صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
امن مذاکرات کا پُل صراط
07/02/2014
طالبان سے مذاکرات کا مرحلہ کبھی انتہائی قریب اور کبھی بہت دور نظر آ رہاہے۔حکومت نے ایک
جبکہ طالبان نے دو مذاکراتی کمیٹیاں بنا دی ہیں
جن میں مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم خاں کے سوا کوئی سیاست دان اور طالبان کی کوئی
اہم شخصیت شامل نہیں ٗ تاہم غالب امکان یہی ہے کہ
جب یہ مذاکراتی کمیٹیاں آپس میں بات چیت کریں گی ٗ تومعاملات کو سمجھنے اور اُنہیں سلجھانے کی پوری کوشش کریں گی۔
مذاکرات میں کامیابی کے لیے رازداری ٗ سفارت کاری ٗ زباں بندی اور فائر بندی ضروری معلوم ہوتی ہے۔
اِس سے بھی زیادہ اہم بات خلوصِ نیت اور سیاسی استقامت ہو گی۔
حکومت کے اخلاص اور عزم کایہ احساس مجھے وزیراعظم نوازشریف کی ڈیڑھ گھنٹوں پر محیط گفتگو کے
دوران ہوا جو وہ الحمرا کی کمیٹی روم میں کالم نگاروں سے بڑی بے تکلفی سے کر رہے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی اوّلین ترجیح اور پوری کوشش یہی ہے کہ خون بہائے بغیر اپنے ِ وطن میں
امن قائم رکھا جائے
اور مذاکرات کے ذریعے ایک ایسا ماحول تیار ہوتا جائے جس میں دلیل ٗ قانون اور انصاف کی حکمرانی یقینی ہو۔
اُن کی آواز سے گہری دردمندی اور آنکھوں سے بے پایاں دوراندیشی ٹپک رہی تھی۔
اُنہوں نے بتایا کہ مذاکرات کی خواہش کا اظہار میں نے گزشتہ ستمبر میں پوری امریکی قیادت سے بہت
کھل کر کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ
ہمارے عوام اور ہماری فوج امن کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان بالآخر
انتہا پسندی اور دہشت گردی کی عفریت کو شکست دینے میں کامیاب رہے گا۔
الحمرا آرٹ کونسل کے بیدار مغز چیئرمین اور صاحبِ طرز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی نے اِس
تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات ٗ خدشات اور ممکنہ نتائج پر
خیال آرائی ہوتی رہی۔ایک صاحب نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت طالبان کے ٹریپ میں آ گئی ہے
جو نئی صف بندی کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک نے اپنے باغیوں
اور عوام کے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے اور اُنہیں ریاستی طاقت سے شکست دی گئی ہے۔
یہ طالبان جو ہمارے آئین ٗ ہماری جمہوریت اور ہماری عدالتوں کو نہیں مانتے اور اپنی خود ساختہ
شریعت کے نام پر لوگوں کی گردنیں کاٹ دیتے ہیں ٗ اُن سے کیا بات چیت ہو سکتی ہے؟
اِس پر وزیراعظم نے کہا کہ تاریخ میں جنگ و جدل کا خاتمہ آخرکار مذاکرات کی میز ہی پر ہوا ہے
اور ہمارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ امن مذاکرات بہت بڑے خون خرابے سے پہلے کر لیے جائیں اور
اُن کی کامیابی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ہماری پارٹی کے
کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ قومی اسمبلی میں صرف اتنا اعلان ہی کافی ہے کہ ہم طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہیں اور مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے
مگر میں نے قومی اسمبلی کے اندر ہی اُن کا اعلان کرنا ضروری سمجھا۔ غالباً وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے
کہ اُن کے نزدیک قومی اسمبلی ہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔اُنہوںنے کسی قدر اطمینان بخش لہجے
میں کہا کہ طالبان کی طرف سے مثبت اشارے مل رہے ہیں اور یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ بتدریج
معاملات میں بہتری آئے گی اور افہام و تفہیم کا عمل ثمرآور ثابت ہو گا۔ اُن کی تمام سیاسی ٗ مذہبی
جماعتوں کے علاوہ اہلِ قلم اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے اپیل تھی کہ وہ ایسی باتیں پھیلانے سے
مکمل اجتناب کریں جن سے امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اُنہوں نے اِس امر پر زور دیا کہ
پاکستان کے اندر قیامِ امن کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دیں
چنانچہ میں بھارت سے روابط معمول پر لانے کے لیے ایک عرصے سے کوشش کرتا آیا ہوں۔ہم دونوں
ممالک اپنے دفاع پر اتنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں کہ سوشل سیکٹر کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔
دونوں طرف کی قیادتوں کو اپنی روش کو بدلنا ٗ دفاعی اخراجات میں کمی لانا اور سرحد پار
دہشت گردی پر قابو پانا ہو گا۔ میری امریکہ میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات ہوئی
تو میں نے اُنہیں بتایا کہ ہمارے پاس بھارت کی طرف سے پاکستان میں دراندازی کے ثبوت موجود ہیں
اور بدلے ہوئے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنے کا عہد کریں۔
جناب وزیراعظم نے اپنے اِس ایقان کا اظہار کیا کہ ایک پُرامن ٗ مضبوط ٗ متحد اور آزاد افغانستان
پاکستان اور اِس خطے کے مفاد میں ہے۔ وہاں کے باشندوں کے مابین مصالحت کی فضا پیدا کرنے میں
ہم ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اُن کی باتوں کے دوران مجھے جناب محمود خاں اچکزئی کی
وہ تقریر یاد آتی رہی جو اُنہوں نے ’’مرکزِ فکر وعمل‘‘ کے زیر اہتمام افغانستان پر ایک عظیم الشان
دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں کی تھی اور کہا تھا کہ اگر پاکستان اور ایران ٗ افغانستان کے ساتھ
یہ معاہدہ طے کر لیں کہ وہ اُس کی آزادی اور خودمختاری تسلیم کرتے ہیں ٗ تو افغانستان میں اِسی
سال مارچ کے مہینے تک امن قائم ہو سکتا ہے۔ جناب وزیراعظم کی بصیرت افروز باتوں سے مجھے
اِس اعتماد کی دولت حاصل ہوئی کہ جو برسرِ اقتدار لوگ ہیں ٗ وہ جاں فشانی اور بلند نگاہی سے
کام کر رہے ہیں۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہبازشریف ٗ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے اور
طالبان سے مذاکرات کے سٹریٹیجک پہلوؤں پر بڑی تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا۔ انتظامات کو آخری
شکل دینے کے لیے وزیراعظم سے تفصیلی ملاقات کی۔ اِس کے بعد جنرل راحیل شریف سعودی عرب
روانہ ہو گئے جس کے حکمران اور امامِ کعبہٰ پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے اور طالبان کو
راہِ راست پر لانے میں ایک مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پچھلے دنوں تھنک ٹینک پائنا کے تحت ’’انسدادِ دہشت گردی کی ترجیحات‘‘ کے عنوان سے قومی سیمینار
منعقد ہوا جس میں مذاکراتی عمل کے نازک پہلوؤں پر خیال افروز گفتگو ہوئی۔ پروفیسر ابراہیم خاں
جن کوبعد میں طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا ہے ٗ اُنہوں نے ایک فقرے
میں پوری صورتِ حال کا یہ تجزیہ پیش کیا کہ ’’ہم طالبان کی خاطر فوج سے لڑ سکتے ہیں نہ فوج
کی خاطر طالبان سے ٹکر لے سکتے ہیں‘‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بہت بڑی تباہی
آ سکتی ہے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور جو تین مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب
ہوئے تھے ٗ 9/11کے بعد برطانیہ اور یورپ میں پیدا ہونے والی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔
اُنہوں نے آئرش ریپبلکن آرمی کی شکست کا تجزیہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ برطانویحکومت نے
گاجر اور چھڑی دونوں استعمال کیے تھے۔ اُن کے خیال میں طالبان بڑے ہوشیار اور بڑے شاطر ہیں۔
اِس لیے حکومت کو بہت غوروخوص کے بعد ایک جامع حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے۔خواجہ سعد رفیق
جو فکری پختگی کے علاوہ مردِ میدان بھی ہیں ٗ اُنہوں نے امن مذاکرات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا
کہ یہ ایک صبر آزما مرحلہ ہے اِس میں دونوں طرف سے غیر معمولی قوتِ برداشت کا ثبوت دینا ہو گا۔
اِس عمل میں بڑے مشکل مقام آئیں گے اور مذاکرات کا رشتہ بار بار ٹوٹتا محسوس ہو گا ٗ
مگر عوام اور فوج کی حمایت سے یہ پُل صراط عبور کیا جا سکتا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق
ڈائریکٹر مسعود شریف خٹک جو 1994ء کے کراچی آپریشن کے منصوبہ ساز تھے ٗ اُنہوں نے بتایا کہ
شہری شورشوں پر فقط سول آرمڈ فورسز ہی قابو پا سکتی ہیں جن کی اعلیٰ تربیت اور نہایت
برق رفتار انٹیلی جنس شیئرنگ کے انتظامات ہونے چاہئیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خاں
نے اپنے تجربات اور مطالعے کی بنیاد پر یہ مشورہ دیا کہ انتہا پسندی کی اصلاح اور دہشت گردی کا
خاتمہ ناگزیر ہے اور واضح کیا کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی ہر ملک میں خفیہ رکھی جاتی ہے۔
اِس حوالے سے سید منور حسن کا یہ بیان بھی قابلِ غور ہے کہ ’’فضائی بمباری سے امن قائم ہوتا ہے
نہ خودکش حملوں سے شریعت نافذ کی جا سکتی ہے‘‘۔ ہمیں اُمید ہے کہ وزیراعظم اِس پُل صراط
سے قوم کو گزارنے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔