Home الطاف حسن قریشی 2013 ایک چونکا دینے والی ملاقات

ایک چونکا دینے والی ملاقات

0
122

صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
ایک چونکا دینے والی ملاقات
27/12/2013
اِس رات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف کو جمہوریہ ترکیہ کے وزیراعظم جناب طیب اردگان کے اعزاز میں لاہور کے تاریخی حضوری باغ میں عشائیہ دینا تھا۔
مجھے بھی اِس میں شرکت کا دعوت نامہ آیا ٗ مگر میں اِس پر درج شدہ وقت پڑھ کر چونک پڑا
جو پانچ بجے شام کا تھا۔
سوچنے لگا یہ شام کا استقبالیہ ہے یا عشائیہ یا یہ وقت پاکستان کا ہے یا جمہوریہ ترکیہ کا۔
میرے مخمصے میں حیرتوں میں ڈوبے ہوئے اِس قصے نے مزید اضافہ کر دیا جو جناب مجیب الرحمن شامی نے ظہرانے کے بارے میں سنا دیا تھا کہ وہ ایچ سن کالج میں دو ڈھائی بجے تک انتظار کرتے رہے اور بعد
میں زبانی طیور کے معلوم ہوا کہ ظہرانہ جاتی عمرہ میں خاموشی سے منتقل کر دیا گیا تھا۔
اِس رات سردی بھی کچھ زیادہ تھی ٗ چنانچہ عالمِ اسلام کے ممتاز لیڈر اور پاکستان کے سچے اور
عظیم دوست کی صحبت میں چند گھڑیاں گزارنے کی زبردست خواہش کے باوجود میں حضوری باغ نہ جا سکا
جس کا ملال ہی رہے گا۔
دراصل طیب اردگان ہمارے عہد کے نہایت بیدار مغز ٗ جرأت مند اور تاریخ ساز حکمران ہیں جنہوں نے
اپنے ملک میں دس برسوں کے دوران زبردست معاشی اور سیاسی انقلاب برپا کر دیا ہے۔
وہاں اقتصادی نشوونما آٹھ فی صد سے زائد ہے جو بیشتر یورپی ملکوں کے مقابلے میں غیر معمولی ہے۔
وہ اپنے وطن کو فوج کے چنگل سے آزاد کرانے میں بھی کامیاب رہے۔
اُنہوں نے غزہ کے فلسطینیوں کا محاصرہ کرنے پر اسرائیل کے خلاف اپنا بحری بیڑا بھیجا اور سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور عالمی سطح پر ظلم کے خلاف ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کے
خلاف فوج نے بغاوت کی ٗ توترکی نے شدید ردعمل ظاہر کیا جبکہ خلیجی مسلم ریاستیں اور امریکہ
مصری فوج کے حامی تھے۔
بنگلہ دیش میں نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل قائم ہوا اور اِس نے پاکستان کا ساتھ دینے والے مجاہدین کو سزائیں دینا شروع کیں ٗ تو طیب اردگان نے محسوس کیا جیسے اُن کے جسم پر آرے چل رہے ہوں۔
وہ اِس وقت پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں اور اہلِ پاکستان سے حقیقی محبت کا اظہار کرنے اور مشکل میں ہاتھ تھامنے کے لیے لاہور آئے تھے۔
اہلیانِ لاہور نے بھی اُن کی راہوں میں آنکھیں بچھا دی تھیں اور باہمی اعتماد کی شہنائیوں نے پورے
ماحول میں ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔
میں ابھی اِسی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ سرِشام اسلام آباد سے ایک دوست کا فون آیا کہ
آج رات آپ سے ایک ضروری ملاقات کرنی ہے۔
وہ مجھے رائل پام گالف کلب لے آئے جس کے بارے میں پُراسرار داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔
مجھے کارلیٹ ریستوران میں بیٹھے یوں محسوس ہوا جیسے پرانی تاریخ مجھ سے کچھ سرگوشیاں کر رہی ہے۔
اِن سرگوشیوں کا احوال کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
کھانے پر صحافیوں کے علاوہ معاشی دانش ور بھی تھے ٗ سیاسی مہم جو بھی اور ایک بہادر اور
تاریخی شعور سے بہرہ ور خاتون بھی جو طالبان پر ایک دستاویزی فلم تیار کر رہی ہیں۔
ایک ایسی ڈاکومنٹری جو دنیا کو حیرت زدہ کر دے گی۔ اِسی اثناء میں خیبر پختونخواہ کے وزیر خزانہ جناب سراج الحق تشریف لے آئے تھے جو اپنی درویشی اور بلند ہمتی کی ایک خاص شہرت رکھتے ہیں۔
دورانِ گفتگو اُنہوں نے ایک ایسی بات کہی جس پر ہم سب چونک اُٹھے اور حیرت زدہ رہ گئے۔
اُنہوں نے بتایا کہ جب ایم ایم اے کی حکومت میں وہ صوبہ سرحد کے وزیر خزانہ تھے ٗ تو ایک وزیر کا مشاہرہ اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ مقرر ہوا تھا اور مزید چھ ہزار روپے دفتری مہمان داری کے لیے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وہی فیصلہ قائم رکھا گیا ہے جبکہ ایک رکن اسمبلی کا مشاہرہ کوئی چھبیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔
وہ شخص جسے وزارت کی ذمے داری سونپی جاتی ہے ٗ رکن اسمبلی کی مراعات لینے کا حق دار نہیں رہتا۔
تقاضائے محبت سے مجھے اُن کی بات پر اعتبار نہ آیا ٗ مگر جب اُن کی زندگی کے اوراق میری آنکھوں کے سامنے پھیلتے چلے گئے اور اُن کے تقویٰ کے مناظر یاد آئے ٗ تو یقین ٗ عین الیقین میں تبدیل ہوتا گیا۔
میں نے سوچا کہ اگر خیبر پختونخواہ کی حکومت کے وزراء اِس قدر کفایت شعار ہیں اور دولت کی ریل پیل
سے بلند تر ہیں ٗ تو عوام کی حالت ضرور بہتر ہو گی۔
جناب سراج الحق نے چند اور دانش کی باتیں سنائیں۔ کہنے لگے کہ مجھے انہی دنوں برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا
وہاں ایک پرانے دوست نے ایک بلند پایہ برطانوی پروفیسر ٹونی بوزون (Tony Bozon)سے ملاقات کا اہتمام کیا۔
وہ پروفیسر دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں اور ایک لیکچر کا معاوضہ ہزارہا پونڈ میں
وصول کرتے ہیں ۔
میں نے اُن سے دو سوال پوچھے ٗ ایک یہ کیا دہشت گردی پر قابو پانا ممکن ہے۔ دوسرا یہ کیا زندگی بڑھ سکتی ہے۔ پروفیسر نے جواب دیا کہ دونوں باتیں ممکنات میں سے ہیں۔
وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انگلستان میں سنگین جرائم پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں ٗ
مگر میڈیا انہیں گلیمرائز نہیں کرتا اور اُن پر پردہ ڈالے رکھتا ہے۔
جب کسی دہشت گرد کے ’’کارنامے‘‘ ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں ٗ تو دوسروں کے اندر شہرت حاصل کرنے کا
جنون پیدا ہوتا ہے۔
اُنہوں نے مشورہ دیا کہ اگر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات دکھانا بند کر دیے جائیں اور اِن کے تذکروں پر داخلی پابندی عائد کر دی جائے ٗ تو چند ہی مہینوں میں دہشت گردی آدھی دہ جائے گی۔
پروفیسر صاحب نے عمر میں اضافے کا نسخہ یہ بتایا کہ وقت کے صحیح استعمال کا طریقہ سیکھنا ضروری ہے
کہ بہتر مینجمنٹ کے ذریعے آپ تھوڑے وقت میں بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں۔
اگر وقت کے استعمال کا کوئی نظم اور ہنر موجود نہ ہو ٗ تو سو سال کی عمر بھی رائیگاں چلی جاتی ہے۔
جناب سراج الحق ہمارے سامنے دانش مندی کی باتیں کر رہے تھے ٗ تو مجھے شیر شاہ سوری یاد آئے
جنہوں نے فقط پانچ سالہ دورِ حکومت میں پورے ہندوستان کی انتظامی ٗ مالیاتی اور فلاحی صورتِ حال یکسر تبدیل کر دی تھی۔
اِس چونکا دینے والی ملاقات میں کراچی سے آئے ہوئے ایک دوست نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مل کر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیں ٗ تو اہلِ کراچی کو صحیح معنوں
میں آزادی اور حقیقی نمائندگی حاصل ہو سکتی ہے۔
اُن کے لیے یہ ایک تاریخی موقع ہے جو قدرت نے فراہم کیا ہے۔ خوش قسمتی سے سندھ میں
تحریک انصاف کے صدر جناب نادر اکمل لغاری گہرے سیاسی شعور اور معتدل دینی مزاج کے حامل ہیں اور
سیاسی حلقوں میں اُنہیں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نور الہدیٰ اُن سے بھی زیادہ زیرک اور عوامی سطح کے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔
یہ دونوں شخصیتیں جمہوری عمل کے ذریعے واقعی ایک بڑی تبدیلی کے معمار ثابت ہو سکتے ہیں
مگر اصل فیصلہ تو عمران خاں اور سید منور حسن کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اُن کی عملی فراست کا امتحان ہو گا۔
لاہور کے ایک ذی شعور اور باخبر صحافی کے اِس تجزیے نے بھی ہمیں ایک بار پھر چونکا دیا کہ
جناب شیخ رشید احمد اپنے مزاج کے عین مطابق جناب عمران خاں کو جنرل راحیل شریف کے سحر
میں مبتلا کرنے کی آخری جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ پُرفریب سیاسی چال پاکستان کو ایک نئی آزمائش سے دوچار کر سکتی ہے۔

https://shanurdu.com/category/breaking-news/column/altaf-hassan-qureshi/altaf-hasan-qureshi-2013/

NO COMMENTS