عافیہ مقبول جہانگیر
شروع میں بچہ جب کبھی ہکلاتا ہے تو پتا نہیں چلتا۔ کیونکہ تب بچہ بولنا سیکھ رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اتنا محسوس نہیں ہوتا اور آہستہ آہستہ بچہ مکمل الفاظ بولنا سیکھ لیتا ہے۔ لیکن کچھ بچوں میں یہ ہکلاپن زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے اور کبھی بالکل بھی نہیں ہوتا۔ شروع میں بولنے سے پہلے بچہ کسی لفظ پر اٹکتا ہے اور اس لفظ کو کئی بار دہراتا ہے۔ یا آدھا لفظ باربار بولتا ہے۔ کئی دفعہ ایک خاص لفظ پر بہت زور دیتا ہے۔ کبھی ایک دم رک جاتا ہے۔ بعد میں منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلتا اور بچہ اِدھراُدھر دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔
عام طور پر ہکلاپن دو اور چار سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ سر میں کوئی سخت چوٹ لگنے سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں تقریباً چار کروڑ لوگ ہکلے پن کا شکار ہیں۔ ہکلاپن موروثی بھی ہو سکتا ہے۔ اسکول جانے کی عمر سے پہلے کی عمر میں ہکلاپن زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں بڑے ہو کر کم ہو جاتا ہے۔ ہکلاپن کے مریض بچوں کو بہت احساسِ کمتری ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے بہت سے نامور لوگ ہکلاتے تھے۔ مثلاً چرچل، نیوٹن، کنگ جارج اور سکندرِاعظم وغیرہ۔
لڑکیوں میں ہکلے پن کا تناسب ایک چوتھائی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ تاہم چند بچوں کی ہکلاہٹ کی ابتدا دماغی دبائو، تذبذب، تشویش، ہونٹوں کی جنبش، جبڑے کی جنبش اور آنکھ جھپکنے سے شروع ہوتی ہے۔ چند بچے آنکھیں جھپکتے ہیں۔ ہونٹوں کی جنبش ہوتی ہے اور سر مارتے ہیں کیونکہ اس وقت وہ بہت تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بچے عموماً بات کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا ایسے حالات سے دور ہو جاتے ہیں جہاں ان کو ایسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ یوں وہ بہت سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جب بچہ تھکا ہوا ہو یا ذہنی دبائو میں ہو، جلدی میں ہو، کسی اجنبی سے یا اپنے سے بڑے درجے والے سے بات کر رہا ہو مثلاً استاد یا سخت گیر باپ یا دادا وغیرہ سے، یا وہ بہت پریشان ہو، تو بھی ہکلانے لگتا ہے۔ لیکن بعض اوقات کچھ بچے بغیر کسی وجہ کے بھی ہکلانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہکلانے والے ۸۰ فی صد بچے اکثر ایک سال میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ بچوں کو دیر لگتی ہے۔ کیونکہ اس میں گھر کے ماحول کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ والدین کی لڑائی، جابر اور سخت گیر باپ یا دادا وغیرہ کی موجودگی یا اسکول میں کسی پریشانی کے باعث بھی بچہ ہکلانے لگتا ہے۔ دماغ میں تھوڑی سی تبدیلی، ان پٹھوں کو جو بولنے کا کام سر انجام دیتے ہیں، خراب کر دیتی ہے۔ زیادہ جوش و خروش کے حالات میں بھی بچے ہکلانے لگتے ہیں۔
ہکلے پن کی تین قسمیں ہیں جنھیں بلاک کہتے ہیں۔
۱۔ پری بلاک
اس میں انھیں پتا چل جاتا ہے کہ وہ لفظ آنے والا ہے جس پر رکاوٹ ہوگی، اس لیے اس لفظ سے پہلے ہی وہ رک جاتے ہیں۔
۲۔ ان بلاک
یہ دوسرا بلاک ہوتا ہے اس میں بولتے بولتے بچے ایک دم رک جاتے ہیں۔
۳۔ پوسٹ بلاک
اس بلاک میں کسی لفظ کو بولنے کے بعد رکاوٹ آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چند حروف ایسے ہوتے ہیں جن پر انھیں رکاوٹ پیش آتی ہے۔ مثلاً ب، پ، میم (م) یا جن الفاظ سے ہونٹ جڑتے ہیں۔
ہکلاپن کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے گھر کے ماحول کو ٹھیک کیا جائے یا اس میں تبدیلی لائی جائے۔ گھر میں ٹینشن کم کریں، زورزور سے یا تیز تیز بولنا بند کر دیں، جب بات کریں، تو بچے کی طرف دیکھ کر کریں تاکہ اسے احساس ہو کہ اس پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ بچے پر دھیان دیں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ بچے کو وقت دیں اور اس کی ہمت افزائی کریں۔ بچے کو بلاوجہ ٹوکنا یا مذاق کرنا بند کر دیں اور ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کریں نا ہی اسے تنقید کا نشانہ بننے دیں۔ یہی باتیں اس کے دوستوں کو بھی سمجھائیں اور اپنے قریبی ملنے جلنے والوں کو بھی سمجھا دیں۔ جب بچہ بات کر رہا ہو تو اسے آرام و سکون سے پہلے اپنی بات ختم کرنے دیں، بیچ میں مت ٹوکیں، پھر کچھ دیر ٹھہر کر آرام آرام سے گفتگو کریں اور کوشش کریں کہ جو الفاظ بچے نے بولے ہوں، آپ انہی الفاظ کا استعمال اپنی گفتگو میں زیادہ کریں۔ خاص طور پر ان الفاظ کا، جن پہ بچہ اٹکتا ہے۔
بچے کو احساس دلائیں کہ آپ اس کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کھانے کے وقت ریڈیو یا ٹی وی بالکل بند کر دیں۔ کبھی کبھار اس کے دوستوں کو اکٹھا کر کے چھوٹی چھوٹی تقریریں کروائیں یا تلاوت اور نعتیں پڑھوائیں اس سے ہکلاپن کافی حد تک کم ہو جاتی ہے۔
گھر میں چھوٹے بچوں اور پالتوں جانوروں سے بھی بات چیت کرنے سے ان کا ہکلاپن دور ہوتا ہے یا کم ہو سکتا ہے۔ بچے کو شیشے کے سامنے بولنے کی پریکٹس بھی کروائی جا سکتی ہے۔ ٹی وی پر بہت زیادہ جوش اور جذبے والے پروگرام نہ لگائیں اور بچے کے دوستوں کو سمجھائیں کہ جب بچہ ہکلائے تو اس کا مذاق نہ اڑائیں۔ بچے ٹیچر سے مل کر اس سے درخواست کریں کہ وہ اس سے سبق آہستہ آہستہ سنیں اور اونچی آواز میں سنیں اور بچے کا فقرہ مکمل ہونے تک صبروسکون اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ گھر میں بھی اس سبق کی مشق کروائی جا سکتی ہے۔ بچے سے ایک ہی وقت میں ڈھیر سارے سوالات کی بوچھاڑ نہ کریں اور ہر سوال کا جواب غور سے دھیان سے سنیں۔
دریں اثنا بچے کا سپیچ تھیراپسٹ سے علاج جاری رکھیں۔ عام طور پر بچے تین ہفتے سے تین ماہ کے دوران صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں فی الحال ایسی کوئی دوا نہیں جو ہکلے پن کو دور کر سکے۔ صرف تھوڑی سی توجہ، محنت اور صبروسکون ہی سے آپ اپنے بچے کو اس بیماری یا عادت سے نجات دلا سکتے ہیں۔