سلسلے وار ناول
بلال صاحب
چھٹی قسط
موچی بابا جمعہ
شکیل احمد چوہان
بلال اپنے آفس میں داخل ہوا۔ فوزیہ اس کے استقبال میں کھڑی ہو گئی۔ بڑا خوبصورت اور دلکش آفس، روشن اور خوبصورت رنگوں کا امتزاج، آفس میں داخل ہوں تو سامنی دیوار پر خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ کی تصاویر خوبصورت فریموں میں سجی ہوئی آویزاں تھیں۔
’’السلام علیکم سر۔‘‘
فوزیہ نے جوش کے ساتھ کہا، ’’سر آج آپ پہلی دفعہ لیٹ ہوئے ہیں۔‘‘
’’وعلیکم السلام۔ ‘‘ جتنا تم مسکا لگاتی ہو، اتنا کام بھی کیا کرو۔‘‘ بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’سرگیسٹ آئے ہیں۔‘‘ فوزیہ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بلال نے صوفے کی طرف دیکھا۔ دو ویل ڈریس اور فیشن ایبل خواتین صوفے پر بیٹھی تھیں۔ اس سے پہلے بلال کہ اُن سے بات شروع کرتا، پنڈی ایکسپریس اندر آ چکی تھی۔ ’’
بلال کہاں ہے؟‘‘ وہ زور سے بولی، بلال کو دیکھ کر رک گئی، جیسے اس کی چین کسی نے کھینچ دی ہو۔ بلال نے اپنائیت سے پوچھا:
’’جی بھابھی…! فرمائیں… آپ آئیں ادھر بیٹھیں۔‘‘ اپنے ٹیبل کے سامنے والی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا اور ترچھی نگاہوں سے ان دو خواتین کی طرف منہ کر کے بولا:
’’ Excuse me, I will be back
(معاف کیجیے میں آتا ہوں)‘‘
فوزیہ کو چائے بسکٹ وغیرہ کے لیے کہا اور خود بھابھی فرح کے سامنے اپنی چیئر پر بیٹھ گیا اور مسکراتے ہوئے بولا:
’’جی بھابھی آپ کیسے راستہ بھول گئیں۔‘‘
’’بلال یہ کیا بات ہوئی، میرے بچوں کے ساتھ غریب غربا لوگوں کے بچے پڑھیں گے، بچوں کا ماحول خراب ہوتا ہے اس سے ‘‘فرح نے خفگی سے کہا ۔
’’اچھا یہ بات ہے …بھابھی وہ سارے بچے انتہائی لائق اور ذہین ہیں۔ میں نے خود سب کا ٹیسٹ لیا تھا۔ اس کے بعد ہی انہیں ایڈمیشن ملا۔‘‘ بلال نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہیں تو وہ سارے غریب گھرانوں کے بچے۔ ‘‘ فرح نے دوٹوک کہہ دیا۔
’’صرف غربت …اس کے علاوہ کوئی اور عیب یا برائی ان بچوں میں…؟‘‘ بلال نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا
’’یہ کیا کم ہے…؟ ‘‘ فرح نے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔
’’کسی بڑے آدمی نے کہا ہے، غریب کے گھر پیدا ہونا کوئی گناہ نہیں مگر غریب ہی مر جانا گناہ ہے اور میں صرف ان کی مدد کر رہا ہوں کہ بچے صرف غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں اور غریب ہی نہ مرجائیں۔ ‘‘
’’تم اسکول چلا رہے ہو یا خیراتی ادارہ؟ ‘‘ فرح نے اَبرو چڑھاتے ہوئے تیکھا سا سوال کیا۔
’’میں صرف اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔‘‘ بلال نے کہا۔
وہ دونوں عورتیں ٹکٹکی باندھے یہ ساری گفتگو سن رہی تھیں۔ فوزیہ واپس آ چکی تھی اور آفس بوائے ان کے سامنے چائے اور بسکٹ رکھ رہا تھا۔
’’بھابھی…! آپ کے والد صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی، پچھلے سال جب ہم لوگ مری گئے تھے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی محنت سے سول سروس میں آئے اور اسی احساس نے انہیں اعجاز جنجوعہ کی مدد کے لیے راہنمائی دی ۔
اعجاز جنجوعہ آ پ کے خاوند نے مجھے بتایا کہ اگر میرے خالو چوہدری جبار ہماری مدد نہ کرتے تو نہ تو وہ پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس شہر کے بڑے ٹھیکیدار بن سکتے تھے۔ یہ آپ کے ساتھ دو خواتین بیٹھی ہیں۔ مسز نقوی اور مسز عباسی۔
نقوی صاحب اس شہر کے بڑے ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد صاحب لاہور مصری شاہ میں گیس کٹر چلاتے تھے اور میجر عباسی نے بھی مجھے خود بتایا ان کے ابا گجر پورہ لاہور میں تانگہ چلاتے تھے۔ مجھے آ پ سے زیادہ آپ کے بچوں کی فکر ہے مجھ پر اعتماد کریں۔ میں آپ کے اعتماد کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔ ان شاء اللہ۔‘‘
بلال نے دھیمے لہجے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا ۔
’’چلیں بھابھی ادھر آئیں چائے پیتے ہیں۔ ‘‘ بلال نے احترام سے کہا ۔ چائے پینے کے دوران مسز عباسی نے انگلش پر ہاتھ صاف کیا۔
’’Can you give me some information about this?
(کیا اس بارے میں مجھے کچھ معلومات فراہم کرسکتے ہیں)‘‘
’’جی بالکل۔ ‘‘ بلال نے تفصیل بتانا شروع کی :
’’ہم نے کل 40 بچوں کا انتخاب کیا ہے۔ ہر کلاس میں چار بچے۔ ان تمام بچوں کو کتابیں اور یونیفارم اسکول فراہم کرے گا۔ فیس ان کی معاف ہو گی اور انہیں پاکٹ منی بھی دی جائے گی اور سب سے بڑی بات ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ اس لیے ان بچوں کا علم میرے اور فوزیہ صاحبہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے۔
اور سچی بات یہ ہے اس سے ہر کلاس کا ماحول بہتر ہوا ہے کیونکہ میں نے بچوں کو احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ تعلیم سب کا حق ہے ۔ امیر ہو یا غریب…‘‘
بلال کے خاموش ہوتے ہی مسز نقوی نے اپنی بات کا آغاز کر دیا :
’’What a Wonderful Idea
(کتنا زبردست خیال ہے)‘‘
مسز عباسی نے ان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ اپنی صراحی کی طرح لمبی گردن کو اثبات میں جنبش دیتے ہوئے۔
بلال کا اقرا ہائی اسکول الگ طرح کی درسگاہ ہے۔ جہاں تعلیم سے زیادہ تربیت دی جاتی ہے۔ کتابیں کم ہیں۔ جہاں اردو، عربی، فارسی اور انگلش پڑھائی نہیں جاتی بلکہ بچوں سے صرف بولی جاتی ہے اس اسکول کے Subject بھی مختلف ہیں۔
قرآن مجید پہلا مضمون جو اُردو ترجمے کے ساتھ پڑھایا جاتا اور سمجھایا جاتا۔ اس کے علاوہ صرف تین مضمون اور تھے سائنس، میتھ اور کمپیوٹر۔
اقرا ہائی اسکول میں سالانہ امتحان دسمبر میں ہوتے یکم دسمبر سے 15 دسمبر تک 25 دسمبر کو رزلٹ اور یکم جنوری سے نئی کلاسوں کا آغاز صرف بورڈ کے امتحانات میں وہ پنجاب بورڈ کے مطابق چلتا۔
بلال احمد کا ماننا تھا کہ عمل کی زبان سب سے آسان ہوتی ہے ۔ وہ ٹیچرز کا انتخاب خود کرتا۔
جو باعمل ہوتے انہیں کسی ایک زبان پر عبور حاصل ہوتا۔ جو کسی بھی ایک فیلڈ میں ماہر ہوتے یا کسی ہنر میں مہارت ہوتی۔
اس کا ماننا تھا کہ جو انسان اپنی ذات سے محبت نہیں کرتا وہ دوسروں سے خاک محبت کرے گا۔ اس کے نزدیک اپنی ذات سے محبت کا پیمانہ بھی الگ ہے۔
جو ورزش نہ کرتا ہو، جو اپنے گھر والوں کو وقت نہ دیتا ہو۔ جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اور جو فرائض ادا نہ کرتا ہو جو اس کے ذمے شریعت نے لگائے ہیں وہ اچھا ٹیچر تو کیا اچھا انسان بھی نہیں بن سکتا۔
وہ ہر کلاس میں ہفتے میں ایک بار ضرور جاتا۔ بچوں سے ہر ٹاپک پر بات کرتا ان کی سنتا اور اپنی سمجھاتا۔
وہ بچوں کو ہنر سکھاتا اور اپنا کام خود کرنے کی تلقین کرتا۔ اسی لیے اس نے ہنر والے اساتذہ بھی رکھے ہیں جو بچوں کو اُن کی عمر کی مناسبت سے ہینڈی کرافٹ، الیکٹریکل اور مکینیکل کی تعلیم دیتے۔
بلال چاہتا ہے کہ اُس کے سکول کے سارے بچے سیلف میڈ ہوں اور فنونِ لطیفہ کے ماہر بھی۔ اس کا ماننا ہے۔ علم والا وہی ہے جو عمل کرتا ہے۔
عصر کے بعد بلال حسب معمول بابا جمعہ کے پاس گیا جو اپنے کام میں مصروف تھے۔ ان کے پاس ایک لڑکا عمر تقریباً 25 سال ہو گی، اپنے جوگر شوز سلائی کروارہا تھا اور بابا جمعہ سے ملکی حالات پر بحث میں مصروف تھا۔
وہ بابا جمعہ کی پرسنالٹی سے بہت متاثر ہوا اور ان کے نالج کی تعریف کر رہا تھا۔ اس لڑکے نے کہا:
’’آپ کافی تعلیم یافتہ لگتے ہیں۔ ‘‘
’’صرف میٹرک …‘‘ بابا جمعہ سلائی کرتے ہوئے بولے۔
’’میٹرک صرف میٹرک۔ ‘‘وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس کے چہرے پر تجسس تھا۔ بابا جمعہ سلائی کر کے فارغ ہو چکے تھے۔ وہ اس کے چہرے کی حیرانی دیکھ کر بولے:
’’بیٹا جی…! کیا ہوا آپ کو…؟ ‘‘
’’میں نے جس ٹاپک پر آپ سے بات کی، آپ ایک ماہر لیکچرار کی طرح پریزنٹیشن دے رہے تھے۔ آپ ٹپیکل موچی تو نہیں لگتے۔ آپ ایک وژنری پرسنالٹی ہیں۔ ‘‘
اس نے بابا جمعہ کی تعریف میں بھاشن دے ڈالا۔
بلال اس کے پیچھے کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بابا جمعہ نے اس لڑکے کے جوگر سلائی کر کے شاپر بیگ میں ڈال کر اس لڑکے کو تھما دیے۔
’’بیٹا چائے پیو گے؟‘‘ بابا جمعہ نے اس لڑکے سے پوچھا۔
’’جی وہ …جی ہاں ضرور…ضرور…‘‘ وہ یکایک بولا۔
’’بلال صاحب…! تین چائے کا اقبال کو فون کر دو۔‘‘
بلال نے اپنا پرانی وضع کا موبائل نکالا اور اقبال چائے والے کو فون کر دیا جو پیچھے بازار میں چائے کی دکان چلاتا ہے۔ اقبال چائے والے کی دکان چرڑ گائوں کے بازار میں واقع ہے۔
چرڑ گاؤں آج سے تقریباً 40 سال پہلے لاہور شہر سے باہر ایک پسماندہ گاؤں تھا۔ اس تک رسائی کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ بھی موجود نہیں تھا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اسی گاؤں اور کچھ اور دیہاتوں کے زرعی رقبے پر تعمیر ہوئی۔
بڑھتے ہوئے آبادی کے طوفان نے زرعی رقبوں پر نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا یہ علاقہ گلبرگ کی طرح لاہور شہر کا پوش ترین علاقہ ہے۔ یہ گاؤں ڈیفنس کے تین بلاکس Z.J.K کے درمیان واقع ہے۔
یہ گاؤں غریب اور مڈل کلاس لوگوں کی بستی ہے ۔ ان کا روزگار ڈیفنس کے گھروں سے وابستہ ہے۔ غریب عورتیں مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں اور مرد کوئی سبزی کا کام کرتا ہے، دودھ والا کریانہ سٹور، مالی، ڈرائیور، سکیورٹی گارڈ، مستری، مزدور ، موٹر مکینک ، کارپینٹر اور موچی جی ہاں موچی…
بابا جمعہ بھی موچی ہے۔ چرڑ گاؤں سے ڈیفنس میں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ گاؤں کے علاقے میں مین روڈ سے پہلے یعنی غازی روڈ جو ڈیفنس سے گزر کر بھٹہ چوک تک جاتی ہے ۔
دائیں ہاتھ بابا جمعہ کا موچی خانہ آباد ہے۔ بائیں ہاتھ گاؤں کی نورانی مسجد ہے۔ مین روڈ کی دوسری طرف LESCO Office سے پہلے بس اسٹاپ ہے۔ بابا جمعہ کا موچی خانہ اور بس اسٹاپ آمنے سامنے ہیں۔
بابا جمعہ کا موچی خانہ بھی بابا جمعہ کی طرح صاف ستھرا ہے۔ وہ لکڑی کے ایک چھوٹے تخت پوش پر بیٹھتے ہیں جو چھوٹے نالے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
وہ نالہ اُوپر سے سیمنٹ کی پلیوں سے ڈھکا ہوا ہے جو بالکل ایک سیمنٹ کے بنچ کی مانند ہیں۔ بابا جمعہ کے تخت پوش کے نیچے ایک بلّی اکثر بیٹھی رہتی ہے۔ بابا جمعہ کے پیچھے Zبلاک کی کسی کوٹھی کا لان ہے۔ جس کے اندر بے شمار پھولوں کے پودے لگے ہوئے ہیں اور ایک بڑا نیم کا درخت اور ایک شہتوت کا درخت بھی موجود ہیں۔ ان دونوں درختوں کا جھکائو گلی کی طرف ہے جہاں بابا جمعہ بیٹھے ہیں کیونکہ وہ دونوں درخت تقریبا اس دیوار کے ساتھ ہیں جو Zبلاک اور گائوں کو جدا کرتی ہے۔ بابا جمعہ کے دائیں ہاتھ سڑک کی جانب بجلی کا کھمبا ہے جوکہ قدرے آگے کی طرف ہے۔ کھمبے کے ساتھ پانی کا ایک گھڑا پڑا ہوا ہے اور ایک لکڑی کا چھوٹا سا اسٹول بھی ہے۔
بابا جمعہ کے اوپر نیم کا درخت اور ساتھ شہتوت کا درخت سائبان کیے ہوئے ہیں اگر کچھ کمی تھی تو وہ فائبر کی بنی گرین شیٹ نے پوری کردی جوکہ بریگیڈیئر امان اللہ نے لگوائی تھی۔ دھوپ اور بارش سے بچائو کے لیے بریگیڈیئر صاحب بھی بابا جمعہ سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سے پرمیشن لے کردی تھی بابا جمعہ کے موچی خانہ کی اور ماہانہ فیس بھی وہ خود ادا کرتے ہیں۔
بابا جمعہ سے کوئی ان کی عمر پوچھے تو پاکستان کا ہم عمر بتاتے ہیں۔ سفید لباس میں ملبوس ململ کا کرتہ اور پائجامہ پہنتے ہیں جوکہ دودھ کی طرح سفید ہی ہوتا ہے۔ کام کرتے وقت اون کے بنے دستانے یعنی گلوز پہنے رکھتے ہیں ۔ پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ ظہر، عصر، مغرب سامنے والی مسجد میں اور باقی دو اپنے گائوں کی مسجد میں بابا جمعہ کماہاں گائوں کے رہنے والے ہیں جوکہ ان کے موچی خانہ سے تقریباً4کلومیٹر دور ہے۔ صبح فجر کی نماز پڑھ کر ناشتے سے فارغ ہوکر اپنے کام پر پیدل آجاتے ہیں اور مغرب کی نماز پڑھ کر واپس گھر چلے جاتے ہیں۔ یہ ان کا تیس سال سے معمول ہے۔
اقبال چائے والے کا چھوٹا ببلو چائے لے کر آ گیا۔ بابا جمعہ نے لکڑی کا سٹول آگے کر دیا۔ بلال شوز اتار کر اوپر بنی جگہ پر بیٹھ گیا جوکہ نالے کے اُوپر تھی۔ وہ لڑکا پائوں لٹکا کر نالے کے اوپر بیٹھ گیا بلال کافی عرصہ پہلے ایک کارپٹ کا ٹکڑا خرید کر لایا تھا جو بیٹھنے کے کام آتا تھا۔ یہ دونوں اسی کارپٹ کے ٹکڑے پر بیٹھے تھے ۔ بلال نے چائے کپوں میں ڈالی وہ تینوں چائے پینے میں مصروف ہوگئے ۔
’’آپ بابا جمعہ خاں میواتی ہیں۔‘‘ بلال نے ادب سے بابا جمعہ کا تعارف کروایا۔
’’میرا نام ملک بلال احمد ہے۔۔۔ اور آپ۔۔۔؟‘‘ بلال نے سوالیہ نظروں سے اُس لڑکے کی طرف دیکھا۔
وہ لڑکا چائے پیتے ہوئے بولا:
’’میرا نام عادل عقیل ہاشمی ہے اور میں اب تک کنفیوژ ہوں ‘‘
’’کس بات پر …‘‘بابا جمعہ نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ کہ آپ کی تعلیم صرف میٹرک ہے … آپ تو زمانے بھر کے علوم کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ وہ کیسے؟ میں سمجھنا چاہتا ہوں ‘‘عادل نے حیرت سے پوچھا۔
’’اندھوں میں کانا راجا … کیاپدی کیا پدی کا شوربا؟‘‘ بابا جمعہ نے پرنم لہجے میں جواب دیا۔ عادل اور بلال بابا جمعہ کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ بابا جمعہ نے بغیر تمہید کے بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ کہا :
’’بچے…! اب لوگوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر علم اور تعلیم و تربیت کے بغیر یہ ایسے ہی ہے ماشکی کے پاس مشک تو ہو مگر اس کے اندر پانی نہ ہو، جسم تو ہو مگر اس جسم میں روح نہ ہو۔ علم روح کی طرح ہلکا لطیف ہے۔ علم اور عمل متوازی روح اور جسم۔
جس طرح روح اور جسم ساتھ ہیں مگر روح نظر نہیں آتی صرف جسم نظر آتا ہے اسی طرح علم اور عمل ساتھ ساتھ ہیں۔ بندے کا کمال یہ ہے کہ علم کو چھپائے اور عمل کر کے دکھائے۔ بیٹا یاد رکھو عزت ہمیشہ ان کی ہوئی جنہوں نے علم پر عمل کیا، مگر اب ترتیب غلط ہوگئی ہے لوگ صرف کھوکھلے علم سے خالی مشک کی طرح عمل کے بغیر عزت، شہرت، روپیہ کمانا چاہتے ہیں۔ ‘‘بابا جمعہ نے شائستگی سے مسحور کن انداز میں اپنی بات مکمل کی مگر عادل کی تشفی نہیں ہوئی اس نے ایک اور سوال داغ دیا۔
’’مگر بابا جی میرا سوال کچھ اور تھا …میں نے آپ سے سورس آف نالج پوچھا تھا ‘‘
’’دیکھو بیٹا…! آپ میری معلومات کو علم سمجھ رہے ہو۔ ان دونوں کو الگ کرو تو بات سمجھ آئے گی ۔ میری آپ سے جتنی بات ہوئی تھی، وہ دنیاوی معلومات تھیں۔ اس میں علم کی بات تو کوئی بھی نہیں تھی۔ آپ نے معلومات لینی ہے تو اخبار پڑھو اور اگر آپ علم کے طالب ہو تو قرآن پڑھو ترجمے کے ساتھ اور غوروفکر کرو اور جہاں تک میری بات ہے تو میں بے علم بے عمل ایک حقیر سا بندہ ہوں ‘‘بابا جمعہ کچھ دیربعد دوبارہ بولے جیسے اپنا احتساب کیا ہو۔
’’میں نے پچھلے پچاس سال سے ہر روز اخبار پورا پڑھا ہے اور روزانہ دو گھنٹے قرآن مجید بھی پڑھا ہے ترجمہ کے ساتھ، ایک گھنٹہ صبح فجر کے بعد اور ایک گھنٹہ رات میں عشا کے بعد، خوشی ہو غمی ہو ، سردی، گرمی ہر موسم میں …‘‘
یہ بات کرکے بابا جمعہ کافی دیر نظریں جھکائے بیٹھے رہے۔ بلال نے بات دوبارہ شروع کر کے عادل کو مخاطب کیا :
’’کیا کرتے ہو…؟ ‘‘
’’میں پنجاب یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر پڑھ رہا ہوں۔‘‘ عادل نے جواب دیا۔ عادل بابا جمعہ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تھا۔ اُس نے دوبارہ آنے کی اجازت لی اور وہاں سے چلا گیا۔
(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)
۞۞۞۞