( 37 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
امداد اُس گھر کا مضبوط دروازہ کھول کر باہر نکلا تو اُس کی ٹیپو کے چند آدمیوں پر نظر پڑی۔ اُس نے لمحہ بھر سوچا۔ اُس کے کانوں میں سونو کا جملہ گونجا
’’مجھے حاجی صاحب نے یہ رہائش اپنے کروڑوں کے مال کی چوکی داری کے لیے دے رکھی ہے۔‘‘
امداد نے لوہے کا دروازہ کھینچ کر بند کر دیا۔ جب اُسے یقین ہو گیا کہ دروازے کا اندر سے لاک لگ گیا ہے اور یہ باہر سے نہیں کھل سکتا تو وہ گلی سے مین سڑک کی طرف چل دیا۔ امداد ثاقب افسردہ تھا۔ فیروزپور روڈ پر پہنچ کر وہ گھر جانے کے لیے کوئی سواری دیکھنے لگا۔
۞۞۞
جبران صاحب۔۔۔! جو بندہ دوپہر سے اُس کے ساتھ تھا وہ واپس جا رہا ہے۔ پُرانی سی پجارو کے اندر اندھیرے میں بیٹھے ہوئے ٹیپو نے کان سے لگائے موبائل کے ذریعے اطلاع دی۔
اُسے جانے دو۔۔۔ آخری بار پھر بتا رہا ہوں۔۔۔ جب تک بازار سے رش کم نہیں ہو جاتا اُسے اُٹھانا مت۔۔۔ آٹھ ہزار سرکاری کیمرے۔۔۔ اُوپر سے ہر بندے کے پاس سی سی ٹی وی کیمرے والا موبائل۔۔۔ ٹیپو ان سب سے بچ بچا کے تُم نے بندہ اُٹھانا ہے۔ جبران نے سختی سے بتایا۔
جی جبران صاحب۔۔۔! ٹیپو نے جی حضوری کے انداز میں کہا۔
ڈلیوری مجھے بادامی باغ والے گودام میں چاہیے۔۔۔ تمھیں پے منٹ بھی اُدھر ہی مل جائے گی۔ جبران نے اگلی بات بتائی۔
پے منٹ کیش ہے نا؟ ٹیپو نے جلدی سے پوچھا۔
ہزار ہزار والے کڑکتے نوٹ۔ جبران نے ٹیپو کے لالچ کو بڑھایا۔ ٹیپو نے کال کاٹ دی۔ اُس نے پھر سے امداد کی طرف دیکھا جو ایک رکشے میں بیٹھ رہا تھا۔
۞۞۞
سرمد مسلسل ماسٹر صاحب کا نمبر ملا رہا تھا، مگر اُسے ہر بار ایک ہی جواب مل رہا تھا
آپ کے ملائے ہوئے نمبر سے اِس وقت جواب موصول نہیں ہو رہا۔۔۔ برائے مہربانی کچھ دیر بعد کوشش کیجیے
سرمد اپنا چھوٹا سا فون پینٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے کمرے کے اندر چلا گیا۔
اُس نے دروازے کی اندر سے کنڈی لگائی اور فرش پر ہی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ پھر آنکھیں بند کرتے ہوئے زور زور سے اپنے سلگتے ہوئے دل کا دھواں ناک کے ذریعے باہر نکالنے لگا۔
اُس نے اپنے بچپن میں آٹے والی چکی کے کالے انجن کو دھواں نکالتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایسا ہی کچھ اُسے اپنے ساتھ محسوس ہو رہا تھا۔ اُس کی سانسوں کی خرخراہٹ حد سے بڑھنے کے بعد یک دَم شانت ہو گئی۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞