30 C
Lahore
Tuesday, April 30, 2024

Book Store

شرارت

شرارت

 

ڈاکٹر عدیل احمد

’تایا جی تالوں والے‘ کے ’پیر جی تالوں والے‘ بننے کا تمام تر سہرا گر لالہ نثار اور طاہر کے سر باندھ دیا جائے تو یہ سو فیصد درست نہیں ہو گا۔ اس میں کچھ نہ کچھ حصہ ان کی اپنی طبیعت کے فطری رجحان یا شاید فطرت کے طبعی رجحان کا بھی تھا جس نے عرفان کا یہ دروازہ چوپٹ کھلنے سے پہلے ہی نیم وا کر رکھا تھا۔ رہی سہی کسر غفورے حلوائی کے بکرے نے رسمی قربانی سے کچھ دیر پہلے جان دے کر پوری کر دی۔
بکرے کا قصہ یہ ہے کہ بڑی عید پر غفورا حلوائی ہمیشہ کی طرح سال بھر کی بھرپور ملاوٹ کے نتیجے اور کفارے میں خدا اور پیٹ کو ایک ساتھ مطمئن کرنے کے لئے دو بکرے لایا تھا۔ جب تایا جی گلی میں اس کے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے، اس وقت اس کا ایک بکرا تو گھر کے اندر اس کے بچوں کے ساتھ نہا رہا تھا اور دوسرا بکرا اور وہ خود گلی میں کھڑے تھے۔ تایا جی نے باری باری بکرے اور غفورے کو دیکھا۔ اول الذکر کو پسند فرمایا اور موخر الذکر سے کہنے لگے
’’واہ بھئی بہت تگڑا مال ہے۔ ایک ہی لائے؟‘‘
غفورا جانے کس خیال میں ماچس کی تیلی سے دانتوں میں پھنسا ہوا چھالیا کا ادھ کھایا ٹکڑا نکال رہا تھا۔ اس نے شاید تایا جی کی بات سنی بھی یا نہیں۔ بس سر ہلا کر بے خیالی میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ہی دیر میں غفورے کا دوسرا بکرا مر گیا۔ گو اس میں کچھ نہ کچھ قصور غفورے کے ان معصوم دیو زاد بچوں کا بھی تھا جنہوں نے نہلاتے ہوئے اس بکرے کے سر کی صفائی کا خاص خیال رکھا تھا اور کافی دیر تک اس کا سر پانی کی بھری ہوئی بالٹی میںدبائے اس کے تڑپنے کا تماشا دیکھتے رہے تھے۔ لیکن بہر حال یہی وہ مشہور واقعہ تھا جس نے عرفان و آگہی کے نیم وا دروازوں کو چوپٹ کھول دیا اور تایا جی تالوں والے باقاعدہ پیر جی بن گئے۔

پیر بننے سے تایا جی کی نفسیات میں کوئی تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو، ان کی عملی زندگی میں، جتنی کچھ عملی زندگی وہ گزار رہے تھے، بظاہر کوئی فرق نہیں پڑا۔ پیر بننے سے پہلے بھی وہ خراب تالے ٹھیک کیا کرتے تھے، پیر بننے کے بعد بھی ان کا یہی کاروبار رہا۔ محلے کے کچھ لڑکے جن کے سرگروہ لالہ نثار تھے پہلے بھی ان کے ساتھ مہذب شرارتیں کیا کرتے تھے، یہ معمول بعد میں بھی جاری رہا۔ بلکہ اب ان کی شرارتوں کو ایک نئی جہت مل گئی ۔ پیر بننے سے پہلے تایا جی کی ازدواجی زندگی اس قدر کڑے اور خراب حالات سے گزر رہی تھی کہ اس میں مزید بگڑنے کی گنجائش نظر نہیں آتی تھی لیکن ان کی پیری مریدی کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد چشم فلک نے ان کے گھریلو تعلقات کو مزید کئی خطرناک موڑ مڑتے ہوئے دیکھا۔
تایا جی کے قصے کی مزید تفصیل بیان کرنے سے پہلے موزوں ہو گا اگر اس ماحول پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے جس سے ان کی کہانی کے سارے تانے بانے منسلک ہیں۔ مثال کے لئے کسی بھی اندرون شہر کا کوئی گنجان محلہ لے لیجئے جہاں رہنے والوں کی ذاتی زندگیاں اس طرح ایک دوسرے میں گندھی ہوئی ہوتی ہیں کہ اصل میں وہاں کسی کی کوئی ذاتی زندگی ہوتی ہی نہیں۔ تحفظ، رواداری، برداشت، امداد باہمی اور منافقت کے ایسے ماحول میں ہر بزرگ مرد چاچا، ماما یا تایا ہوتا ہے اور ہر بزرگ عوت چاچی، مامی، تائی یا خالہ۔۔۔
یہاں پرائیویٹ پراپرٹی کا تصور اگر ہے بھی تو خاصا محدود اور موہوم۔ شادیوں میں محلے کی گلیاں اور پڑوسیوں کے صحن ایک جیسی آسانی اور بے پروائی سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مرگ کے موقعے پر ایک دوسرے کی بیٹھکوں میں فاتحہ خوانی کے لئے پھوڑی ڈالی جاتی ہے۔ بیٹھک اصل میں گلی کے رخ کھلنے والا، مکان کا وہ کمرا ہوتا ہے جس میں سب سے کم بیٹھا جاتا ہے اور صرف خاص موقعوں پر ایسے مہمانوں کے لئے کھولا جاتا ہے جنہیں گھر میں نہ لایا جاسکتا ہو۔
ورنہ گھر کے مرد اپنی محفل نکڑ والی دکان پر لگاتے ہیں یا شام کو تازہ چھڑکاؤ کئے ہوئے صحن میں۔ لڑکے بالے مکانوں کے تھڑوں پر اور عورتیں زیادہ تر باورچی خانوں اور ڈیوڑھیوں میں غیبتیں کرتی ہیں۔ غیبت میں کچھ ایسا قصور ان کا بھی نہیں۔ یہ ہے ہی ایسا شیطانی ذکر کہ بات چاہے گنٹھیا کے علاج کے کسی مجرب وظیفے سے شروع ہو، کچھ دیر میں خود بخود گفتگو میں در آتا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے محبوب مشاغل بالترتیب پتنگ بازی اور رقعے بازی ہوتے ہیں۔ اس آخر الذکر مشغلے کا عام طور پر کچھ ایسا جال پھیلا ہوتا ہے کہ اکثر اوقات کسی کی محنت کا پکا پکایا پھل کسی اور کی جھولی میں جا گرتا ہے۔
ایسے ہی ایک محلے میں تایا جی کی رہائش تھی اور گھر سے کچھ دور جہاں ابھی محلے کی حدود ختم نہیں ہوتی تھیں اور بازار شروع ہو جاتا تھا، ان کی ایک چھوٹی سی دکان تھی، تالے ٹھیک کرنے کی۔ اپنے کام میں ماہر تھے۔ ایک ان کی قسمت پر ایسا تالا پڑا تھا جو وہ کبھی نہ کھول سکے ورنہ مدتوں کے بند، زنگ خوردہ تالے جن کی چابیاں گم ہو گئی ہوں، ان کے ہاتھ میں آتے ہی کھل جاتے تھے۔
اپنے پیشہ ورانہ کام کے علاوہ بھڑ کے کاٹے اور داڑھ کے درد کا دم وہ پیر بننے سے پہلے بھی فی سبیل اللہ کیا کرتے تھے۔ اولاد نرینہ سے محروم تھے۔ لیکن اس محرومی کا احساس ان کے کسی انداز یا رویے سے کبھی نہیں ہوا۔ شاید اس لئے کہ محلے کے جملہ بالغ لڑکے ان کی نرینہ و ناخلف اولاد کی کمی پوری کرنے کے لئے بہت کافی تھے۔ ایک بیٹی تھی جسے اپنی فاقہ مستی اور تنگ دستی کے باوجود تائی جی کی ہمت کی بدولت بیاہ چکے تھے۔
تایا جی کے گھریلو حالات کبھی مثالی نہیں رہے۔ تائی جی اپنی بری قسمت کا زمہ دار ان کو سمجھتی ہوں یا نہیں لیکن اپنے غصے کے اظہار کے لئے سب سے مناسب ہدف انہی کو گردانتی تھیں۔ یوں تو تایا جی کے چیلوں چانٹوں کو بھی وقتاً فوقتاً تزکیہ نفس کا موقع فراہم ہوتا رہتا تھا لیکن خود تایا جی ان کی ڈانٹ پھٹکار اور لعنت ملامت کا مستقل نشانہ بنے رہتے تھے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ تائی جی کا مزاج قدرتی طور پر سخت تھا یا ان کے معاشی حالات اور تایا جی کی ان حالات سے لاتعلقی، مزید کمانے کی طرف سے بے فکری اور خود سے آدھی سے بھی کم عمر کے لڑکوں کے ساتھ دوستی نے انہیں اس قدر چڑچڑ ا اور غصہ ور بنا دیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں درست ہوں۔
ان کے مقابلے میں تایا جی دھیمے مزاج کے آدمی تھے۔ تائی جی کی بیشتر باتوں کے جواب میں خاموش رہتے۔ کبھی ہوں، ہاں پر اکتفا کرتے۔ وہ بھی شاید صرف اس لئے کہ تائی جی کو ان کے گوش بر آواز ہونے کا ثبوت ملتا رہے۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ جس قسم کی گفتگو تائی جی اکثر کیا کرتی تھیں اس کا سب سے مناسب جواب خاموشی ہی ہو سکتا ہے۔ مثلاً ان کے کاروبار اور انداز کاروبار پر تنقید، گزری ہوئی زندگی کی حسرتوں کا ذکر، گزرتی ہوئی زندگی کی شکائتیں، آنے والے وقت سے وابستہ مایوسیاں! اکثر وہ ان کی لائی ہوئی سبزی میں کیڑے نکالتے نکالتے ان کے حلئے کا تمسخر اڑانے لگتیں۔ حالانکہ تایا جی کا حلیہ کچھ ایسا مضحکہ خیز بھی نہیں تھا۔ عمر پچپن اور ساٹھ کے درمیان ہو گی جو ان کے چہرے مہرے سے ظاہر بھی ہوتی تھی۔ لیکن کاٹھی خوب مضبوط تھی۔ قد درمیانے سے کچھ زیادہ ، کندھے فراخ، بال گھنے اور سفید ہونے پہ آمادہ۔ چوڑے ماتھے پہ دو مستقل شکنیں رہا کرتی تھیں۔ آنکھیں تقریباً ہمیشہ پر فکر۔ ڈاڑھی کے بال ٹھوڑی سے اوپر جاتے ہوئے بتدریج کم ہوتے چلے گئے تھے۔ جسم چھریرا۔ ہاتھ پاؤں بڑے بڑے اور ان کی جلد ایسی ہی خشک تھی جیسی کہ اس طبقے کے لوگوں کی عام طور پر خوراک میں وٹامنز کی مستقل غیر حاضری کی وجہ سے ہوتی ہے۔
لیکن یہ تصویر نامکمل رہے گی اگر پریشانی اور الجھن کے اس دائمی تاثر کا ذکر نہ کیا جائے جو تایا جی کے چہرے پر شناختی نشان کی طرح ثبت تھا۔ اس بارے میں راویوں کی دو مختلف آراء تھیں۔ لالہ نثار، سلیم چھیمے اور طاہر کا خیال تھا کہ یہ تاثر شروع سے یونہی قائم تھا اور جس طرح محلے کے بڑے بوڑھوں کی مدد کے باوجود یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ تایا جی کب، کس تاریخ کو لڑکپن کی حدود سے، جوانی کو چھوئے بغیر، براہ راست بڑھاپے میں داخل ہوئے، اسی طرح الجھن کی اس کیفیت کو جو ان کی آنکھوں کے اوپر ماتھے کی جھریوں، ناک کے دونوں طرف کی سلوٹوں اور ہونٹوں کے گوشوں کے تنائو کے ساتھ چپکی رہتی تھی ، تاریخ پیدائش بتانا ناممکن تھا۔ دوسرا مکتبہء تحقیق جس میں ظہیر الدین، بشیر قاری اور خلیفہ محمود جیسے بڑے بڑے نام شامل تھے، اس خیال کا حامل تھا کہ تایا جی کے چہرے پر ثبت پریشانی کے یہ آثار پیر بننے کے بعد کا واقعہ ہیں اور ان کی وجہ ہزاروں کا وہ نقصان ہے جو ان کے تئیں ان کے مریدوں نے انہیں پہنچایا تھا۔ اس نقصان کے بارے میں جاننے کے لئے ہمیں کچھ تفصیل میں جانا پڑے گا اور لالہ نثار اور ان کے ساتھیوں کی پیر سازی کی تیکنیک کا جائزہ لینا ہو گا۔
جن دنوں تایا جی کے بزرگ بننے یا بنائے جانے کی مہم شروع ہوئی، لالہ نثار ضلع کونسل کے دفتر میں ملازم تھے اور طاہر کالج میں پڑھتا تھا۔ یہ دونوں اکثر اپنے دفتر کے ساتھیوں، ہم جماعتوں اور جاننے والوں کو تایا جی کی خدمت میں بھیجتے رہتے جو ان سے اپنے کسی مقصد کے لئے دعا کرنے کی درخواست کرتے اور پھر چند ہی دن بعد وہ فرضی مقصد پورا ہونے پر ہزار پانچ سو روپے کا نذرانہ لے کر حاضر ہوتے۔ تایا جی تکلفاً اور مروتاً رقم لینے سے انکار کرتے۔ اس شخص کے اصرار پر مریدوں میں سے کوئی وہ نذرانہ اچک لیتا اور بعد ازاں جس کی رقم ہوتی اس کو لوٹا دی جاتی، کیونکہ یہ سب ایک مکمل منصوبہ بندی کا حصہ ہوتا جس میں سب مرید شامل ہوتے۔ بعض اوقات چندہ جمع کر کے بھی پیسے اکٹھے کیے جاتے۔ اصل میں تو یہ ایک نفع نقصان سے پاک کھاتے جیسا معاملہ تھا جس میں اگر کبھی شیرینی وغیرہ کے لئے کچھ خرچ ہوتا بھی تو مریدوں ہی کی جیب سے، لیکن بعض بیحد قریبی ارادتمندوں کا کہنا تھا کہ تایا جی نے اس رقم کا سارا حساب لکھ رکھا تھا جو ان کے نذرانے کے طور پر آئی اور ان کے بالکے لے اڑے اور اسی نقصان کی بڑھتی ہوئی رقم نے، اس کی بازیابی کی فکر اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس امر کے کم ہوتے ہوئے امکانات نے تایا کے چہرے پر کچھ جھریوں کو مستقل کر دیا تھا۔
تایا جی کی پریشانی اور الجھن سے قطع نظر، یہ شرارتیں بڑی دلچسپ، متنوع اور بے ضرر ہوا کرتی تھیں۔ کبھی تایا جی کے حلقہء ارادت میں انکی دکان پر تالے کنجیوں کے پاس بیٹھے بیٹھے کسی مرید کے پیٹ میں شدید درد اٹھتا اور تکلیف سے لوٹ پوٹ ہوجاتا، ساتھ ہی ساتھ چلانے لگتا:’’پیر جی معاف کر دو، بے ادبی کا خیال آ گیا تھا۔‘‘تایا جی کچھ پڑھ کے پھونک مارتے اور وہ دم کے دم میں بھلا چنگا ہوجاتا۔ تایا جی بھلے مانس تھے، کبھی اس خیال بے ادب کے بارے میں پوچھا نہ مزید سزا کا قصد کیا۔ کبھی ہمسائے کی دکان پہ تایا جی کے لئے فون آجاتا:
’’میری بیوی کئی دن سے بیمار ہے، حالت بہت خراب ہے۔ بہت علاج کرایا کوئی افاقہ نہیں۔ آپ کے بارے میں سنا ہے کہ فون پہ بھی پھونک مار دیں تو شفاء ہوجاتی ہے۔ مہربانی کریں۔‘‘
تایا جی مہربانی کرتے اور کچھ دنوں بعد وہ شخص اپنی بیوی کی صحت کی خبر اور نذرانہ  لے کر حاضر خدمت ہوتا۔ کسی دوسرے شہر سے لالہ نثار یا کسی دوسرے مرید کا کوئی بے تکلف مہمان آ جاتا تو اسے زیارت کے لئے  لے آتے۔ وہ پہلے سے پڑھائے ہوئے سبق کے مطابق، تایا جی کو اپنے شہر کے کسی پہنچے ہوئے بزرگ کا سلام پہنچاتا۔ سلام وصول کرتے ہی تایا جی آنکھیں بند کر کے گردن جھکاتے اور مراقبے میں چلے جاتے۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اسی حالت میں کہتے۔
’’ وعلیکم السلام! یہ تو بھئی بہت پہنچا ہوا مرد ہے۔ تمہارے شہر کے آس پاس کا کافی علاقہ ہے اس کے پاس۔ بھئی واہ، بڑے اونچے دربار کا تحفہ لائے۔‘‘
اس کے بعد وہ کافی دیر یونہی بیٹھے جھومتے رہتے اور اس اونچے دربار کی سیر سے لطف اندوز ہوتے رہتے جو خالصتاًان کے کسی مرید کے ذہن کی پیداوار تھا۔
تایا جی مراقبے اور دعا میں یہی حالت اختیار کیا کرتے تھے۔ اکثر جب ان کا کوئی شرارتی چیلا چانٹا کسی معروف فلمی شخصیت کے مقام و مرتبے کے متعلق ان سے پوچھ لیتا، جن کے بارے میں تایا جی نے اپنی سادگی اور عدم دلچسپی کے باعث کبھی سنا بھی نہ ہوتا تو وہ فوراً آنکھیں بند کر کے دل کی آنکھیں کھول لیتے اور اپنے تئیں روحانی دنیا میں پہنچ جاتے۔ پھر وہاں سے اطلاع دیتے: بڑا صاحب حال ہے، بڑا زور ہے اس میں۔ جلالی شخصیت ہے۔‘‘ یا:’’ بہت اثر والی بی بی ہے، فرقہء ملامتیہ ہے لیکن بڑی شان والی۔‘‘
کسی کے لئے دعا کرتے تو بھی ایسے ہی اپنے من میں ڈوب کر بظاہر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے، منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے رہتے۔ بیچ بیچ میںکوئی فقرہ آواز کی قابل سماعت حدود میں بھی داخل ہونے دیتے۔ ’’میرے مولا منزل آسان کر اس کی۔ اپنی راہ دکھا اور اس پر چلا۔‘‘ یار لوگ اس میں بھی کھیل تماشے کے پہلو نکال لیتے۔ ایک دفعہ لالہ نثار وغیرہ ایک نئے آدمی کولے کر بیعت کے لئے حاضر ہوئے تو ساتھ میں تبرک کی خاطر ایک قاب میں لڈو بھی لے کر آئے جن پر ریشمی کپڑا ڈھکا ہوا تھا۔ رسمی کارروائی کے لئے سب لوگ دوزانو ہو کر ایک دائرے کی صورت میں بیٹھ گئے اور لڈوؤں کی پلیٹ درمیان میں رکھ دی گئی۔ بیعت لینے کے بعد تایا جی اپنے نئے مرید کی دین و دنیا کی فلاح کے لئے دعا میں ڈوب گئے اور ان کے مرید وقفے وقفے سے ریشمی کپڑے کے نیچے ہاتھ ڈال کر لڈو اڑانے میں مصروف ہو گئے۔ تایا جی کی دعا ختم ہونے سے پہلے پہلے کپڑا پلیٹ کے پیٹ سے جا لگا۔
اب یہ بھی اتفاق ہے کہ جب تایا جی نے تبرک تقسیم کرنے کے لئے کپڑا ہٹایا تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ حیرت کا اظہار اسی شخص نے کیا جو قبل از دعا تقسیم میں سب بڑا حصہ دار تھا۔ یعنی لالہ نثار۔
’’ارے پیر جی، یہ کیا! ایمان سے میں خود تلوا کے پورے دو کلو لڈو لایا تھا۔‘‘
’’کمال ہوگیا۔۔۔آخر یہ گئے کہاں؟‘‘
ویسے پیر جی، سچ بتائوں، مجھے تو سارا وقت محسوس ہوتا رہا کہ یہاں ہمارے علاوہ بھی کوئی مخلوق موجود ہے، جو نظر نہیں آ رہی۔
طاہر  نے ایک اور نکتہ اُٹھایا۔
تایا جی کو اس مضحکہ خیز سچوئیشن میں اپنی بزرگی کا بھرم برقرار رکھنے کو اس سے اچھی پناہ کہاں ملتی۔ فوراً کہا
بس چھوڑ دو اس معاملے کو۔ ہمیں سب خبر ہے۔ دنیا میں ہر طرح کی مخلوق آباد ہے۔ جس کا حصہ تھا، اسے مل گیا۔
’’لیکن پیرجی ہمارا حصہ؟‘‘
چنانچہ تایا جی کو اپنی جیب سے اپنے مریدوں کے لئے مٹھائی منگوانا پڑی۔
ان کبھی کبھار کے چھوٹے موٹے مالی دھچکوں کے علاوہ تایا جی کے مریدوں کی زیادہ تر شرارتیں بے ضرر ہوا کرتی تھیں۔ فقط دو حرکتیں ایسی تھیں جو ممکنہ طور پر نقصان دہ تھیں۔ بلکہ کچھ لوگ تو کہتے تھے کہ جو نقصان ممکن تھا، انہوں نے تایا جی کو پہنچادیا تھا۔
ایک تو وہ آسیب والے مکان میں رات گزارنے والا واقعہ تھا۔ جیسا کہ عام طور پر محلے میں ایک آدھ یادگار ایسی ہوتی ہے، تایا جی کے محلے میں بھی ایک پرانا مکان ایسا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ تقسیم کے وقت، ہندو اسے چھوڑ گئے تھے اور اپنا سارا خزانہ فرش میں دبا کر اس پر کوئی جادو کا عمل کر گئے تھے۔ یہ بھی سنا تھا کہ خزانہ کھود نکالنے کے چکر میں کچھ لوگ اس جادو کی بھینٹ چڑھ گئے تھے اور پھر بعد میںان کی روحیں اسی مکان میں مقید ہو کر رہ گئی تھیں۔ چنانچہ وہ ساری علامات جو اس قسم کے مکانوں سے وابستہ ہوتی ہیں، اور جنہیں کبھی کوئی خود تو نہیں دیکھتا لیکن سب لوگ سنتے سناتے چلے آتے ہیں، اس مکان سے بھی وابستہ ہو گئی تھیں۔ راتوں کو گھنگھروئوں کی آواز، سایوں کی چہل قدمی، چیخیں، قہقہے، موسیقی اور دن میں وہی خاموش، پر ہول، پرانا مکان۔
ایسے میں تایا جی کے مریدین کو وہی سوجھی جو منطقی اعتبار سے سوجھنی چاہیئے تھی۔ یعنی اس گھر کو آسیب کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے تایا جی کی اس میں شب بسری کی تجویز۔ ایسی تجاویز اس ڈھنگ سے پیش کی جاتی تھیں کہ تایا جی کے پاس انہیں قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا تھا۔ چنانچہ سر شام ہی اس گھر میں پکنک کا سا سماں برپا ہوگیا۔ ایک کمرے کو جھاڑ پونچھ کر اس میں صاف ستھرا بستر لگایا گیا۔ اپنے لئے مریدوں نے چٹائیاں بچھا لیں جن پر گدے ڈال دیئے گئے۔ چائے بنانے کا سامان اور ساتھ بسکٹ وغیرہ بھی رکھ لئے گئے کہ رات کو عبادت اور ذکر کے دوران اگر بھوک پیاس لگے تو اس کا مناسب تدارک کیا جاسکے لیکن رات کے آتے آتے سب مرید ایک ایک دو دو کر کے مختلف حیلوں بہانوں سے گھروں کو سدھار گئے۔ تایا جی نے وہ رات کیسے گزاری، سو گئے یا جاگتے رہے، وظیفے پڑھے یا ڈرتے کانپتے سحر کر دی، کسی آسیب سے ملاقات ہوئی یا نہیں۔ اس اسرار پر سے کبھی پردہ نہ اٹھ سکا کیونکہ اپنی شرارت کا انجام جاننے کے تمام تر شوق کے باوجود کوئی مرید رات کو وہاں ٹھہرنے کی ہمت نہ کر سکا اور نہ ہی کبھی بعد میں تایا جی نے اس سلسلے میں پوچھے گئے کسی سوال کا واضح جواب دیا۔
اس واقعے پر محلے کے بزرگوں نے لڑکوں کو خوب ڈانٹا ڈپٹا اور ان نتائج سے ڈرایا جو حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ اگلی شرارت زیادہ خطرناک تھی جو اتفاق سے آخری بھی ثابت ہوئی۔ محلے کے سمجھدار لوگ کہتے تھے کہ اسی حرکت نے بالآخر تایا جی کی جان لے لی۔ شاید وہ صحیح سمجھتے ہوں۔
اس شرارت کے پیچھے نسبتاً زیادہ جامع اور طویل منصوبہ بندی تھی۔
مریدوں نے اپنے پیر صاحب کی دوسری شادی کی ہوائی چلائی۔ گو وہ اپنی پہلی شادی ہی جانے کس طرح جھیل رہے تھے لیکن سیانوں کا کہنا ہے کہ ایک شادی کا دف مارنے کے لئے دوسری شادی سے بہتر تریاق میسر نہیں آسکتا۔ شاید تایا جی اس قول سے متفق تھے کیونکہ وہ اپنی دوسری شادی کے پروگرام سے واضح طور پہ خوش اور مطمئن نظر آتے تھے، ہاں مصلحتاً اسے تائی جی سے چھپائے رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کے مرتے دم تک تائی جی کو اس منصوبے کی خبر نہ ہوسکی اور شاید وہ خود بھی اس حقیقت سے بے خبر ہی دنیا سے رخصت ہوئے کہ ان کی دوسری شادی کا پروگرام ان کے مریدوں کی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
ایک تو یوں بھی پہلی شادی کا تجربہ چاہے تلخ ہو یا خوبصورت، دوسری شادی کا خیال مرد کے لئے اپنی کشش کبھی نہیں کھو پاتا، دوسرے تایا جی سے شادی کی خواہشمند اس خیالی خاتون کی تصویر کشی بھی ایسی کی گئی تھی کہ کسی کے بھی پائے استقلا ل لڑکھڑا جائیں۔ بی بی جوان ہو، حسین ہو، پابند صوم و صلوۃ ہو، بر سر روزگار ہو بلکہ برسر کاروبار ہو اور وہ بھی امریکا جیسے ملک میں۔ پھر شادی کے بعد تایا جی کو بھی وہیں بلا لینا چاہتی ہو۔ اس طرح کافروں کے ملک میں رہ کر ان کو تبلیغ کرنے کا جو موقع میسر آتا اور پھر ان کے کافرانہ طور طریقوں کا ذاتی مشاہدہ کرنے کا امکان، تاکہ درستگی ء احوال کا کام بہتر انداز میں کیا جاسکے۔ اس خیال کا لطف تو کچھ اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔
ویسے بھی یہ معاملہ اپنے اختیار میں کہاں تھا۔ لالہ نثار کے بیان کے مطابق بی بی کو خواب میں کئی دن تک مسلسل یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پیر صاحب سے رابطہ کریں جن سے ان کی شادی طے کر دی گئی ہے۔ رابطے کے لئے تایا جی کی دکان کے ساتھ والی آڈیو وڈیو کی دکان کا فون نمبر بھی خواب ہی میں بتایا گیا تھا۔ ناصر آڈیو وڈیو اینڈ مووی میکرز پر جب بھی تایا جی کے لئے کوئی فون آتا اور وہاں کا ملازم تالوں والی دکان میں آکر اطلاع دیتا تو ان کا کوئی مرید ہی اسے سننے کے لئے جاتاکیونکہ زیادہ تر فون ان مریدوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں ہی آتے تھے۔ پھر کسی فرضی مریض کو فون پر دم کروانا ہوتا یا کوئی فقرہ خاص تایا جی کے کانوں کے لئے گھڑا گیا ہوتا تو ان کو بھی زحمت دی جاتی۔ لیکن امریکا والی بی بی کی آواز کبھی تایا جی کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ کردار ادا کرنے کے لئے لالہ نثار اور طاہر وغیرہ کو کوئی خاتون میسر ہی نہ آسکی تھی۔ چنانچہ ان کے سارے پیغامات اور ان کے سارے خیالات لالہ نثار اور طاہر کے ذریعے ہی منتقل ہوتے تھے۔ یعنی دراصل کہیں منتقل نہیں ہوتے تھے۔
تایا جی کے لئے اس پیشکش کو قبول کرنے کے لئے دل و جان سے آمادہ ہوجانا اس لئے آسان ہو گیا تھا کہ ذہین مریدوں نے اس کہانی میں غیبی اشارے کے پھول ٹانک دیئے تھے۔ چنانچہ دوچار فون کالوں میں ہی یہ طے پا گیا کہ پہلے ٹیلی فون پر نکاح ہوگا۔ بعد ازاں بی بی اپنی امریکی شہریت کے زور پر تایا جی کو وہیں اپنے پاس بلوالیں گی اور یہ سارا معاملہ امریکا پہنچنے تک تائی جی سے خفیہ رکھا جائے گا۔ پھر وہاں جاتے ہی امریکی مالی امدادکے ذریعے تائی جی کی جملہ پریشانیوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ چنانچہ وہ بھی خوش اور تایا جی بھی خوش۔
ان فرضی ٹیلی فونوں کا سلسلہ تقریباً دو ماہ تک چلتا رہا، کبھی بی بی کا دیکھا ہوا کوئی خواب سنا کر تعبیر پوچھی جاتی، کبھی وہ دعا کے لئے درخواست گزار ہوتیں، کبھی کسی وظیفے کے لئے اجازت طلب کرتیں۔
آخرجب تایا جی کی آتش شوق زبان غیر سے شرح آرزو سن سن کر سلگتے سلگتے بھڑکنے کے قریب ہو گئی، نکاح کی مقرر کردہ تاریخ نزدیک آ لگی اور تایا جی نے اپنی واحد واسکٹ تائی جی سے چوری چھپے نذیر ڈرائی کلینر سے رعائیتی نرخوں پر ڈرائی کلین کروالی تو وہ سانحہ پیش آ گیا جو لالہ نثار اور طاہر نے سوچ رکھا تھا۔ امریکن بی بی ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔ تایا جی کے ارمان بھرے دل پر کیا قیامت گزری ہو گی، اس کا اندازہ کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ شرارت کرنے والوں کی سنگ دلی کا۔ ظالموں نے اسی پہ بس نہیں کیا بلکہ اس فرضی موت پر تایا جی سے پھوڑی بھی بچھوائی۔ تالوں کی دکان پر تین دن تالا رہا۔ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ فاتحہ خوانی اور دکان سے چھٹی کو تائی جی سے چھپانا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ ہاں، انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کس کا انتقال پر ملال تھا۔
پیجی بادشاہ کی دکان کے وسیع و عریض چبوترے پر جہاں فاتحہ خوانی کے لئے دری بچھائی گئی تھی، مہینہ دو مہینے بعد عین اسی جگہ تایا جی کے لئے بھی پھوڑی بچھائی گئی۔ ان کے مریدوں کا خیال تھا کہ دل کا دورہ تھا۔ لیکن محلے کے کئی سمجھدار لوگ تایا جی کی موت کا ذمے دار اس آخری شرارت کو گردانتے تھے۔ تایا جی کے مریدوں کو اپنی حرکت کی سنگینی کا احساس تھا یا نہیں، یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن وہ اپنے سب کام چھوڑ کر پھوڑی پہ مسلسل موجود رہے۔
تایا جی کے اپنے تو کچھ ایسے خاص رشتے دار تھے نہیں۔ محلے کے لوگ ہی وقت نکال کر فاتحہ خوانی کے لئے آ جاتے اور بیٹھ کر اخبار دیکھتے رہتے یا تایا جی کے شاگردوں کو گھورتے رہتے۔ مرحوم کی سادگی، قناعت اور صبر کی تعریف ہوتی رہتی یا ان کے مریدوں کو زجروتوبیخ کہ جن کی شرارتوں اور منصوبہ سازیوں نے ایک بھلے آدمی کی زندگی خراب کر دی اور شاید آخرت بھی۔
اس وعظ و نصیحت اور ڈانٹ ڈپٹ کا رخ خصوصاً لالہ نثار اور طاہر کی طرف ہوتا تھا اور وہ کمال لاتعلقی سے یہ ساری باتیں سنتے اور نظر انداز کرتے رہتے تھے۔ لیکن فاتحہ خوانی کے آخری دن جب ساجد اپنے گونگے بیٹے کو لے کر پھوڑی پہ پہنچا تو لالہ نثار کو بھی پسینہ آگیا۔
ساجد ان کا دفتر کا ساتھی تھا، جسے تایا جی کے مرنے سے کچھ ہی دن پہلے وہ ان کے پاس لائے تھے۔ اس کے بیٹے کے لئے دعا کروانے جو پیدائیشی گونگا تھا۔ ساجد نے اپنے بیٹے کے علاج کے لئے بہت سے اسپتالوں، شفا خانوں اور مزاروں کی خاک چھانی تھی۔ تبادلہ ہو کر یہاں آیا تو لالہ نثار تایا جی کے دربار پر بھی لے آئے۔ خیال تھا کہ کچھ دنوں بعد چندے کی مٹھائی لے کر تایا جی کو یہ خوشخبری سنا دیں گے کہ لڑکا کچھ زبان ہلانے لگا ہے۔ جھوٹ کھلنے کا خطرہ یوں نہیں تھا کہ ساجد کی تایا جی سے دوسری ملاقات لالہ نثار خود ہی نہ ہونے دیتے۔ اور اگر کبھی ایسا ہو بھی جاتا تو بات سنبھالنا کیا مشکل تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ اللہ نے تایا جی ہی کو سنبھال لیا۔
ساجد اپنے بیٹے کو لیے حاضرین میں سے گزرتا ہوا لالہ نثار کے پاس ہی آ بیٹھا۔ فاتحہ پڑھی، اس واقعے پر اچنبھے اور افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے بعد اس نے نسبتاً بلند آواز سے جو کچھ کہا اس نے لالہ نثار سمیت وہاں موجود تایا جی کے تمام مریدوں کو اپنی باقی ساری زندگی کے لئے ایک سوچ کے سپرد کر دیا۔
ساجد کچھ اونچی آواز میں، جو ایسے موقعوں پہ لوگوں کو مرحوم کی خوبیوں سے روشناس کروانے کے لئے اختیار کی جاتی ہے، کہا
اللہ کے ولی تھے جی، سچے ولی۔ میرے بیٹے میں پیدائیشی نقص تھا۔ میں کہاں کہاں نہیں گیا اسے لے کر۔ کتنے ڈاکٹروں کو دکھایا، بڑے مزاروں، درباروں پہ حاضری دی۔ لیکن بیٹے کو زبان ملی تو پیر جی کی دعا سے، سنا بیٹا کلمہ سنا۔‘‘ اس نے بچے کو اشارہ کیا۔
بچے نے جھجھکتے ہوئے لب کھولے اور اٹکتے اٹکتے سنایا:
’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔‘‘
لوگوں کی کھسر پھسر، پہلو بدلنے کی سرسراہٹیں اور اخبار پلٹنے کی آوازیں سب موقوف تھیں۔ ماحول پر ایک سوگوار خاموشی چھا گئی تھی۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles