہ بڑے لوگوں سے رشتےداری ہونا اچھا ہوتا ہے۔
بلکہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ خوش نصیبی سے دوستی بہت کچھ سنوار دَیتی ہے زندگی میں۔
مولوی صاحب بڑی کوشش کر رہے تھے، مگر اُنھیں ملک صاحب کی زلیخاں سے حلالہ کرنے کے لیے کوئی اعتباری آدمی نہیں مل رہا تھا۔
ملک صاحب تحمل سے انتظار کر رہے تھے، کیونکہ یہ بہت نازک معاملہ تھا۔
بات بنتے بنتے بگڑ بھی سکتی تھی۔ صبر کے سوا اَور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ مولوی صاحب کی کوششیں البتہ جاری تھیں۔
ملک صاحب اور زلیخاں کے دل میں ایک دوسرے کی محبت کی شمع پھر سے روشن ہو گئی تھی۔
بڑا مزا آ رہا تھا اُن دونوں کو اِس جدائی میں، چھپ چھپ کر ملنے میں۔ یوں لگتا جیسے وہ کوئی نوجوان جوڑا ہوں اور ظالم سماج اُن کی راہ میں کھڑا اُنھیں ایک دوسرے سے دور رَکھتا ہو۔
زلیخاں کہیں بازار جاتی، تو ملک صاحب اچانک ساتھ والی دکان پر خریداری کرنے پہنچ جاتے۔
ملک صاحب کھیتوں پہ لگے ٹیوب ویل سے پانی کا اخراج چیک کرنے جاتے، تو زلیخاں ساتھ والے کھیت میں اتفاق سے گنے توڑنے آ جاتی۔
بڑا مزا آ رہا تھا اُنھیں موبائل پہ میٹھی میٹھی باتوں اور اِس زخمی رس بھری جدائی کے عذاب کا۔ مگر پھر عذاب برداشت کرنے کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔
ملک صاحب اب اِس حد سے گزر جانے والے وقت کے ہاتھوں تنگ آنے لگے تھے۔
’’مولوی صاحب! کچھ کیا آپ نے؟‘‘ ایک روز وُہ بےبس ہو کر پھر مولوی صاحب کے پاس آن دھمکے۔
’’آپ کے لیے تو ملک صاحب جان بھی حاضر ہے، مگر کیا کروں کوئی اعتبار کا آدمی مجھے نظر نہیں آتا۔
اگر آپ حکم دیں، تو مَیں ہی یہ فریضہ سرانجام دیتا ہوں۔ پرانا نمک خوار ہوں آپ کا۔ مجھ پر تو آپ آنکھ بند کر کے یقین کر سکتے ہیں نا؟‘‘
ملک صاحب نے چونک کر مولوی صاحب کو دیکھا۔ سر سے پاؤں تک پہلی بار اُن کا بھرپور جائزہ لیا۔
’’ہوں!‘‘ خطرے کے کوئی خاص سامان نظر تو نہ آ رہے تھے۔
مولوی صاحب خوبصورت تھے نہ ہی جوان۔ ویسے بھی جوان بچوں کی ایک فوج کے باپ تھے۔ اِس لیے اُن کی طرف سے خطرے کا اندیشہ نہ ہو سکتا تھا، مگر پھر بھی ملک صاحب کچھ کسمسائے۔
’’کیا اِس کے بغیر مَیں زلیخاں سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا؟‘‘
’’استغفر اللہ کریں جی ملک صاحب۔ اللہ کا حکم ہے جی۔ کیوں اللہ کے غیض و غضب کو آواز دیتے ہیں۔
پہلے ہی اللہ نے آپ کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ توبہ کر لیں جی۔ اللہ ہم سب کی خطائیں معاف کرے۔‘‘ مولوی صاحب نے اُنھیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت کی۔
طے یہ ہوا کہ مولوی صاحب نکاح کے بعد بغیر رخصتی کے زلیخاں ملکانی کو طلاق دے دیں گے، ایک لاکھ روپے نذرانے کے حق دار ٹھہریں گے۔ سب کو اَپنی ضرورت کے مطابق کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔
پھر سب کچھ حسبِ پروگرام ہو گیا۔ نکاح کی رات زلیخاں کو مکمل پردے اور اِحتیاط کے ساتھ اُس کے میکے گھر لے جا کر چھوڑ دیا گیا۔
مولوی صاحب اپنے بیوی بچوں کو چند ہی دنوں میں آنے والی خوشحالی کا مژدہ سنانے ہنسی خوش گھر کو لَوٹ گئے۔
بیوی بچے خوش تھے کہ گھر کے سربراہ نے بالآخر گھر والوں کے لیے کچھ تو اچھا کیا۔ کم از کم کچھ عرصے کے لیے تو وہ اَچھا کھا، پہن سکتے تھے۔ یہ بھی کم نہ تھا۔
عدت پوری کرنے کے بعد زلیخاں چھم چھم کرتی پھر سے حویلی میں داخل ہوئی، تو ملک صاحب کو جیسے دوبارہ زندگی مل گئی۔
بہوؤں، بیٹوں کے ماتھے پر پڑی سلوٹیں مستقل ہو گئیں۔ زلیخاں نے سہاگن بنتے ہی پھر سے ماں بننے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے، مگر اب کی بار اُس نے اپنے دل کی ہوک کو باہر نہ آنے دیا۔
دل ہی دل میں اللہ سے دعائیں مانگتی، گڑگڑاتی رہتی اور ماں کے ساتھ مزاروں کے چکر لگاتی رہتی۔
ملک صاحب جانتے تھے کہ زلیخاں کی آرزو کیا ہے۔ وُہ دِل ہی دل میں کچھ دکھی، کچھ شرمندہ بھی ہوتے کہ اُن کی معصوم سادہ لوح بیوی کو اصل حقیقت کا کچھ پتا نہ تھا، مگر وہ کیا کرتے؟
مجبور تھے، اِس لیے خاموش رہتے اور زلیخاں کی پہلے سے بڑھ کر نازبرداریاں کرنے لگتے۔
’’باجی! آپ مجھے ڈاکٹرنی صاحبہ کو دکھا دیں۔ مَیں اُن سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اب تک ۔‘‘ ایک روز اُس نے بڑی بہو سے جو اُس سے عمر میں کافی بڑی تھی، بڑی محبت اور بےبسی سے فرمائش کی۔
بڑی بہو نے ہوں ہاں کر کے سر ہلا دیا اور اَپنے شوہر کو جا کر صورتِ حال بتا دی۔
تھوڑی ہی دیر میں ملک صاحب کے کمرے میں پھر بچوں کی پنچایت ہونے لگی۔
’’ٹھیک ہے ابا جی! ایک بار ہم سب کو غلط فہمی ہو گئی تھی، مگر معاف کریں اب۔سچی بات کڑوی تو لگے گی آپ کو ۔
کل کو آپ بوڑھے ہو جائیں گے اور چھوٹی بے بے بہت دیر تک جوان رہے گی۔‘‘ بڑے بیٹے نے بات شروع کی۔
’’کوئی اونچ نیچ ہو گئی، تو پھر ہم لوگ کیا کریں گے ابا جی؟‘ چھوٹے نے بات آگے بڑھائی۔
’’ابا جی! آپ عورتوں کے ذہن کو نہیں جانتے۔ ایک عورت بچہ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔‘‘
بہو نے زنانہ نفسیات کی پٹاری کھولی۔
ابا جی بات کی تہ کو پہنچ گئے۔ ہونقوں کی طرح منہ کھولے اُن کی باتیں سنتے رہے۔
’’کل کے حالات کا کسی کو پتا نہیں۔‘‘ بڑا پھر بولا۔
’’آپ کی جائیدادوں کے صحیح وارث موجود ہیں، تو پھر آپ کو شک و شبہ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
اب اور کسی وارث کی ضرورت تو نہیں ہے نا۔ دیکھ لیں کل کو کوئی اور مصیبت نہ پڑ جائے۔‘‘ چھوٹا بولا۔
ابا جی کو یہ باتیں اچھی لگ رہی تھیں اور کچھ بری، مگر حقیقتیں دیانت داری سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں، لہٰذا معصومیت سے بولے ’۔
’تو پھر کیا ہو سکتا ہے اب؟‘‘
’’یہ آپ مجھ پہ چھوڑ دیں۔ چھوٹی بے بے کہہ رہی ہے نا کہ مَیں اُسے ڈاکٹرنی کے لے جاؤں، تو بس مَیں نے تو ڈاکٹرنی سے بات بھی کر لی ہے۔
وہ اُس کا کوئی پکا انتظام کر دے گی تاکہ بچہ ہو ہی نہ سکے۔‘‘ بہو نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
ابا جی نے سر ہلا کے اجازت دی۔
اُن کے بچوں کے چہروں پہ خوشیوں کے رنگ پچکاریاں چھوڑنے لگے۔محفل خاطر خواہ نتیجے پہ پہنچنے کی وجہ سے فوراً ہی برخاست ہو گئی۔
زلیخاں خوش ہو رہی تھی کہ آج بڑی بہو اُسے اپنے ساتھ کلینک لائی تھی۔ڈاکٹرنی سے اندر تفصیل سے اُس کے لیے بات چیت بھی کر رہی تھی۔
و ہ تو سب گھر والوں، ملک صاحب کے بچوں سے بہت اچھی طرح پیش آتی تھی، مگر اب تو وہ لوگ بھی اُس سے بہت اچھا سلوک کرنے لگے تھے۔ اُسے اِس بات کی بہت خوشی ہو رہی تھی۔
’’دیکھیں چھوٹی ملکانی جی! مَیں آپ کو تھوڑی دیر کے لیے بےہوش کروں گی۔
آپ کو سارا اَندر سے اچھی طرح چیک کروں گی۔ آپ فکر نہ کریں۔  پتا بھی نہیں چلے گا۔‘‘
ڈاکٹرنی نے پیار سے زلیخاں کے سرخ و سفید گال تھپتھپائے اور خود آپریشن کی تیاری کے لیے نرس کو ضروری ہدایات دینے میں مصروف ہو گئی۔
’’مَیں بھی باہر والے کمرے میں بیٹھی رہوں گی۔ آپ کو ساتھ لے کر ہی گھر جاؤں گی۔فکر نہ کرنا۔‘‘
بہو نے تسلی دے کر محبت سے اُس کا ہاتھ دبایا۔
زلیخاں کو ہوش آیا، تو کچھ درد محسوس ہو رہا تھا۔
اُس نے نقاہت سے سوال کیا:
’’یہ درد کیوں ہو رہا ہے ڈاکٹرنی جی؟‘‘
’’ملکانی جی! آپ کے اندر ایک چھوٹا سا نقص تھا۔ وہ مَیں نے ہمیشہ کے لیے ٹھیک کر دیا ہے۔ آپ اب گھر جا سکتی ہیں۔‘‘
’’اچھا! نقص تھا نا؟ تبھی تو ،لیکن اب سب کچھ ٹھیک کر دیا ہے نا آپ نے؟‘‘ زلیخاں نے بھولپن سے پوچھا۔
’’آپ کے من کی مراد بر آئے گی۔ اللہ بڑا کارساز ہے ملکانی جی۔‘‘
ڈاکٹرنی نے ڈولتی ہوئی مریضہ کو بڑی بہو کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے سنبھل کر چلنے کی ہدایت کی۔
خود اَندر اَپنے کمرے میں چلی آئی۔ بہت تھک گئی تھی وہ۔ اُس نے کرسی پہ بیٹھ کر اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، پھر کچھ خیال آنے پر چابی لگا کر میز میں لگا کر ایک خفیہ دراز کھولا۔
دراز میں کتنی رونقیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک پھولا ہوا لفافہ اُجلی اُجلی روشنیاں بکھیر رہا تھا۔
اُس نے لفافے کو ہاتھ میں تھام لیا اور آنکھیں بند کر کے ہولے ہولے اُسے کسی محبوب کے بدن کی طرح چھو چھو کر محسوس کرنا شروع کر دیا۔ فرحت و انبساط سے اُس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
ملک صاحب کی اولادوں نے مطمئن ہو کر اپنی زمینوں اور جائیدادوں کے معمولات میں حسبِ سابق اپنے آپ کو گم کر لیا ۔
ملک صاحب اور زلیخاں ایک بار پھر ہنسی خوشی زندگی گزارنے میں مصروف ہو گئے۔
سال گزرتے گئے۔ زلیخاں مزاروں، پیروں کے آستانوں پر چکر لگاتی رہی ۔
اُسے اللہ کے ہاں سے دیر کا خدشہ تو تھا، مگر اندھیر کی توقع نہیں تھی۔

NO COMMENTS