صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
07/03/2014
ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات یوں تو 1974ء سے شروع ہو گئے تھے جب پیپلز پارٹی کے
سرگرم لیڈر جناب حیات شیر پاؤ پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں ایک خوفناک بم دھماکے میں
شہید ہو گئے تھے۔
اُس زمانے میں بھی دہشت گردی کی لرزہ خیز وارداتیں ہوتی رہیں جب افغان عوام حملہ آور سویت فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے تھے اور پاکستان اُن کی پشت پر کھڑا تھا۔
نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی قیادت میں اتحادی فوجوں کی یلغار نے ایک ایسی صورتِ حال
پیدا کر دی جس میں پاکستان فرنٹ لائن پر آ گیا
اور جنرل پرویز مشرف نے امریکی خواہشات کی تکمیل میں پاکستان کے ائیر بیس ٗ ہوائی گزرگاہیں
اور القاعدہ کی اہم شخصیتیں اُس کے حوالے کر دیں اور ’’بین الاقوامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ
میں شامل ہو گئے۔
تب سے پورے ملک میں خون خرابے کا ایک ہولناک سلسلہ جاری ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ
حکومت نے مذاکرات کے نام پر غیر ریاستی اور غیر قانونی تحریک طالبان پاکستان کو ایک فریق
تسلیم کر لیا ہے اور ’’سیز فائر‘‘ کے الفاظ سے واضح طور پر یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ
دو ملکوں کے درمیان جنگ ہو رہی تھی جو ایک ماہ کے لیے بند کر دی گئی ہے۔
دہشت گردی میں تعطل کے اعلان کے بعد اسلام آباد اور طورخم میں دہشت گردی کی جو لرزہ خیز وارداتیں ہوئی ہیں ٗ اُنہوں نے اِس دہشت گرد تنظیم کے بارے میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کر دیے ہیں۔
ایک یہ کہ وہ ڈبل گیم کھیل رہی ہے اور اِن خونیں واقعات کے پیچھے خود ہی کارفرما ہے اور اُس کی جانب سے ذمے داری جعلی تنظیموں ’’احرارالہند اور انصار المجاہدین‘‘ نے قبول کر لی ہے ۔
دوسرا یہ کہ وہ دہشت گردی کی عارضی بندش سے اپنے آپ کو فوج کے فضائی حملوں سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے جن سے اُس کے ٹھکانے تباہ ہو رہے تھے اور اِس کی عسکری طاقت کو بہت نقصان پہنچ رہا تھا۔
طالبان کے اِس اعلان پر بھی بہت سارے سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ وہ آئین کی حدود کے اندر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اہم سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ
وہ جب پاکستان کے آئین کو کفر پر مبنی دستاویز قرار دیتے ہیں ٗ تو اُس کے تحت مذاکرات کیسے کیے جا سکیں گے۔ دراصل وہ حیلہ جوئی سے کام لے رہے اور اپنے آپ کو منظم کرنے اور نئے محفوظ ٹھکانے بنانے کے لیے
زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔طالبان کی دہشت گردی کے محرکات کو سمجھنے کے لیے
ہمیں اُن کے مذہبی عقیدے کی بنیادیں تلاش کرنا ہوں گی۔ اُن کی دینی تعبیر کی رُو سے پاکستان کی
ریاست ایک طاغوت ہے جسے زیر کرنا یا اُس سے لڑتے ہوئے جان دے دینا اسلام کا اوّلین تقاضا ہے۔
وہ اِسی فکر کو سالہا سال سے پروان چڑھاتے آ رہے ہیں کہ حکمرانوں کے اعمال اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں
اور معاشرے میں قدم قدم پر اخلاق سوزی ٗ بے حیائی اور بدکرداری کے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امیر غریبوں کا خون چوس رہے اور عالیشان محلات
اور اپنی حفاظت کے لیے مضبوط قلعے تعمیر کر رہے ہیں ٗ لہٰذا اِس ظالمانہ نظام کو طاقت کے ذریعے
اُکھیڑ دینا لازم ہو گیا ہے۔ اُن کی باتوں کو کسی حد تک محروم اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات میں
پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
سادہ لوح انسانوں کی ذہنی تسخیر کے عمل کو علمائے کرام کی حکیمانہ کوششوں سے روکا اور اُسے
صحیح رُخ دیا جا سکتا ہے۔ وہ طالبان کو اِس بات پر قائل کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست
جو اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کرتی ہے ٗ اُنہیں اِس کی حاکمیت پوری یکسوئی سے
تسلیم کرنی چاہیے اور یہ حقیقت بھی کہ اسلام کے نزدیک ریاست ہی جہاد کے اعلان کا حق رکھتی ہے
اور اِس میں غیر ریاستی جہاد کا سرے سے کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اسلام نے اپنے پیروکاروںکو امیر
کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور عصرِ حاضر میں امیر کا مطلب حکومت ہے جو عوام کی مشاورت سے
وجود میں آتی ہے اور اُسے پُرامن طریقے سے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کے جدید مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے غیر ریاستی جہاد سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو 1948ء کے اوائل ہی میں بھانپ لیا تھا
اور جہادِ کشمیر کے حوالے سے یہ رائے دی تھی کہ جہاد کا اعلان فقط ریاست کر سکتی ہے۔
اُن کی اِس رائے کے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ بیشتر علمائے کرام نے اُن پر کڑی تنقید کی تھی
اور حکومت نے اُن پر ملک دشمنی کا لیبل چسپاں کر کے جیل میں ڈال دیا تھا۔ وہ کئی سال قید و بند کی
صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور وقت نے ثابت کیا کہ اُن کی رائے عظیم اسلامی حکمت پر مبنی تھی۔
دونوں طرف سے مذاکراتی ٹیموں کی تشکیل سے علماء اور سیاسی زعماء کو طالبان سے بات چیت کا
موقع دستیاب ہے جو تاریخ کی روشنی میں یہ حقیقت بیان کر سکتے ہیں کہ وہ دستور جس کی
تدوین میں اُس وقت کے تمام دینی قائدین نے حصہ لیا جس میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے
اور یہ بھی صراحت سے لکھا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکے گا
اُسے آپ غیر اسلامی کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ اگر اِن بنیادی نکات پر حکمت اور دانائی کے ساتھ ابلاغ ہوتا رہے
تو قومی امکان ہے کہ طالبان کا ایک بڑا حلقہ طاقت کے استعمال سے دستبردار ہو جائے گا اور اقتصادی اور سماجی ترقی اور اجتماعی عدل کے ذریعے اُسے قومی دھارے میں لایا جا سکے گا
تاہم وہ عناصرجو غیر ملکی ایجنڈے کے تحت فساد پھیلانے پر تُلے ہیں ٗ اُن کے ٹھکانوں پر فوج کو ٹارگٹڈ آپریشن کرنا ہو گا۔ اِس میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں ٗ کیونکہ خطے میں بڑے تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔
بھارت اور افغانستان میں انتخابات سر پر ہیں اور روس نے یوکرائن میں اپنی فوجیں اُتار دی ہیں
جس سے یورپ میں اکیسویں صدی کا سب سے بڑا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
اسلام آباد ٗ کراچی ٗ کوئٹہ ٗ پشاور اور بنوں میں دہشت گردی کے خوں آشام واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
ضلع کچہری اسلام آباد میں دہشت گرد 45 منٹ تک گولیاں چلاتے اور بڑی بے دردی سے گیارہ افراد کو
شہید کرتے رہے
میں ایڈیشنل سیشن جج جناب رفاقت اعوان اور جواں سال قانون دان فضہ ملک بھی شامل ہیں۔
تھانے سے کمک واردات کے
بعد پہنچی۔ CCTVکیمرے ناکارہ اور حفاظتی اقدامات بڑے ناقص تھے۔ اِس دہشت گردی کے خلاف جج صاحبان ٗ وکلاء اور سول سوسائٹی نے بڑے دکھ اور نہایت فولادی قوتِ ارادی کا اظہار کیا ہے۔
حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ پولیس کے نظام کو جلد سے جلد عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
اچھی شہرت کے حامل اور نہایت فرض شناس اعلیٰ پولیس افسر جناب ذوالفقار چیمہ بھارتی پولیس
کا مطالعہ کرنے کے لیے دہلی گئے۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہاں 42شہروں میں پولیس کمشنر یٹ سسٹم نافذ ہے
جس کے باعث جرائم میں کمی اور امن و امان کی صورتِ حال نسبتاً بہتر ہے۔
اِس نظام کی خوبی یہ ہے کہ پولیس کو ایک ادارے کے طور پر اپنے فرائض کی بجاآوری میں مکمل آزادی ہے
اور اُس کا پیشگی اور جوابی اقدام حیرت انگیز طور پرکسی رکاوٹ کے بغیر تیز رفتار ہے۔
پولیس کمشنر شہر میں امن و امان کا ذمے دار ہے اور اُس کی جڑیں مقامی کمیونٹی کے اندر بہت گہری ہیں۔ ہمیں بھی اِس نظام کو آزمانے کا عزم کر لینا چاہیے کہ شہروں کی صورتِ حال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔
دل میں رفو کا کام بہت نکلتا آ رہا ہے۔