27 C
Lahore
Thursday, October 24, 2024

Book Store

آپا! تم کہو تو ۔۔۔

✦ “آپا! تم کہو تو تمہیں بھی تمہارا حصہ دے دوں .
یوں بھی والدین کاگھر خالی ہی پڑا ہے ، میں تو کچھ دیر صفائی ستھرائی کے لیے جاتا ہوں ۔”

یہ وہ فقرے ہیں جو گزشتہ دوسال سے مسلسل دہرائے جارہے ہیں اور آپا بھائی کے جانے کے بعد بلکتے ہوئے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھ کر کہتی ہیں ۔

“کیا ضروری ہے آپا کہے ، حالات کاعلم نہیں ہے کیا ؟ آنکھوں سے نظر نہیں آرہا ؟ “

✦آپا اور باجی کا اکلوتا بھائی اسرار صرف صدف سے ہی بڑا تھا ابا تو غریب مزدور تھے ہی
لیکن بہنوں پر فوقیت دے کر اسرار کو تعلیم دلانا ضروری جانا اور اسرار کی
جھوٹی کتابیں چھوٹی صدف کے حصے میں آتی رہیں۔

✦پانچ دہائی پہلے کی معاشرت کے مطابق آپا اور باجی سترہ اور سولہ کی عمر میں بیاہ دی گئیں تھیں بدمزاج شوہر ، تلخ زبان نندیں اور بڑا سسرال گزارنا آسان نہیں ہوتا
مگر مٹی میں صبر شامل ہوتو وقت گزر ہی جاتا ہے ۔

آپا کے آنگن میں نو اور باجی کے گلشن میں پانچ بہاریں مسکرانے لگی تھیں جب اسرار نے بارہ جماعتیں پاس کیں ابا گویا موقع کی تاک میں تھے
عین اسی ماہ عزرائیل کا ہاتھ پکڑ کر چل دییے مگر بہنوں کی دعا سے قسمت نے یاوری کی
اگلے ماہ ہی سرکاری استادی کا پروانہ ہاتھ میں دھر دیا ۔ اور زندگی کی گاڑی خیروخوبی سے چل نکلی۔

اگلے سال صدف بھی سرکاری استانی ہوچلی ۔اب ماں بہنوں کو “اکلوتے ” کے سر سہرا سجانے کا ارمان جاگا
اور ایک اور سرکاری استانی “فرزانہ ” دلہن بنے گھر آگئیں ۔
اسرار کا گھر بیٹے اور بیٹی کی نعمت سے سرفراز ہوا اور ایک دن صدف بھی پیا گھر جا پہنچیں۔

اماں بھی ابا کی ہم مزاج نکلیں ساری زمیداریاں ادا ہوتے ہی جنت مکانی ہوئیں ۔

✦اسرار اور فرزانہ اس دوران گاڑی اور اپنے نیا بنگلہ خرید چکے تھے ۔
اماں کے کوچ کرتے ہی اپنا نیا آشیانہ بسالیا ۔

پرانے گھر میں والدین کی یادیں بسی تھیں سو اسے صاف ستھرا کرکے بند کردیا گیا ۔
اسرار ہر جمعرات وہاں جاتا ہے اور اماں ابا کو یاد کرکے چلا آتا ہے ۔

چند سال بعد صدف نے بھائی سے کہاکہ اس نے چار بچوں کی پرورش کے دوران کچھ رقم پس انداز کرلی ہے
اب اگر اسرار اسے وراثتی حصہ دے دے تو وہ اپنا ذاتی گھر خرید سکتی ہے ۔
اسرار نے صدف کی بات مان لی ۔ اور اسے حصہ دے دیا اسرار اب بھی ہر جمعرات والدین کے خالی گھر جاتا ہے
اور اماں ابا کو یاد کرکے چلا آتا ہے ۔

اسرار کے بچے خود انحصاری تعلیمی نشستوں پر پڑھتے ہوئے ڈاکٹر بنے اور اپنے چنیدہ میدانوں میں اسپیشلسٹ بھی ہوئے
دونوں بچوں کی دھوم دھام سے شادی کے بعد اسرار کی زندگی میں چار سو سکھ ہی سکھ ہے ۔
بہنیں خوش ہیں کہ باپ کا گھرانہ پھل پھول رہاہے ۔

✦باجی کے چاروں بیٹوں کی عمریں نکلی جارہی تھیں اور چھوٹا سا گھر بہت چھوٹا ہوگیا تھا بہت کوشش کے باوجود معاملات سنبھالے میں نہیں آرہے تھے کہ
ان کے بچوں نے ماں کو وراثتی حق لینے کی صلاح دی ۔ کئی بار باجی نے اسرار کو دبے الفاظ میں کہا بھی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا ایک دن باجی کے بیٹے اپنی ماں کو لیے ماموں کے پاس جاپہنچے
اور “کچھ نرمی گرمی “کے بعد اپنا حق لینے میں کامیاب ہوہی گئے ۔
اسرار اب بھی ہر جمعرات والدین کے گھر جاتا ہے اور اماں ابا کو یاد کرکے چلا آتا ہے ۔

✦سب سے بڑی آپا ، سب سے بڑا کنبہ ، سب سے زیادہ پریشانیوں میں مبتلا تھا سسرال کاگھر چھوٹا پڑا تو آپا کا گیارہ رکنی کنبہ کرایے کے مکان میں آبسا ۔
رفتہ رفتہ سات بچوں نے اپنے آشیانے آباد کرلیے اور والدین سے صرف رسما رسمی رہ گئی
دو برس قبل نماز سے واپسی پر بہنوئی صاحب حادثے میں ٹانگ تڑوابیٹھے بچوں نے وقتی طور پر علاج معالجہ کروایا
لیکن کل وقتی خدمت کے لیے کوئی میسر نہ تھا ۔ نتیجتآ گھر میں موجود دو میں سے ایک بچے کو
نوکری چھوڑنا پڑی ۔کرائے کے گھر میں دوادارو کے ساتھ ایک وقت میں روٹی بھی مشکل ہونے لگی ہے ۔
آپا کچھ کہہ نہیں سکتیں صرف سوچتی ہی رہ جاتی ہیں کہ اگر اسرار وراثت سے حصہ دے دے
تو ایک کمرے کامکان ہی خرید لیں کہ کرایے کی اذیت سے بچ جائیں ۔
آپا اپنے شوہر کے الفاظ کی لاج رکھتی ہیں جس نے ہمیشہ سمجھایا ” میرے ساتھ گزرے وقت کی مشکلیں کبھی میکے میں نہ بتانا”

اور اسرار ہرہفتے بہنوئی کی عیادت کو آیا کرتے ہیں سارا منظر دیکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ” آپا تم کہو تو !

————— ————— —————

کہیں آپ بھی ” آپا ” کے کہنے کاانتظار تو نہیں کر رہے ۔ آپ بہنوں کو حصہ دے

چکے ہیں نا !

شمع اختر انصاری

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles