چودھری چمن
از
شکیل احمد چوہان
چودھری !مجھے بتا میں کیسے بچاؤں اپنے ٹبر کو اس ظالم دنیا سے…؟‘‘ چھاجوں مینہ برسنے کے باوجود ، چمن مسیح نے سلگھتے انداز میں چودھری سجاول سے پوچھا تھا۔
اس سے پہلے کہ چودھری اُس کی بات کا کوئی جواب دیتا ، چمن کپکپاتے لہجے میں پھر بول اُٹھا
حق نواز ! ذیلدار کے پوتوں نے میرے وڈ وڈیروں کی قبروں پر حویلی بنا لی ہے۔ ذیلداروں کے ڈنگر پیشاب کرتے ہیں اب ہماری قبروں پر۔‘‘ چمن مسیح کے خاموش ہوتے ہی آسمانوں پر زور دار بجلی کڑکی ، چودھری سجاول گرم بستر کے اندر نیم دراز لیٹا ہوا تھا ۔ وہ گائو تکیے پر کہنی جماتے ہوئے اُسی سے ٹیک لگا کے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔ اُس کے چہرے سے بھی تشویش برسنے لگی۔ اُس نے لمحہ بھر سوچا پھر کہنے لگا
چمن تو بھی گاؤں چھوڑ کر پنڈی چلا جا۔‘‘ چمن مسیح نے ہولے سے درد بھرا قہقہہ لگایا پھر اپنے گلے کو تر کرتے ہوئے بولا
آدھی صدی اور ساری حیاتی اس پنڈ میں گزر گئی ۔ اب کیا پنڈی اور کیا پنڈ…؟ ستر اسی گھر ہوا کرتے تھے بستی میں…اب صرف چھے رہ گئے ہیں، میں چلا گیا تو وہ پانچ بھی ایک نہیں رہ سکتے۔ ویسے بھی جو پنڈی گئے تھے انہوں نے کون سے تیر مار لیے ہیں۔
میں نے تو سُنا تھا گاؤں چھوڑ کر جانے والے عیسائیوں نے بڑی ترقی کی ہے۔‘‘ چودھری سجاول نے چمن مسیح کے چہرے پر غور کیا، اُس کے چہرے پر غریبی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ منڈھے پر بیٹھے ہوئے چمن نے نظریں چراتے ہوئے، فرش کی طرف دیکھتے ہوئے بولنا شروع کردیا
جس نے ترقی کی تھی اُس کے صرف دانت ملے تھے۔ ‘‘ چمن کے لہجے میں درد ہی درد تھا۔
میں سمجھا نہیں‘‘ چودھری نے فوراً آگاہ کیا
وہ پرویز مسیح تھا ، نا…اپنا جماعتی! پرویز…؟‘‘ چودھری ذہن پر زور دیتے ہوئے بولا۔
’’پیجی! چمن نے یاد کرانے کی کوشش کی۔
’’پیجی…‘‘ چودھری کے ذہن پر یادوں کی روشنی پڑتے ہی اُس کی آنکھیں کھُلتی اور ہونٹ کھلتے چلے گئے ۔
وہی جس کے ابّے کو پنڈی میں نوکری مل گئی تھی اور وہ پانچویں میں ہی اسکول چھوڑ کے چلا گیا تھا۔ چمن کی بات کاٹتے ہوئے چودھری کہنے لگا
اُس کی جنم کنڈلی رہنے دے مجھے یاد آ گیا ہے۔
پنڈی میں پیجی بہت بڑا!…وہ کیا کہتے ہیں اُسے…؟ ہاں یاد آیا پراپرٹی ڈیلر بن گیا تھا۔ کروڑوں کی آسامی تھا وہ…پھر ایک دن خبر آئی اُسے اپنے دفتر سمیت ہی زندہ جلا دیا گیا ہے۔‘‘ چمن بات کرتے کرتے رُک گیا۔
کس نے جلایا…اور کیوں…؟‘‘ چودھری نے تڑپ کر پوچھا۔
’’کس نے جلایا یہ تو پتا نہیں…کہتے ہیں اُس نے نبی پاکﷺ کی گستاخی کی تھی۔‘‘
وہ کیسے گستاخی کر سکتا ہے…؟‘‘ چودھری نے پوچھا یا بتایا اس کی اُسے بھی خبر نہ تھی، اُس نے ایک لمبی سرد آہ اندر کھینچنے کے بعد باہر نکالی پھر بڑے یقین سے بتانے لگا
پیجی ایسا کر ہی نہیں سکتا، ارے وہ تو بچپن میں میری نقل کرتے ہوئے نبی پاک ﷺکا نام سنتے ہی اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگا لیا کرتا تھا۔
کوئی پلاٹ کا رولا تھا۔‘‘ چمن نے چودھری کی بات کاٹتے ہوئے اندر کی بات بول دی۔ چودھری سجاول کی بیٹھک میں یکدم سناٹا چھا گیا، باہر سے چھم چھم برستی بارش اور پرنالوں سے بہتے ہوئے پانی کی آواز اندر للکارے مار رہی تھی۔
چودھری دفع کر امریکا شمریکا کو ادھر پنڈ میں ہی آ جا۔‘‘ چمن نے مشورہ دیتے ہوئے اپنے اندر اور باہر کا سناٹا ختم کیا۔
اتنے بڑے کُنبے سے مربعوں کی تقسیم در تقسیم ہو کے میرے حصے دس ایکڑ آئی ہے۔‘‘ چودھری کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ چمن جھٹ پٹ بول اُٹھا
شکر کر چودھری تیرے پاس دس ایکڑ ہیں۔ تیرے چاچے کے پتروں نے تو وہ بھی پھونک دی ہے۔ اب بھی پچاس کوس دُور اپنے ککڑ اور کُتے لڑانے پہنچے ہوتے ہیں۔‘‘ چمن کی باتوں سے چودھری افسردہ ہو گیا تھا، مگر چمن نے اپنی بات جاری رکھی
تیرے چاچے کے پُت چودھری کمالے نے قسطوں پر اینی وڈی ایل سی ڈی خریدی ہے۔ مرغی کی طرح خود کو سمیٹے ہوئے چمن نے ایل سی ڈی کا حجم بتانے کے لیے اپنے دونوں بازو کھول دیئے ۔ چمن نے خستہ حال گرم چادر کے نیچے پھٹا ہوا سویٹر پہن رکھا تھا، جس پر چودھری کی نظر پڑ گئی تھی۔ جب چمن کو اس بات کا اندازہ ہوا تو اُس نے بڑی چترائی سے اپنی پلکوں کو جنبش دیتے ہوئے چودھری سے پوچھا
پتا ہے کس کی ضمانت پر ایل سی ڈی قسطوں پر ملی ہے…؟‘‘ چودھری نے گردن ہلا کر لاعلمی ظاہر کی تو چمن نے فوراً بتایا
’’کالو مراثی کے پوترے کی۔‘‘
کالو مراثی…؟‘‘ پہلے چودھری نے حیرانی سے نام دہرایا، پھر سوال پوچھا
’’وہ کیا کرتا ہے…؟‘‘
کرنا کیا ہے… ساری دیہاڑی پوٹے والے موبائل کے اندر باندروں کی طرح ٹپوسیاں مارتا رہتا ہے۔ سُنا ہے اُس کام کے اُسے بڑے پیسے ملتے ہیں۔ یہ بھی ویلا آنا تھا، مراثی ترقی کر گئے اور چودھری…؟
’’اور چودھری امریکا چلے گئے…‘‘ چودھری نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بات کا رُخ بدلا۔
چودھری میں پھر کہتا ہوں، تو امریکا چھوڑ کے ادھر پنڈ میں ہی آ جا!‘‘ چمن نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
امریکا تو ہم سے جان چھڑانا چاہتا ہے پر ہم ہی…‘‘ چودھری اندرونی کرب کی وجہ سے اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔ تھوڑے توقف کے بعد اُس نے ایک بار پھر سے بات کا رُخ بدل دیا
’’چمن! تیرے بچے کیا کرتے ہیں…؟‘‘
وہی جو میں نے ساری حیاتی کیا۔ اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری، برسات کے دنوں میں بھٹے کا کام بند ہو جاتا ہے ان دنوں جو بھی کام مل جائے ہم کر لیتے ہیں ۔
جو بھی…؟‘‘ چودھری نے معنی خیز انداز میں پوچھا تو چمن کی آنکھیں چمکنے لگیں، اُس نے ہمت کرکے چودھری کی طرف دیکھا پھر بولا
گھر آٹا نہ ہو تو…؟ جو بھی ! کرنا پڑتا ہے۔‘‘ چمن کی سنجیدگی بڑھ گئی تھی اُسے کم کرنے کی غرض سے چودھری نے ہلکے پھلکے انداز میں مشورہ دے ڈالا
’’تم بھی کوئی ہنر سیکھ لیتے!‘‘
نہ چودھریوں نے ہُنر سیکھے اور مجھ جیسوں نے…لوہار، ترکھان ، نائی، جنہیں پنڈ والے کمی کہتے تھے۔ اُن کا جدی پشتی کام ہی اُنکے کام آیا۔
’’تم بھی کام بدل لیتے، اب تو ساری دنیا ترقی کر گئی ہے۔ ‘‘
ترقی چیزوں میں ہوئی ہے چودھری! انسان تو…‘‘ چمن بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اُس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔
’’تو…؟‘‘ چودھری نے لقمہ دیا۔
پہلے …وڈی عید پر اس پنڈ کے عیسائیوں کی بھی عید ہو جایا کرتی تھی۔ خدا بخشے تیری دادی کو وہ جنتی روح بن مانگے ہی بستی کے سارے گھروں میں قربانی کا گوشت بھیجتی تھی۔ اب تو مانگنے سے بھی نہیں ملتا۔‘‘ چمن کا لہجہ بھر آیا تھوڑے توقف کے بعد وہ بھرائی آواز میں بولا
’’اس عید پر عید والے دن ، میری گھر والی نے آلو پٹھے پکائے تھے۔ ‘‘
’’وہ کیوں…؟‘‘ چودھری نے جلدی سے پوچھا۔
’’مسلمان عید والے دن گوبر کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتے اس لیے عیسائیوں کو کہتے ہیں اوجھڑی لے جاؤ‘‘
’’یہ کیا بات کر رہا ہے تو…؟‘‘ چودھری کو حیرت کا شدید دھچکا لگا۔
چودھری تو پندرہ سالوں کے بعد پنڈ لوٹا ہے۔‘‘ چمن نے اُس سے نظریں ملاتے ہوئے بتایا تو بے خیالی میں چودھری کے منہ سے نکل گیا
’’پندرہ سال گزر گئے…؟‘‘
تیرا سب سے نکّا چاچا نہ گزرتا تو …تو نے اب بھی کدھر آنا تھا۔‘‘ چودھری نے چمن کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پوچھ لی
’’گاؤں کے لوگ اتنے کٹھور کیسے بن گئے…؟‘‘
اِک گنڈاسہ مولوی آیا تھا یہاں ، سب اُسی کا کیا کرایا ہے۔ ہماری زندگیوں کو نرگ بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی بوٹی بوٹی کر گیا ہے۔ ‘‘ چودھری نے چمن کی بات کاٹتے ہوئے تشویشی لہجے میں پوچھا
’’یہ سب باہر کا ایک مولوی کیسے کرسکتا ہے …؟‘‘
جیسے آدھی چمچی جاگ کی …کاڑنی کے میٹھے دودھ کو … چاٹی بھر کھٹی لسی میں بدل دیتی ہے۔‘‘ چمن کی مثال پر ابھی چودھری غور ہی کر رہا تھا کہ چمن نے پھر سے بولنا شروع کر دیا
وہ ہمارا ہی دور تھا جب مولوی عزیز الدین ، قاری شہاب اور ماسٹر ہدایت اللہ الگ الگ فرقوں سے ہونے کے باوجود کبھی آپس میں لڑے نہ تھے۔ ایک ہی حقے سے کڑوئے تمباکو کے سوٹے لگانے کے بعد بھی اُن کی زبان میٹھی ہی رہتی۔ آج کل کے مولوی مسیتوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے بخیے اُدھیڑتے رہتے ہیں۔‘‘ چمن کے خاموش ہوتے ہی چودھری نے اپنی اُلجھن کو دُور کرنے کی غرض سے پوچھ لیا
’’گاؤں والوں نے تم لوگوں کو عید کا گوشت دینا کیوں بند کر دیا…؟‘‘
اُسی چوّل مولوی کی وجہ سے… جمعے کی تقریروں میں مسّلے کرتا تھا کہ عیسائیوں کو عید کا گوشت دینا جائز نہیں۔ خود سب کچھ ہڑپ کیے جاتا تھا، مٹکے جتنا پیٹ تھا اُس کا۔ ‘‘ چمن نے آتشی انداز میں بتایا۔
’’چلو مان لیا…اس محلے کا مولوی فسادی تھا، قاری شہاب اور ماسٹر ہدایت کے ماننے والوں کو کیا ہوگیا ہے…؟
چودھری! پکی کنک کے کھیت کی کسی وی نکڑ میں، ماچس کی اِک تیلی لگانے سے دیکھتے ہی دیکھتے ساری فصل جل کے راکھ بن جاتی ہے ۔ مولوی عزیز کے گزر جانے کے بعد اس محلے والے مولوی گنڈاسہ کو لائے تھے ۔اُن دونوں کے مرنے کے بعد وہ مولوی کلہاڑی اور ٹوکا لے آئے۔
میں نے تو ان تین چار دنوں میں کوئی کشیدگی نہیں دیکھی گاؤں میں۔‘‘ چودھری نے بتایا، تو چمن غریب چہرے کے باوجود فاتحانہ انداز میں مسکرا دیا پھر دھیمے سُروں میں بولا
’’مولوی ٹوکے نے جوگیوں کی عزت کو جو کُتر دیا تھا۔‘‘
صاف صاف بتاؤ…‘‘ چودھری نے تشویشی انداز میں کہا۔ موسلا دھار بارش اب تھم چُکی تھی، چمن کو خدشہ تھا کہ اب کوئی بھی کھڑکی یا دروازے کے کواڑ سے لگ کے اُس کی باتیں سن سکتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے مونڈھے کو کھسکاتا ہوا چودھری کے قریب لے گیا پھر بڑے رازدرانہ انداز میں بتانے لگا
مولوی ٹوکا جوگیوں کی لڑکی نکال کے لے گیا تھا۔ اس کے بعد دوسری مسیتوں والے بھی چوکنے ہو گئے اور انہوں نے اپنے اپنے مولویوں کو فارغ کر دیا۔ اُن تینوں کے جانے کے بعد مسلمان تو خون خرابے سے بچ گئے مگر اُن تینوں نے ہمیں جیتے جی کہیں کا نہ چھوڑا۔
عیسائیوں کے ساتھ اُن تینوں نے کیا…کیا تھا…؟‘‘ چودھری نے فکر مندی سے پوچھا۔
برسات کے دن تھے اس کے باوجود تینوں مسیتوں کے سپیکر چلم کی طرح گرم ہی رہتے ۔ ہماری قسمت ماڑی ایک رات ہمارے گرجے کی چھت گر گئی۔ میں نے پنڈ کے لوگوں سے گرجے پر لینٹر ڈالنے کے لیے مدد مانگ لی، پھر کیا تھا تینوں مولویوں نے باری باری ہماری منجی ٹھوکی۔ تب سے ہمارا گرجا بغیر چھت کے ہی ہے۔ ‘‘چمن کی آنکھیں چمکنے لگیں، لفظ اُس کی زبان پر نہیں آرہے تھے، اُس کے باوجود وہ بولنے لگا
سب مولوی کہتے تھے جس کسی نے گرجے کی چھت کے لیے پیسے دیے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا۔ مولوی کلہاڑی تو یہاں تک کہتا تھا جس دن ان کے گرجے کی چھت پڑ گئی، عیسائیوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کر دینی ہے۔ چھے گھر بھلا چھے سو گھروں کو تبلیغ کر سکتے ہیں…؟ ہماری روٹی پوری نہیں ہوتی… ہم بھوکے ننگے تبلیغ کریں گے…؟ میں نے تو اپنے پادریوں سے بھی کبھی نہیں سُنا کہ اُن کی تبلیغ سے پورے پاکستان میں کوئی ایک مسلمان…‘‘ چمن کے پچکے ہوئے سیاہ گالوں پر ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اُس نے جلدی سے اپنی چادر سے اپنے آنسو صاف کیے اور لمبی سانس بھرتے ہوئے بولا
مجھے اچھی طرح یاد ہے، ہمارے بچپن میں گرجا پنڈ والوں کی مدد سے ہی بنا تھا۔ تب تو مولوی عزیز، قاری شہاب اور ماسٹر ہدایت اللہ نے کوئی فتویٰ نہیں دیا تھا۔ یا تو وہ مولوی کملے تھے…؟ یا پھر یہ بہت ہی سیانے…؟ چمن نے اپنے دل کا غبار نکالنے کے بعد جواب طلب نظروں سے چودھری کو دیکھنا شروع کر دیا۔ چودھری اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔ جب چمن کو یقین ہو گیا کہ چودھری اپنی رائے محفوظ ہی رکھنا چاہتا ہے تو وہ پھر سے اپنے پہلے سوال کی طرف لوٹ آیا
چودھری! مجھے بتا میں کیسے بچاؤں اپنے ٹبر کو اس ظالم دنیا سے…؟‘‘ یہ سنتے ہی چودھری نے اپنے بستر سے نکلتے ہوئے چمن کے کندھے پر تھپکی دی پھر اپنی لیدر کی جیکٹ سے لوہے کی الماری کی کالی ڈوری میں پُروئی ہوئی تین لمبی لمبی چابیاں نکال کر الماری کو کھولتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں بولا
چمن تو مجھے بتا میں کیسے بچاؤں اپنے خاندان کو اس ظالم دنیا سے…؟‘‘ اس سے پہلے کہ چمن کچھ کہتا چودھری پلٹا اور اُس کے سامنے ایک مہنگے ٹچ موبائل کا ڈبہ کرتے ہوئے بولا
یہ پوٹے والا موبائل تیرے لیے…‘‘ چمن نے چودھری کے ہاتھ کی طرف دیکھا پھر عقیدت سے سرشار لہجے میں کہنے لگا
’’نہ کر چودھری تو بچپن سے مجھے دیتا آ رہا ہے۔ میں غریب تو ساری حیاتی تجھے کچھ دے بھی نہ سکا۔ ‘‘
بچپن میں تو نے میری جان بچائی تھی چمن۔‘‘ چودھری نے شائستہ انداز میں یاد کرایا۔
چودھری تو ، تو میرا یار ہے، تیری جگہ خداوند کی کوئی دوسری مخلوق بھی ہوتی تو میں اُسے بھی کنوئیں سے نکالنے کی پوری کوشش کرتا۔‘‘ چمن نے سنجیدگی سے آگاہ کیا۔
چل رکھ لے نخرے نہ کر، اِس سے تیرے بیٹے بھی کالو مراثی کے پوتے کی طرح ٹک ٹاک بنا سکتے ہیں۔‘‘ چودھری نے چمن کے کندھے پر اپنایت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ چمن نے چودھری کے بائیں ہاتھ سے موبائل پکڑ لیا پھر ساتھ ہی کہنے لگا
’’میں نے تجھ سے موبائل لے لیا اب تو بھی میرا ایک کام کر دے اس موبائل کو بیچ کے مجھے رقم لا دے۔‘‘
بیٹی کا جہیز بنائے گا۔ ‘‘ چودھری نے ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اندازہ لگایا۔
نہیں گرجے کی چھت ڈلواؤں گا۔ ‘‘ چمن نے ہولے سے بتایا۔ چودھری نے لمحہ بھر سوچا پھر چمن کے ہاتھ سے وہ موبائل لیتے ہوئے پلٹ گیا۔ اُس موبائل کو الماری میں رکھا اور الماری کے اندر بنی ایک چھوٹی سی تجوری کو چابی سے کھولا پھر اُس میں سے ہزار ہزار کے نوٹوں کی ایک کاپی نکالی ، تجوری اور الماری کو چابیوں کی مدد سے بند کر دیا اور چمن کی مٹھی میں نوٹوں کی وہ کاپی تھماتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں بولا
گاؤں میں کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ گرجے کی چھت کے لیے میں نے پیسے دیئے ہیں۔
تایا جی! آ کے روٹی کھا لو۔ بیٹھک کے گلی کی طرف کھلنے والے دروازے پر آواز گونجنے کے ساتھ ساتھ دستک بھی ہوئی ۔
چودھری نے چمن کو آنکھوں سے نوٹ سنبھالنے کا اشارہ کیا۔ چمن نے جلدی سے وہ نوٹ اپنی قمیض کے دائیں طرف والے کھیسے میں رکھ لیے۔ چودھری اپنے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چمن نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے چودھری کا بھتیجا تھا۔ چمن کو دیکھ کر چودھری کے بارہ سالہ بھتیجے نے ناگواری کا اظہار کیا۔ چمن ایک طرف ہٹا تو بارہ سالہ لڑکے نے ایک نظر چمن پر ڈالتے ہوئے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے بتایا
’’تایا جی! ابّے نے آپ کے لیے دیسی ککڑ پکوایا ہے۔‘‘
تم چلو میں آتا ہوں۔‘‘ چودھری اپنے پلنگ سے یہ کہتے ہوئے اُٹھا۔ لڑکا وہاں سے چلا گیا۔ چودھری بیٹھک سے باہر نکلا تو چمن نے جلدی سے باہر سے دروازہ بند کرتے ہوئے اُس کی کنڈی لگا دی۔ اب وہ دونوں سرخ اینٹوں کے سولنگ پر آمنے سامنے کھڑے تھے۔ موسلا دار بارش کی وجہ سے سرخ اینٹیں مزید سرخ دکھائی دے رہی تھیں۔
چمن کل میری واپسی ہے۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔‘‘ چودھری نے یہ کہتے ہوئے چمن کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ چمن اپنے دونوں ہاتھوں سے چودھری کا ہاتھ تھام کر کافی دیر شکر گزار نظروں کے ساتھ اُسے دیکھتا رہا، جب اُس نے ہاتھ چھوڑا، تب چودھری گلی میں ہی واقع اپنے چھوٹے بھائی کے گھر کی طرف چل دیا، پیچھے سے اُس کے کانوں میں چمن کی آواز پڑی
’’چودھری تو نے کبھی بتایا نہیں کہ تو امریکا میں کیا لگا ہے…؟‘‘
چودھری پلٹا اور غور سے چمن کو دیکھنے کے بعد بڑی سنجیدگی سے بولا
چمن چودھری کے منہ سے اُسی کا عہدہ اور مقام سنتے ہی چمن ہکا بکا رہ گیا۔ وہ کھُلے ہوئے منہ کے باوجود بھی کچھ بول نہیں پایا۔ اُس کی حیرت کو کم کرنے کی غرض سے چودھری نے ہونٹوں پر زبرستی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا
’’چودھری چمن ‘‘
۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞