8 C
Lahore
Monday, December 9, 2024

Book Store

مجھے بن مانگے مشوروں سے بچاؤ

صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
مجھے بن مانگے مشوروں سے بچاؤ
24/05/13


اُردو کے طرحدار مزاح نگار مرزا فرحت اﷲ بیگ نے ذہن کو گدگداتا ہوا ایک مضمون لکھا تھا
’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘۔
جناب نواز شریف جن کی حسِ مزاح آجکل بڑی تروتازہ ہے ٗ ایک ہی فقرے کا ورد کر رہے ہوں گے کہ
’’مجھے بن مانگے مشوروں سے بچاؤ‘‘۔
مشورے سن سن اور پڑھ پڑھ کر اُنہیں اُبکائی آنے لگی ہو گی اور اُن کے مزاج میں ایک نوع کا
چڑچڑاپن بھی پیدا ہو چکا ہوگا۔
اب تو کیفیت یہ ہو چلی ہے کہ جو صاحب مبارک باد دینے جاتے ہیں ٗ وہ اپنی جیب سے دو چار
مشوروں پر مشتمل ایک چٹ بھی پیش کر دیتے ہیں اور اصل بات کان میں کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میاں صاحب چونکہ طبعاً بڑے خلیق اور بامروت واقع ہوئے ہیں ٗ اِس لیے اپنے چہرے سے بیزاری کے
تاثرات ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ عملاً اُنہیں مشوروں کی کیا ضرورت ہے۔
جس شخص نے دو بار ملکی اقتدار سنبھالا ہو ٗاقتدار سے محروم ہونے کے اذیت ناک لمحات سے بھی گزرا
اور اُسے طویل جلا وطنی کے دوران ماضی کا جائزہ لینے
اور مختلف ممالک میں حکمرانی کے اسالیب دیکھنے کے بہت سارے مواقع ملے ہوں
اِس سے زیادہ زیرک ٗ تجربے کار اور پاور میکانزم کا ماہر اور کون ہو سکتا ہے۔
اُنہیں خوب اندازہ ہے کہ اُن کی ذاتی جبلتوں سے کس کس نے فائدہ اُٹھایا اور کس کس نے چکنی چپڑی باتیں کر کے اُنہیں غلط راستوں پر ڈالا
اور اُن کے کان بھر کر اُنہیں اپنے حقیقی دوستوں سے متنفر کیا۔ اب اُنہیں پورا پورا احساس ہو چکا ہے کہ حکومت چلانے کے لیے گہرائی
دانائی اور اجتماعی ذمے داری اور ایک ایک قدم پر کفایت شعاری اور خدا خوفی کی ضرورت ہے۔
جناب نواز شریف کے بعض بیانات میں بھارت کے ساتھ یک طرفہ محبت جوش مار رہی ہے جو اُن کے مزاج میں شتابی کی آئینہ دار ہے۔
دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین تعلقات سے یقینی طور پر پاکستان اور جنوبی ایشیا کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے ٗ مگر اِس کے لیے دوسری طرف سے بھی چاہت کااظہار ضروری ہے۔
میاں صاحب نے فرطِ محبت میں بھارتی وزیر اعظم کو تقریبِ حلف وفاداری میں دعوت دے ڈالی
جو عوامی حلقوں میں اضطراب پیدا کرنے کا باعث بنی
مگر اُدھر سے بھی یک طرفہ بے نیازی کا پیغام آ گیا جس نے پاکستان کے وقار میں اضافہ نہیں کیا
اور ہم جناب طارق فاطمی اور جناب ریاض کھوکھر کی موجودگی میں لب کشائی بھی نہیں کر سکتے۔
میں سات روز سے دیکھ رہا ہوں کہ رائیونڈ اور ماڈل ٹاؤن میں جناب نواز شریف کی صدارت میں
اہم اجلاس جاری ہیں
اور بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کے منصوبے زیرِ غور ہیں۔
خوشی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اِن میں پروفیشنل بھی شامل ہیں اور بھارت کے صنعت کاربھی نظر آئے
مگر ابھی تک وہ سیاسی اور بیوروکریٹک ٹیم سامنے نہیں لائی جا رہی جسے بہت کڑے امتحان سے گزرنا ہے۔
میں چونکہ بنیادی طور پر صحافی ہوں ٗ اِ س لیے مشورہ دینے سے باز نہیں رہ سکتا
یہ جانتے ہوئے بھی کہ بن مانگے مشورے کی ذرہ برابر قدروقیمت نہیں ہوتی۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ میاں صاحب پورے اعتماد کے ساتھ اپنی ٹیم قوم کے سامنے پیش کرتے
ہوئے اُسے آزادی کے ساتھ کام کرنے کی سہولتیں فراہم کریں۔ عوام کو اب تک معلوم ہو جانا چاہیے
کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ذمے داری کسے سونپی گئی ہے اور
امنِ عامہ کے قیام کے کون صاحب ذمے دار ہوں گے کہ اِس وقت ہمیں انہی دو چیلنجز کا مقابلہ ہے۔
کسی تاخیر کے بغیر تمام وزیروں کا انتخاب کر لینا چاہیے تاکہ وہ اپنے ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔ میں یہ بھی مشورہ دوں گا کہ
جناب وزیر اعظم کو پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو پرائم منسٹر آفس میں تبدیل کر کے بہت بڑی تبدیلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اِس طرح اخراجات میں قابلِ ذکر کمی آئے گی اور بیوروکریٹس کی ایک فوج ظفر موج کو دوسرے اہم کاموں کی ذمے داری سونپی جا سکے گی۔
اب تو یہ ہو رہا ہے کہ پہلے وزارت میں سیکرٹری کی سطح پر سمریاں تیار ہوتی ہیں اور اِنہی سمریوں کا جائزہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے ڈپٹی سیکرٹری لیتے ہوئے روڑے اٹکا تے رہتے ہیں۔
میاں صاحب کی طبع نازک پر اگر یہ بات ناگوار نہ گزرے تو میں اپنی پرانی تجویز کو دہرانا پسند کروں گا
کہ جناب وزیر اعظم کو کیبنٹ ڈویژن سے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے چاہئیں جیسا کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں ادا کرتے تھے۔
ہمیں اب مشوروں کے آسیب زدہ ماحول سے باہر نکل آنا چاہیے ٗ ایسا نہ ہو کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھربن جائیں یا بہت آگے بڑھنے والے فائر کی زد میںآجائیں۔
پچھلے دنوں کراچی میں فسطائی عفریت کا ایک نیا روپ سامنے آیا ہے۔
رات کے تین بجے الطاف بھائی نے اپنے کارکنوں سے خطاب کیا اور اُنہیں رابطہ کمیٹی کے معزز ارکان کی خوب مرمت کرنے کا حکم صادر کیا۔ ویڈیو میں اُن کے یہ الفاظ محفوظ ہیں کہ
عبدالواسع جلیل کو اِس قوت کے ساتھ جوتا مارا جائے کہ میں اُس کی آواز سن سکوں۔
جناب فاروق ستار اور جناب بابر غوری پر بھی عذاب نازل ہوا۔
اِس کے بعد صحافیوں کو بڑی بے دردی سے پیٹا گیا اور اُنہیں دو تین گھنٹے مرغا بنائے رکھا گیا۔
اُن سے فلمیں چھین لی گئیں اور ٹی وی اینکرز کو ’’بابائے جمہوریت‘‘ نے خوں آشام دھمکی دی
کہ کوئی کارکن طیش میں آ کر کسی کو ’’ٹھوک‘‘ دے تو مجھے دوش نہ دینا۔
چند روز پہلے وہ کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا واضح عندیہ دے چکے تھے۔
چند روز بعد NA-250میں الیکشن ٹربیونل نے 45پولنگ اسٹیشنز پر ری پولنگ کا حکم دیا۔
ایک رات پہلے ڈیفنس کے پُرجوش نوجوانوں نے اِس علاقے میں پُرامن ریلیاں نکالیں۔
اِن ریلیوں کو منظم کرنے میں ایک خاتون پیش پیش تھیں۔ اُن کا نام زہرہ تھا جو ائیر فورس کے ایک اعلیٰ افسر شاہد حسین کی اہلیہ تھیں اور ڈیفنس میں ایک چھوٹے گھر میں رہتی تھیں۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے شوہر نے دیانت داری سے زندگی بسر کی تھی۔
یہ ساٹھ سالہ معزز خاتون ری پولنگ سے ایک شام پہلے قتل کر دی گئیں اور قدرتی طور پر انگلیاں
اِس طائفے کی طرف اُٹھیں جو کراچی میں اختلاف کی آواز برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
عقل حیراں ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں صحافیوں ٗ ایڈیٹروں اور
انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ہیں ٗ آزاد میڈیا اور عدلیہ بھی ہے اور ملکی سا لمیت کا تحفظ کرنے والے ادارے بھی۔
یہ ایک ایسا ناسور ہے جوبلند ہمت جمہوری طاقتوں کی طرف سے مزاحمت اور ایک
سرجیکل آپریشن کا متقاضی ہے۔
اِس امر کا قوی امکان ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد مغربی ممالک پاکستان پر
یوٹیوب سے پابندی ہٹانے پر اصرار کریں گے اور آزادیٔ اظہار کی دہائی دیں گے
مگر پاکستان کو یہ مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے کہMutual Legal Assistance Treaty (میوچل لیگل اسسٹنس ٹریٹی)پر دستخط ہونے اور بلو کیچ کا ایک قابلِ اعتماد سسٹم قائم ہونے سے پہلے
اِس پر سے پابندی نہیں ہٹائی جا سکتی ٗ کیونکہ یو ٹیوب پر حضرت محمد ﷺ کی شان میں
گستاخی کرنے والی فلم دکھائی گئی تھی جس کے نتیجے میں اسلام آباد اور
دوسرے مضافات میں خونریز فسادات ہوئے تھے اور سپریم کورٹ کو پابندی عائد کرنے
کا حکم صادر کرنا پڑا تھا ٗ کیونکہ اسلام دشمن طاقتیں وہی گستاخ فلم بار بار لوڈ کر کے
مسلمانوں کے جذبات میں آگ لگا رہی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے حکمران جلدی میں
کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اور پابندی قائم رکھیں گے۔
میں جناب عمران خاں کی صحت یابی پر اُنہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں
کہ وہ جمہوریت کی فتح کو ہنگاموں کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles