صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
انسانی عظمت کی دشمن ۔ حسینہ واجد
20/12/2013
دسمبر16, 1971ء کو سقوطِ مشرقی پاکستان ہوا اور بنگلہ بندو شیخ مجیب الرحمن نے پُراسرار حالات
میں اسلام آباد سے لندن جاتے وقت سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے وعدہ کیا کہ
وہ اُن تمام لوگوں کو معاف کر دیں گے جنہوں نے پاکستان کی بقا کے لیے جنگ لڑی تھی
چنانچہ بنگلہ دیش پہنچنے کے چند ہی روز بعد عام معافی کا اعلان کر دیا تھا اور ہزاروں بنگالی اورغیر بنگالی جیلوں سے رہا کر دیے گئے تھے۔
جون 1972ء میں معاہدۂ شملہ ہوا جس میں یہ طے پایا کہ جنگی قیدیوں کے مسلمہ حقوق کا پورا پورا
خیال رکھا جائے گا
اور اُن پر مقدمات نہیں چلائے جائیں گے ٗ تاہم شیخ مجیب الرحمن 195جنگی قیدیوں پر مقدمہ چلانے پر
اصرار کرتے رہے ٗ مگر جب 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا
تو مختلف سربراہوں نے شیخ صاحب کو اِس امر پر قائل کر لیا کہ وہ کسی پاکستانی فوجی پر مقدمہ چلائیں گے
نہ پاکستان سے اثاثوں کی ادائیگی کا مسئلہ اُٹھائیں گے۔
اُنہیں یاسر عرفات ڈھاکے سے لاہور لے کر آئے تھے اور معاہدوں کے ساتھ ایک نئے باب کا آغاز ہوا تھا
جن میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ شاہ فیصل اور یاسر عرفات بھی شامل تھے۔
شیخ مجیب الرحمن تیزی سے بھارت کے نرغے میں آتے گئے۔وہ جن لادینی قوتوں کی حمایت سے
دسمبر 1970کے انتخابات میں غنڈہ گردی کے ذریعے زبردست کامیابی حاصل کر پائے تھے ٗ
اُنہوں نے بنگلہ دیش کا اسلامی تشخص مکمل طور پر ختم کرنے پر اصرار کیا جس کو بھارت کی
مکمل حمایت حاصل تھی ٗ چنانچہ شیخ صاحب نے دستور میں بنیادی ترامیم کیں
اور اُس میں سے ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کے مقدس الفاظ حذف کیے اور فسطائی نظام نافذ کر دیا۔
اُن کا دورِ حکمرانی اسلامی مزاج اور جمہوری شناخت رکھنے والے شہریوں اور بنگلہ دیشی فوج کے لیے
ناقابلِ برداشت ہوتا گیا
اور 15؍اگست 1975ء کے فوجی انقلاب میں بنگلہ بندو اور اُن کے اہلِ خانہ گھر کے اندر بے دردی
سے قتل کر دیے گئے اور اُن کی لاشیں تین روز تک گلتی سڑتی رہیں۔
دراصل شیخ مجیب الرحمن نے اپنے عوام کی گہری نفسیات کو سمجھنے میں بڑی ٹھوکر کھائی تھی
جو اسلام سے گہرا جذباتی لگاؤ رکھتے تھے اور برصغیر کی جنگِ آزادی میں سرگرم حصہ لیتے رہے تھے۔
آل انڈیا مسلم لیگ 30دسمبر 1906ء میں ڈھاکے میں قائم ہوئی تھی اور 1940ء کے عظیم الشان
اجتماع میں قراردادِ لاہور جناب اے کے فضل الحق نے پیش کی جو بنگال کے وزیراعظم تھے۔
وہاں کے عوام اِن تحریکوں میں پیش پیش رہے جو اسلامی کلچر اور اسلامی عقائد کے تحفظ اور
فروغ کے لیے برصغیر میں وقفے وقفے سے اُٹھتی رہیں تھیں۔
اسلامی سربراہ کانفرنس میں بنگلہ دیش تسلیم کر لینے کے بعد وہ لوگ جو 1971ء میں بھارتی
فوج کے خلاف سینہ سپر ہوئے تھے اور مکتی باہنی کی بربریت کے سامنے ڈٹے رہے تھے
وہ قومی دھارے میں آ گئے
اور بنگلہ دیش کے جمہوری اور اقتصادی ارتقاء میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام عناصر جو مسلم تشخص کا تحفظ چاہتے تھے
وہ جماعت اسلامی کے گرد جمع ہوتے گئے اور بنگلہ دیش میں اسلامی حمیت عوامی طاقت کے ساتھ بیدار ہوئی ہے۔
پچھلی دفعہ حسینہ واجد اپنے والد کی طرح انتخابی دہشت گردی کے ذریعے اقتدار میں آ گئیں
مگر اُنہیں جلد احساس ہو گیا کہ بنگلہ قومیت کی عصبیت کو جگائے بغیر اُن کے لیے اقتدار پر
گرفت مضبوط رکھنا اور آئندہ اقتدار میں آنا محال ہو جائے گا
چنانچہ اُنہوں نے پاکستان کا ساتھ دینے والوں پر مقدمات چلانے کا نعرہ لگایا اور 2010ء میں
جنگی جرائم کا بین الاقوامی ٹریبونل بھی تشکیل دے ڈالا۔
یہ اقدام اِس معاہدے کے سراسر خلاف تھا جو اسلامی سربراہوں کی وساطت سے بھٹو اور مجیب کے درمیان طے پایا تھا جس میں یہ ضمانت دی گئی تھی کہ جنگی جرائم کے نام پر مقدمات نہیں چلائے جائیں گے۔
یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے بھی خلاف تھا جس کی رُو سے ڈومیسٹک لاء کے ذریعے جنگی جرائم کا بین الاقوامی ٹربیونل قائم نہیں کیا جا سکتا ٗ مگر حسینہ واجد کی حکومت انتقام لینے پر تُلی ہوئی تھی
اور اِس نے انصاف کے تمام تر تقاضے بری طرح پامال کیے۔
ہفت روزہ اکانومسٹ نے دسمبر 2013ء کے شمارے میں نام نہاد انٹرنیشل کرائم ٹریبونل کے چیئرمین محمد نظام الحق کا ایک جملہ نقل کیا ہے جو حسینہ واجد کی بہیمانہ ذہنیت کی قلعی کھول دیتا ہے کہ
حکومت مکمل طور پر پاگل ہو چکی ہے ٗ وہ فوری فیصلے کے لیے جنونی انداز میں دباؤ ڈال رہی ہے
اور 16دسمبر 2013تک فیصلہ چاہتی ہے‘‘۔
اِس جملے کی روشنی میں ڈھاکہ انٹرنیشل کرائم ٹریبونل کے فیصلے مسلمہ بین الاقوامی قانون اور انصاف کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے کہ اِن میں جھوٹے گواہ اور استغاثے پیش کیے گئے اور دفاع میں پیش کیے جانے والے گواہوں کو ٹریبونل میں آنے ہی نہیں دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نیور مبرگ میں انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل قائم کیا گیا تھا جس میں 23سیاسی اور عسکری شخصیتوں پر مقدمات چلائے گئے تھے اور قانونی تقاضوں کا خاصا خیال رکھا گیا تھا ٗ لیکن امریکہ کی سپریم کورٹ نے اُسے مسلمہ قانونی ضابطوں کے صریح منافی قرار دیا تھا۔
بھارت اور حسینہ واجد کو بنگلہ دیش ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوا ٗ تو وہ بربریت پر اُتر آئے ہیں۔ نام نہاد کرائم ٹریبونل پاکستان کے ساتھ وفا کی جنگ لڑنے والوں کو مختلف سزائیں سنا چکا ہے۔
دی نیوز اور سنگرام کے ایڈیٹر ٗ نیشنل پریس کلب کے دو بار منتخب ہونے والے وائس پریذیڈنٹ ٗ پارلیمنٹ میں دوبار منتخب ہونے والے رکن
اور جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جناب عبدالقادر ملا کو اِسی ٹریبونل نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
حکومت نے آئین میں تبدیلی کر کے اِس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی اور جج صاحبان نے
فائل کھولے بغیر اُنہیں موت کی سزا سنا دی جس کی نظیر کسی قانون میں نہیں ملتی۔
اُنہیں 16دسمبر سے چند روز پہلے دس بجے شب پھانسی دے دی گئی۔ وہ مقتل کی طرف بڑی سج دھج سے گئے تھے اوریوں عبدالقادر عودہ سے لے کر عبدالقادر ملا کی پوری تاریخِ عزیمت چمک اُٹھی ہے
اور مجھے اپنا یہ شعر یاد آ گیا ہے ؎
سزا کی طرز نئی ڈالیے کہ دیوانے
مقامِ دار و رسن سے گزر بھی آئے ہیں
تاریخ اُنہیں شہیدِ پاکستان کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
حسینہ واجد جس راستے پر چل نکلی ہیں ٗ وہ اُن کی تباہی اور خودکشی کا راستہ ہے اور بنگلہ دیش کے مسلم تشخص ٗ اُس کی اقتصادی اور سیاسی طاقت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنی کوتاہ نظری اور بے حمیتی سے پاکستان سے
محبت کرنے والے عوام کے جذبات بری طرح گھائل کر دیے ہیں
البتہ قومی اسمبلی میں کثرتِ رائے سے منظور ہونے والی قرارداد نے کسی قدر تلافی کر دی ہے اور وہ چہرے بے نقاب کر ڈالے ہیں جو منافقت کے نقاب پہنے ہوئے ہیں۔
حسینہ واجد کے ہمراہ اُنہیں بھی ضرور ایک عبرت ناک سزا سے گزرنا ہو گا۔ اِس مرحلے میں اربابِ فکر و نظر کو عالمی ضمیر کی آواز کو بے حد توانا اور نتیجہ خیز بنانا ہو گا۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عبدالقادر ملا کی شہادت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے
اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی ہے اور
بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ گہری یک جہتی کا ثبوت دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی اِس واقعے نے ایک زبردست تحریکِ مزاحمت پیدا کر دی ہے۔
مشرق سے میں اسلام کی عظمت کا سورج طلوع ہوتے دیکھ رہا ہوں۔