روزمرہ زندگی میں بڑھتاعدم برداشت کا رجحان
تحریر :۔ جاوید ایاز خان
ہماری پارلیمنٹ اور ٹاک شوز میں میں آئے دن جو مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ وہ بے حد افسوس ناک ہیں۔
جہاں ایک دوسرے سے غصہ اور نفرت کا اظہار اور ایک دوسرے کی ذات پر الزامات اور کیچڑ اُچھالنے کے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ،
کروڑوں عوام کے ساتھ ساتھ ان کے منتخب نمائندوں اور سیاستدانوں میں بھی عدم برداشت کا رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
شاید یہ غیر مستحکم سیاسی نظام کے باعث ہو رہا ہے لیکن یہی سب کچھ ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بھی بنتا جارہا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم زوال پزیر ہونے لگتی ہے، تو اس میں عدم برداشت اور اس کے رویے تہذیب و شائستگی , اخلاق و کردار اور صبر وعمل سے عاری ہونے لگتے ہیں۔
لہجوں اور چہروں سے کرختگی اور غصہ کے تاثرات نمایاں ہو کر تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی اور غیر تعمیری سرگرمیاں ان کا محور بن جاتی ہیں۔
ہماری قوم اور اس کی نئی نسل بڑھتی ہوئی انا پرستی، غرور، لڑائی جھگڑے، حاصل لاحاصل ِ بحث و مباحثہ ،حسد ،کینہ و بغض ٖسے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
وطن عزیز میں باہمی احترام، رواداری، صلح جوئی اور امن وآ شتی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تعصب، نفرت، قتل و غارت گری، انتقام اور بربریت جیسی برائی فروغ پانے جا رہی ہے۔ مناظرے اور مباحثے پہلے بھی ہوتے تھے۔
اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی بات تحمل اور حوصلے سے سنی جاتی تھی لیکن اپنے رویوں اور اخلاقی اقدار کی روایتوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔
لیکن آج حالات اس کے برعکس ہوتے جا رہے۔ لوگ نرم لہجہ میں اظہار رائے کا سلیقہ اور طریقہ فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ نظریات کا جواب ذاتیات پر تنقید سے دینے کا رواج جنم پا رہا ہے۔ جو سب عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہیں۔ عام طور ہمارے مفکر اور دانشور عدم برداشت کی اصل وجہ کم علمی یا تعلیم کی کمی ہی کو گردانتے رہے ہیں،
مگر ہمارا نہایت تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ جو ہماری قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ جہاں ملک و قوم کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے جو پارلیمان ملک وملت کے مفادات ِ
ملکی سلامتی اور اس کی ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں وہاں اس طرح کے مناظر پورے معاشرے کی روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں مگر یہ سب کیوں؟
آئے دن ملک میں معمولی لڑائی جھگڑوں سے قتل و تشدد، خود کشی، طلاق اور خلع جیسے بڑھتے ہوئے واقعات بھی تعلیم یافتہ طبقے میں نسبتاً زیادہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
چھوٹی چھوٹی بات پر سڑکوں پر جھگڑتے لوگ، بچوں کی لڑائی میں شامل ہو کر آپس لڑنے والے ہمسائے، لین دین کے معاملات پر توتڑاخ اور ایک دوسرے پر تشدد یہ سب بظاہر پڑھے لکھے اور مہذب عام شہری ہیں۔
ہماری عدالتیں اس طرح کے کیسوں سے بھری پڑی ہیں۔ روز کسی نہ کسی وجہ سے ہم سڑکیں اور ٹریفک بند کر کے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ایمبولینسوں تک کا راستہ روک لیتے ہیں۔
عدالت، سرکاری دفاتر، ہسپتال، تعلیمی اداروں، شاپنگ مالز، بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ آپ کہیں بھی چلے جائیں آپ کو ہر انسان غصہ اور تکبر کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔
صبر وتحمل، محبت و اخلاص ناجانے کہاں کھو چکا ہے۔ یہاں تک کے تعلیمی اداروں کے بچوں اور جوانوں تک میں اکثر یہی عدم برداشت کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
جہاں وہ چھوٹی چھوٹی بات پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور صبر کا دامن ہاتھ سے نکل جاتا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ بری طرح اس موذی مرض کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے۔
اس کی بے شمار نفسیاتی، اخلاقی، معاشی مذہبی اور سماجی وجوہ ہیں۔
مثلاً جہالت،
غربت و بے روزگاری،
کم آمدنی اور اخراجات میں اضافہ،
مذہب سے دوری،
لسانی اور مذہبی تعصبات،
ملکی قانون اور حصول انصاف سے نااُمیدی،
پرانی خاندانی اور سی دشمنیاں،
یکساں نصاب تعلیم کا نہ ہونا اور معاشرتی عدم مساوات وغیرہ ۔
گو ہمارے معاشرے میں عدم مساوات کی بڑی طویل تاریخ ہے۔
جو ایک خاص طبقہ کو حکمرانی اور اختیارت بخشتی، امیر کو امیر تر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔
طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے جو معاشرہ میں احساس محرومی میں اضافہ کر رہا ہے۔
یہی احساس محرومی دیگر عوامل کے ساتھ مل کر ہمارے معا شرے میں عدم برداشت جیسی موذی بیماری پیدا کر رہی ہے۔
دنیا میں مساوی معاشرہ ہی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جہاں جہاں ترقی ہو رہی ہے، وہاں مثالی اور مساوی معاشرہ اُس کی وجہ نظر آتا ہے۔
پاکستان میں عدم مساوات اور احساس محرومی کی وجہ سے بھی عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ ترقی کے بجائے دن بدن پستی اور تنزلی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کی آج ہم دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
ہم دنیا میں ایک ایٹمی طاقت تو ہیں مگر معاشرتی و اخلاقی طور پر نہایت کمزور ہو کر رہ گئے ہیں۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ منفی رویے دراصل ہمارے اندر پوشیدہ مایوسی سے جنم لیتے ہیں ۔
انصاف اور حق رسی سے مایوسی لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے پر مائل کرتی ہے اور جرائم میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
مایوسی و محرومی کی ان وجوہات کی بنا پر نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے جو عدم برداشت کے رجحان میں مزید اضافہ کرتا نظر آتا ہے۔
اس معاشرتی المیہ کی وجوہات بے شمار ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف برداشت ہی ایسا ذریعہ ہے۔ جو معاشرے کو امن اور سکون مہیا کر سکتا ہے مگر یہ کیسے ہو گا؟ اور کس طرح ممکن ہے؟
عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ ہم آغاز اپنی ذات سے شروع کریں کیونکہ انفرادی مثبت رویہ بہت سے مثبت رویوں کو جنم دیتا ہے۔
صبر و تحمل اور بردباری و برداشت کو عادت بنا لیں اور بے جابحث مباحثہ سے اجتناب کریں۔
دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی سے پرہیز کریں لوگوں پر اپنی رائے اور سوچ مسلط نہ کریں،
بلکہ ان کے نظریات کا احترام کریں اور مسلمان ہونے کے ناطے اسلام کے بتائے گئے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔
کیونکہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے،
جس کی تعلیمات نے دنیا میں انسانی حقوق اور معاشرتی انصاف میں انقلاب پیدا کیا۔ برداشت و رواداری کا درس دیا ۔
جہاں پیغمبر انسانیت نے تمام انسانیت کے لیے رحم،
محبت،
پیار،
درگزر،
شفقت،
انصاف، کی تعلیم فرمائی۔
اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ حکومتی سطح پر یکساں تعلیمی نصاب رائج کیا جائے اور اس بارے میں اسلامی احکامات و تعلیمات اور پیارے نبی ﷺکی سیرت مبارک کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
تعلیم کے ساتھ تربیت کا عمل ماں کی گود سے شروع کریں،
پھر اسکول،
مدرسہ ،
مسجد ومنبر،
استاتذہ،
دانشور، صحافی،
سیاسی وسماجی راہنما۔
سب کو اجتماعی طور پر اس تحریک میں شامل کیا جائے۔
حکومت سیاسی استحکام اور مہنگائی کم کر کے ،
عوام کی معاشی ومشکلات میں کمی لانے اور ان کی پریشانیاں دور کرنے کی کوشش کرے۔
قانون پر عملداری اور انصاف کی بروقت فراہمی بھی حکومتی ذمہ داری ہے۔
کیونکہ کسی بھی معاشرے میں برداشت اور رواداری صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے،
جب لوگوں کی بنیادی ضروریات اور خواہشات پوری ہو رہی ہوں یا پوری ہونے کی امید ہو۔
سیاسی ،
سماجی ،
مذہبی
اور معاشی انصاف مل رہا ہو یا کم از کم ملنے کی امید باقی ہو۔
ہماری انفرادی، اجتماعی سوچ کی تبدیلی اور حکومتی مثبت پالیسوں کا تسلسل ہی
معاشرے کو اس بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
۞۞۞۞۞