احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاوید ایاز خان
حجاب سے دستار تک اور دو قومی نظریے کی اہمیت
چند دن قبل ریاست کرناٹک بھارت میں حجاب پر پابندی کے معاملہ پر ہندو ہجوم کو للکار کر ایک دلیر مسلمان لڑکی مسکان خان نے، ہندوؤں ذہنیت اور جنونیت کا پردہ فاش کر کے بھارتی ہندوتوا کی اصلیت کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
اسے دنیا بھر میں اسے بےحد شہرت اور پزیرائی اور شہرت حاصل ہوئی۔
میں نے خود اپنے ایک اخباری کالم میں اسے خراج تحسین پیش کیا اور اس کی جرات کو سراہا۔
لیکن ریاست کرناٹک میں ابھی حجاب کا تنازع تک حل بھی نہ ہو پایا تھا۔
وہاں کی ہندو سوچ رکھنے والی عدالت عالیہ نے بھی حجاب پر پابندی کے فیصلے کو درست قرار دے کر مسلمانوں کے جذبات مزید بھڑکا دیے۔
پورے کرناٹک کے مسلم اکثریتی علاقوں پر اس فیصلہ کا نمایاں منفی اثر پڑا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ تمام مسلمان اس عدالتی فیصلے کو اسلامو فوبیا قرار دے رہے ہیں ۔پورے کرناٹک میں احتجاج اور ہڑتال جاری ہے ۔
۱۷ مارچ کو وہاں کے تمام تجارتی مراکز اور دکانیں بند رہے۔ سبھی مسلم علاقوں میں ہر طرح کی کاروباری سرگرمیوں کا بند ہو جانا ایک لمحہ فکریہ ہے؟
اور اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حجاب پر پابندی کے متعلق عدالتی فیصلہ بھارتی آئین اور اسلامی شریعت کے یکسر خلاف اور مسلمان کے جذبات مجروح کرتا ہے۔
یہ فیصلہ آزادی رائے کو محدود کرتا نظر آ رہا ہے۔ لڑکیوں کے اپنے مذہب اور تعلیم کے حقوق میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتا محسوس ہوتا ہے۔
جو بھارتی آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کی روح کے منافی ہے ۔جو ہندوتوا کی انتہا پسندی کو نمایاں کرتا ہے ۔
ابھی کرناٹک میں حجاب کا تنازع حل نہیں ہوا تھا کہ ایک سکھ لڑکی کو دستار پہننے کی اجازت نہ دینے پر ایک نئے تنازع نے سر اُٹھا لیا۔
یہ نیا تنازع بھی کرناٹک میں سلیکون ویلی کے نام سے مشہور علاقے بنگلور کا ہے۔
جہاں ایک مقامی کالج کی انتظامیہ نے ایک ۱۷ سالہ سکھ لڑکی کو کلاس میں بیٹھنے کے لیے اپنی مخصوص مذہبی پگڑی یا دستار کو اُتارنے کا حکم دیا ہے ۔
مگر اس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ سکھ لڑکیوں کے لیے مخصوص دستار پہننا،
ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہوتا ہے ۔
“امیتیشور کور” کالج میں دوسرے سال کی طالبہ اور کالج کی اسٹوڈنٹ یونین کی صدر بھی ہیں۔ایک سکھ لیڈر گرچون سنگھ کا کہنا ہے کہ دستار سکھ مذہب کا لازمی حصہ ہے،
ہم ان تمام مسلم لڑکیوں کے ساتھ ہیں، جو اپنے مذہبی عقیدے کی وجہ سے اپنا سر ڈھانپنا یا حجاب پہننا چاہتی ہیں۔
دستار سکھوں کی مذہبی عزت کی علامت اور پہچان ہے ۔
ان برسوں پرانی روایات کا حصہ ہیں جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
کسی سکھ سے اس کی دستار اُتارنے کا کہنا پوری سکھ برادی کی توہین ہے ۔
مسلمانوں کے حجاب کے بعد اب سکھوں کی دستار کو نشانہ بنانا ایک قابل مذمت فعل ہے،
جو انتہا پسند ہندوں کے متعصب ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ ایسا اقدام ہے، جس سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کی ناراضگی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
اس سے قبل صلیب کے نشان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
ہندوستان میں یہ واقعات ایک سیاسی ڈرامہ اور
مذہبی آزادی کے حق کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازش قرار دیے جا رہے ہیں،
اور ڈریس کوڈ کے نام پر ہنگامے پیدا کئے جا رہے ہیں۔
یہ نئے نئے تنازعات ملک اور سماج کے لیے بےحد نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں اور اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر حملے کے مترادف ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس طرح کے معاملوں میں مذہبی انتہا پسندی کو روکے جس سے ملک کی نام نہاد گنگا جمنی تہذیب کو بچایا جا سکے،
کیونکہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت حکومت وقت کی اوؔلین ذمہ داری ہوتی ہے،
مگر یہاں حکومت خود ان انتہا پسند مذہبی جنونی تنظیموں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے
یا شاید یہ سب کچھ ہو ہی حکومت کی سرپرستی رہا ہے؟
اور اقلیتوں کے خلاف ہندوتوا کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقلیتوں کی ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ صرف ہندوؤں کا ملک بن چکا ہے۔
بین الاقومی مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن کی ایک رپورٹ ۲۰۱۵ء کے مطابق
انڈیا میں عدم برداشت اور مذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اقلیتوں اکثریتی ہندوؤں تنظیموں کے ہاتھوں
دھمکی ،ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکمران بی جی پی کے راہنما ان تنظیموں کی خاموش حمایت کرتے ہیں۔
ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی زبان استعمال کرتے ہیں اور ہندوتوا کو تشدد پر اُکساتے ہیں۔
پولیس کے متعصب رویے اور عدالت سے بھی جلد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے اقلیتی برادری کے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس ہو رہا ہے ۔
مسلمانوں سمیت تمام اقلیتی برادریوں میں خوف و ہراس اور بے چینی کی لہر دوڑ چکی ہے ۔
جو اس بات کی متقاضی ہے کہ پوری دنیا اور عالم اسلام اس سنگین مسئلہ پر توجہ دے ۔
بھارت کے انتہا پسند رویے اور مذہبی جنوں کے سدؔباب کے لیے موثر حکمت عملی بنائے،
ورنہ بھارت صرف اقلیتوں کے لیے ہی نہیں،
بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ بن جائے گا۔
حجاب ہو ،دستار ہو یا صلیب مسلمان ،عیسائی یا سکھ سب ہندوتوا کی ناپاک ذہنیت اور سوچ کی زد میں ہیں ۔
مودی اور بھارتی جنتا پارٹی کا خاموش،
مگر زہر آلودہ کردار رفتہ رفتہ علاقے کے امن کی تباہی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔
بھارت کے موجودہ حالات اور صورتحال کو دیکھ کر
آج ۲۳ مارچ کو یوم آزادی کے موقع پر ہمیں دو قومی نظریے اور آزاد پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔
قائد اعظم کی مدبرانہ قیادت اور اکابرین کی جدوجہد لاکھوں،
مسلمان مرد و خواتین اور بچوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں ۔
اگر ہمارے اجداد ہندو کانگریسی سوچ سے اختلاف نہ کرتے ۔
پاکستان کے قیام کی جدوجہد نہ کرتے تو آج ہم بھی ہندوؤں کے اس استحصال اور ظلم کا شکار ہوتے ۔
۲۳ مارچ کا تاریخی دن یوم آزادی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے ظلم و جبر سے نجات کا بھی دن ہے۔ یہ ہماری داستان آزادی کے سفر کے آغاز کا دن ہے۔
جو ہندو اور مسلم کے درمیان علحیدہ تشخص کی لکیر کھینچ کر انہیں الگ الگ قوم ،مذہب اور معاشرت کا تصور پیش کرتا ہے ۔
خدا ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔ آمین !