22 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

ماں

تین حروف، کل کائنات
“ماں”

رب کائنات کے سب رنگ “ماں ” کے سنگ

تحریر ؛۔ جاویدایاز خان

کہتے ہیں سمندر کے کنارے ایک درخت پر چڑیا نے گھونسلہ بنایا ہوا تھا۔
ایک دن تیز ہوا سے چڑیا کا بچہ سمندر میں گر گیا ۔ چڑیا نے بچے کو نکالنے کی کوشش کی تو اس کے بھی پر گیلے ہو گئے اور وہ لڑکھڑا گئی ۔
اس نے سمند رسے کہا میرا بچہ باہر پھینک دے لیکن سمندر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
چڑیا غصے سے بولی دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاؤں گی اور تجھے ریگستان بنا دوں گی ۔
سمند ر اپنے غرور میں گرجا اور کہا:
“اے چڑیا میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کر دوں۔ بھلا تو میرا کیا بگاڑ  لے گی؟ چڑیا نے سنا تو بولی:
“چل پھر خشک ہونے کو تیار ہو جا:
“یہ کہہ کر اس نے پانی کا ایک گھونٹ بھرا پھر درخت پر جا بیٹھی۔
یہی عمل اس نے بار بار کیا تو سمند ر گھبرا کر بولا:
“پاگل چڑیا کیوں مجھے ختم کرنے لگی ہے؟ مگر چڑیا کو اپنی دھن سوار تھی۔ وہ یہ عمل دُہراتی رہی۔ ابھی اس نے پچاس ہی گھونٹ پیے ہوں گے کہ سمندر نے ایک زور دار لہر ماری اور چڑیا کے بچے کو سمندر سے باہر پھینک دیا۔
درخت جو کافی دیر سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا سمندر سے بولا:
” اے طاقت کے بادشاہ تو جو ساری دنیا کو پل میں غرق کر سکتا ہے۔ اتنا بزدل ہے اس چڑیا سے ڈر گیا؟
سمندر بولا ایسا نہیں ہے۔ یہ معمولی چڑیا نہیں ایک ماں ہے۔ دراصل میں تو ایک ماں سےڈرا ہوں۔ماں کے جذبے سے ڈرا ہوں ۔ایک ماں کے سامنے تو عرش ہل جاتا ہے۔ میری کیا مجال ہے؟ جس طرح وہ پی رہی تھی، مجھے لگا وہ واقعی مجھے ریگستان بنا کر ہی دم لے گی ۔
میں جتنا بھی طاقتور ہو جاؤں، لیکن ممتا کے جذبے سے نہیں جیت سکتا، کیونکہ ماں کو رب کی محبت کا روپ کہا جاتا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ تمام رحمتیں اور طاقتیں اسے حاصل ہوتی ہیں ۔
ماں کے اندر اولاد سے محبت کا ایک بہت بڑا ٹھاٹھیں مارتا سمند رہوتا ہے۔ جہاں اولاد کو دکھ میں دیکھا، وہ اُمڈ آتا ہے۔
اس دکھ کو اپنی لہروں میں بہا کر دور کر دیتا ہے۔ ان لہروں کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے ماں سے ڈرو، کیونکہ اس کی دعا آسمانوں کو بھی چیر کر عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔
ماں چاہے انسان ہو یا چرند پرند اور درند، ماں صرف ماں ہوتی ہے؟ یکساں ممتا کی حامل ہوتی ہے۔

۞۞۞

یہ پرانی کہانی سناتے ہوئے جب ماسٹر صاحب مرحوم جب یہاں تک پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔
ماسٹر صاحب کوئی معمولی انسان نہ تھے۔ بہت مضبوط ، دلیر، بہادر اور جری فوجی آفیسر رہے تھے۔ ایک بہت قابل استاد تھے۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت میں ہمارے علاقے ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
ان کی پوری زندگی بہادرانہ کارناموں سے بھر ی پڑی تھی ۔پوری کلاس تعجب سے ان کے آنسو دیکھ رہی تھی۔ چند لمحوں بعد اپنے جذبات پر قابو پایا تو بولے:
مجھے آج اپنی ماں یاد آ گئی ہے۔ واقعی مائیں دلیر ہوتی ہیں۔
ہندوستان سے ہجرت کے دوران ہماری ماں نے بھی دوسری خواتین کی طرح ایک کرپان کمر سے باندھی ہوئی تھی۔ جونہی حملے کا خطرہ ہوتا، وہ سب بچوں کو اپنے پیچھے چھپا لیتی اور کرپان لے کر آگے کھڑی ہو جاتیں۔ جیسے وہ پورے ہجوم سے اکیلے لڑ لیں گیں ۔
یوں پاکستان پہنچنے تک کسی بچے کو خراش تک نہ آنے دی ۔بھلا ایسی ماؤں سے کون لڑ سکتا ہے ۔جن کے ہاتھوں میں کرپان اور سروں پر پوٹلی رکھی ہو۔ جس میں بچوں کے لیے راستے کی خشک خوراک موجود تھی۔
دودھ پیتے بچے ان کے سینے سے چمٹے تھے۔ انہی ماؤں کی قربانیوں کے طفیل تو ہمیں آزاد پاکستان ملا تھا ۔
ماسٹر صاحب ماں کی عظمت بیان کر رہے تھے کہ بچو یاد رکھو !
جب کسی گھر میں بچی پیدا ہوتی ہے، تو وہ والدین کے لیے رحمت ہوتی ہے۔ جب پرورش پاتی ہے تو والدین کے لیے بخشش کا باعث بن جاتی ہے۔ بیوی بنتی ہے تو محبت، قربانی کا پیکر ہوتی ہے لیکن جب ماں بنتی ہے تو رب کی تمام رحمتیں اور طاقتیں اس پر نازل ہو جاتی ہیں۔
پھر اس کے قدموں میں جنت رکھ دی جاتی ہے ۔
اسلام میں خالق حقیقی اللہ تعالیٰ کےبعد خالق مجازی “ماں” اور اس کی ممتا کو سب سے عظیم درجہ حاصل ہے۔
رب کائنات نے خلوص و وفا اور ایثار ومحبت کے اس پیکر کو پوری انسانیت کے لیے رحم و کرم اور اُنس و محبت کا پیکر بنایا ہے ۔اللہ کے نبیؐ نے فرمایا:
” ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ”
ماں کی شان و عظمت کے بارے میں پوری تاریخ انسانی میں اتنا شاندار خراج تحسین اور کامل جملہ نہ کسی زبان سے نکلا اور صفحہ قرطاس کی زینت بنا ۔
بنی کریمﷺ  نے ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دے کر اولاد کو ماں کی اطاعت اور فرماں برداری حکم اور درس دیا اور ایک اور حدیث میں ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ فرمایا ۔
جبکہ اللہ تعالیٰ جب انسان سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے ہیں تو اس کے لیے محبت کی مثال ماں کو بناتے ہیں اور فرمان الہی ہے:
“میں انسان کے ساتھ ستر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ ”
یعنی ماں وہ ہستی ہے جس کی محبت خدا کے بعد سب سے عظیم تر ہے ۔اس ہی لیے ماں کو “رب کی محبت کا ایک روپ ” بھی کہا جاتا ہے ۔
جدید دور میں مغربی معاشرہ اپنی دنیاوی مصروفیات کی باعث سال میں ایک مرتبہ “مدر ڈے ” منا کر ماؤں سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے مگر ماں سے یہ محبت ایک دن کے لیے محدود کیوں؟
جبکہ ہمارے اسلام کی تعلیمات میں “ماں ” کی اطاعت و فرماں برداری کو ایک دینی اور سماجی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ جو صرف کسی ایک دن پر محیط نہیں بلکہ پوری زندگی کا ہر ہر لمحہ اس کی عظمت اور خدمت کے لیے وقف ہے۔
ماں اسلامی معاشرے میں انسانیت کا پہلا سبق جو ہماری زندگی کے تاریک راستوں کو منور کرتا ہے جس کی گھنی چھاؤں اور سایہ کبھی کم نہیں ہو نے پاتا ۔
ماں اسلامی تہذیب اور خاندانی نظام کے لیے ایک بڑی نعمت خداوندی ہے اور ہماری زندگی میں روشنی کا وہ مینار ہے جو کائنات کو شفقت اور ممتا کی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔
یہاں تک کہ ماں کی خدمت کو جہاد پر بھی فضیلت دی گئی ہے اور ماں کو حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار قرار دیا گیا ۔
ماں کی نافرمانی کو گناہوں میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے ۔قرآن کریم ماں باپ کے بارے میں کہتا ہے:
” تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی منزل پر پہنچ جائیں تو انہیں “اف” تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو ،بلکہ ان سے مہربانی سے بات کرو۔ ”
اس لیے جہاں لفظ “ماں” آیا سمجھ لو ادب کا بڑا مقام آیا ہے ۔ جب دنیا میں کہیں سکون نہ ملے تو ماں کی آغوش میں سر چھپا لو۔ ایسی راحت اور سکوں ملے گا جو اور کہیں سے نہیں ملتا۔ کیونکہ ماں کی دعا ہر درد کی دوا ہے !
ماں کے چہرے کو محبت کی نگاہ سے دیکھنا بھی آپ کو جنت کا حقدار بنا سکتا ہے ۔ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ ماں کی خدمت کے لیے وقف ہونا چاہیے۔
ہمارا “ہر دن ماں کا دن ہے ” نہ کہ اس کے لیے کوئی خاص دن منایا جائے! کیونکہ ماں سے محبت فرض بھی ہے اور ہم پر قرض بھی ہے !
اور ماں کی عظیم ہستی بے مانگے اور بے مول دعاؤں اور رحمت کا خزینہ بھی ہے ۔ ماں تجھے اور تیری عظمت کو ہر دم ہمارا سلام ہو !

لاکھ گرد اپنے حفاظت کی لکیریں کھینچو
ایک بھی ان میں نہیں ماں کی دعاؤں جیسی

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles