19 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

بیابان عقیدت

 

بیابانِ عقیدت

قدرت اللہ شہاب

ماں کی یاد انسان کو کیسے تڑپاتی ہے یہ قدرت اللہ شہاب کی بے بسی سے پوچھیے

ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا۔ جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیانیا آباد ہو رہا تھا، پنجاب کے ہر قصبے سے غریب الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لیے اِس نئی کالونی میں جوق در جوق کھنچے چلے آ رہے تھے۔ عرفِ عام میں لائل پور، جھنگ سرگودھا وغیرہ کو ’’بار‘‘ کا علاقہ کہا جاتا تھا۔
اُس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی۔ اِس حساب سے اُن کی پیدائش پچھلی (اٹھارہویں) صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہوئی ہو گی۔
ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا۔ والدین کے پاس چند ایکڑ اَراضی تھی۔ اُن دنوں روپڑ میں دریائےستلج سے نہر سرہند کی کھدائی ہو رہی تھی۔ نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی۔ روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمینوں کے معاوضے دیے جاتے تھے۔ نانا جی دو تین بار معاوضے کی تلاش میں شہر گئے، لیکن سیدھے آدمی تھے کبھی اتنا بھی معلوم نہ کر سکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لیے کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ انجام کار صبروشکر کر کے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی میں مزدوری کرنے لگے۔
اُنھی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آبادکاروں کو مفت زمین مل رہی ہے۔ نانا جی اپنی بیوی، دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور رَوانہ ہو گئے۔ سواری کی توفیق نہ تھی، اِس لیے پاپیادہ چل کھڑے ہوئے۔
راستے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے۔ نانا جی جگہ بہ جگہ قلی کا کام کر لیتے یا کسی ٹال پر لکڑیاں چیر دیتے۔ نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کے فرش اور دِیواریں لیپ دیتیں۔ لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا۔ جگہ جگہ بھٹکتے تھے اور پوچھ پاچھ کر دنوں کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے۔
ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے۔ پاپیادہ چلنے اور محنت مزدوری کی مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے۔ یہاں پر چند ماہ قیام کیا۔ نانا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کرتے۔ نانی چرخہ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سنبھالتیں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتمل تھا۔
اُنھی دنوں بقر عید کا تہوار آیا۔ نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہو گئے تھے۔ اُنھوں نے ماں جی کو تین آنے بطور عیدی دیے۔ زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے آئے تھے۔ اُنھوں نے بہت سوچا، لیکن اِس رقم کا کوئی مصرف اُن کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ وفات کے وقت اُن کی عمر کوئی اسّی برس کے لگ بھگ تھی، لیکن اُن کے نزدیک سو روپے، دس روپے، پانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا۔ عیدی کے تین آنے کئی روز ماں جی کے ڈوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے جس روز وُہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں، ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل مسجد کے چراغ میں ڈال دیا۔ باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا۔ اِس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے، وہ فوراً مسجد میں تیل بجھوا دیتیں۔
ساری عمر جمعرات کی شام کو اِس عمل پر بڑی وضعداری سے پابند رہیں۔ رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آ گئی، لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی اُنھیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا تھا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے۔ وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے۔ غالباً یہ پیسے بھی مسجد کے تیل کے لیے جمع کر رکھے تھے چونکہ وہ جمعرات کی شب تھی۔
اِن چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کچھ اور رَقم تھی نہ کوئی زیور۔ اسبابِ دنیا میں اُن کے پاس گنتی کی چند چیزیں تھیں۔ تین جوڑے سوتی کپڑوں کے، ایک جوڑا دیسی جوتا، ایک جوڑا رَبڑ کے چپل، ایک عینک، ایک انگوٹھی جس میں تین چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے ہوئے تھے۔ ایک جائےنماز، ایک تسبیح اور باقی اللہ اللہ۔
پہننے کے تین جوڑوں کو وہ خاص اہتمام سے رکھتی تھیں۔ ایک زیب تن، دوسرا اَپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھا رہتا تھا تاکہ استری ہو جائے۔ تیسرا دھونے کے لیے تیار۔ اِن کے علاوہ اگر چوتھا کپڑا اُن کے پاس آتا، تو وہ چپکے سے ایک جوڑا کسی کو دے دیتی تھیں۔ اِسی وجہ سے ساری عمر اُنھیں سوٹ کیس رکھنے کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔ لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لیے اُنھیں تیاری میں چند منٹ سے زیادہ نہ لگتے تھے۔ کپڑوں کی پوٹلی بنا کر اُنھیں جائےنماز میں لپیٹا۔ جاڑوں میں اونی فرو اَور گرمیوں میں ململ کے دوپٹے کی بکل ماری اور جہاں کہیے چلنے کو تیار۔ سفرِآخرت بھی اُنھوں نے اِس سادگی سے اختیار کیا۔ میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھے۔ نہا دھو کر بال سکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے سب سے لمبے سفر پر روانہ ہو گئیں۔ جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں، اُسی خاموشی سے عقبیٰ کو سدھار گئیں۔ غالباً اِسی موقع کے لیے وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتی تھیں کہ ’اللہ تعالیٰ ہاتھ چلتے چلاتے اُٹھا لے۔ اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے۔‘
کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ اور غریب مزاج تھیں۔ اُن کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی، دھنیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ تھی۔ باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتی تھیں، لیکن شوق سے نہیں۔ تقریباً ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں۔ پھلوں میں کبھی بہت ہی مجبور کیا جائے، تو کبھی کبھار کیلے کی فرمائش کرتی تھیں۔ البتہ ناشتے میں چائے کے دو پیالے اور تیسرے پہر سادہ چائے کا ایک پیالہ ضرور پیتی تھیں۔ کھانا صرف ایک وقت کھاتی تھیں اکثر و بیشتر دوپہر کا۔ شاذونادر رَات کا۔ گرمیوں میں عموماً مکھن نکالی ہوئی پتلی نمکین لسی کے ساتھ ایک آدھ سادہ چپاتی اُن کی محبوب خوراک تھی۔ دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور ہمیشہ یہ دعا کرتی تھیں، سب کا بھلا۔ خاص اپنے یا اپنے بچوں کے لیے اُنھوں نے براہِ راست کبھی کچھ نہ مانگا۔ دوسروں کے لیے دعا مانگتی تھیں اور اِس کے بعد مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی تھیں۔ اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو اُنھوں نے اپنی زبان سے کبھی ’’میرے بیٹے‘‘ یا ’’میری بیٹی‘‘ کہنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہمیشہ اُن کو اللہ کا مال کہا کرتی تھیں۔
کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا۔ اپنے سب کام وہ اَپنے ہاتھوں خود انجام دیتی تھیں۔ اگر کوئی ملازم زبردستی اُن کا کوئی کام کر دیتا، تو اُنھیں ایک عجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگتا تھا اور وُہ احسان مندی سے سارا دِن اُسے دعائیں دیتی رہتی تھیں۔
سادگی اور دَرویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا۔ کچھ یقیناً زندگی کے زیروبم نے سکھایا تھا۔
جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور خورد سال بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کی کالونی کی طرف روانہ ہوئیں، تو اُنھیں کچھ معلوم نہ تھا کہ اُنھیں کس مقام پر جانا ہے اور زَمین حاصل کرنے کے لیے کیا قدم اٹھانا ہے۔ ماں جی بتایا کرتی تھیں کہ اُس زمانے میں اُن کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہیں سرِراہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہو گا۔ کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پاپیادہ بھٹکتا رہا، لیکن کسی راہ گزر پر اُنھیں کالونی کا خضر صورت راہنما نہ مل سکا۔ آخر تنگ آ کر اُنھوں نے چک نمبر ۳۹۲ میں جو اُن دنوں نیانیا آباد ہو رہا تھا، ڈیرے ڈال دیے۔ لوگ جوق در جوق وہاں آ کر آباد ہو رہے تھے۔ نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھا کہ کالونی میں آباد ہونے کا شاید یہی ایک طریقہ ہو گا، چنانچہ اُنھوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھانس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کر کے کاشت کی تیاری کرنے لگے۔ اِنھی دنوں محکمہ مال کا عملہ پڑتال کے لیے آیا۔ نانا جی کے پاس الاٹمنٹ کے کاغذ نہ تھے، چنانچہ اُنھیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر ناجائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں اُن کے برتن اور بستر قرق کر لیے گئے۔ عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اُتروا لیں۔ ایک بالی اتارنے میں ذرا دیر ہوئی، تو اُس نے زور سے کھینچ لی جس سے ماں جی کے کان کا زیریں حصّہ بری طرح سے پھٹ گیا۔
چک نمبر ۳۹۲ سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا، اُس پر چل کھڑے ہوئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ دن بھر لُو چلتی۔ پانی رکھنے کا لیے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا۔ جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آتا، ماں جی اپنا ڈوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے پر اپنے چھوٹے بھائیوں کو چساتی جائیں۔ اِس طرح وہ چلتے چلتے چک نمبر ۵۰۷ میں پہنچے جہاں ایک جان پہچان کے آبادکار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔ نانا جی ہل چلاتے تھے۔ نانی مویشی چرانے لے جاتی تھیں۔ ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی بھینسوں اور گائیوں کے لیےلایا کرتی تھیں۔ اُن دنوں اُنھیں اتنا مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری طرح کھا سکیں۔ کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا۔ کبھی خربوزے کے چھلکے ابال کر کھا لیتے تھے۔ کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں، تو اُن کی چٹنی بنا لیتے تھے۔ ایک روز کہیں سے توریے اور کلتھے کا ملاجلا ساگ ہاتھ آ گیا۔ نانی محنت مزدوری میں مصروف تھیں۔ ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا۔ جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا، تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آ پڑا۔ ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی۔ رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہواساگ اُنگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا۔
چک نمبر ۵۰۷ نانا جی کو خوب راس آیا۔ چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آبادکاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر اُنھیں ایک مربعہ زمین مل گئی۔ رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں اُن کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا۔ جوںجوں فارغ البالی بڑھتی گئی، توںتوں آبائی وطن کی یاد ستانے لگی، چنانچہ خوش حالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا۔ ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا۔ وہ سارا وقت کھڑکی سے باہر منہ نکال کر تماشا دیکھتی رہیں۔ اِس عمل میں کوئلے کے بہت سے ذرے اُن کی آنکھوں میں پڑ گئے جس کی وجہ سے کئی روز تک وہ آشوبِ چشم میں مبتلا رہیں۔ اِس تجربے کے بعد اُنھوں نے ساری عمر اپنے کسی بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔
ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور رَاستے کے گردوغبار کا اُن پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اِس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بےزار ہو جاتیں۔ ایک دو بار جب اُنھیں مجبوراً ایئرکنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا پڑا، تو وہ تھک کر چُور ہو گئیں اور سارا وَقت قید کی صعوبت کی طرح اُن پر گراں گزرا۔
منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیزواقارب کو تحائف دیے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لیے بر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اُس زمانے میں لائل پور کے مربعہ داروں کی بڑی دھوم تھی۔ اُن کا شمار خوش قسمت اور باعزت لوگوں میں ہوتا تھا، چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پے در پے پیام آنے لگے۔ یوں بھی اُن دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لیے نانی جی اُنھیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔
کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ اُن دنوں میرا گاؤں میں نکلنا تک دوبھر ہو گیا تھا۔ مَیں جس طرف سے گزر جاتی، لوگ ٹھٹک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے یہ خیال بخش مربعہ دار کی بیٹی جا رہی ہے۔ دیکھیے کون سا خوش نصیب اِسے بیاہ کر لے جائے گا۔
’’ماں جی! آپ کی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا؟‘‘ ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر اُن سے پوچھا کرتے۔
’’توبہ توبہ پت!‘‘ ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں ’’میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہو سکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو، تو اللہ کی بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘
ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اَپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔ اِسے اللہ نے یوں پورا کر دیا کہ اُسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہو گئی۔
اُن دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیرکبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن پانچ چھے برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بےحد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا، تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رِہن پڑی ہے، چنانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اَور زَمین کا یہ انجام دیکھ کر اُنھوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے، چنانچہ عبداللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دَو دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اوّل آئے۔ اُس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالبِ علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔
اڑتے اڑتے یہ خبر سرسید کے کانوں میں پڑ گئی جو اُس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رَکھ چکے تھے۔ اُنھوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبداللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی۔اے کرنے کے بعد اُنیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچرار ہو گئے۔
سرسید کو اِس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں میں جائیں، چنانچہ اُنھوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا کہ وہ اِنگلستان میں جا کر آئی۔سی۔ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔
پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائےناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبداللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور اُنھوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔
اِس حرکت پر سرسید کو بےحد غصہ آیا اور دُکھ بھی ہوا۔ اُنھوں نے لاکھ سمجھایا بجھایا، ڈرایا دھمکایا، لیکن عبداللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔
’’کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟‘‘ سرسید نے کڑک کر پوچھا۔ ’’جی ہاں!‘‘ عبداللہ صاحب نے جواب دیا۔
یہ ٹکا سا جواب سن کر سرسید صاحب آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے اُنھوں نے عبداللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پِیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا ’’اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے مَیں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔‘‘
عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر اُنھیں سب سے دوراُفتادہ اَور دُشوارگزار مقام گلگت نظر آیا، چنانچہ وہ ناک کی سیدھ گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی، اُنھی دنوں عبداللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔ قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا۔ اُن کی منگنی ہو گئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبداللہ صاحب اپنی دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جائیں۔
منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں۔ اتفاقاً یا شاید دانستہ عبداللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔
ماں جی کی سہیلیوں نے اُنھیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑچھیڑ کر اُن سے پانچ پانچ روپے وصول کر لیے۔ عبداللہ صاحب نے ماں جی کو بھی بہت سے روپے پیش کیے، لیکن اُنھوں نے انکار کر دیا۔ بہت اصرار بڑھ گیا، تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
’’اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی؟‘‘ عبداللہ صاحب نے پوچھا۔
’’اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوا دُوں گی۔‘‘ ماں جی نے جواب دیا۔
زندگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دن صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک محدود رَہا۔ اِس سے زیادہ رقم نہ کبھی اُنھوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔
گلگت میں عبداللہ صاحب کی بڑی شان و شوکت تھی۔ خوبصورت بنگلہ، وسیع باغ، نوکرچاکر، دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ، جب عبداللہ صاحب دورے پر باہر جاتے یا واپس آتے تھے، تو سات توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ یوں بھی گلگت کا گورنر خاص سیاسی، انتظامی اور سماجی اقتدار کا حامل تھا، لیکن ماں جی پر اِس سارے جاہ و جلال کا ذرہ بھی اثر نہ ہوا۔ کسی قسم کا چھوٹا بڑا ماحول اُن پر اثرانداز نہ ہوتا تھا، بلکہ ماں جی کی اپنی سادگی اور خوداعتمادی ہر ماحول پر خاموشی سے چھا جاتی تھی۔
اُن دنوں سر مالکم ہیلی حکومتِ برطانیہ کی طرف سے گلگت کی روسی اور چینی سرحدوں پر پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پہ مامور تھے۔ ایک روز لیڈی ہیلی اور اُن کی بیٹی ماں جی سے ملنے آئیں۔ اُنھوں نے فراک پہنے ہوئے تھے اور پنڈلیاں کھلی تھیں۔ یہ بےحجابی ماں جی کو پسند نہیں آئی۔ اُنھوں نے لیڈی ہیلی سے کہا ’’تمہاری عمر تو جیسے گزرنی تھی، گزر ہی گئی ہے۔ اب آپ اپنی بیٹی کی عاقبت تو خراب نہ کرو۔‘‘ یہ کہہ کر اُنھوں نے مس ہیلی کو اپنے پاس رکھ لیا اور چند مہینوں میں اُسے کھانا پکانا، سینا پرونا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا سکھا کر ماں باپ کے پاس واپس بھیج دیا۔
جب روس میں انقلاب برپا ہوا، تو لارڈ کچز سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔ اُن کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا اہتمام ہوا۔ ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے۔ کھانے لذیذ تھے۔ لارڈ کچز نے اپنی تقریر میں کہا
’’مسٹر گورنر! جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں، براہِ مہربانی میری طرف سے آپ اُن کے ہاتھ چوم لیں۔‘‘
دعوت کے بعد عبداللہ صاحب فرحاں و شاداں گھر لَوٹے، تو دیکھا ماں جی باورچی خانے کے ایک گوشے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔ ایک اچھے گورنر کی طرح عبداللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا
’’اگر لارڈ کچز یہ فرمائش کرتا کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے، تو پھر تم کیا کرتیں؟‘‘
’مَیں!‘‘ ماں جی تنک کر بولیں: ’’مَیں، اُس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اُکھاڑ دیتی۔ پھر آپ کیا کرتے؟‘‘
’’مَیں!‘‘ عبداللہ صاحب نے ڈراما کیا: ’’مَیں اُن مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمہیں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا جیسے سرسید کے ہاں سے بھاگا تھا۔‘‘
ماں جی پر اِن مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا، لیکن ایک بار ماں جی رشک و حسد کی اُس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔
گلگت میں ہر قسم کے احکامات ’’گورنری‘‘ کے نام پر جاری ہوتے تھے۔ جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا، تو اُنھوں نے عبداللہ صاحب سے گلہ کیا۔
’’بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں، لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خواہ مخواہ!‘‘
عبداللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے، رگِ ظرافت پھڑک اٹھی اور بےاعتنائی سے فرمایا ’’بھاگوان یہ تمہارا نام تھوڑا ہے، گورنری تو دراصل تمہاری سوکن ہے جو دن رات میرا پیچھا کرتی رہتی ہے۔‘‘
مذاق کی چوٹ تھی۔ عبداللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گی، لیکن ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا۔ اِس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں۔
کچھ عرصہ کے بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاپ سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا۔ ماں جی نے مہارانی کو اپنے دل کا حال سنایا۔ مہارانی بھی سادہ عورت تھی۔ جلال میں آ گئی
’’ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم۔ مَیں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبداللہ صاحب کی خبر لیں۔‘‘
جب یہ مقدمہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ تک پہنچا، تو اُنھوں نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی۔ عبداللہ صاحب حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آ پڑی، لیکن جب معاملے کی تہ تک پہنچے، تو دونوں خوب ہنسے۔ آدمی دونوں وضع دار تھے، چنانچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیرِ وَزارت کے نام سے پکارا جائے۔ ۱۹۴۷ء کی جنگِ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔
یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوشخبری سنائی
’’مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ اب تم دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو۔‘‘ مہارانی نے کہا
’’کبھی ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔‘‘
مہاراجہ اور مہارانی کے کوئی اولاد نہ تھی، اِس لیے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے۔
اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔
ماں جی خود کہا کرتی تھیں کہ اِن جیسی خوش نصیب مائیں دنیا میں کم ہی ہوتی ہیں، لیکن اگر صبروشکر، تسلیم و رضا کی عینک اُتار کر دیکھا جائے، تو اِس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ، کتنے غم، کتنے صدمے نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ماں جی کو تین بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔ دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصہ بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں۔ سب سے بڑا بیٹا عین عالمِ شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔ کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا، اللہ نے لے لیا، لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کر خون کے آنسو رویا نہ کرتی ہوں گی؟
جب عبداللہ صاحب کا انتقال ہوا، تو اُن کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ عبداللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسبِ معمول گاؤ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے۔ ماں جی پائینتی پر بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر اُن کو دے رہی تھیں۔ وہ مزےمزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے۔ پھر یکایک وہ سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے
’’بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں مَیں نے تمہیں گیارہ پیسے دیے تھے، کیا اُنھیں واپس کرنے کا وقت نہیں آیا؟‘‘
ماں جی نے نئی نویلی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔ اُن کے سینے میں بیک وقت بہت سے خیال امڈ آئے
’’ابھی وقت کہاں آیا ہے سرتاج! شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے، لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے، اِس پر مَیں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔ اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں۔ ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج!‘‘
لیکن قضاوقدر کے بہی کھاتے میں وقت آ چکا تھا۔ جب ماں جی نے سر اُٹھایا، تو عبداللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لیے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے۔ ماں جی نے بہتیرا بلایا، چمکارا، لیکن عبداللہ صاحب ایسی نیند سو گئے جس سے بےداری قیامت سے پہلے ہی نہیں۔
ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دَو بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا لگا کر تلقین کی:
’’بچہ! رونا مت، تمہارے ابا جی جس آرام سے رہے تھے، اُسی آرام سے چلے گئے۔ اب رونا مت، اُن کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔‘‘
کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا، ورنہ اُنھیں تکلیف پہنچے گی، لیکن کیا وہ خود چوری چُھپے اُس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہوں گی جس نے باسٹھ سال کی عمر تک اُنھیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے ’’گورنری‘‘ کے علاوہ اور کوئی سوکن اُس کے سر پر لا کر نہیں بٹھائی۔
جب وہ خود چل دیں، تو اپنے بچوں کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں جو قیامت تک اُنھیں عقیدت کے بیابان میں سرگرداں رکھے گا۔
اگر ماں جی کے نام پر خیرات کی جائے، تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی، لیکن مسجد کا ملّا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔
ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے، تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے، لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اَور زَردے کا اہتمام لازم ہے۔
ماں جی کا نام آتا ہے، تو بےاختیار رونے کو جی چاہتا ہے، لیکن اگر رویا جائے، تو ڈر لگتا ہے کہ اُن کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے، تو اللہ کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔
٭٭٭

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles