عافیہ مقبول جہانگیر
امّاں چلو بھی نا۔ کتنی دیر ہو چکی۔ وہاں وہ لوگ ہمارے انتظار میں سوکھ رہے ہوں گے۔ زبیر کو ایک پل چین نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے؟
جب سے فیس بک پر اس پری وش، مہ وش، حور،ملکۂ حسن کا شاہکار اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا تھا تب سے دلِ بے قرار پھڑک پھڑک کر باہر کو یوں آ رہا تھا جیسے وہ اپنی شادی کے لیے لڑکی دیکھنے نہیں ،سٹیج پر گویا میڈل جیتنے کے بعد دنیا کے سامنے تقریر کرنے جا رہا ہو۔ خواتین و حضرات، یہ میری بیگم میں نے ایسے ہی حاصل نہیں کیں۔ ہزاروں اکاؤنٹ بنا ڈالے۔
طرح طرح کے ناموں سے نقلی آئی ڈیز بنا کر انھیں پھنسانے، میرا مطلب ہے رجھانے لبھانے کے بعد جا کر کہیں ان محترمہ نے تھوڑی سی لفٹ کروائی۔
لفٹ بھی کیا خاک کروائی سمجھو لٹھ مار انداز میں آپ کون؟ کیا کام ہے؟ جیسے ’’بد اخلاق‘‘ جملے بول کر گویا دل ناتواں ذبح کر ڈالا، مگر زبیر میاں بھی گُنوں کے پورے تھے۔ مجال ہے جو ذرا شک ہونے دیا ہو کہ وہ بالکل انجان، حیران، پریشان آدمیوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
بہت اعتماد سے دو چار ادبی، علمی باتیں گھڑ کر محترمہ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو ہی گئے کہ موصوف انتہائی اشرفیہ خاندان کے اکلوتے چشم و چراغ ہیں اور نہ صرف یہ خود بلکہ ان کا پورا خاندان جدی پشتی تعلیم ہتھیلی پر یوں لیے گھومتا ہے کہ کیا ہی کوئی بہادر جان لیے گھومتا ہو گا۔
بس پھر کیا تھا؟ محترمہ ان کی شکل و صورت کو قطعاً گھاس نہ ڈالتے ہوئے صرف ان کے علمی ’’رتبے‘‘ پر ہی دل و جان سے فدا ہو گئیں۔
بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور باتوں باتوں میں ہی پتہ چلا کہ محترمہ کے گھر والے آج کل ان کے لیے کسی موزوں شریف زادے کی تلاش میں اتنے چراغ لیے گھوم رہے ہیں کہ اب تو ان کے محلے والوں کو لوڈشیڈنگ کا بھی چنداں غم نہیں رہا۔ کیونکہ بتی جائے نہ جائے ،ان کے گھر کا ہر فرد چراغاں کرتا محسوس ہوتا ہے۔
ادھر زبیر نے بھی اپنی سب سے بہترین تصویر، جو بقول صرف اُسی کے، ہو بہو پرانے زمانے کے چاکلیٹ ہیرو وحید مراد سے کچھ ملتی جلتی تھی، وہی ڈی پی لگا ڈالی۔
(شکر ہے وحید مراد حیات نہ تھے ورنہ لوگ مرنے والے کا ماتم کیا کرتے ہیں وحید مراد کو اپنے زندہ ہونے پر پچھتاوے کا ماتم کرنا پڑتا)۔
خیر ہمیں موضوع سے بھٹکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ زبیر میاں کا بھٹکنا ہی کافی ہے اور وہ بھی در بدر۔ اس در بدر کی سمجھ آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اور جب تک آئے گی زبیر میاں اس بھٹکنے کے نتیجے میں اپنا سر پٹک رہے ہوں گے۔ تو ہوا کچھ یوں کہ ادھر ان محترمہ نے زبیر کی تصویر دیکھتے ہی اپنا دل کھویا تو وہاں زبیر نے ان کی ڈی پی دیکھتے ہی اپنا بِل کھویا۔
جی ہاں فون کا بِل جو پہلے صرف چند سو روپے تک محدود ہوتا تھا ،اب ہزاروں میں بھرا جانے لگا کیونکہ اب بات آگے بڑھ چکی تھی۔
تصاویر کو شرفِ قبولیت دونوں جانب سے بخشے جانے کے بعد فون نمبرز کا تبادلہ ہوا اور پھر گفتگو لا محدود ہوتی چلی گئی۔ کس کے گھر میں کیا پکا، سے لے کر کس نے کتنی روٹیاں کھائیں اور کس نے گھر والوں سے جوتے ڈانٹ پھٹکار، سبھی کچھ ایماندار محبوب ایک دوسرے سے شئیر کرنے لگے۔
عشق و محبت کی رومانوی باتوں میں وہ سچائی اور حقیقت پسندی کہاں، جو گھر والوں کی لعن طعن ایک دوسرے کو سنانے میں ہے۔ محبوب کی جھوٹی سچی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے لے کر ہر شاعر کی شاعری خود پر فِٹ کرنے میں وہ مزا کہاں جو گھر کے راز ایک دوسرے کو بتانے میں اپنائیت تھی۔
آج اماں نے کتنی بوٹیاں چھوٹے بھائی کو کھلائیں، ابا نے سستی اور لاپروائی پر بیچارے زبیر کو سوتیلی اولاد جیسا رویہ رکھنے تک کے طعنے دے مارے، یہ سب اپنی حور پری کو بتاتے ہوئی زبیر یوں آبدیدہ ہو جاتا جیسے واقعی وہ ابا کی سوتیلی اولاد ہو یا ایسا لے پالک ہو جو کسی دور کے غریب رشتے دار نے صلہ رحمی و خوفِ خدا کے ڈراوے اور اپنی غربت کے واسطے دے کر ابا کی جھولی میں ’’پھینک‘‘ دیا ہو۔
مہ وش، (جی ہاں محترمہ کا نام بھی مہ وش ہی تھا)، زبیر کے ان ظالم گھر والوں کے ظلم و ستم پر زبیر کے دکھوں میں برابر کی شریک ہوتی اور اسی آہ زاری و سسکیوں میں وعدے وعید کیے جاتے کہ جس دن میں آپ کے گھر آ گئی ،آپ کو ماں کا پیار باپ کی بپتا بھائی کا لاڈ اور بہن کا (نہیں نہیں توبہ توبہ) بہن کے سوا باقی سب پیاروں کی کمی محسوس تک نہ ہونے دوں گی۔ زبیر ٹھنڈی آہیں بھرتا اور جلد ہی اماں ابا کے ساتھ مہ وش کے گھر آنے کی یقین دہانی کرواتا۔
زبیر کی تو مانو عید ہو گئی جس دن ابا میاں نے اسے پاس بٹھا کر اس کے مُردوں سے شرط لگا کر سونے کی عادت سے پریشان ہو کر، خلافِ عادت پچکارتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ آخر اسے روگ کیا ہے؟
اب یہ اور بات کہ زبیر کو وہ پچکار کچھ کچھ سانپ کی پھنکار جیسی لگی جسے اس نے اپنا واہمہ سمجھ کے جھٹک دیا۔ ابا بیچارے سمجھتے تھے کہ وہ تمام دن چارپائی پر پڑا سویا رہتا ہے تو کہیں یہ کوئی بیماری تو نہیں؟ انھیں کیا خبر کہ زبیر سوتا نہیں بلکہ چادر کے اندر ایک عدد موبائل فون چھپا کر، گھر کی ذمہ داریوں سے آنکھیں بند کیے اپنی مہ وش کو اپنے نادیدہ دکھوں کا حال بتانے میں مشغول ہوتا ہے۔
باپ تو پھر باپ ہوتا ہے۔ ابا میاں کو بھی اپنی اس ناخلف اولاد پر ترس آ ہی گیا اور انھوں نے زبیر کی اماں سے صلح مشورہ کر کے حل یہ نکالا کہ برخوردار شدید قسم کی تنہائی کا شکار ہو چکے۔ اس سے پہلے کہ یہ بیماری ان کے سپوت کو کہیں کا نہ چھوڑے( یا شاید ابا میاں کو کہیں منہ دکھانے لائق نہ چھوڑے) کیوں نہ زبیر کی شادی کر دی جائے۔ زبیر سے اس کی پسند پوچھی گئی تو اس نے جھٹ سے کہا کہ اس کے ایک دوست کے جاننے والے ہیں۔
ان کو بھی اپنی بیٹی کے لیے کسی مناسب بَر کی تلاش ہے۔ تو کیوں نہ انھیں مناسب کے بجائے ’’بہترین‘‘ مِلے۔ غریب ہیں تو کیا، بہترین پر غریب کا حق پہلے ہوتا ہے۔ گھر والے زبیر کی اس اعلی ظرفی پر خوشی سے نہال ہو گئے۔
ابا میاں کو اچانک ہی اپنی یہ اولاد اللہ کا انعام لگنے لگی جو انھیں ضرور کسی نیکی کے عوض ملی تھی اور جو انھیں جنت لے جائے گی۔
ہاں زبیر نے اتنا ضرور بتا دیا کہ اس نے لڑکی کو کبھی نہیں دیکھا صرف ایک آدھ تصویر دیکھی ہے، وہ بھی بس دوست نے فیس بک پر دکھائی تھی۔
ابا میاں کیا جانیں فیس بک کس بلا کا نام ہے۔ وہ تو اسے غیبی مدد سمجھے اور چلنے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
زبیر نے مہ وش سے کہا کہ اگلی اتوار زبیر مع ابا اماں ان کے گھر آئے گا اور پھر ایک حسین زندگی کی شروعات ہو گی۔
٭٭٭٭٭
زبیر اماں ابا کے ساتھ مہ وش کے گھر ہونقوں کی طرح منہ کھولے سامنے بیٹھی لڑکی کو تک رہا تھا جو کسی طور مہ وش کی تصویر سے میل نہیں کھاتی تھی۔
کہاں وہ نیلی آنکھوں والی حسین نین نقش کی مالک دبلی پتلی، کمان سے ابرو، لامبی گھنیری پلکیں، حسین و شادابی رنگت، ملکوتی لب ورخسار اور کہاں یہ سامنے بیٹھا گوشت کا پہاڑ۔
رنگت توے سے بس تھوڑی ہی الگ، جیسے برتن دھونے والی لوہے کی جالی رگڑ رگڑ کر کالے بھجنگ توے کو گہرا بھُورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چڑیا کے گھونسلے نما بال، جو زلفیں کم اور جلا ہوا بھوسا زیادہ لگ رہے تھے۔ زبیر کی آنکھوں کے سامنے مہ وش کی لمبی دراز ریشمی زلفیں لہرانے لگیں۔ چھوٹا سا قد، بے تحاشہ وزن دار، موٹے موٹے بھدے نین نقش لیے یہ لڑکی نما چیز کسی طور مہ وش نہیں ہو سکتی تھی۔
اس کے حلق سے بے ساختہ چیخ نما آواز نکلی،
’’نہیںںںں۔‘‘
’’ہاں ہاں بیٹا! میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ ہم جہیز نہیں لیں گے۔‘‘ ابا میاں اپنا ہی راگ آلاپ رہے تھے۔
’’ابّاااا ! اب کی بار زبیر باقاعدہ کراہا۔
’’کیا ہے ؟‘‘
ابا نے خشمگیں نگاہوں سے بیٹے کو گھورا۔ انھیں ڈر لاحق ہوا کہ کہیں زبیر اس معصوم سی اللہ میاں کی گائے ،(گائے کی تشبیہہ ابا کا صحیح اندازہ تھا) سے شادی کرنے سے مکر گیا تو اچھا بھلا ہاتھ آیا نیکی کا موقع ضائع ہو جائے گا۔
اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اگر( خدانخواستہ) وہ غیر مذہب کے ہوتے تو اسی وقت زبیر کا انگوٹھا کیک کاٹنے والی چھری سے چیر کر چِلّاتے،
’’اُٹھ بیٹا ،میری ہونے والی بہو رانی کی مانگ بھر دے۔‘‘ انھیں اس بات سے کیا سروکار کہ وہ بہو کم اوربچوں کو ڈرانے والا بھاؤ زیادہ لگ رہی تھی۔
’’امّاں…یہ وہ نہیں ہے۔‘‘
ابا کی طرف سے مایوس ہو کر امّاں کو مدد کے لیے پُکارا۔
’’اے کیا وہ نہیں ہے، وہ نہیں ہے کی رٹ لگا رکھی ہے۔‘‘ امّاں نجانے کیوں بیزار بیٹھی تھیں۔
مہ وش نے موٹی موٹی بھینس جیسی آنکھیں گھمائیں اور زبیر کی طرف دیکھ کر غیر ضروری شرمانے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولی:
’’زوبی، یہ میں ہی ہوں تمہاری مہ وش۔ دیکھو تو کیسے کہہ رہے ہو کہ مجھے نہیں جانتے۔ کہو تو ثبوت دے دوں۔ یاد کرو، پچھلے منگل ہی تم نے بتایا تھا کہ ٹینڈے کھانے سے تمہارا پیٹ خراب ہو گیا تھا اور تم ساری رات غسل خانے کے چکر کاٹتے رہے تھے۔ آیا یاد؟‘‘
مہ وش نے ایسا گھٹیا راز سب کے سامنے کھول کر زبیر پر گھڑوں پانی ڈال دیا۔ اماں، ابا نے چونک کر زبیر میاں کی طرف دیکھ کر کلستے ہوئے سوچا،
’’ناہنجار کہتا تھا کبھی بات نہیں ہوئی لڑکی سے‘‘، اُوپر سے ’’ایسی‘‘پریم کہانی؟ یہ بھی کوئی باتیں ہیں بتانے والی۔ دُر فٹے منہ…
’’ہو سکتا ہے مہ وش نے تمہیں ساری باتیں بتائی ہوں۔ ہو سکتا ہے تم اس کی کوئی دوست ہو اور اپنے ہونے والے بہنوئی سے مذاق کر رہی ہو۔ ابھی سے شرارتیں شروع…؟‘‘ زبیر نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’افوہ! اب میں تمہیں کیسے یقین دلاؤں؟ اچھا سنو! دیکھو ابھی میں اپنی ایک سیلفی اتارتی ہوں۔ تم خود جان جاؤ گے کہ وہ میں ہی ہوں۔‘‘
مہ وش کسی معجزے کی بات کر رہی ہے۔ یہ شاید پاگل ہے یا مجھے بنا رہی ہے۔ زبیر نے سوچا۔
مہ وش نے کھٹاک سے اپنی ایک عدد سیلفی کھینچی اور مسکراتے ہوئے اپنا موبائل زبیر کوتھما دیا۔
’’دیکھو اب اس تصویر کو اوپن کرو۔‘‘
’’ہاں کِیا…؟ زبیر نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کی ہدایت پر عمل کرنے میں ہی عافیت جانی۔ اب کچھ تو کرنا ہی تھا اس مخمصے سے نکلنے کے لیے۔
’’اب فلٹر اوپن کرو۔‘‘
زبیر کو اس کی ذہنی حالت پر ایک بار پھر شبہ ہوا۔ یہاں اس کی جان پر بنی تھی اور اسے تماشے سوجھ رہے تھے۔ اماں ابا چپکے بیٹھے تھے۔ صرف لڑکی کی ماں مطمئن انداز میں بیٹھی چائے کے سڑپ سڑپ گھونٹ بھرتی اپنی بیٹی کو فخریہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’اب فلٹر نمبر ایک منتخب کرو۔‘‘ مہ وش نے اگلی ہدایت دی۔
ہاں کر دیا…ہیں! یہ کیا؟ تصویر میں موجود چہرے کی رنگت یک دم چاند سے بھی دودھیا ہو چکی تھی۔
’’اب فلٹر نمبر دو دباؤ۔‘‘ اگلا حکم آیا۔
’’جی جی ، دبایا۔‘‘ زبیر نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
یہ کیا؟ غبارے جیسا پھولا چہرہ ایک دم دبلا پتلا کسی سترہ اٹھارہ سال کی نازک دوشیزہ میں تبدیل ہو گیا تھا۔
’’ اب فلٹر نمبر تین میں جاؤ۔‘‘
زبیر نے تین پر کلک کیا۔ اب یہ کیا …؟ آنکھیں ایک دم نیلی نیلی اور ہرنی جیسی بڑی چمکدار ہو گئیں۔
زبیر کبھی موبائل کی اسکرین دیکھتا تو کبھی سامنے بیٹھی جیتی جاگتی بھوتنی کی طرف۔ بے یقینی سے اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا۔
’’اب فلٹر نمبر چار پر جاؤ۔‘‘ مہ وش نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
اب کی بار زبیر نے بغیر کچھ کہے نمبر ۴ کلک کر دیا۔ لمبی گھنی زلفیں اس چمکتے دمکتے حسین چہرے کا طواف کرنے لگیں۔
’’اچھا اب آخری بٹن، فلٹر نمبر پانچ دباؤ، پھر دیکھنا جادو۔‘‘ مہ وش جوش سے بولی۔ (اب تک جو ہو رہا تھا ، وہ کون سی حقیقت تھی، جادو ہی تو تھا)
ؔتجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
آخری فلٹر دباتے ہی تصویر میں موجود بے ڈول ڈھول جیسا جسم کسی خوبصورت جل پری کے سراپے میں ڈھل چکا تھا۔
زبیر میاں کے ماتھے پر آئی پسینے کی بوندیں موبائل اسکرین پر ٹپک ٹپک کر اس حسینہ کے چہرے پر شبنم کے قطروں کا کام دے رہی تھیں۔
ابا میاں، جو اس ساری کارروائی کے دوران زبیر کے گھٹنے سے اپنا گھٹنا جوڑے بیٹھے یہ سارا ’’ڈیجیٹل انسان‘‘ وجود میں آتا دیکھ رہے تھے، اب ساری بات سمجھ چکے تھے۔
انھوں نے گہرا سانس لیا اور غرّا کر زبیر سے کہا۔
’’گھر چل…تیری شادی اب اِسی سے ہو گی۔‘‘
’’پر ابّا…؟؟‘‘ زبیر میاں کھڑے ہوتے ہوتے لڑکھڑا گئے۔
’’ہاں ہاں ، اِسی سے ہو گی… موبائل سے۔‘‘